متفرق مضامین

’’بابِ لُد‘‘ کہاں ہے؟

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

پسِ منظر

مسیح کی آمد ثانی کے متعلق احادیث میں متعدد پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور پیشگوئی یہ ہے کہ مسیح ’’مشرقی باب لد‘‘ کے پاس دجال کو قتل کریں گے۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باب لد سے کیا مراد ہے اور یہ کہاں واقع ہے؟

احادیث میں باب لد کا ذکر

دجال کے غلبہ اور اس کے خاتمہ کے لیے حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی کے متعلق کتب احادیث میں متعدد پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں بہت سے دیگر نشانات کے ساتھ اس امر کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مسیحؑ دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ چنانچہ ایک لمبی روایت میں آنحضورؐ نے دجال کی حقیقت، اس کی خصوصیات، اس کے کاموں کا مفصل ذکر فرمایا ہے۔ پھر آپؐ نے اس کے انجام کے متعلق فرمایا ہے کہ مسیحؑ آئیں گے تو وہ

يُدْرِكهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُیا

دیگر روایات میں ہے:

يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ

(مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد، ترمذی، احمد)۔ وہ (یعنی مسیح) دجال کو باب لد کے پاس جا لے گا اور قتل کر دے گا۔

فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ اللُّدِّ الشَّرْقِىِّ فَيَقْتُلُهُ (ابن ماجہ، احمد)۔

وہ دجال کو مشرقی باب لد کے پاس جا لے گا اور قتل کر دے گا۔

اس جگہ قدرتی طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ ’’باب لد‘‘جہاں مسیح نے دجال کو قتل کرنا ہے کیا ہے اور کس جگہ واقع ہے؟

پیشگوئیوں کی ہر تشریح جو واضح طور پر پوری ہو جائے اپنی جگہ درست کہلا سکتی ہے اور کسی ایک تشریح کے بلا شرکت غیرے صحیح اور دیگر تمام تشریحات کے غلط ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تشریحات میں سے وہ تشریح زیادہ بہتر اور حقیقت کے نزدیک گردانی جائے گی جو زیادہ واضح ، اقرب، اور براہ راست طریق پر پوری ہو اور جس کے لئے دور کی کوڑی لانے یا لمبی تشریحات کی ضرورت نہ پڑے۔

سابقہ تشریحات

اس اور ایسی دیگر احادیث کے اکثر شارحین کا خیال ہے کہ ’’لد‘‘ بیت المقدس کے قریب ایک قصبہ ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ نے دجال کو قتل کرنا ہے۔ جغرافیہ کی قدیم کتب میں اس کا محل وقوع بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ یعقوبی نے بیان کیا ہے کہ یہ رملہ کے قریب ایک قصبہ تھا ، جب عبد الملک بن سلیمان کے زمانہ میں رملہ آباد کیا گیا تو اس قصبہ ’’لد ‘‘ کے لوگ رملہ چلے گئے اور یوں یہ قصبہ ویران ہو گیا (یعقوبی، البلدان، صفحہ ۱۶۶، دار الکتب العلمیہ،بیروت، لبنان، ۲۰۰۲ء)۔بعض شعراء کے اشعار میں بھی اس قصبہ کا ذکر آیا ہے۔

( یعقوت الحموی، معجم البلدان، جلد ۵، صفحہ ۱۷، دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

جماعت احمدیہ میں عام طور پر ’’بابِ لد ‘‘کی ایک مشہور تشریح یہ بھی کی جاتی ہے کہ اس سے مراد لندن کی فصیلِ شہر میں واقع Ludgateنامی ایک دروازہ ہے۔ چونکہ مسیح موعودؑ کا ایک بڑا کام کسر صلیب ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کو ایک رؤیا میں لندن میں خطاب کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا تھا اس لیے باب ِلد کی پیشگوئی آپؑ کی تحریرات کے لندن یا عمومی طور پر مغرب میں پھیلنے، نیز آپؑ کے خلفاء کے لندن جانے کے ذریعہ پوری ہو چکی ہے۔

پیشگوئی میں خاص لندن کے Ludgate کا ہی ذکر کیوں کیا گیا ہے؟ Ludgate پر کسی ایسے کام یا نشان کے ظاہر ہونے کا ذکر نہیں ملتا جسے خصوصیت کے ساتھ قتل ِدجال کے ساتھ منسلک کیا جا سکے۔ اس کے برعکس اگر کوئی جگہ لندن میں دجال کے قتل کے ساتھ منسلک کی جا سکتی ہے تو وہ لندن کے جنوب میں واقع مسجد فضل ہے جو کہ اسلام کی یورپ میں تبلیغ کے لیے اولین مرکز کا کام دیتی رہی اور جہاں چار خلفائے حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کی ترقی اور دجال کے استحصال کے لیے بے شمار دعائیں کی ہیں اور ایک لمبا عرصہ تک جماعت کا مرکز بھی تھی۔ پھر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ پیشگوئی میں آنحضورؐ نے مسیحؑ دجال کو مشرقی باب لد کے پاس قتل کرنے کا ذکر فرمایا ہے ۔ جبکہ Ludgate لندن شہر کی فصیل کا سب سے مغرب میں واقع دروازہ تھا! اور خود لندن بھی مدینہ سے مغرب میں واقع ہے۔ چنانچہ مشرق کا لفظ کسی بھی لحاظ سے اس دروازے پر اطلاق نہیں پاتا۔

