متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمتِ قرآن

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بعثت کے وقت عالم اسلام کی یہ کیفیت تھی کہ آنحضرتﷺ کی بیان فرموده پیش خبریوں کے مطابق قرآن مجید کے الفاظ باقی رہ گئے تھے۔ مسلمان تلاوت تو کرتے تھے مگر حقائق و و معارف پر کسی کی نظر نہ تھی۔ قرآنی علوم کا بیش بہا خزانہ غلط تفاسیر اور رطب و یابس کے نیچے دبا پڑا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تائید یزدانی سے دنیا کو تفسیر کے بیش بہا خزانے عطا کرنے کے علاوہ قرآن مجید سے شغف رکھنے والے لوگوں کے لیے تفسیر کے حکیمانہ اصول بھی بیان فرمائے اور اپنے مسیحی انفاس سے ایسے عشاق قر آن پیدا کیے جنہوں نے اس بحر بے کنار کے جواہرات نکال کر دنیا کو اس قدر روحانی خزائن عطا کیے کہ جب تک علم تفسیر القرآن باقی ہے ان عشاق کے نام زندہ و جاوید رہیں گے۔

قرآن مجید خدا تعالیٰ کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ جس کے علوم و معارف کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہ ایک لامتناہی خزانہ ہے جو وقت کے ساتھ اور متلاشی کی پاکیزه استعدادوں کے مطابق اپنے معارف اور حقائق سے آگاہی دیتاہے۔ اس طرح قرآن مجید کا یہ بیان

لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ

ہر زمانہ میں برحق ثابت ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو خلافت جیسے عظیم منصب پر فائز کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق کلام الله کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنے کےلیے حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن مجید کی تفاسیر کا ایک بیش بہا خزانہ متعارف کروایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابتدا میں آسمان احمدیت پر ابھرتے ہوئے اس ستارہ کی طرف اپنوں اور غیروں کی نظریں اس وجہ سے اٹھنی شروع ہوئی تھیں کہ آپ کی زبان اور قلم سے قرآن مجید کے معارف اس طرح بیان ہوئے تھے جو کسی نوعمر نوجوان کی استعداد سے کہیں بڑھ کر تھے۔ اس کے ساتھ ہی اگر یہ امربھی مدّ نظر رکھا جائے کہ بچپن میں آپ کی صحت کی کمزوری کے پیش نظر آپ کی تعلیم کا زیادہ اہتمام نہیں ہو سکا تھا۔ تو معارف قرآنی کا بیان اور بھی غیر معمولی بات بن جاتی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے تین ماہ میں قرآن مجید اور دو ماہ میں بخاری شریف کی تعلیم مکمل کی تھی اور وہ اس طرح کہ آپ کے استاد حضرت مولانا نورالدینؓ خود جلد جلد پڑھتے جاتے اور ان کا یہ عظیم شاگرد صرف سن کر ہی علم حاصل کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ طریق اور عرصہ تعلیم اتنا کم اور مختصر ہے کہ اس میں تو کسی علم کی بنیادی باتیں سیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ قرآن وحدیث کے معارف و مطالب سیکھ لیے جائیں۔ ایسا کیوں تھا اس لیے کہ اس قادر اورعلیم خدا نے آپ کے متعلق فرما دیا تھا کہ ’’علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا… وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘۔ نیز آپ کی پیدائش کی ایک غرض بھی بیان فرمائی گئی تھی کہ’’تادینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو‘‘

قرآن سے وابستگی

قرآن مجید سے آپ کو گہری وابستگی اور قلبی لگاؤ تھا ۔آپؓ قرآن کی عظمت وشان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برابر ہو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ علم بخشا ہے جس کے سامنے تمام علوم ہیچ ہیں۔

چودھویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے۔ اس میں بڑے بڑے علوم نکلے۔ بڑی بڑی ایجاد یں ہوئیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوئے مگر یہ تمام علوم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی گر د کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ‘‘

( الفضل 30؍جون 1939ء)

قرآن کی عظمت

پھر آپؓ فرماتے ہیں :

’’پس اے دوستو! میں الله تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانے سے تمہیں مطلع کرتا ہوں۔ دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلے میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے۔ دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں۔ قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے۔ یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے …آج جبکہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھربھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دنیوی علوم میں آج کل زیادتی ہورہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آج کل نئے سے نئے نکل رہے ہیں …ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے معارف پیش کرتا رہے گا …یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نےتقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں۔ دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پروا نہیں وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بارکرے وہ عداوت و عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بارکر ے۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بےشک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کر دیا۔ ‘‘

(سیر روحانی صفحہ117)

