متفرق مضامین

عہد وسطیٰ کے مسلمانوں کے جنگی ہتھیار

(محمد ذکریا ورک۔ کینیڈا)

اموی دَور حکومت 661-750ء

برطانوی مصنف جان گلب رقم طراز ہے :

امیہ دور حکومت کی ملٹری کے بارے میں معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ تاریخی ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان فوج دفاعی جنگ لڑنا مناسب سمجھتے تھے۔ فوج کی ترتیب یوں ہوتی تھی۔ پیدل فوج میں لمبے نیزوں سے لڑنے والے pikeman ہوتے تھے جو جسموں پر شیلڈ لگا کر دفاعی دیوار بن جاتے تھے۔ اس کے بعد تلواروں والے سپاہی اور اس کے بعد آرچرز ہوتے تھے۔ اس طور پر وہ دشمن کے حملوں سے دفاع کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال کوفہ میں شامی فوج کا خارجیوں کے خلاف اس طور پر لڑنا تھا۔ اسی طر ح گھوڑسواروں کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ فل سپیڈ پر دشمن پر چارج نہیں کریں اور نہ ہی بے تحاشا دشمن کے تعاقب میں چلے جائیں۔ جب ایک دفعہ دشمن کی فارمیشن ٹوٹ جاتی توگھوڑ سواروں کو اپنی اصل پو زیشن میں آنے کا حکم ہو تا تھا۔ ملٹری آپریشن کے دوران اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ جرأت اور بہادری یک لخت، ایک دم حملے میں نہیں بلکہ صبر کے ساتھ برداشت میں ہے۔

جب گھمسان کی لڑائی ہوتی تھی تو عرب فوجیں دشمن کا چھپ کر انتظار کر تیں اور یک دم حملہ کر دیتی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں فوجیوں کے دستے بھیجے جاتے تا کہ دشمن کی نقل و حرکت کا پتہ لگائیں۔ صبح کے وقت عرب فوج دشمن کے سامنے صف باندھ کر سینہ سپر ہوجاتی اور مناسب موقع ملنے پر فوجی دستے سامنے اور پیچھے سے حملہ کر دیتے ۔ اس جنگی داؤپیچ کی خبر سب سے پہلے 640ء میں ہونے والی ہیلیو پولس(Heliopolis) کی جنگ میں ملتی ہے جس کے سپہ سالارحضرت عمرو بن العاصؓ تھے۔

عرب فوجیں سر پرائز اٹیک(surprise attack) کے خلاف تحفظ کےلیے ہر قدم اٹھاتیں۔ روانگی سے قبل سکاؤٹ اور جاسوس پہلے جاچکے ہوتے تھے۔ جب فوج مہم پر روانہ ہوتی تو سب سے آگے ایڈوانس گارڈ، پھر فلینک گارڈ، مین باڈی اور پھر رئیر گارڈ ہوتا تھا۔ جب یہ پتہ چل جاتا کہ دشمن اب پانچ دن کی مسافت پر ہے تو جھنڈے لہرانے شروع کردیے جاتے۔ جھنڈے rallying point ہوتے تھے جو جنگ کا اہم جزو ہوتے تھے۔

بازنطینی فوجیوں کی نسبت عرب سپاہیوں کو زیادہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس کو راشن بھی ملتا تھا اور جنگ کے بعد مال غنیمت سے حصہ بھی ملتا تھا۔ گرمیوں کے ایام میں باز نطینی علاقے پر حملہ اَور بھی سود مند ہوتا تھا۔ بازنطینی فوجیوں کو کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی تھی مگر عرب فوجیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتاتھا۔ ہر فوجی کی تنخواہ ہر سال 500درہم ہوتی تھی۔ گھوڑ سواروں کو اپنے گھوڑے ساتھ لانے پر اس سے دگنی تنخواہ ملتی۔

فوجی کے ذاتی ہتھیار وں میں اسلام کے اولین ایام کے دور سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ہیلمٹ کے علاوہ زرہ بکتر Coat of chain mail، گھوڑ سواروں کے ٹانگوں پر پنڈلی کی زرہ (سا ق بند) ہوتی تھی۔ ولید بن عبد الملک بن مروان (م715)کے عہد حکومت کے دوران فوجیوں کے اسلحہ میں maces & lances جوتری اور نیزا یا برچھی (لمبا ڈنڈا جس کا سر نوکیلا اور فولاد کا ہوتا) ہوتے تھے۔

