حدیث

حدیث ثقلین کی حقیقت

سوال:ایک دوست نے حضور انور کی خدمت اقدس میں حدیث ثقلین کی ثقاہت کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست کی ۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29؍جون 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل بصیرت افروز جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اس بارے میں دو قسم کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ ایک میں

كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّه ِ

کے الفاظ آئے ہیں اور دوسری میں

كِتَابَ اللّٰهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي

کے الفاظ آئے ہیں۔

كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّه ِ

والی روایات ثقہ اور مستند ہیں۔ قرآن کریم دراصل خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور حضورﷺ کی سنت اس کلام کی عملی تفسیر ہے، جو دونوں لازم و ملزوم اور ہر قسم کے ظن سے پاک ہیں۔ اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کو مضبوطی سے تھامنے(یعنی ان کے احکامات پر عمل کرنے) والےکبھی گمراہ نہیں ہو سکتے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے اپنی موطا میں اسے درج کیا ہے۔

جبکہ

وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي

والی روایات کو اگرچہ صحاح ستہ میں سے بعض کتب نے روایت کیا ہے لیکن امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں درج نہیں کیا ۔ علمائے حدیث نے ان روایات پر روایتاً اور درایتاً بہت کلام کیا ہے۔ نیزاسماء الرجال کی کتب میں ان روایات کے راویوں پر بہت زیادہ جرح کی گئی ہے اور ثابت کیاگیا ہے کہ ان کی اسناد میں ضرورکوئی نہ کوئی ایسا راوی ہے جس کی ہمدردیاں اہل تشیع کے ساتھ تھیں۔

ان روایات کے ایک راوی حضرت زید بن ارقم ؓکا اپنا بیان قابل غور ہے کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت کچھ جو میں نے حضورﷺ سے سنا تھا بھول چکا ہوں۔

ان روایات کے ایک راوی حضرت جابر بن عبداللہؓ ہیں۔ ان سے مروی ایک مختصر روایت جو صحیح مسلم اور سنن ترمذی نے درج کی ہے اس میں كِتَابَ اللّٰهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ بیان ہوئے ہیں لیکن حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سےیہی روایت جب تفصیل کے ساتھ صحیح مسلم ، سنن ابن ماجہ نے درج کی تو ان میں کہیں وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ درج نہیں کیے بلکہ صرف كِتَابَ اللّٰهِ کے الفاظ روایت کیے ہیں۔

پس موطا امام مالک ، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ کی صرف وہ روایات قابل اعتماد اور روایتاً اور درایتاً قابل قبول ہیں جن میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا ذکر ہے یا کتاب اللہ اورحضورﷺ کی سنت پر چلنے کا ذکرکیا گیا ہے۔ اور باقی سب ایسی روایات جن میں کتاب اللہ کے ساتھ أَهْلَ بَيْتِي یا وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ آئے ہیں، وہ جیسا کہ علمائے حدیث اور ماہرین اسماء الرجال نے بیان کیا ہے،قابل قبول نہیں ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button