درس قرآن

قرآن مجید کی عظمت و شان اور مطالب بیان کرنے کی جو دھن آپ کو لگی ہوئی تھی وہ آپ کی زندگی کے ہر ہر لمحہ سے عیاں ہے۔ آپ کی سوانح کا ہر ورق اس پر شاہد ہے۔ آپ نے 1910ء میں 21؍سال کی عمر میں قرآن مجید کےدرس کا آغاز کیا۔ وسط 1913ء سے آپ نے دن میں دو دفعہ درس دینا شروع کیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں بعد میں جاری رہا۔ اس طرح آپ نے ساری جماعت میں قرآن کریم کی محبت اور اس کے علوم سے بہرہ ور ہونے کی ایک نئی لگن پیدا کردی۔

مخالفین قرآن کو چیلنج

قرآن کریم میں الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے مذاہب کی کتب میں تبدیلیاں ہوا کرتی تھیں مگر اب جو شخص خدا کی کتاب کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا یا اس کے حسن کو گہنانے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ نے اس کےلیے ایک ایسا شعلہ تیار کر رکھا ہے جو اسے جلا کر خاک کر دے گا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے مستشرقین کےقرآن پراعتراضات پر اس شہاب ثاقب کی مانند جو شیطانوں کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے کی طرح جواب دیا اور قرآن کی عظمت اور اس کا مرتبہ لوگوں پرعیاں کیا، آپؓ فرماتے ہیں :

’’قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔ اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی توریت کا پیرو ہے وہ میرے سامنے آئے، اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں۔ پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو وہ بیشک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے۔ لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں۔ ‘‘

(فضائل القرآن بحواله لفضل 29؍مئی 1990ء)

آپؓ نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ نےاپنے فرشتے کے ذریعے مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اِسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں۔‘‘

(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 227)

نوع انسانی کی نجات کا ذریعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله عنہ فر ماتے ہیں :

’’نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ قرآن کریم کا بتایا ہوا قانون ہے اس میں ہر ایک ضروری امر جو روحانیت اور اخلاق سےتعلق رکھتا ہے بیان کر دیا گیا ہے وہی ایک تعلیم ہے جس پر عمل کر کے انسان خدا کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے۔ ‘‘

( دورہ یورپ، انوار العلوم جلد8صفحہ 477)

’’یہ کلام رب العالمین خدا کی طرف سے ہے۔ یعنی اس کی تعلیم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے رب العالمین کی صفت ظاہر ہوئی ہے کسی قوم یا کسی زمانہ سے مخصوص نہیں۔ جس طرح کہ پہلی کتب ہوتی تھیں۔ بلکہ سب اقوام اور سب زمانوں کے لئے ہے۔ اور ہر زمانہ کی ضرورتوں اور اس کے مفاسد کا اس میں خیال رکھا گیا ہے۔ اور یہ امربھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ وہ سب اقوام اور سب زبانوں کا خیال رکھ سکے …اور انسانی فطرت کے تمام تقاضوں اور تمام احساسات کا اس میں خیال رکھا گیا ہو۔ قرآن کریم میں یہ خوبی پائی جاتی ہے۔ وہ یکساں طور پر تمام انسانی طبائع کا لحاظ رکھتا ہے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 78)

قرآن سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرو

’’خوب غور سے سن لو اور خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم ایک حجت اور غلبہ ہے، ایک دو دھاری تلوار ہے، اس کا ٹھیک استعمال جہاں دشمن کی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہوتا ہے وہاں اپنے خلاف استعمال کرنے کے مصداق نہ بنو بلکہ اس کے سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ ‘‘

(علم حاصل کرو، انوار العلوم جلد 4صفحہ129)

قرآن کے علوم نیکی سے وابستہ ہیں

’’قرآن کریم کے علوم ظاہری علم سے وا بستہ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ سے وابستہ ہیں۔ ‘‘

(لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ کی تفسیر، انوار العلوم جلد 10صفحہ531)

’’قرآن کریم خود بتاتا ہے کہ وہ ایک بند خزانہ ہے۔ اس کے الفاظ ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔ اس کی سورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں مگر اس کے لئے کھلی ہیں جو پہلے ایمان لاتا ہے۔ وہ فرماتا ہے

لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ

وہ لوگ جو برکت اور رحمت سے ممسوح کئے جاتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیا کچھ بیان ہوا ہے۔ باقی عربی کتابیں عربی جاننے سے سمجھی جا سکتی ہیں۔ لیکن قرآن ایمان سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ‘‘

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرمودہ 14؍جون 1951ء، بحوالہ الازھار لذوات الخمارصفحہ119)