جس قلعے کا محاصرہ مقصود ہو تا تھا اس کے لیے مہنگا ترین ساز و سامان درکار ہوتا تھا جیسے منجنیقmangonels & catapults تا بھاری پتھروں کے گولے اور تیر دیواروں پر گرائے جا سکیں۔ آرٹلری کے ساتھ سٹون میسن ہوتے تھے جو پتھروں کو ضرورت کے مطابق تراشتے جو پہاڑوں سے لائے جاتے تھے۔ عرب افواج محاصرے کی جنگsiege warfareکے تمام ٹیکنیکل امور سے آگاہ ہوتے تھے۔ شہر یا قلعے کے بلند مضبوط دروازوں کو توڑ نے کےلیے موٹے شہتیر سے بنی قلعہ شکن مشین battering rams استعمال کی جاتی تھی۔ قلعے کی دیواروں کے نیچے tunnels & trenches سرنگیں اور خندقیں کھودی جاتی تھیں۔ ٹینٹ، سازوسامان، کھانے کی اشیا، راشن اور آلات کےلیے اونٹ اور خچر استعمال کیے جاتے تھے۔

فصیلوں کی تعمیرپر بے شمار دولت خرچ کی جاتی۔ بازنطینی فرنٹ پر ٹاؤرس، عدانا، میسا سا، مراش، ملاطیہ میں بڑی کوہ شکن فصیلیں تھیں۔ باز نطینی بارڈر پر فصیلیں بنانے پر بےدریغ روپیہ خرچ کیا جاتاتھا۔ تاہم اس قسم کی فصیلیں خازرز کے خلاف، خراسان میں دفاعی عمارتیں بنائی جاتی تھیں۔ غرضیکہ عربوں نے قبائل کی جنگوں کو ترک کر کےجلد ہی جنگوں کے سائنسی طریقے اپنا لیے اور دو سو سال تک ٹیکنیکل اور پروفیشنل حساب سے دنیا کی سب سے بڑی پاور تھے۔

سمندرپر عربوں کی فوقیت شاید زمین کے لحاظ سے زیادہ تھی۔ یہ بات اس لحاظ سے عجیب ہے کہ650ءتک عرب سمندری جنگوں کے رموز سے بالکل نا بلد تھے۔ پچاس سال تک یعنی 650-700 ADبحری جہاز وں کی نیوی گیشن دوسری قوموں کے افرادکرتے تھے جبکہ عرب ڈیک کے اوپرلڑنے مرنے کےلیے تیار ہوتے تھے۔ کیپٹن عموماََ جو کہ لڑائی کا ذمہ دار ہوتا وہ عرب ہوتا تھا جبکہ رئیس جو نیوی گیشن کا ذمہ دار ہوتا تھا وہ عموماََ لبنان یا مصر کا ہوتا تھا۔ 750ءکے بعد تمام جہاز ران مسلمان ہوتے تھے۔ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے عملہ کے درمیان کسی قسم کا نسلی امتیاز نہیں ہوتاتھا۔ تمام عرب جہاز لبنان کی بندرگاہوں میں بنائے جاتے جو باز نطینی جہازوں کی نقل ہوتے تھے۔ ان بحری جہازوں کو چپوؤں کی مدد سے دھکیلا جاتا تھا۔ بڑے جہازوں میں دونوں ڈیک کے اوپر100، ملاح ہوتے تھے جو 25سیٹوں پر بیٹھے ہوتے تھے ہر سیٹ پر دو۔ بعض جہازوں میں اوپر کی ڈیک سپاہیوں سے بھری ہوتی جبکہ کشتی ران اس سے نیچے کی ڈیک پر ہوتے تھے۔ ایک دفعہ دشمن کے جہاز پر قبضہ ہوجاتا تو پھر لڑائی تلواروں سے ہوتی تھی۔ بحیرہ روم میں عربوں کو چار سو سال تک فوقیت حاصل رہی۔

نویں صدی کے وسط میں عرب بحری جہاز سیلون، انڈیاجاوا اورسماٹرا سے ہوتے ہوئےچین جاتے تھے۔ بمبئی کے قریب عرب تاجروں کی کالونی تھی جہاں ان کی فیکٹری تھی۔

عرب جہاز ران افریقہ کے ساحل سے بھی واقف تھے۔ عرب تاجر گھانا (پرانانام گولڈ کوسٹ) سے سونا لاتے تھے۔

فن حرب پر کتابیں

یعقوب الکندی(م870)نے اپنی تصنیف عربی رسائل میں 25 قسم کی تلواروں کے بارے میں قیمتی معلومات مہیا کی تھیں جو اس نے خلیفہ المعتصم (م840) کی فرمائش پر بنائی تھیں۔ ابو ریحان البیرونی (م1048) نے اپنی کتاب الجماہر فی معرفت الجواہر میں ایک باب تلواروں پر مختص کیا ہے۔ کتاب مقامات الحریری میں جو ڈایاگرامز ہیں وہ یحییٰ بن محمود واسطی (م1237) کی بنائی ہوئی تھیں۔

