یادِ رفتگاں

محترم محمد بخش سولنگی صاحب

(پروفیسر محمد شریف خان۔ امریکہ)

میرے تعلیم الاسلام پرائمری سکول کے استاد

محترم محمد بخش سولنگی صاحب (1899ءتا 1984ء)

1946ء میں، مَیں تعلیم الاسلام پرائمری سکول قادیان کی کچی پہلی جماعت کا طالب علم تھا۔ ہماری کلاس، سکول اور تعلیم الا سلام کالج کے درمیان واقع درختوں کی قطار میں ایک گھنے شیشم کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا کرتی تھی۔ ہرروزسکول شروع ہو نے سے دس منٹ پہلے کلاس ما نیٹر دو تین لڑکوں کو سا تھ لیے سٹور سے چٹائیاں، بلیک بورڈ اور ما سٹر صاحب کے لیے کر سی اٹھوا لا تا۔ چٹا ئیاں تین قطاروں میں بچھا دی جا تیں۔

جو نہی دُعا کی گھنٹی بجتی ہم سکول کے و سیع صحن میں دوسری کلاسوں کے ساتھ اپنے ما نیٹر کے پیچھے قطار میں ہاتھ با ندھے کھڑے ہو جا تے۔ تین خوش الحان لڑکے ڈا ئس سے حمدِ باری تعا لیٰ کے الفاظ کہلواتے اور ہم سب بیک آواز دہراتے کہ فضا حمدِ باری تعالیٰ سے گونج اُٹھتی

میری رات دن بس یہی اک صداہے

کہ اس عالمِ کون کا اک خدا ہے

اُسی نے ہے پیدا کیا اس جہاں کو

ستاروں کو سورج کو اور آسماں کو

نہ ہے باپ اس کا نہ ہےکو ئی بیٹا

ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا

پہاڑوں کو اس نے ہی اونچا کیا ہے

سمندر کو اس نے ہی پانی دیا ہے

یہ دریا جو چاروں طرف بہ رہے ہیں

اسی نے تو قدرت سے پیدا کیے ہیں

سمندر کی مچھلی ہوا کے پرندے

گھریلو چرندے بنوں کے درندے

سبھی کو وہی رزق پہنچا رہا ہے

ہر اک اپنے مطلب کی شے کھا رہا ہے

دُعا کے بعد جو نہی فضا میں پہلی گھنٹی کی آ وازگونجتی ہم واپس اپنی کلاس میں لو ٹ آتے۔ ہمارے انچارج ٹیچر محترم ماسٹرمحمد بخش سو لنگی صاحب جب تشریف لاتے ما نیٹر آگے بڑھ کر سلام کہتا، مانیٹر کے ’’کلاس سٹینڈ‘‘ کے جواب میں ساری کلاس کھڑی ہو جاتی، مانیٹرآگے بڑھ کر ماسٹر صاحب سے سائیکل پکڑ کر درخت کے تنے کے ساتھ کھڑی کر دیتا۔ ماسٹر صاحب السلام علیکم فرماتے، ہم و علیکم السلام عرض کرتے۔ ماسٹر صاحب ہمیں بیٹھنے کی اجازت دیتے۔

حاضری ہو تی، لبیک… لبیک! اور با قا عدہ پڑھائی کا آغاز قا عدہ یسرناالقرآن کے سبق سے ہو تا، پھر نماز کے سبق کی دُہرائی، ماسٹرصاحب آ مو ختہ سنتے، اپنے کُر تے کی سا ئیڈ جیب سے مو ٹی سی مسواک نکا لتے اورآ مو ختہ نہ سنا سکنے والوں کے ہاتھ پر دو تین بارآہستہ سے مسواک مار کر ٹوکن سزا دیتے اور آئندہ یاد کر کے آنے کی تلقین کر تے۔

محترم ماسٹر صاحب نہا یت سادہ طبیعت، شفیق، سفید ڈھیلی ڈھالی پگڑی، قمیص اور تہمد میں ملبوس، بڑی محبت سے پڑھاتے۔ ماسٹر صاحب کا مسکراتا ہوا بزرگ چہرہ اب تک میری بچپن کی یادوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ مر حوم کو جنت الفردوس میں ا علیٰ مقام سے نوازے۔ آمین۔

ماسٹر محمد بخش سولنگی صاحب کے سوانح

مکرم ماسٹر محمدبخش سولنگی ولد نظام الدین قوم سولنگی راجپوت، پنجاب انڈیاکے ایک گاؤں لودھی وال (ضلع کپور تھلہ ) میں 5؍جون 1899ء کے دن پیدا ہو ئے۔ آپ پانچ بہنوں کے اکیلے بھائی تھے۔

آپ مقامی سکول میں داخل ہوئے، آپ بچپن سے ہی نیک اورصاف ذہن تھے۔ اُن دنوں احمدیت کے خلاف مہم ہندوستان میں زوروں پر تھی۔ آپ کا ایک ٹیچر روزانہ کلاس میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی شان میں گستاخانہ باتیں کرتا رہتا تھا۔ آپ اگرچہ احمدی نہیں تھےمگر آپ کو اُستاد کی کسی کے بارے میں گستاخیاں بُری لگتی تھیں۔ آپ نےحقیقتِ حال خودمعلوم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں، ایک دو کتابیں پڑھنے سے ہی آپ پر احمدیت کی سچائی آشکار ہو گئی۔ اور آپ قادیان جاکر 1919ء میں 20سال کی عمر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت کے نور سے منور ہو ئے۔ آپ کی فیملی نقل مکانی کر کے قادیان کے نواحی گاؤں کھارا میں آ مقیم ہو ئی۔ آپ کے احمدیت قبول کرتے ہی آپ کی بہنوں اور ان کی اولاد نے آپ کی سخت مخالفت شروع کر دی، گالی گلوچ اور استہزا سے بھر پور خطوط پر آخر دم تک قائم رہے۔