کتب، خطبات وتقارير

حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر اور دوسری ہزاروں صفحات پرمشتمل کتب میں قرآن کریم کی تشریحات بیان فرمائیں۔ آپ نے تمام مشکل آیات کا حل بیان کر کے ثابت فرمایا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے خاص عطا کردہ علم سے مقطعات قرآنیہ کے ایسے عظیم الشان معانی بیان فرمائے کہ دنیا حیران رہ گئی۔

چنانچہ ہندوستان کے ایک مشہور محقق علامہ نیاز فتح پوری نے ان معارف کو پڑھ کر کہا :

’’تفسیر قرآن اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر قرآن ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی آپ کی وسعت نظر آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کی حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے۔ ‘‘

(الفضل 26؍مئی 1990ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ جماعت کی قیادت و رہ نمائی فرمائی۔ اس عرصہ میں کم وبیش دو ہزار خطبات جمعہ، خطابات جلسہ ہائے سالانہ اور عیدین پر خطبات کے علاوہ خدام، انصار، اطفال، لجنات اور مجلس تشحیذالاذہان، اسی طرح مدرسہ احمدیه، جامعہ احمدیہ، جامعة المبشرین، ہائی سکول، کالج، احمد یہ نیشنل کور، انجمن ترقی اشاعت، آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جلسوں میں آپ کی ہزاروں پر معارف تقاریر قرآن مجید کی تشریح پر ہی مشتمل ہیں۔ آپ کا یہ طریق مبارک تھا کہ آپ بالعموم قرآن مجید کے کسی مقام کی نہایت خوش الحانی سے تلاوت فرماتے پھر اس کی دلوں کو گرمانے والی تشریح فرماتے اور بعض مواقع پر آپ کی تقریر میں قرآنی تلاوت کے بغیر بھی قرآن مجید کے کسی مقام کی ایسی واضح اور دلنشین تشریح ہوتی کہ سننے والے کا ذہن خود بخود اس مقام کی طرف جاتا اور وہ علوم ومعارف کی ایک نئی دنیا سے متعارف ہو جاتا۔ ان ہزاروں تقاریر اورخطبات کے علاوہ آپ کی تمام مستقل تصانیف بھی قرآنی انوار کی ایسی بارش کی طرح ہیں جو ضرورت کے وقت نازل ہو کر ہر گوشہ زمین کو سیراب کردیتی ہیں۔

بیسویں صدی میں خدمت قرآن اور اشاعت قرآن کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں لازمی طور پر اس عظیم خادم قرآن المصلح الموعود کا نہایت عزت و احترام کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔ جس نے اپنی ساری زندگی انوارقرآنیہ کو پھیلانے میں صرف کر دی۔

خوبیوں سے آراستہ کتاب

’’قرآن کریم کی ایک ظاہری خوبی اس کے الفاظ کا لطیف توازن ہے کہ بظاہر نثر ہے مگر نظم کے مشابہ ہے اور یہ امر اس کی عبارت کو ایسا خوبصورت بنادیتا ہے کہ کوئی اور کتاب اب تک اس کی نقل نہیں کر سکی خواہ وہ ناقص نقل ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بھی قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ‘‘

(فضائل القرآن(2)، انوارالعلوم جلد11صفحہ132)

قرآن کے لفظ لفظ سے خدا کی شان ٹپکتی ہے

’’کیسی نابینا ہیں وہ آنکھیں، کیسے کور ہیں وہ دل جو قرآن کریم تورات اور دوسری مذہبی کتابیں دیکھتے ہیں اور پھر انہیں قرآن کریم کی خوبی اور اس کی برتری نظر نہیں آتی۔ وہ حسن کا مجموعہ ہے، وہ جلوہ الہی کا آئینہ ہے۔ اس کے لفظ لفظ سے خدا تعالیٰ کی شان ٹپکتی اور اس کے حرف حرف سے الله تعالیٰ کے وصال کی خوشبو آتی ہے۔ کونسی کتاب ہے جو اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتی ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد5صفحہ159تا160)

’’قرآن کریم ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ اس کے مطالب سے اعلیٰ مطالب تو بڑی بات ہے۔ اس کے بیان کردہ مسائل کی انواع تک بھی اور کوئی کتاب خواہ نئی ہو یاپرانی نہیں پہنچ سکتی۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 374)

قرآن کریم کا بلند ترین مقام

’’دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے۔ یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے۔ یہ ابوبکر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عمر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عثمان کے لئے بھی کھلا تھا، یہ علی کے لئے بھی کھلا تھا، یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاءو صلحاء کے لئے بھی کھلا تھا اور آج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہورہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دنیوی علوم میں آج کل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آج کل نئے سے نئے نکل رہے ہیں۔ ‘‘