بارھویں صدی سے لے کر چودھویں صدی تک مسلمان عالموں نے فن حرب اور آلات حرب پر متعدد جامع مقالہ جات سپردقلم کیے۔ کہا جاتا ہے کہ ان مقالہ جات کے رقم کیے جانے کی وجہ صلیبی جنگیں تھیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمان اندلس اور بازنطین کے علاقوں میں مغرب کی اقوام کے خلاف کئی سالوں سے جنگ آزما رہ چکے تھے۔ مملوک با دشاہوں کو فنون حرب سے خاص دلچسپی تھی نیز منگولوں کے عرب ممالک پر حملوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

فن حرب پر مقالہ جات تین قسم کے تھے۔ (1) فروسیہ یعنی گھوڑ سواری (2) تیر اندازی (3) فن حرب بشمول جنگی تنظیم اور آلات حرب پر۔ عالم اسلام کے علاوہ دنیا کی بڑی معروف یو نیورسٹیوں لا ئبریریوں میں اس موضوع پر پچاس کے قریب تصانیف موجود ہیں۔ تصانیف کی اکثریت عملی کتابوں manualsکی ہے تا ان لوگوں کی رہ نمائی کی جا سکے جو سپاہیوں کو بھرتی کرنے کے ذمہ دار تھے۔

(1) علم فروسیہ (ہارس مین شپ)کے مو ضوع پر سب سے اہم کتاب شام کے نجم الدین الرماح (م 1294)نے ز یب قرطاس کی تھی۔ کتاب کا پورا نام تھا کتاب الفروسیہ والمناسب الحربیہ(گھوڑوں اور آلات حرب پر)۔ اس کتاب کے تیرہ مسودات بشمول ڈایاگرامز کے دنیا کے مختلف ممالک میں محفوظ ہیں۔ یہ کتاب گھوڑ سواری کی مشقوں اور جنگ کے دوران سپاہیوں کی ترتیب(فارمیشن)، ٹورنامنٹ کی مشقوں، ملٹری آرگنائزیشن، ٹریننگ اور تھیوری پر تھی۔ یہ کتاب بعد میں تصنیف کی جانے والی کتابوں کےلیے ماخذ تھی۔ اس نے نیزوں کا استعمال بتایا، بحری جنگ کا طریقہ، مواصلات کے طریقے، تیر کمان کا استعمال، محاصرے کا انجن، پائیرو ٹیکنیک کے نسخے۔

(2)الرماح کی دوسری کتاب کا نام نہایت الاصول ولامنیہ فی تعلم اعمال الفروسیہ ہے۔ حسن الرماح نےبارود بنانے میں شورے کا استعمال بنیادی بتایا۔ شورے کو صاف کرنے اور قلماؤ کے طریقے بتائے۔ کتاب میں گن پاؤڈر کے 107کیمیائی نسخے دیے گئے تھے۔ اور راکٹ بنانے کے22۔ راکٹ کا نام اس نے طیار اور راکٹس کے لیے اس نے طیارات کا لفظ استعمال کیا۔

(3) محمد بن عیسیٰ الاقصرائے (م1400) نے اس ضمن میں نہایت الاصول والامنیہ کے نام سے جامع کتاب زیب قرطاس کی۔ اس کتاب کے متعدد مسودات موجود ہیں۔ فی الحقیقت اس کتاب کومسلمانوں کی ملٹری آرگنائزیشن، تھیوری اور ٹریننگ پر سب سے عمدہ، جامع اورٹھوس کتاب قرار دیا گیا ہے۔

(4) تیر اندازی پر کتابوں میں کمان کی مختلف اقسام، ان کے بنانے کے طریقے، ان کے استعمال کو بیان کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مشہور و معروف کتابوں اور ان کے فن کا ذکر کیا گیا تھا۔ تیر اندازی پرفارسی میں اول ترین کتاب آداب الحرب و الشجاع لکھی گئی تھی جس کا مصنف فخر مدبر تھا۔ اس نے یہ کتاب دہلی کے سلطان شمس الدین التمش (وفات 1236ء) کے نام معنون کی تھی۔ تیر اندازی پر عربی میں پہلی کتاب طیبوغا بکلامیشی (وفات Taybugha al-Baklamishi 1394) نے قلم بند کی تھی۔

(5) فن حرب اور آلات حرب میں قلعوں کی تعمیر، محاصرے کی مشینیں (منجنیق)، نیزے بنانا، جا سوسی کرنا، سپاہیوں کی ترتیب، جرنیلوں کی اقسام اور ان کے خواص، فوجیوں کےلیے عارضی خیمے، نوکدار لکٹریوں کی باڑ بنانا شامل ہوتا تھا۔ اس ضمن میں نہایت عمدہ کتاب تبصرات ارباب الباب فی کیفیات النجات فی الحروب تھی جو مرداب بن علی طرطوسی کے اشہب قلم سے نمودار ہوئی تھی۔ یہ تصنیف منیف1187ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ (م 1187) کے لیے خاص سپرد قلم کی گئی تھی۔

