متفرق مضامین

نوجوانوں کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے متعارف کروانا ضروری ہے (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

(آصف محمود باسط)

یومِ مصلح موعودؓ کے حوالہ سے خصوصی تحریر

13؍ فروری 2021ء کی صبح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت ملاقات کا وقت عطا فرمایا۔ خاکسارنے گزشتہ روز حضور کے خطبۂ جمعہ کے حوالہ سے عرض کی کہ بہت سے نوجوانوں کو حضور کے خطبہ کے ذریعہ محترم چودھری حمید اللہ صاحب سے تعارف حاصل ہوا۔ اور کیا ہی خوب ہوا! ساتھ ہی خاکسار نے عرض کی کہ ’’حضور، اب تو وہ بزرگ بھی کم ہوتے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کو قریب سے دیکھا تھا۔‘‘

فرمایا: ’’اب تو بہت کم رہ گئے ہیں۔ میر محمود احمد ناصر صاحب ہیں۔ جمیل الرحمٰن رفیق صاحب ہیں۔۔۔‘‘

عرض کی کہ’’حضور، آپ جس محبت سے اور کثرت سے حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر فرماتے ہیں وہ گویا تلقینِ عمل کا رنگ رکھتا ہے۔ لیکن انگریزی دان طبقے کو ابھی تک بہت کم مواد میسر ہے جس سے وہ حضرت مصلح موعودؓ سے گہری واقفیت حاصل کرسکیں‘‘۔

اس پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’ویسے تو حضرت مصلح موعودؓ کی بہت سی کتب اور بہت سے خطابات ترجمہ ہوگئے ہیں۔ اَور بھی ہو رہے ہیں۔ تو ایک تو الحکم میں ان انگریزی تراجم کا تعارف شائع کرواؤ اور ساتھ ان تک رسائی کا طریقہ بھی بتاؤ۔پھر پیشگوئی مصلح موعودؓ کے حوالہ سے یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ آنحضورﷺ کی پیشگوئی تھی جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ کی ذات میں پوری ہوئی۔ آنحضورﷺ نے یہ پیشگوئی آخری زمانہ میں آنے والے مسیح اور مہدی کے حوالہ سے فرمائی تھی۔ یعنی آخری زمانہ میں دینِ اسلام کی احیائے نو کا جو کام ہونا تھا، اس میں اس موعود بیٹے کا بڑا اہم کردارہونا تھا۔ یوں یہ پیشگوئی کوئی عام پیشگوئی نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کی سربلندی کے حوالہ سے اس پیشگوئی کی بہت اہمیت ہے۔

’’پیشگوئی مصلح موعود کے تو بہت سے پہلو ہیں۔ اور ہر پہلو سے ہی نوجوانوں کو متعارف کروانا ضروری ہے۔لیکن جدید دور کے ذہن کے لیے جو پہلو بہت ہی موثر ہوسکتا ہے وہ ہے ’علومِ ظاہری و باطنی سے پُر‘ ہونا۔

’’تو اگر نوجوانوں کو بلکہ دوسروں کو بھی یہ بتایا جائے کہ مسیح موعودؑ کا وہ موعود بیٹا جس کی پیشگوئی آنحضورﷺ نے فرمائی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے کیسے کیسے علوم سے پُر فرمایا تو انہیں زیادہ دلچسپی بھی پیدا ہوگی اور وہ خود حضرت مصلح موعودؓ سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔

’’اصل بات بتانے والی یہ ہے کہ ایک تو حضرت مصلح موعودؓ نے باقاعدہ تعلیم نہ ہونے کے برابر حاصل کی تھی۔ سکول کی تعلیم میٹرک تک بھی بمشکل تھی۔ صحت کمزور رہتی تھی اور تعلیم جاری نہ رہ سکی۔ پھر اس دور میں انٹرنیٹ بھی نہیں تھا کہ ہر طرح کی معلومات دنیا کے ہر ملک سے گھر بیٹھے حاصل ہوسکیں۔ بلکہ انٹرنیٹ تو کیا، تمام کتابوں تک رسائی شہروں میں بھی بہت مشکل تھی۔ اور حضرت مصلح موعودؓ تو قادیان میں تھے جہاں لائبریریاں اورباہر کی کتابوں کی دکانیں بھی نہ تھیں۔

’’وہاں بیٹھے ساری دنیا کے حالات پر نظر ہونا۔ ان حالات کی گہری سمجھ ہونا۔ اس سمجھ کی بنیاد پر ان حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرنا۔ پھر بڑے اعتماد سے ان تجزیوں کو شائع کروا کر عام لوگوں میں بھی تقسیم کروانا اور حکومتوں اور ملکی سربراہوں کو بھی بھجوادینا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

’’پھر دنیا کے سیاسی، معاشی، معاشرتی حالات پر بڑی گہری نظر تھی۔ یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ یہ حالات کس طرف جارہے ہیں اور اگر اسی طرح جاتے رہے تو کیا ہوگا اور اگر ان حالات میں یوں تبدیلی کر لی تو یوں ہوجائے گا اور اگر یوں کر لیا تو یوں ہوجائے گا۔ اور پھر ہوتا بھی اسی طرح تھا۔