آپ ان سب مشکلات سے صرفِ نظر کر کے، تما م عمرخداتعالیٰ اور اس کی پاک کتاب کے مطالعہ میں منہمک رہے۔ آپ نے تعلیم سے فارغ ہو کر معلمی کا پیشہ اختیار کیا، اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مختلف کلاسوں کو حساب، دینیات اور قرآنِ کریم پڑھا تے رہے۔ آپ بہت محنتی، مہربان اور شفیق استاد تھے۔ آپ بڑی دھیمی آواز میں پُرشفقت طریق پر پڑھاتے۔

احمدیت قبول کر نے کے بعد آپ بڑی سُرعت کے ساتھ روحانی منازل طے کر تے ہوئے، مستجاب الدعوات بزرگ بن گئے۔ خدا کی تلاش کی پیاس میں اس قدر کھو گئے کہ ان کی راتیں خدا تعالیٰ کی عبادت اور یاد میں اور تلاوتِ قرآنِ کریم میں گزرتیں۔ اُسی تخت پوش پر سوتے، اور عبادت بجا لاتے۔ کھانے پینے کی کو ئی پرواہ نہ ہو تی۔

تقسیم ِملک کے بعد آپ کی فیملی ہجرت کر کے گوجرانوالہ میں مقیم ہو گئی۔ آپ نے یہاں بھی تبلیغ کرنے کا شعار اپنائے رکھا۔ کئی لوگوں کو قرآنِ کریم پڑھا یا۔ لوگ دورونزدیک سے حاضر ہو کر یا خطوط کے ذریعے اپنی حاجات کے لیے دعا کرواتے۔

آپ احمدیت کی تبلیغ کے لیے ہردم بلا دھڑک کو شاں رہتے۔ 1947ء کے ہنگاموں کے پُر آشوب دَور کے دوران بھی آپ گلی کوچوں میں گزر تے ہو ئےبلند آواز سے کہتے جاتے لوگو سنو مسیح ومہدی آگیا ہے اس پر ایمان لا ؤ۔

آپ کو محلہ داروں نے ہر طرح سے تکلیف دینے پر کمر کس لی تھی، گالیاں دینے کے علاوہ آپ پر غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کو اپنا شعار بنا یاہوا تھا۔ آخر جب مخالفت انتہاکو پہنچ گئی اور لوگ جان کے درپے ہو گئے، تو گوجرانوالہ کا مکان بیچ کر شریف پارک سمن آباد لاہور میں 1979ء میں مکان خرید کر وہاں آباد ہو گئے۔

آپ بہت مستجاب الدعوات اور صاحبِ کشف و الہام بزرگ تھے۔ آپ اکثر کہتے، میں نے سب کچھ خلافت کی برکت سے حاصل کیا ہے، خلافت سے ناطہ جوڑو پھر معجزہ دیکھو! آپ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، اور کہتے اسی میں تمام برکات وابستہ ہیں۔ آپ رستہ چلتے و قت اپنی آنکھیں ہمیشہ نیچی رکھتے۔ راستے میں کوئی تکلیف دہ کانٹے، پتھر وغیرہ دیکھتے تو ہٹا دیتے۔ آپ ایک صُلح جو انسان تھے۔ لڑائی جھگڑے سے دور رہتے، اور ہمیشہ کو شش کرتے کہ بات چیت سے جھگڑا ختم ہو جا ئے۔

اولاد

اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں اور چا ربیٹیوں، 12 پوتوں، 7پوتیوں، 9نواسوں، اور 4 نواسیوں سے نوازا۔

آپ کی اولاد خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان، جرمنی، کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا میں پھیلی ہو ئی ہے۔ سب اللہ کے فضل سے خلافت سے تعلق رکھنے والے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

ماسٹر صاحب مرحوم کے ایک پوتے ڈاکٹر مبشراحمد، پی ایچ ڈی، امریکہ کی مسیسپی ریاست میں انسٹی ٹیوٹ فار میرین میمل سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ موصوف تعلیم الاسلام کالج، ربوہ میں میرے شاگرد رہے ہیں۔

وفات

ماسٹر صاحب کی وفات 85سال کی عمر میں 15؍ اگست 1984ء کے دن لاہور میں پیرانہ سالی کے باعث ہوئی، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودہ خاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی آل اولاد پر برکتیں نازل فرمائے۔ آمین۔

حرفِ آخر

خاکسار ماسٹر صاحب مرحوم کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مکرم سلیمان سلیم احمد سولنگی (جرمنی) کا سپاس گزار ہے(جن کا اکثر وقت مرحوم ماسٹر صاحب کے ساتھ گزرا)۔ انہوں نے ماسٹر صاحب مرحوم کی زندگی کے بارے مجھے معلومات بہم پہنچائیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button