(6) تذکرہ الحراویہ الحیال الحربیہ کو زیب قرطاس کرنے والا علی ابن ابی بکر الحراوی (وفات1214ء) تھاal-Harawi›s admonition regarding war stratagems۔ الحراوی کا خاندان ہیرات (افغانستان) سے تھا جس کی وفات حمص (الیپو، شام) کے قلعہ میں ہوئی جو اس کےلیے صلاح الدین ایوبی کے بیٹے نے بنوایاتھا۔ اس نے اسلامی دنیا کے اسفار کیے اور جہاں جاتا دیواروں پر اپنا نام لکھ دیتا تھا(graffiti)۔

گھڑ سواروں کا رسالہ

ساتویں صدی میں باز نطینی فوج میں گھڑ سواروں کا رسالہ جنگ کے دوران سب سے اہم اور بنیادی ہوتا تھا۔ آغاز اسلام کے وقت عرب افواج کی ایرانی افواج کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوئی تو ایرانی افواج میں گھڑ سواروں کے متعدد بہ رسالے تھے۔ یرموک اور قادسیہ کی جنگیں دراصل پیدل فوج نے ہی جیتی تھیں۔ مگر اس کے بعد جب حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت 634-644ءمیں گھوڑوں کی فراوانی ہوگئی تو آپ نے تمام ممالک سے گھوڑے جمع کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس کے نتیجے میں کوفہ شہر میں چار ہزار گھوڑے جمع ہوگئے اور شمالی شام میں گھوڑوں کی چراگاہ کے لیے وسیع میدان کا انتخاب کیا گیا۔ حضرت عمر بن العاصؓ کی فوج جس نے مصر فتح کیا تھا وہ زیادہ تر گھڑ سواروں پر مشتمل تھی۔ ابو موسیٰ کی خوزستان کی فتح642ء میں اساورہ کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس سے معلوم ہو تا ہےکہ مسلمانوں کی افواج میں غیر مسلم سپاہی نے کیا کارنامے سر انجام دیے تھے۔ اس کے بعد خراسانیوں، بر بر اور ترکش سپاہیوں کو اسلامی افواج میں شامل کرنا ا ز بس ضروری ہو گیا۔ ان اقوام کے سپاہی اپنے ساتھ جنگ کے طریقے، داؤ پیچ اور اسلحہ لے کر آئے تھے۔ جس سے مسلمانوں کی افواج کو بہت فائدہ ہوا۔

مملوک فوجیوں کے پاس اسلحہ میں درج ذیل ہتھیار ہوتے تھے : تلوار، نیزہ، کمان، ڈھال، pikeیعنی لمبے ڈنڈے جن کی نوک میں فولاد لگا ہوتا تھا۔ یہ مذکور نکیلا ڈنڈا گھوڑے کے چمڑے سے بنی رکاب میں لگا ہوتا جبکہ نیزہ ایک ہاتھ میں نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں میں تھا ما جاتا تھا۔ قاہرہ کے قلعہ کے اندر ملٹری سکول تھا جہاں طباق میں تربیت دی جاتی تھی۔

یہ تربیت بہت کڑی اور ہر طور پر مکمل ہوتی تھی۔ گھڑ سوار کی تربیت میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر گھوڑا بیمار پڑ جائے تو اس کی نگہداشت کیسے کرنی ہے۔ مزید برآں کمان اور نیزے کے استعمال کی تربیت بنیادی قرار دی جاتی تھی۔ فارس کے لیے لازمی تھا کہ وہ نشانہ مختلف زاویوں سے لگائے اور پھرتی سے حملہ آور ہو سکے۔ مملوک سپاہی کے لیے تلوار کا استعمال بنیادی تھا۔ مملوک سپاہیوں کی سخت، مشقت والی تربیت ہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے عیسائی، اور منگول حملہ آوروں پر فتح حاصل کی تھی۔

سپاہیوں کے ہتھیار

مسلمان سپاہیوں کا سب سے اہم ہتھیار تلوار ہوتی تھی جو پیادہ اور گھڑ سوار سپاہی دونوں استعمال کرتے تھے۔ تلواروں کے بھی نام ہوتے تھے۔ تلوار ذاتی دفاع یا ایک ایک سپاہی کی لڑائی میں استعمال ہوتی تھی۔ تلواروں کی لمبائی، ان کا بنانا اور ان کی صورت وہیئت ہر اسلامی ملک میں مختلف ہوتی تھیں۔ عرب میں کسی قبیلہ کی پہچان اس کی تلوار کی لمبائی سے ہوتی تھی۔ مدور تلوار scimitarکا استعمال چودھویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ تلوار کے بلیڈ (نسل) کی ایک تیز دھار (شفرہ) ہوتی تھی جو2سینٹی میٹر کے قریب ہوتی تھی۔ دھار کا مدور حصہ مضراب کہلاتا تھا کیونکہ اس حصہ سے نشانے پرزد لگائی جاتی تھی۔ تلوار کا پیچھے والا حصہ (متن) مضراب کی دوسری طرف ابھرا ہوتا تھا۔ تلوار کے قبضہ (مقبد) میں دستہ (سیلان) ہوتا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ کے دورخلافت میں جنگ یمامہ (عربیہ632) میں اسلامی فوج کے دشمنوں مسیلمہ کی فوج کے پاس ہندوستانی تلواریں تھیں۔ یمن اور دمشق کی تلواریں اپنے طور پر مشہور تھیں۔ دمشق میں تلواریں مقامی کانوں سے نکالے گئے فولاد سے بنی ہوتی تھیں۔