’’تو اگر تم صرف علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے ثبوت ہی دینے لگو تو کئی قسطوں میں بھی یہ مضمون پورا نہ ہو‘‘

پھر فرمایا: ’’میں نے خود بھی سوچا ہوا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت اور آپ کی تصنیفات کا تعارف کرواؤں۔‘‘

قارئین کرام! حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا یہ آخری حصہ پڑھ کر آپ بھی میری ہی طرح اس دن کا ضرور انتظار کرنے میں لگ چکے ہوں گے، جب اس عظیم المرتبت ہستی کا تعارف ہم حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں حاصل کریں گے۔

ابھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت مصلح موعودؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے پر کچھ گزارشات قلم بند کی گئی ہیں جو ذیل میں پیش ہیں۔اس سے پہلے کہ آپ اس مضمون کو پڑھیں، مجھے اعتراف کرنا ہے کہ اسے لکھتے وقت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کئی بار کانوں میں گونجتے رہے کہ اس ایک موضوع پر بھی’’ لکھنے لگو توکئی قسطوں میں بھی یہ مضمون پورا نہ ہو‘‘۔ اس تشنگی کا احساس مجھے بھی ہے، اورقارئین کو بھی ضرور ہوگا۔

سیدنا حضرت فضلِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ: علومِ ظاہری و باطنی سے پُر وجود

کچھ بھی عرض کرنے سے پہلے قارئین کرام کی توجہ کے لیے یہ لکھ دینا ضروری ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ المصلح الموعوداور جماعت احمدیہ مسلمہ کی پیدائش گویا توام شکل میں ہوئی۔

حضرت مصلح موعودؓ اور جماعت احمدیہ مسلمہ کی توام پیدائش

12؍ جنوری 1889ء کو جس اشتہار کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت لے کر ایک جماعت قائم کرنے کے الٰہی حکم کا ذکر فرمایا اسی اشتہار کے آخر پر اپنے گھر میں اس بیٹے کی ولادت کی خبر بھی شائع فرمائی جو پیشگوئی مصلح موعود کے مظہر کے طور پر پیدا ہوا۔یعنی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ۔

دونوں پیشگوئیاں درحقیقت آنحضورﷺ کی پیشگوئیاں تھیں جو اس اشتہار کے ذریعہ پوری ہوئیں: ایک الجماعت کا قیام اور دوسرا مسیح موعود کا شادی کرنا اور اس سے اولاد عطا ہونا۔

پس یہ دو وجود یعنی خدا تعالیٰ کی آخری جماعت اور حضرت مسیح ومہدی علیہ السلام کا پسرِ موعود ایک ساتھ دنیا میں ظاہر ہوئے اور دونوں نے دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیا۔ دونوں ہی حالات کے نہایت ناسازگار ہونے کے باوجود ترقی کے وہ زینے طے کرنے لگے کہ دنیا حیرت میں ڈوب گئی۔

عین نوجوانی میں رسالہ تشحیذالاذہان کا اجرا اور باکمال ادارت

رسالہ تشحیذ الاذہان حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ مارچ 1906ء کی بات ہے۔ یعنی تب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی عمر صرف 17سال تھی۔ اس عمر میں آپؓ کے قلم سے جومضامین تحریر ہوئے وہ تبھی سے آپ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

پہلے شمارے میں ’’انٹروڈکشن‘‘ کے نام سے حضورؓ نے مضمون تحریر فرمایا، وہ اپنے اندر علم و معرفت کے کئی باب لیے ہوئے تھا۔ حضرت آدمؑ سے شروع ہونے والا نسلِ انسانی کا سفر کہاں سے ہوتا ہوا مسیح ومہدیؑ کے زمانہ تک پہنچا اور پھرخدا تعالیٰ کی اس آخری جماعت میں شامل ہونے کے تقاضے۔ پھر ہر ماہ یہ رسالہ شائع ہوتا اور ہر شمارہ آپ کے علومِ ظاہری و باطنی کے حوالے لیے ہوئے ہوتا۔

نوجوانی میں اسلام کے دفاع پر ٹھوس علمی مباحث

4؍ تا 9؍ اپریل 1906ء قاہرہ میں First Missionary Conference منعقد ہوئی۔ منتظمین میں پادری زویمر اور پادری ویری جیسے بڑے نام شامل تھے۔ اس کانفرنس میں ایک مضمون مشہور عیسائی مناد پادری ویٹ بریخٹ نے پڑھا جس کا عنوان تھا The New Islam in India۔ اس میں اس نے ہندوستان سے اٹھنے والی اسلامی تجدیدی تحریکات کا ذکر کیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جدید زمانے کے ساتھ ہمقدم رہنے کی کوشش میں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہی انحراف کیا جارہا ہے۔ اس میں اس نے سر سید احمد خان کی تحریکِ علیگڑھ اور تحریکِ احمدیہ کا بالخصوص ذکر کیا۔

