متفرق مضامین

امریکہ کا صدارتی نظام

(ایس بلوچ)

امریکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ امریکہ میں صدارتی نظام رائج ہے۔ صدارتی نظام کا آغاز بھی امریکہ سے ہی ہوااور آج یہ نظام امریکہ کے علاوہ برازیل، افغانستان، چاڈ وغیرہ میں بھی رائج ہے۔ امریکی آئین کا آغاز1789ءسے ہوا۔ امریکی آئین کسی ملک کا پہلا تحریری دستور ہے۔ امریکی آئین کے تحت مجلس قانون ساز اور انتظامیہ کو الگ رکھا گیا ہے۔ یعنی صدر اور اس کی عاملہ مجلس قانون ساز یعنی کانگریس کے رکن نہیں ہوتے۔ دراصل امریکہ میں نظریہ تقسیم اختیارات پر عمل کیا گیا ہے، یعنی حکومت کے تینوں شعبے مجلس قانون ساز، انتظامیہ، اور عدلیہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں اور دوسرے شعبے کے معاملا ت میں مداخلت نہیں کرتے۔ مگر تقسیم اختیارات کے ساتھ ہی احتساب وتوازن کا اصول بھی قائم کیا گیا ہے، کیونکہ اگر حکومت کے تینوں شعبوں کو صرف اپنے ہی دائرے میں رہنے دیا جائے اور دوسرے شعبوں میں کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہ ہو تو یہ شعبے آمرانہ رنگ اختیار کر لیں گے، مثلاًکانگریس سے قانون کی منظوری کے بعد امریکی صدر کی توثیق لازمی ہے اور صدر کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو ویٹو کر دے، مگر ویٹو کیے ہوئے مسودہ کو اگر کانگریس دو تہائی اکثریت سے منظور کر دیتی ہے تو صدر کے ویٹو کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ ’’عدالتی نظرثانی‘‘کا اختیار استعمال کرتے ہوئے ایسے مسودات کو کالعدم قرار دے سکتی ہے جو کہ غیر آئینی ہوں۔ بہرحال امریکہ میں حکومت کے تینوں شعبوں یعنی کانگریس، صدر اور کابینہ کا سپریم کورٹ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ مگر یہ تینوں شعبے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں۔

امریکی صدر کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ وہ سربراہ ریاست بھی ہوتا ہے اور سربراہ حکومت بھی۔ اکثر ممالک میں ان دونوں شعبوں یعنی سربراہ ریاست اور سربراہ حکومت کوعلیحدہ رکھا جاتا ہے، مگر امریکہ میں یہ دونوں شعبے امریکی صدر ہی کے پاس ہیں۔ امریکی صدر کاانتخاب ہرچار سال بعد نومبر کے پہلے سوموار کے بعد آنے والی منگل کو ہوتا ہے۔ نیز امریکی صدر کے انتخاب کے کئی مراحل ہیں۔ سب سے پہلے دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کے لیے مختلف مقامات پر قومی کنونشن بلاتی ہیں جن میں ریاستوں کے وفود شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر صدارت کے لیے مختلف امیدواروں کے نام پیش کیے جاتے ہیں۔ جس امیدوار کو واضح اکثریت حاصل ہو اسے پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کردیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کا انتخاب ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں انتخابی ادارہ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ انتخابی ادارہ کے ارکان کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ریاستوں کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں نشستیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس وقت انتخابی ادارہ کے کل اراکین کی تعداد538ہے۔ انتخابی ادارہ کے ارکان ماہ دسمبر میں دوسرے بدھ کے بعد پہلے پیر کو اپنی اپنی ریاستوں کے دارالحکومت میں جمع ہو کر صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں پھر 6؍جنوری کو سینیٹ کا چیئرمین دونوں ایوانوں کے سامنے ووٹوں کی گنتی کر کے نتائج کا اعلان کرتا ہے۔ صدارتی امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ وہ واضح اکثریت حاصل کرے اور 538ووٹوں میں سے 270ووٹ حاصل کرے۔ اگر کوئی امیدوار بھی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے تو ایوان نمائندگان پہلے تین میں سے کسی ایک کو صدر منتخب کرلے گا۔ مگر ایوان نمائندگان میں ’’ایک ریاست ایک ووٹ‘‘کا اصول کارفرما ہو گا۔ اس طرح کامیاب ہونے والے امیدوار کے لیے 26؍ریاستوں کے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔

امریکی آئین کے تحت صدارتی عہدہ سنبھالنے کے لیے نیا صدر 20؍جنوری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔ امریکہ میں یہ روایت قائم ہو چکی ہے کہ کوئی بھی شخص دو میعادوں سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا۔ اس کا آغاز جارج واشنگٹن سے ہوا جب اس نے تیسری دفعہ صدربننے سے معذرت کر دی۔ بعد میں بعض صدور نے اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ صرف روزویلٹ نے اس روایت کو توڑ دیا اوروہ تیسری مرتبہ صدر بنا، چوتھی مرتبہ بھی اس نے انتخاب جیت لیا مگر اس کی وفات ہو گئی، عوام کی طرف سے اس روایت کو توڑنے کو ناپسند کیا گیا اس کے بعد امریکی آئین میں بائیسویں ترمیم کر دی گئی جس کے تحت متواتر تیسری مرتبہ صدارت کا منصب سنبھالنے پر پابندی لگا دی گئی۔

امریکی صدر کو اس کے عہدے سے آسانی سے برطرف نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر وہ غداری یا سنگین بدعملی کا مرتکب پایا جائے توامریکی کانگریس اس کا مواخذہ کرسکتی ہے۔ امریکی صدر کے مواخذہ کی تحریک ایوان نمائندگان میں پیش کی جاتی ہے۔ ایوان نمائندگان میں تحریک پیش کرنے کے لیے صدر کے خلاف الزامات کی ایک فہرست تیار کی جاتی ہے۔ صدر کو اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی صفائی کا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر ایوان نمائندگان صدر کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تصدیق کر دے تو صدر کے خلاف باقاعدہ مقدمہ دائر کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد صدر کے خلاف مواخذہ کی کارروائی سینیٹ میں چلتی ہے۔ سینیٹ کے 100؍اراکین اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت کرتے ہیں۔ سینیٹ کے عام اجلاسوں کی صدارت تو چیئرمین سینیٹ یعنی امریکی نائب صدر کرتا ہے مگر صدر کے مواخذہ کی کارروائی کے دوران چیئرمین سینیٹ کی بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔ صدر خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ سینیٹ میں مقدمہ کی پیروی کر سکتا ہے۔ الزامات کی مکمل چھان بین اور بیانات کی روشنی میں سینیٹ مقدمہ کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر سینیٹ کے دوتہائی اراکین صدر کے خلاف مواخذہ کی توثیق کر دیں تو صدر کو اپنے عہدے سے برطرف ہونا پڑتا ہے۔ عہدے سے علیحدگی کے بعد صدر قانون کی نظر میں ایک عام شہری ہوتا ہے اوراگر اس سے کوئی جرم سرزدہوتا ہے تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ امریکی تاریخ میں آج تک کوئی صدر مواخذہ کی تحریک کے ذریعہ برطرف نہیں ہو سکا۔

بہر حال امریکی صدارتی نظام میں کئی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ خوبیاں یہ ہیں کہ صدر کو اپنی میعاد پوری کرنے کا موقع ملتا ہے، اوراس طرح اس کی حکومت آسانی سے اپنی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے۔ نیزجہاں حکومتی شعبےاپنے دائرے میں رہ کر کا م کرتے ہیں وہیں ان پر احتساب کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ حکومت کاکوئی شعبہ بھی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ مگر امریکی صدارتی نظام کی کئی خامیاں بھی ہیں جیسے صدر کو اپنی میعاد پوری کرنے کا موقع تو ملتا ہے مگر بعض اوقات وہ اپنے اختیارات سے تجاوزکرجاتا ہے، اور آمرانہ رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ امریکی صدر کامواخذہ کافی مشکل ہے اس وجہ سے بھی بعض اوقات وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرلیتاہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button