عہد وسطیٰ میں جو تلواریں اسلامی ممالک میں استعمال ہوتی تھیں ان کے نمونے دنیا کے عجائب گھروں (وی آنا، لندن)میں پائے جاتے ہیں۔ توپ کاپی میوزیم استنبول میں موجود چند تلواروں کی تفصیل یہ ہے: امیر معاویہ کی سیدھی تلوار۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے نام کی تلوار۔ ایک تلوار جس کے اوپر اموی حاکم ہشام عبد الملک کا نام کندہ ہے۔ ایک تلوار جس پر تین حکمرانوں کے نام کندہ ہیں معاویہ، عمر بن عبد العزیز، اور ہارون الرشید۔ عباسی حاکم معتصم کی تلوار جس کی حکومت منگول حملہ آوروں نے ختم کی۔

( بحوالہ عبد الرؤف نو شہروی، سائنس ٹیکنالوجی اور اسلام، صفحہ162)

اسلامی تلواروں کی چند اقسام یہ تھیں فلیسا ((Flyssa، کسکارا (Kaskara)، کھندہ (Khanda)یہ ہندی تلوار تھی، خلیج (khalij)ترکی کا خنجر، نیمشا (Nimsha)عربی چھوٹا خنجر، پلوار (pulwar)ہندی خنجر، قما (Qama)مسلم جارجیا کی تلوار، غدارہ (Ghadara) کا کیشیا میں مستعمل ایرانی تلوار، خنجر (Sabre)سیف عربی تلوار، خمدار تلوار scimitar، شمشیر ایرانی تلوار، ششقہ کا کشیشن اقوام کی تلوار، شاٹل (Shatel) ایبی سیناکی دو دھاری تلوار، ٹکویا افریقن صحارا کی تلوار، تلوار ہندوستان میں مروج اکثر خمدار۔

( بحوالہ عبد الرؤف نو شہروی، سائنس ٹیکنالوجی اور اسلام، صفحہ164-166)

اسلامی ممالک میں آ ہنی سرے والا نکیلا نیزہ بھی بطور ہتھیار کے استعمال ہوتا تھا۔ تلوار قدرے مہنگی ہوتی تھی جبکہ نیزہ سستا ہوتا تھا۔ بعض نیزے لکڑی کے بنے ہوتے جن کے کونے پر فولاد لگاہوتا تھا۔ جو نیزے بانس سے بنے ہوتے ان کو قنات کہا جاتا تھا۔ نیزوں کی لمبائی مختلف ہوتی تھی بعض ایک دو میٹر (سات فٹ) اور بعض ایک سات میٹرکے ہوتے تھے۔ نیزے کے تین حصے ہوتے تھے: متن (شافٹ shaft)، سنان (سرhead)، اور ثعلبہ (ساکٹ socket) جو شافٹ کے اوپر چڑھا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اسلامی فوج میں چھوٹا نیزہ javelinبھی ہوتا تھا جس کو دور تک پھینکا جا سکتا تھا۔ خنجر کپڑوں کے نیچے چھپا ہوتا تھا۔

تیر اور کمان

اسلامی فوج میں تیر اندازوں کو افضل مقام حاصل ہوتا تھا۔ تاریخ اسلام میں کئی ممتا زہستیوں کا ذکر آیا ہے جو تیراندازی میں خاص مقام رکھتے تھے۔ جو لوگ تیر اور کمان بنانے کے ماہر ہوتے تھے ان کو بھی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مغر ب میں جو لکڑی کی کمان استعمال ہوتی تھی وہ عرب میں بھی استعمال میں تھیں۔ مصر میں جو کمان ہوتی تھیں ان کو کمپوزٹ کہا جاتا تھا۔ جب عربوں نے ایران فتح کیا تو اس کے بعد کمپوزٹ کمان اسلامی ہتھیاروں کا حصہ بن گئی۔ تیر لکڑی یا سرکنڈے سے بنائے جاتے تھے۔ تیر کے اوپر ہلکے ہلکے پر لگے ہوتے تھے تا ہوا میں مزاحمت کم ہو سکے۔ مسلمان تیر انداز اپنے انگوٹھے سے تیر چلاتے تھے جبکہ یورپ میں انگلی استعمال کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ تیرا ندازوں کے ترکش (کنانہ) ہوتے اور انگوٹھے پر ڈھال یا انگوٹھی۔