(تفصیل:ان تمام لیکچرز کا مجموعہ The Mohammedan World of Today، مطبوعہFlemming H Revell Company, London, 1906)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بعمر 19 سال اس مضمون کا نہایت ٹھوس جواب تحریر فرمایا جو تشحیذالاذہان کے اپریل 1908ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔ یہاں محل اور موقع نہیں کہ اس مضمون کی تفصیلات میں جائیں۔ سو اس مضمون کا پھل دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں، جو اس مضمون کی تاثیر کا خود منہ بولتا ثبوت ہے۔

اسی پادری ویٹ بریخٹ(Herbert Weitbrecht Stanton) نے The Muslim World کے جنوری 1925ء کے شمارے میں The Ahmadiyya Movement کے نام سے مضمون شائع کیا تو تحریر کیا کہ قارئین نے محسوس کیا ہوگا کہ ہم گزشتہ کئی شماروں میں جماعتِ احمدیہ کا ذکر کرتے چلے آرہے ہیں۔ آگے اس کی وجہ یوں بیان کی کہ:

“It is worthy of attention because it represents one aspect of a larger movement, the reaction of Asia against the prevalence of European culture and influence. On the religious side of this reaction, the Ahmadiya represents Indian Islam, the largest body of Moslems in Asia and the world, which has come into the most effective contact with Christian evangelism, has taken its imprint most largely, and reacted against it most strongly.”

اسی مضمون میں آگے چل کر اس نے جماعت احمدیہ کو عیسائی تبلیغ کے لیے اسلام کی طرف سے سب سے بڑا چیلنج قراردیا۔

اسی عمر کا واقعہ ہے کہ آپؓ لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ وہاں آپؓ کی ملاقات مشنری کالج (جو اب ایف سی کالج لاہور کے نام سے موسوم ہے) کے پرنسپل سے ہوئی۔ آپؓ نے اس پرنسپل سے، جو ایک جید پادری تھا مسئلہ ٔ نجات پر سیر حاصل بحث کی۔

’’پہاڑی وعظ‘‘ کے نام سے جو کتاب انوارالعلوم میں شامل ہے وہ بھی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی نوجوانی کے زمانے کی وہ گفتگو ہے جو پادری ینگسن (Rev John W Youngson) سے ڈلہوزی کے مقام پر ہوئی۔

نوجوانی ہی میں غیروں کا آپؓ کی لیاقتِ علمی کا اعتراف

ابھی آپ 23 سال ہی کے تھے کہ ہندوستان کے نامور صحافیوں کے حالات پر مبنی کتاب شائع ہوئی۔ اس میں آپ کی ادارتی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپؓ کا تعارف بھی شامل تھا۔

ایک ایسے نوجوان صحافی کا مشاہیر صحافیوں میں شمار ایسی بات نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ وہ بھی ایک قصبہ میں بیٹھ کر نکالے جانے والے ایک رسالہ کی ادارت پر۔ اور پھر یہ اعتراف ہو بھی غیروں کی طرف سے۔ لیکن آپ کی صحافتی قابلیت کی بات چلی ہے تو وہ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اخبار الفضل کے اجراکا تذکرہ نہ ہو۔

آپؓ کے مضامین آپ کی ذہانت اور لیاقت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ایسے کہ غیروں کے رسائل بھی آپؓ کی تحریرات سے استفادہ کرنا باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔ اس کا ثبوت دہلی کے رسالہ ’’نظام المشائخ‘‘ کے مارچ 1911ء کے شمارے میں شائع ہونے والا وہ مضمون ہے جو آپ نے ’’خاتم النبیینﷺ ‘‘ کے موضوع پر تحریر فرمایا اور اس میں آنحضورﷺ کی خاتمیت پر لطیف ترین رنگ میں روشنی ڈالی۔

جون 1913ء میں بعمر 24 سال حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے الفضل کا اجرا فرمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اخبار ان اخباروں میں شامل ہوگیا جس کی طرف اپنے تو اپنے غیر بھی نظریں لگائے بیٹھے رہتے تا حالاتِ حاضرہ پر امام جماعت احمدیہ کا تجزیہ دیکھا جاسکے۔ ایسا کیوں تھا۔ اس کا ذکر آگے چل کر آجائے گا۔

خلافت کا منصب عطا ہونے کے بعد

پھر جب الٰہی وعدوں اور بشارات کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو خلیفۃ المسیح کا منصب عطا ہوا، تو پھر تو علومِ ظاہری و باطنی سے سارے جہان کو فیض یاب کیا۔ ایسا کہ پیشگوئی کا وہ حصہ بھی پورا ہوگیا کہ ’’قومیں اس سے برکت پائیں گی‘‘۔ اور یہ بھی ’’وہ اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا‘‘۔ اور یہ بھی کہ ’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘۔ دینِ اسلام کی سربلندی کے وعدے جو پیشگوئی کے الٰہی الفاظ میں آپؓ کے ساتھ وابستہ کیے گئے تھے، وہ بھی دیگر رنگوں کے علاوہ اس رنگ میں بھی پورے ہوئےکہ آپؓ کے تجزیے عالمی امورِ سیاسیہ میں ہمیشہ بالا رہے۔

ابھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی خلافت کا آغاز ہی تھا کہ علومِ ظاہری و باطنی اَور بھی نکھر کر سامنے آنے اور قوموں کو سیراب کرنے لگے۔

ترجمہ و تفسیر قرآن پر مغربی دنیا کا اعتراف

1915ء میں آپؓ نے قرآن کریم کے پہلے پارے کا ترجمہ مع مختصر تفسیر انگریزی زبان میں شائع کروائی اور اسے دنیا کی مشہور لائبریریوں اور یونیورسٹیوں میں ارسال فرمایا تا مغرب تک پیغامِ حق پہنچانے کی باقاعدہ کوششوں کا آغاز ہوسکے۔یہ انگریزی زبان میں ایک مسلمان کی طرف سے تفسیری نوٹس پر مشتمل اپنی طرز کا پہلا کام تھا۔ اسے معروف مستشرقوں نے خوب سراہا۔ مثلاً مشہور مستشرق تجزیہ کار R F McNeile نے شہرہ آفاق رسالے The Muslim World کے اپریل 1916ء کے شمارے میں اس پر تفصیلی نوٹ شائع کیا۔ اسی طرح Charles C Torey نے امریکہ سے شائع ہونے والے Harvard Theological Review کے اکتوبر 1917ء کے شمارے میں اس ترجمہ و تفسیر پر مفصل ریویو لکھا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک بظاہر چھوٹی اور کمزور اور کم مایہ جماعت کے خلیفہ کو یہ توفیق ملی۔ جبکہ آپؓ کے متوازی چلنے والی خلافتِ عثمانیہ، جو کہ ایک سلطنت کی مالک تھی۔ جسے وسائل کی ہر گز کوئی کمی نہ تھی، اپنے چھ سو سالہ دور میں قرآن کریم کا ایک بھی ترجمہ نہ شائع کرسکی۔ حد یہ کہ ترکی زبان میں بھی نہیں۔ پہلا باقاعدہ ترجمہ جو ترکی میں شائع ہوا وہ 1924 میں منظر عام پر آیا، جب خلافتِ ترکیہ کی صف لپیٹی جاچکی تھی۔

(تفصیل کے لیے M Bret Wilson کا مضمون The First Translations of the Quran in Modern Turkey،

مطبوعہ International Journal of Middle East Studies، 2009)

ایک عظیم الشان سلطنت کے مقابل، ایک دنیاوی لحاظ سے غیرتعلیم یافتہ، صحت کے لحاظ سے کمزور، وسائل کے لحاظ سے تقریباً تہی دامن خلیفہ کو خدا نے یہ اعزاز بخشا تو اسے آنحضورﷺ کی پیشگوئی کا اظہر من الشمس ثبوت کیوں نہ کہا جائے؟

مغربی محققین اور مورخین کا اعتراف

اسی ’’اولوالعزم ‘‘اور ’’مظفر‘‘ کی قوتِ قدسی تھی کہ مغرب کی توجہ قادیان اور جماعتِ قادیان کی طرف مبذول ہوئی۔ مشہور محققین اور مؤرخین اور مستشرقین ایک قصبہ میں مقیم اس منبعِ علومِ ظاہری و باطنی کے پاس کشاں کشاں آنے لگے۔

تفصیل میں جائے بغیر اگر یہاں صرف H A Walter کا ذکر کردیا جائے، تو مناسب ہوگا۔ یہ وہ محقق ہیں جنہوں نے بعد میں The Ahmadiyya Movement کے نام سے کتاب تحریر کی۔ اس کتاب کو جماعت احمدیہ پر غیروں کی طرف سے شائع ہونے والی پہلی تحقیقی کتاب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اور یہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ اس کے کچھ تاثرات بھی بیان کردیے جائیں جو اس نے اپنی کتاب کے ابتدائیہ میں تحریر کیے:

“My visit to Qadian, in January, 1916, although it took place more than eight years after the death of Ahmad, showed me a community where there existed abundant enthusiasm and zeal for religion…”

1914ء میں جب حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی مسند پر بٹھایا، تو جماعت کا ایک چھوٹا سا طبقہ، علم اورقابلیت کے غرور میں خلافت سے الگ ہوگیا۔ تب بھی آپؓ نے انہیں سمجھاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اب جماعت کی بقا خلافت ہی میں ہے۔ یہاں تک پیشکش کی کہ کوئی اَور خلیفہ ہو جائے تو میں اس کے ہاتھ پر بیعت ہونے کو تیار ہوں، مگر خلافت سے علیحدگی اختیار نہ کرو۔

آپؓ کی نظر جہاں تک دیکھ رہی تھی، اس پر اب نظریاتی دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ یہاں H A Walter ہی کے تاثرات دینے پر اکتفا کرتے ہیں، باقی تو وقت حضورؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرہی چکا ہے:

“It now appears certain that the Lahore party will be absorbed in the All India Moslem League section of Indian Islam… whereas the Qadiani party will continue as a permanent, and possibly a gradually widening, segment of the great circle of Islam.”