باب لد پر دجال کے قتل کی حقیقت

اکثر اوقات پیشگوئیوں میں ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ یعنی ایک تو معنوی پہلو ہوتا ہے، جو کہ زیادہ اہم ہوتا ہے اور دراصل یہی پہلو مقصود ہوتا ہے، تاہم دوسرا ظاہری پہلو بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے کہ وہ کم فہم لوگوں اور مخالفین پر اتمام حجت کے لیے ضروری ہے ۔ مسیح موعودؑ کے متعلق اکثر پیشگوئیوں کا یہی حال ہے۔

معنوی پہلو

لغوی طور پر ’’لد‘‘سے مراد بحث میں شکست دینا ہے۔ چنانچہ عربی میں کسی کو لُدکرنا کہا جائے تو اس سےمراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی زبان ایک طرف کر کے اس کے منہ میں دوائی ڈالی گئی (تاج العروس، لسان العرب)۔اسی معنی میں یہ لفظ آنحضورؐ کی مرض الموت کی حدیثوں میں استعمال ہوا ہے ۔

پس معنوی طور پر مسیحؑ کے دجال کو باب لد پر قتل سے مراد یہ ہے کہ آنے والا مسیح ، دجال کو بحث اور دلائل میں بالکل لاجواب کر کے اس کی زبان بند کر دے گا اور ایسی شکست فاش دے گا کہ اسے قتل ہی کر دے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے جس کثرت سے دلائل کے ساتھ دجال کا رد فرمایا ہے اس کی مثال گذشتہ انبیاء کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ الوہیت مسیح، کفارہ، صلیبی موت، اقنوم ثلاثہ وغیرہ ہر اہم مسئلہ پر آپؑ نے دلائل سے دجال کا منہ بند کیا۔ پھر ظاہری طور پر پادریوں کے ساتھ مناظروں میں کامیابی حاصل کی ۔ جس کی ایک مثال ’’جنگ مقدس‘‘ میں محفوظ ہے۔ اخبارات میں مضامین لکھ کر بھی ان کے ساتھ جنگ۔ مشہور زمانہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ میں قانونی جنگ کی۔ وغیرہ ۔ ان تمام جنگوں میں دجال کو دلائل کے زور پر واضح شکست دی۔

ظاہری پہلو

لیکن ظاہری طور پر بھی یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اللہ تعالیٰ کے اِذن کے ساتھ دجال کے قتل کے لیے جو ایک خاص کام کیا ، جو کہ دجالی فتنہ کے دائمی استحصال کی بنیاد ہے وہ جماعت احمدیہ کا قیام ہے۔ یہ کام آپؑ نے ’’لدھیانہ ‘‘ میں سر انجام فرمایا۔

لدھیانہ شہر کا نام ہندوستان پر لودھی خاندان کی حکومت کے دوران ان کے ایک سردار کے نام پر ’’لودھی انا‘‘ رکھا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ نام ’’لدھیانہ‘‘ ہو گیا۔ اصل لفظ ’’لودھی ‘‘ میں سے اب ’’لدھ ‘‘باقی رہ گیا ہے۔ نام کا دوسرا حصہ ’’انہ‘‘ ہے اور ہندوستان میں متعدد جگہوں کے ناموں میں موجود ہے مثلاً راجپوت سے راجپوتانہ، ہری سے ہریانہ، مکران سے مکرانہ وغیرہ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ’’انہ‘‘ سنسکرت لفظ ’’آیانا‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ’’گھر‘‘ ہے۔ یعنی لودھی کا گھر، راجپوتوں کا گھر، وغیرہ۔ جبکہ دیگر علماء کا کہنا ہے کہ یہ لفظ ’’آریانہ‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب جنگل ہے ۔ گویا لودھیانہ سے مراد لودھی کا گھر یا لودھی کا جنگل ہے۔ چونکہ ’’دھ‘‘ کی آواز عربی میں نہیں ہوتی۔ اس لیے ’’لدھیانہ‘‘ کو عربی میں ’’لدیانہ‘‘ کہتے ہیں۔

پس دجال کو بابِ لد میں قتل کرنے کی پیشگوئی جماعت احمدیہ کے قیام اور پہلی بیعت کے لدھیانہ شہر میں وقوع پذیر ہونے سے پوری ہوئی۔