میٹا لرجی

میٹا لرجی سا ئنس کی وہ برانچ ہے جس میں دھاتوں کے خواص، ان کی پروڈکشن، اور پیوری فیکشن کو بیان کیا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں میٹا لرجی نے اہم رول ادا کیا۔ سونا چاندی اور تانبے سے سکے بنانے کےلیے، آئرن اور سٹیل سےجنگی آلات، زرعی آلات اور ٹولز بنا نے کے لیے، سیسہ اور زنک برونز اور براس کے الائے alloysبنا نے کےلیے، اور سیسہ وزن کے بٹے بنانے کےلیے استعمال ہوتا تھا۔ سونا، چاندی، سیسہ، لوہا، تانبا اور دیگر معدنیات کانوں سے نکال کر شہروں میں لائی جاتی تھیں۔ یہ پھر بڑے بڑے تندوروں میں پگھلائی جاتی تھیں۔ ذیگرو Zegroکا شہر سونا، چاندی، مرکری، بوریکس کے لیے مشہور تھا۔ چاندی، تا نبا، اور سیسے کے لیے افغانستان، تانبے کے لیے قبرص، لوہے کے لیے اناطولیہ اور بلوچستان مشہور تھے۔ دھاتوں کو پگھلا کر کھانے پینے کے برتن اور ہتھیار بنائے جاتے تھے۔ دمشق کے کندے اور کھانے کی ٹریز یورپ میں مقبول عام تھیں۔ الکندی اور البیرونی نے ما ئننگ ٹیکنالوجی اور میٹا لرجی پر رسالے رقم کیے تھے۔ البیرونی نے مغرب میں سونے کی کانوں کا ذکر کیا تھا۔ ایک مغربی مصنف اس بارے میں لکھتا ہے :

They (Muslims) invented siege machines derived from Roman technology, and made use of artillery. Their advance command of chemistry made them the first to use gunpowder, besides the connon balls, their projectiles included incendiary bombs and vitriol devices.

(Jean Mathe, Civilization of Islam, page 26)

محاصر ے کی مشینیں

منجنیقMangonel/trebuchetکااستعمال اسلامی افواج میں بارھویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایجاد کسی مسلمان انجنیئر نے کی تھی۔ اس کے ذریعہ دور پھینکے جانے والے ’گولے‘230کلو گرام کے ہوتے اور یہ 300میٹر دور تک پھینکے جا سکتے تھے۔ تیر ھویں صدی میں یہ اسلامی ایجاد اس قدر عام تھی کہ کبلائی خاں نے چین میں اس کو فان چینگ کے خلاف استعمال کیا تھا۔ ملٹری انجنیئرز، منجنیق اور دیگر محاصرے کے مشینوں کے انچارج ہوتے تھے۔ چرخ کمان Crossbow کا استعمال بارھویں صدی میں شروع ہو چکا تھا۔ چرخ کمان سے متعدد تیر دشمن کی طرف پھینکے جا سکتے تھے۔ یوں دشمن سمجھتا کہ قلعہ کا دفاع کئی فوجی کر رہے ہیں۔

قلعہ بندی

طلوع اسلام سے قبل عرب میں قلعہ بندی کی کوئی روایت نہیں تھی۔ صرف طائف شہر کے اطراف میں دیواریں تعمیر کی گئی تھیں۔ چنانچہ عربوں نے ہمسایہ ممالک کو فتح کیا جہاں قلعہ بندی کی جاتی تھی انہوں نے ان کی تقلید میں قلعہ بندی کے طریقوں کا استعمال اپنا لیا۔ رفتہ رفتہ جب بازنطینی، مغرب اور اسلامی ممالک میں کراس فرٹی لا ئزیشن ہوئی تو ہرایک نے دوسرے سے دفاع، محاصرے کی تکنیکوں کو اپنا لیا تا دفاع کے طریقوں کو پہلے سے بہتر بنایا جا سکے۔ اکثر اسلامی شہروں کے گرد فصیل ہوتی تھی جس کے سامنے خندق کھودی گئی ہوتی تھی۔ فصیل پہلی لائن آف ڈی فنس ہوتی تھی۔ بعض برج (ٹاورز) بھی بنائے جاتے یا پھر قلعہ کی دیواریں مو ٹی موٹی ہوتی تھیں۔ اسلامی قلعہ بندی کی ایک مثال رباط (ملٹری ٹاؤن) ہوتا تھا جس کے ارد گرد جاں نثار فوجی تعینات ہوتے تھے۔ ربا ط ساحلی علاقوں اور ملکوں کی حدوں پر تعمیر کیے جاتے تھے۔