(سیر روحانی (1)، انوار العلوم جلد 15صفحہ 348)

علم قرآن و خدمت قرآن

خدا تعالیٰ نے آپؓ کو علوم ظاہری و باطنی سے پرفر ماتے ہوئے قرآنی علوم کا بحر ذخار عطا فرمایا تھا۔ اسی لیے ایک موقع پرفرمایا:

’’مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس میں میرے فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں۔ ‘‘

( تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ ج)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمه الله تعالیٰ اس خدمت قرآن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’آپ کا اٹھنا بیٹھنا، بولنا، سکوت تمام کا تمام قرآن کریم ہی سے پھوٹتاتھا۔ آپ کی فکر ونظر کامنبع قرآن تھا۔ آپ گفتگو فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی۔ تقریر فرماتے تھے توقرآن کی تفسیر ہوتی تھی، تحریر فرماتے تھے تو قرآن کی تفسیر ہوتی تھی۔ اور اس پہلو سے آپ جتنی بھی حضور کی کتب کا مطالعہ کریں گے ایک بھی کتاب ایسی نظر میں نہیں آئے گی جس کا مضمون قرآن کریم سے نہ پھوٹتا ہو …گھنٹوں حضور کا تقریر کرنا، وہ سوز وگداز جس سے آپ تلاوت فرمایا کرتے تھے، وہ عشق قرآن جو آپ کے چہرے پر اس طر ح چھا جاتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ چہرہ غائب ہو گیا ہے اور قرآن کا عشق باقی رہ گیا ہے۔ ‘‘

(خطابات طاہر، تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت، صفحہ 178)

چنانچہ جماعت احمدیہ کے ایک بڑے مخالف اور معاند مولانا ظفرعلی خان کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا :

’’احرار یو! کان کھول کر سن لو، تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہےتم نے تو کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں دیکھا۔ ‘‘

(ایک خوفناک سازش از مولانا مظہر علی اظہر صفحہ196)

خدمت قرآن جو گو یا آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا اس کے حوالےسے خود آپؓ نے اپنی زبان مبارک سے جو اظہار فر مایا وہ کچھ اس طرح ہے:

’’یہ خدمت جو میں نے کی، یہ رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ وہ دشمن جوآج مجھ پر آوازیں کس رہے ہیں ان کو بھی بالآخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ میں ہی خدا کی طرف سے اس زمانے کے لئے خادم قرآن کے مقام پر کھڑا کیا گیا ہوں …خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں۔ اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کے لئے شکست دے دوں۔ دنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے، عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی بڑی بڑی اور مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور مجھے اس مقصد میں ناکام کرا نے کے لئے متحد ہو جا ئیں۔ پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا۔ ‘‘

(انوار العلوم جلد 17 صفحہ 614)

دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن

آپ کے زمانے میں دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت وتراجم کا کام بھی ہوا۔ آپ کی یہ خواہش تھی کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں عربی نہیں سمجھی جاتی وہاں بھی قرآنی انوار پہنچیں اور لوگ اپنی اپنی زبانوں میں قرآنی تعلیمات کا مطالعہ کرسکیں۔ مثلاً آپ کی خلافت میں قرآن کریم کے حوالے سے ایک بڑا کام انتہائی نامساعد حالات کے باوجود انگریزی زبان میں ترجمہ وتفسیر قرآن کا تھا۔ آپؓ کی وفات کے وقت مزید کئی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کا کام جاری تھا۔

حرف آخر

پس آج ہم سب کا فرض ہے کہ حکمتوں اور نصائح سے پُر اس کلام کو اپنی زندگیوں میں لاگو کریں۔ اس کے ہر حکم پرعمل کریں اور ہر مناہی سے رکیں اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہے کہ

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا (الفرقان:31)

اور رسول نے کہا اے میرے رب! میری قوم نے تو اس قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے۔

آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تعلیم کو آگے پھیلانےوالے ہوں۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہنوں میں رہنا چاہیے کہ ’’جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پرعزت پائیں گے ‘‘۔ ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کوعزت دینے والے ہوں اور عزت اس وقت ہوگی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے اور جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دینے والا اور ہمارے لیے رحمت کی چھتری ہوگا۔ جیسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ( بنی اسرائیل :83)

اور ہم قرآن میں آہستہ آہستہ وہ (تعلیم) اتار رہے ہیں جو مومنوں کے لئے (تو) شفا اور رحمت (کا موجب) ہے اور ظالموں کو صرف خسارہ میں بڑھاتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button