لدھیانہ کے متعلق ایک اور پیشگوئی

حضرت مسیح موعودؑ نے دلی، لاہور، سیالکوٹ، امرتسر، جہلم، کپورتھلہ، وغیرہ بہت سے شہروں اور قصبوں کا سفر کیا۔ لیکن لودھیانہ وہ شہر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے قریب کے زمانہ میں ایک بزرگ کو خبر دی ۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں کہ

’’ ایک اہل اللہ بزرگ گلاب شاہ مجذوب تھے جنہوں نے ایک شخص کریم بخش ساکن جمالپور ضلع لودھیانہ سے میرا نام لے کر پیشگوئی کی ہے اور اس نے کہا کہ وہ قادیان میں ہے کریم بخش کو قادیان کا شبہ پڑا کہ شاید لودھیانہ کے قریب کی قادیان میں ہوں۔ مگر آخر اس نے بتایا کہ یہ قادیان نہیں اور اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ لودھیانہ میں آئے گا‘‘

(ملفوظات جلد ۳، صفحہ۵۴۳)

لیکن یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ پیشگوئیوں میں ’’لدھیانہ‘‘ ہی کا ذکر کیوں فرمایا گیا؟ اگر قادیان یا سیالکوٹ کا ذکر ہوتا تو جماعت کی بنیاد وہاں رکھنے سے پیشگوئی تو پھر بھی پوری ہو جانی تھی! پس ’’باب لد‘‘ میں کیا خصوصیت ہے؟

لدھیانہ کا انتخاب کیوں؟

اولین بیعت جیسے اہم اور تاریخی کام کی سعادت لدھیانہ شہر کے حصہ میں کیوں آئی؟ گو کہ حضرت مولوی صوفی احمد جان صاحب ، جن کے مکان پر پہلی بیعت ہوئی، کے ساتھ آپؑ کے نہایت قریبی مراسم تھے لیکن ایسے مراسم حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بھیروی اور حضرت مولوی عبداللہ سنوری ؓاور حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری ؓ وغیرہ اصحاب کپورتھلہ کے ساتھ بھی تھے ۔ بلکہ کپورتھلہ کو تو آپؑ نے قادیان کا ہی حصہ اور سیالکوٹ کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا۔

فاصلہ کے لحاظ سے بھی قادیان سے کپورتھلہ، ہشیار پور، جلندھر، بٹالہ، امرتسر، لاہور وغیرہ زیادہ قریب تھے اور لدھیانہ دور۔ پس پہلی بیعت اور جماعت کے قیام کے لیے دیگر شہروں ، خصوصاً قادیان، کو چھوڑ کر لدھیانہ کا انتخاب درحقیقت خاص تقدیر الٰہی کے ماتحت تھا۔ گو ظاہری طور پر آپؑ کے سسر کا لدھیانہ میں مکان ہونے اور اس لیے بار بار لدھیانہ جانے کے مواقع پیدا ہوتے رہتے تھے تاہم یہ صرف ظاہری وجہ تھی ورنہ ایسے کام کے لیے لدھیانہ میں عارضی قیام کا انتخاب اور سب دوستوں کو وہاں جمع کرنا خدائی اشارہ کے بغیر ممکن نہیں۔

لدھیانہ اور دجال

لدھیانہ شہر کی خصوصیت یہ ہے کہ تقسیم پاک و ہند سے قبل متحدہ صوبہ پنجاب میں مسیحیت کا پہلا گڑھ اور مسیحی مشنریوں کا صدر مقام یہی شہر تھا۔ امریکی مشنریوں نے ۵؍نومبر ۱۸۳۴ء کو لدھیانہ ہی میں ایک چرچ کی بنیاد رکھی۔ پھر لدھیانہ میں ہی انہوں نے چھاپہ خانہ قائم کیا اور اس کے ذریعہ پنجاب بھر میں مسیحی لٹریچر پھیلانا شروع کیا۔ لدھیانہ ہی میں مشنریوں نے پرائمری اور ہائی اسکول ، لڑکیوں کے اسکول، کالج وغیرہ بھی بنائے۔ لودھیانہ کے مشن سے ہی مسیحی مناد سارے پنجاب میں جاتے اور تبلیغ کرتے تھے۔اس کے نتیجہ میں لاہور، جلندھر، راولپنڈی، امبالہ، امرتسر، فیروزپور وغیرہ میں مشن قائم ہوئے۔مشنریوں کو اپنے مقاصد میں کچھ کامیابی بھی ہوئی۔چنانچہ ۱۸۸۸ء میں، جماعت احمدیہ کی بنیاد سے ایک سال پہلے، صرف لدھیانہ شہر میں ۳۱۶مسیحی موجود تھے۔

پس مسیح موعودؑ ، جس کا کام ہی دجال کا قتل تھا، کی جماعت کی بنیاد رکھنے کے لیے اسی شہر کو منتخب کیا گیا اور یوں باب لد، یعنی لدھیانہ میں مسیح کی دجال کے ساتھ آخری اور فیصلہ کن جنگ کی بنیاد رکھی گئی ۔ واللہ اعلم۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button