(تفصیل: The Ahmadiyya Movementمطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 1918)

پس حضورؓ کی بصیرت جو خداداد تھی، ہر آنکھ والے کو نظر آجاتی۔

سیاسیاتِ ہندوستان پر گہری نظر اور رہنمائی

اب سیاسیاتِ مسلمانانِ ہند کی طرف آتے ہیں۔ یہ 1917ء کی بات ہے۔ حضورؓ کے منصبِ خلافت پر ابھی بات نہیں کرتے۔ دنیاوی لحاظ سے دیکھیں تو ہم ایک 28 سالہ نوجوان کی بات کررہے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست چومکھی مسائل کا شکار ہے۔ ایک طرف ہندو مسلم داخلی مسائل ہیں تو دوسری طرف انگریز حکومت خودمختاری دینے کی طرف مائل نظر آنے لگی ہے۔

ایسے میں سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیاEdwin Samuel Montaguخود حالات کا جائزہ لینے ہندوستان جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اسے پیش کرنے کے لیے ایک ایڈریس تحریر فرماکر انگریزی میں ترجمہ کروا کر طبع کرواتے ہیں۔ حضرت سر ظفراللہ خانؓ صاحب کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد یہ ایڈریس اس کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اس ایڈریس میں حضورؓ نے ہندوستان کی خودمختاری کے لیے بہترین ذرائع تجویز فرمائے تھے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ حضورؓ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں۔

ان کی وفات کے بعد ان کی یادداشتیںAn Indian Diary کے نام سے شائع ہوئیں، جس میں انہوں نے 15؍ نومبر 1917ء کی تاریخ کے تحت ان تجاویز کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ :

“They read us a very long document drawn up by the man they call ’His Holiness‘… which was by far the ablest document we have yet seen”

پھر حضورؓ سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

“He had a good mind, had carefully thought out his constitutional scheme…”

(تفصیل: An Indian Diary، مطبوعہ William Heinemann Ltd, London, 1930)

عرب ممالک کو اقتصادی غلامی سے متنبہ فرمانا

سبھی کو معلوم ہے کہ بظاہر آزادہوجانے والی نوآبادیات آج تک مغربی تسلط سے آزادی حاصل نہیں کرسکیں۔ بظاہر آزاد جغرافیائی تشخص کے باوجود مسلم ممالک سیاسی اور اقتصادی طور پر آج بھی مغربی طاقتوں کی زیرِ نگیں اور محکوم ہیں۔

جب اس ظاہری آزادی اور خودمختاری کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت مصلح موعودؓ کی دوربین نگاہیں وہاں دیکھ رہی تھیں جہاں کسی بھی مسلم لیڈر کی نگاہ نہ پہنچ سکتی تھی۔

26؍ دسمبر 1915ء کو نجد کے حکمران عبدالعزیز بن سعود اور حکومتِ برطانیہ کے درمیان معاہدۂ دارین طے پایا۔ اس کے مطابق شاہ ابن سعود انگریز حکومت کے ساتھ وفادار رہنے کے پابند قرار پائے اور اس بات پر انہوں نے دستخط کیے کہ وہ انگریز افواج کی کسی بھی مسلم خطہ کی چڑھائی کی مزاحمت نہ کریں گے۔ اس کے عوض انہیں بہت سا اسلحہ اور 20,000 پاؤنڈ یکمشت عطیہ حکومتِ انگلستان کی طرف سے دیا گیا۔ ساتھ 5,000 پاؤنڈ کا ماہوار وظیفہ بھی مقرر کردیا گیا۔

(تفصیل: John C Wilkinson کی کتاب Arabia‘s Fronteirs: The story of Britain‘s boundary drawing in the desert مطبوعہ I B Tauris، لندن، 1991)

حضرت مصلح موعودؓ نے فی الفور وائسرائے ہندوستان سے رابطہ کیا اور اسے متنبہ کیا کہ عرب رؤسا کو یوں زیرنگین لانے کی کوشش انہیں ہمیشہ کے لیے غلام بنا لے گی۔

حضورؓ نے ایک موقع پر اس واقعہ کی تفصیلات یوں بیان فرمائیں:

’’آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیلمزفرڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے، مسلمانوں میں شور پیدا ہوا کہ انگریز بعض عرب رؤسا کو مالی مدد دے کر انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں۔ یہ شور جب زیادہ بلند ہوا تو حکومتِ ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رؤسا کو کوئی مالی مدد نہیں دیتے۔ مسلمان اس پر خوش ہوگئے کہ چلو خبر کی تردید ہو گئی۔ لیکن میں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ گو ہندوستان کی حکومت بعض عرب رؤسا کو مالی مدد نہیں دیتی۔ مگر حکومت برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے۔ چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو ملا کرتے تھے۔ اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی۔ جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے لارڈ چیلمزفرڈ کو لکھا کہ گو لفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہے، مگر حقیقی طور پرصحیح نہیں۔ کیونکہ حکومتِ برطانیہ کی طرف سے ابن سعود اور شریف حسین کو اس اس قدر مالی مدد ملتی ہے۔ اور اس میں ذرہ بھر بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کرسکتے۔