ملٹری کمیونی کیشن

اسلامی فتوحات کے اولین دَور میں ملٹری کمیونی کیشن اونٹ سواروں کے ذریعہ ہوتی تھی۔ بنوامیہ کے دَور حکومت میں پوسٹل سسٹم (برید) شروع ہو چکا تھا۔ یہ نظام عباسی دَور حکومت میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ ایران کو لے جانے والے پیغامبر خچر پر سفر کرتے جبکہ باقی ممالک کے لیے گھوڑے یا اونٹ استعمال ہوتے تھے۔ ایران میں بو وید حکمران کبوتر بھی بطور قاصد کے استعمال کرتے تھے۔ مملوک حکمران جب منگولوں کے خلاف شمالی سرحدوں پر نبرد آزما تھے تو خطرے کی گھنٹی دمشق، پا لمیرا، نابلس، غازہ میں اونچے مقامات پر چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ شام اور مصر میں کبوتروں کے لیے برج (ٹاورز) تعمیر کیے گئے تھے۔

آتشیں اسلحہ اور گن پاؤڈر

اسلامی فتوحات کے آغاز میں ہی آتشیں اسلحہ کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ ایسا اسلحہ باز نطینی فوجوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ عباسی افواج میں آتشیں سپاہیوں کا خاص دستہ ہوتا جس کا نام نافطون تھا۔ ایسے فوجی فائر پروف لباس زیب تن کر کے آتشیں ہتھیار پھینکا کرتے تھے۔ عربی میں نفط کا لفظ پٹرولیم کے علاوہ آتشیں مادہ کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا۔ مائع پیٹرولیم جو ایران، عراق میں وافر مقدار میں پایا جاتا تھا چونے اور سلفر کے مکسچرکو پانی سے ملنے پر رد عمل کرتا تھا۔ یعنی چونے، سلفر اور نفط کا مکسچر۔ کشید کیا ہوا نفط آتشیں اسلحہ کے نسخہ میں بنیادی جزو ہوتا تھا۔ مگر شورہ (پو ٹاشیم نائیٹریٹ)بھی بعد میں کثرت سے استعمال ہونے لگا تھا۔ آتشیں اسلحہ کو پھینکنے کے لیے مختلف طریقے تھے ایک طریقہ زراقہ تھا جس میں پیتل کے پسٹن پمپ کے ایک کونے میں سے آتشیں مادہ (شہاب) باہر خارج ہوتا تھا۔ پائپوں کے ذریعہ پیتل کا ایک بکس جو نفط سے لبریز ہوتا پمپ سے جوڑ دیا جا تا تھا۔ امریکی مصنف جان فری لی کا کہنا ہے:

Muslim armies were equipped with incendiary weapons and other methods of chemical warfare devised by alchemists, all of which are described in Islamic treatises on military technology and the art of war.

(John Freely Light from the East, New York, 2011, page 119)

گرینیڈ اور آتشیں برتن

گن پاؤڈر بنانے کی ترکیب الرماح نے دی جو سالٹ پیٹر، چار کول اور سلفر کے مکسچر سے بنتا تھا۔ گن پاؤڈر جس قسم کے برتنوں میں سٹور کیا جاتا تھا وہ بعض چھوٹے اور بعض بڑے ہوتے تھے۔ ان کے لیے متعدد ملٹری اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں۔ ایک کا نام قرض تھا جو گلاس یا مٹی کا بنا ہوتا۔ صلیبی دور کے بہت سے گرینیڈ جو مصر، فلسطین اور شام کے جنگی علاقوں سے ملے ہیں ان کی صورت ایرو ڈائی نامک aerodynamicہے۔ ان میں کسی قدرشورہ ہوتا تھا۔ بڑی سائز کے آتش انگیز برتن کا نام قدر Qidr تھا جس کو منجنیق mangonelsکے ذریعہ پھینکا جاتا تھا۔

نجم الدین حسن الرماح ملٹری سائنس کا پروفیسر (الاستاذ) تھا جس نے’’ کتاب الفروسیہ والمناصب الحربیہ ‘‘سپردقلم کی تھی۔ اس نے کتاب میں تارپیڈو بنانے کی ڈایاگرام دی جس کی صورت انڈے یا ناشپا تی جیسی تھی اور پانی میں تیرتے ہوئے دشمن کے بحری جہاز کو تباہ کر سکتا تھا، یہ شیٹ آئرن کا بنا ہوتا تھا۔ اس میں گن پاؤڈر اور آتش انگیز مادہ بھرا ہوتا تھا۔ اس کو نشانے تک لے جانے کےلیے دو یا تین راکٹ استعمال کیے جاتے تھے۔ اس کی کتاب جلد ہی یورپ پہنچ گئی اور سفید اقوام تار پیڈو بنانے لگیں۔