ان کا جواب میں مجھے خط آیا (وہ بہت ہی شریف طبیعت رکھتے تھے) کہ یہ واقعہ صحیح ہے مگر اس کا کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کر کے فساد پھیلایا جائے۔ ہاں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہر گز منشا نہیں‘‘۔

(الفضل قادیان، 3؍ستمبر 1935ء)

حضورؓ کو خدا تعالیٰ نے اس بات کی خبر دے دی تھی کہ منشا یہ ہو یا نہ ہو، نتیجہ یہی ہوگا کہ عرب حکومت ہمیشہ کے لیے مغرب کی غلام بن کررہ جائے گی۔

لارڈ چیلمزفرڈ کے بعد لارڈ رَیڈنگ وائسرائے ہوئے تو حضور نے ان کے پاس بھی ایک وفد بھیجا اور ساتھ خود تحریر کرکے ایک ایڈریس بھی ارسال فرمایا۔ اس ایڈریس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی زور دیا کہ جو کچھ انگریز حکومت کررہی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ عرب ممالک کبھی خود مختار نہیں ہوسکیں گے۔

اس ایڈریس کے پیش کیے جانے کے بعد وائسرائے کی تمام تقریر حضرت مصلح موعودؓ کے اس ایڈریس کے جواب میں تھی۔ اخبارات میں اس بات کی دھوم رہی کہ ’’احمدیہ نقطہ نظر‘‘ نے وائسرائے کی تمام توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ مثال کے طورپر The Leader اخبار نے خبر کی سرخی ہی یہ لگائی کہ :

“Viceroy‘s Reply to the Ahmadiyya Community”

(بحوالہ اخبار The Leader، شمارہ 26 جون 1921ء)

آج امت ِمسلمہ سے وفاداریوں کے دعوے جو مرضی اور جتنے مرضی کرتا رہے۔ مگر یہ بات تاریخ میں محفوظ ہوچکی ہے کہ مسلم ممالک کے حقوق کے تحفظ کی خاطر خود ان کے سربراہوں سے بھی زیادہ اس وجود کو فکرمندی تھی جس کے ذریعہ خدا نے قوموں کو برکت عطا فرمانی تھی۔ آج مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حالات چونکہ خود حضرت مصلح موعودؓ کی دوربین نگاہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لہٰذا ہم اس بات کو بلاتبصرہ چھوڑتے ہیں۔

تیل کے ذخائر سے متعلق معاہدوں پر عربوں کی رہنمائی

جنگِ عظیم اوّل کے بعد کا زمانہ عالمی سیاست میں عجیب و غریب موڑ لے کر آیا۔ مغربی سلطنتیں اپنی نوآبادیات سمیت اپنی بقا کے لیے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگئی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ معاشی اور اقتصادی دھچکا تھا جو ساری دنیا ہی کو درپیش تھا۔ چونکہ اب کاروبارِ عالم کا انحصار مشینوں اور انجنوں پر ہوچکا تھا، لہٰذا ایندھن ایک اہم مسئلہ تھا۔ کوئلہ کی قلت ایندھن کے نئے ذرائع کی تلاش کی متقاضی تھی۔ اور ہم جانتے ہی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ اورجزیرہ نمائے عرب میں زیرزمین تیل کے ذخائر کثرت سے موجود ہیں۔

لہٰذا 1920ء کی دہائی میں تیل کے ذخائر کی تلاش اور تیل کا حصول مغربی طاقتوں کی ترجیحات میں اولین درجہ پر تھا۔ Anglo-Persian Company اور Iraq Petroleum Company انگریزوں کے سرمایہ پریہ کام سرانجام دینے میں پیش پیش تھیں۔ چونکہ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں تیل کے کچھ ذخائر دریافت ہوچکے تھے، لہٰذا قیاس تھا کہ نجد اور حجاز میں یہ ذخائر اَور بھی کثرت سے ہوں گے۔

چنانچہ جزیرہ نمائے عرب میں تیل کے ذخائر کو دریافت کرنے کے سلسلہ میں پہلا معاہدہ ایک انگریز کمپنی اور عبدالعزیز ابن سعودکے درمیان 1922ء میں طے پایا۔ اس کمپنی کا نام Eastern and General Syndicate تھا اور اس کا صدر دفتر لندن میں واقع تھا۔ کمپنی کی طرف سے Frank Holmes نے معاہدہ پر دستخط کیے۔ پھر جب تیل کے ذخائر دریافت ہونا شروع ہوگئے تو اس کمپنی نے وہاں سے تیل کی کشید کا کام شروع کیا اور اس کے عوض شاہ سعود کے ساتھ کچھ رقم مقرر کرلی۔پھر اسی طرح کے معاوضہ پر مشرقی صوبہ الاحسا میں تیل کے ذخائر دریافت کرنے اور ان سے استفادہ کا کام شروع ہوا۔

اس معاوضہ کے ساتھ شاہ ابن سعود کا وہ وظیفہ روک دیا گیا جو انہیں حکومتِ انگلستان کی طرف سے دیا جاتا تھا۔ یوں اب وہ اپنے فیصلوں میں بظاہر خودمختار ہوگئے مگر چونکہ ان کی آمدن کا ذریعہ اب بھی انگریز سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں تھا، وہ یہ نہ بھانپ سکے کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے مغرب کی غلامی کا طوق گلے میں پہن رہے ہیں۔

(تفصیل : Robert Lacey کی کتاب The Kingdom، مطبوعہ Harcourt Brace Jovanovich، 1982)

حضرت مصلح موعودؓ کی دور بین نگاہ نے اس راہ کو دیکھ لیا جو ابدی غلامی کی راہ تھی اور جس پر ایک عرب ملک، وہ بھی ایسا جس کی زمین پر حرمین شریفین واقع ہیں، گامزن ہونے والا تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر فرمایا:

’’ابھی ایک عہدنامہ ایک انگریز کمپنی اور ابن سعود کے درمیان ہوا ہے۔ سلطان ابن سعود ایک سمجھ دار بادشاہ ہیں مگر بوجہ اس کے کہ وہ یورپین تاریخ سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے، اس لیے وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے……

ایک شخص کو جو ان کے ملنے والوں میں سے تھے، میں نے کہا کہ تم سے اگر ہوسکے تو میری طرف سے سلطان ابن سعود کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں۔ یورپین قوموں کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیار کرتی ہیں مگر ان کے مطالب نہایت سخت ہوتے ہیں۔اب وہ معاہدہ جو انگریزوں سے ہوا، شائع ہوا ہے۔ اور اس کے خلاف بعض ہندوستانی اخبارات مضامین لکھ رہی ہیں۔ میں نے وہ معاہدہ پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بعض غلطیاں ہوگئی ہیں۔ اس معاہدہ کی شرائط کی رو سے بعض موقعوں پر بعض بیرونی حکومتیں یقیناً عرب میں دخل دے سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر میرے دل کو سخت رنج پہنچا، حالانکہ انگریزوں سے ہمارا تعاون ہے……

انگریز ہوں یا کوئی اور حکومت، عرب کے معاملہ میں ہم کسی کا لحاظ نہیں کرسکتے۔ اس معاہدہ میں ایسی احتیاطیں کی جاسکتی تھیں کہ جن کے بعد عرب کے لیے کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہتا مگر بوجہ اس کے کہ سلطان ابن سعود یورپین اصطلاحات اور بین الاقوامی معاملات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے، انہوں نے الفاظ میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور اس میں انہوں نے عام مسلمانوں کا طریق اختیار کیا ہے۔ مسلمان ہمیشہ دوسرے پر اعتبارکرنے کا عادی ہے۔ حالانکہ معاہدات میں کبھی اعتبار سے کام نہیں لینا چاہیے۔‘‘

(بحوالہ الفضل قادیان، 3 ستمبر 1935ء)

علمی حلقوں کا حضورؓ سے استفادہ

غیروں نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ کوبھلے ہی بطور خلیفہ تسلیم نہ کیا ہو۔ نہ ہی انہیں آپؓ کے مصلح موعود ہونے سے کوئی غرض ہو، مگر آپؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے۔یہی وجہ تھی کہ غیروں کو بھی جب موقع ملا، جہاں موقع ملا، انہوں نے آپؓ کے علم و فضل سے ضرور استفادہ کیا۔ مثلاًدانشوروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کو لاہور مدعو کیا گیا۔ آپؓ سے درخواست کی گئی کہ آپ ’’اسلام اور بین الاقوامی تعلقات‘‘ پر خطاب فرمائیں۔ یہ تقریب لاہور کے مشہور Bradlaugh Hall میں 23؍ فروری 1919ء کو منعقد ہوئی۔وقت کی نزاکتوں اور تقاضوں کی باریکیوں کو اجاگر کرنے والا یہ خطاب اور اس اجلاس کی تفصیلات بہت سے اخبارات نے شائع کیں۔

(مثلاًسول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور، 2 مارچ 1919)

حضور لاہور ہی میں تھے تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے Martin Historical Society لاہور نے اسلامی تاریخ پر خطاب فرمانے کے لیے مدعو کیا۔ حضور نے صاحبِ علم احباب کی اس مجلس سے 24؍ فروری 1919ء کو اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں خطاب فرمایا اور تاریخ اسلام کے وہ پہلو بیان فرمائے جو سب کے علم میں اضافہ کا موجب ہوئے۔ یہ خطاب ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

یاد رہے کہ علوم و معارف کے یہ چشمے اس ’’کم عمر نوجوان‘‘ کے ذہنِ رساسے پھوٹ رہے تھے جو علومِ ظاہری و باطنی سے پُرکیا گیا تھا۔

سلطنتِ عثمانیہ کے مسئلہ پر رہنمائی

خلافتِ عثمانیہ کا مسئلہ جب مسلمانوں میں جذبۂ قومیت کو اجاگر کرنے کےلیے استعمال کیا گیا، تو تب بھی حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک خلافت کے علمبرداروں کی رہنمائی فرمائی۔ حضورؓ کی رہنمائی کا لب لباب ہمیشہ یہی رہا کہ جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔حضورؓ نے بڑے واضح لفظوں میں فرمایا کہ ترکی کی سلامتی کے مسئلے کو مسلمانوں کے ایک قومی مسئلہ کے طور پر انگریز حکومت کے سامنے پیش کیا جائے نہ کہ سلطنتِ عثمانیہ کو خلافت کا دینی رنگ دے کر۔