الرماح کی کتاب کی طرح لکھی گئی ملٹری سائنس پر دیگرکتابوں میں پورٹیبل توپ Cannonکا بھی ذکر ملتا جو منگولوں کے خلاف استعمال کی گئی تھی۔ ایسی توپ گھڑ سوار رسالہ کے خلاف استعمال کی جاتی تھی۔ سپاہی کے نیزے میں گن پاؤڈر، جبکہ سپاہی نے فائر پروف ہیلمٹ، فائر پروف لباس زیب تن کیا ہوتا تھا۔ سپاہی کے گھوڑے پر بھی فائر پروف چادر ڈالی جاتی تھی۔ صلیبی جنگوں کے واقعات سے پتہ چلتا ہےکہ مسلمانوں نے فرنگیوں کے خلاف توپ استعمال کی تھی۔ المنصورہ میں ہونے والی ساتویں صلیبی جنگ 1250ء میں اسلامی افواج نے فرنچ بادشاہ کنگ لوئیس نہم کی افواج سے لڑائی کے دوران راکٹ استعمال کیے تھے۔

الرماح کی تصنیف کتاب الفروسیہ میں پو ٹاشیم نا ئیڑیٹ کے قلماؤ اور ملاوٹ سے پاک کر نے کا نسخہ بھی دیا گیا تھا۔ گن پاؤڈر شورے کے بغیر نہیں بنا یا جا سکتا تھا۔ کتاب میں بارود بنانے کے70 نسخے دیے گئے ہیں۔ بارود عام طور پر شورے، گندھک، اور کوئلہ سے بنایا جا تا تھا۔ فیوز بنانے اور اس کی اقسام بھی بتائی گئی تھیں۔

توپ اور راکٹ

شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور حکومت میں فنا نس منسٹر اورمشہور موجد، انجنیئرفتح اللہ شیرازی (م1582)کی اہم ترین ایجادات میں دو توپیں تھیں۔ پہلی ایک نال کی توپ کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ قلیل وقت میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جائی سکتی تھی۔ اس میں سے بیک وقت 12راؤنڈ نکلتے تھے اور اس کے ہر حصے کو الگ الگ کر کے ضرورت کے وقت جلدی میں جوڑا جا سکتا تھا۔ دوسری توپ 17نالوں کی تھی جس میں 17 نالوں کوایک قطار میں جوڑ دیتے تھے تا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت پر تیز ی سے ایک کے بعد ایک فائر کر کے دشمن کو پسپا کردے۔ یہ توپ قلعوں کی موٹی دیواروں کو توڑنے کے کام آتی تھی۔

(مسلمانوں کے سائنسی کارنامے صفحہ514)

نظام الدین شاہ عبد الغنی کے فرمان پر محمد بن حسن رومی نے 1585ءمیں ایک توپ بنائی جو14فٹ13 انچ لمبی، اس کا ڈایا میٹر 5فٹ12 انچ، اور اس کا وزن 1120من تھا۔ یہ توپ مختلف دھاتوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کا نام ملک میدان تھا اور اب بھی بیجا پور میں نمائش کے لئے رکھی ہوئی ہے۔

( مسلمانوں کے کارنامے صفحہ528)

امریکہ میں رہنے والے ایرانی مؤرخ اور کثیر کتابوں کے مصنف سید حسین نصر نے اپنی کتاب Islamic Science – an illustrated study مغرب میں شائع ہونےوالی عربی کتاب میں دو مشینوں کی ڈایا گرام دی ہیں جو توپیں بنانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ ایک مشین کی ڈایاگرام بھی دی ہے جو مغل انڈیا میں توپ بنانے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔

آتش گیر مادے کو ٹرانسپورٹ کر نے کےلیے راکٹ استعمال کیے جاتے تھے۔ ایک قسم کے راکٹ کا نام سہم یعنی تیز ترین تھا۔ بارود کے فیوز اور گر ینیڈ کوراکٹ کی لانچ سے پہلے شعلہ زن کر دیا جاتا تھا۔ ایک راکٹ جس کو سہم طولیٰ کہتے تھے اس کے ڈیزائن میں اس کے دونوں طرف پتوار تھے تا کہ اس کو گائیڈ کر سکیں۔ اس راکٹ میں 218گرام کاغذ، 280گرام بارود بھرا ہوتا تھا جو نصف کلو گرام وزن کے راکٹ کو نشانہ تک لے جا سکتا تھا۔ بعض صورتوں میں یہ واپس بھی آسکتا تھا۔ ایک راکٹ کا نام طیار (اڑنے والا) تھا۔ جبکہ طیار طولیٰ (لمبے فاصلے والا) میں468گرا م کاغذ، اور قدر بارود استعمال ہوتا تھا۔ اس کو مجنون بھی کہتے تھے۔ تیسری قسم کے راکٹ کا نام فتاش تھا جس کے پنکھ یاپتوار چمڑے کے ہوتے، یہ پتنگ کی طرح پرواز کرتا اور اس کے ذریعہ آتش انگیز مادہ قلعوں اور بحری جہازوں پر گرایا جاتا تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button