مگر ان نصائح کو ایک ’’نوجوان‘‘ کی باتیں قرار دے کر تحریک خلافت کے عمائدین نے اپنی روش جاری رکھی اور اسی جوش میں انگلستان کے وزیرِ اعظم کو ملنے لندن جا پہنچے۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں وہ تمام گفتگو موجود ہے جو تحریکِ خلافت کے وفد اور وزیر اعظم لائڈ جارج کے درمیان ہوئی۔ اور اس ریکارڈ کے ذریعہ یہ بات ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ ہوکررہ گئی کہ وفد کا موقف کمزور پڑا ہی تب جب انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کو روحانی و دینی علامت کے طور پر پیش کیا۔

اس روحانی اور دینی مسئلہ پر وزیر اعظم کے سوالات اور وفد کی جرح اس ملاقات کو خاطر خواہ نتائج کی طرف جانے کی راہ میں آڑے آگئے اور وفد ناکام و نامراد واپس لوٹا۔

حضورؓ کے قیاس میں بھی پیشگوئی کا رنگ

انگلستان کا شاہ ایڈورڈ ہشتم ایک مطلقہ خاتون سے شادی کرنے کے لیے تختِ شاہی سے دستبردار ہوگیا۔ حکومت ِ انگلستان اور چرچ آف انگلینڈ نے اس کی دستبرداری کو ایک غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا۔ ساری دنیا میں ایسا پراپیگنڈا کیا گیا کہ رائے عامہ اس بات پر متفق ہوگئی کہ شاہ ایڈورڈ نے قومی ذمہ داری پر اپنے جذبات کو فوقیت دی ہے۔

ساری دنیا کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار اور ماہرین سیاسیات اور مؤرخین ایک طرف اور علوم ِ ظاہری و باطنی سے پُر وجود ایک طرف۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فوری طور پراپنا تجزیہ الفضل میں شائع کروایا اور بتایا کہ پراپیگنڈا کے ذریعہ اس بات کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بادشاہ عیسائیت سے بیزار ہے۔ اسی باعث حکومت اور چرچ دونوں چاہتے ہی نہ تھے کہ وہ تخت نشین ہو۔ اس لیے گہری سازشوں کے ذریعہ اور اس کی امریکی معشوقہ کو بنیاد بنا کربادشاہ کو تخت پر آنے ہی نہیں دیا گیا۔

اس موضوع پرتفصیلی مضمون گزشتہ شماروں میں شائع ہو چکا ہے اور یہاں کلک کر کے اسے پڑھا جاسکتا ہے۔

(https://www.alfazl.com/2021/01/30/26663/)

حضرت مصلح موعودؓ پر بہت بڑے بڑے لوگ لکھتے ہیں۔ بہت بڑے بڑے لوگ لکھیں گے۔ میری کوئی اوقات نہیں کہ حضورؓ کے مقدس وجود کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کروں۔ مگر تاریخ کے ادنیٰ طالبِ علم اور حضرت مصلح موعودؓ کے ایک عاشق کے طور پر یہ گواہی یہاں دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ شاہ ایڈورڈ والے مضمون کی تحقیق کے دوران حکومت اور چرچ کے اصل دستاویزات کے حصول میں بے حد دقتوں کا سامناکرنا پڑا۔ یہاں لندن میں رہتے ہوئے بھی ان تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ لیکن ہر حاصل ہونے والی دستاویز حیرت میں ڈال دیتی رہی۔ یوں بھی کہ ان دستاویزات تک رسائی آج بھی مشکل ہے تو تب تو یہ بالکل بھی میسر ہی نہ تھیں۔ اور یوں بھی کہ ہر دستاویز حضورؓ کے تجزیہ اور خیال(جو دنیا کے لیے بظاہر صرف قیاس تھا) کی تصدیق پر مہر ثبت کرتی چلی گئی۔آپؓ قادیان کے قصبے میں رہتے ہوئے ہر معاملہ پر نظر رکھے ہوئے تھے اور ہر معاملہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ بصیرت عطا فرمائی تھی کہ لاجواب اور بے نظیر تھی۔

یہ وجود خدا تعالیٰ کامحبوب تھا۔ ’’کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا‘‘ اور ’’دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا‘‘ کے الہامی الفاظ کیوں پورے نہ ہوتے۔دل سے دعا نکلتی ہے کہ

ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

قارئین کرام! یہ سطور جو تحریر کی گئی ہیں، یہ حضرت مصلح موعودؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے حوالے سے ایک مضمون بھی نہیں۔ صرف ایک مختصر سا اشاریہ ہے۔ اس میں بھی ہم نے صرف ایسے حقائق میں سے مختصر سا انتخاب کیا ہے جو باہر کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان شا اللہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے ایسے مضامین کا سلسلہ جلد شروع کیا جائے گا جن میں حضرت مصلح موعودؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پر ہونے سے متعلق حقائق بیان کیے جائیں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button