پردہ

شرعی پردہ کی وضاحت

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا ایک احمدی مسلمان عورت کےلیے اپنے پاؤں کو پردہ سے باہر رکھنا جائز ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 3؍مئی 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:قرآن کریم نے جہاں پردہ کے احکامات بیان فرمائے ہیں وہاں پہلے مومن مردوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اس کے بعد مومن عورتوں کےلیے پردہ کے احکامات بیان فرماتے ہوئے انہیں پہلا حکم یہی دیا کہ مومن عورتیں بھی اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اور پھر انہیں کہا کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں۔ اور اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ لوگوں پر وہ ظاہر کر دیا جائے جو عورتیں عموماً اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔

پاؤں زمین پر نہ مارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر پاؤں میں کوئی زیور(پازیب وغیرہ) پہنی ہوئی ہے تو اس کی چھنکارسے لوگوں کی توجہ اس خاتون کی طرف ہو سکتی ہے اور غیروں کی نظریں اس پر اٹھ سکتی ہیں جو پردہ کے حکم کے منافی ہے۔

اسی طرح اگر پاؤں پر مہندی یا نیل پالش وغیرہ لگا کر ان کاسنگھار کیا گیا ہے تو ایسے پاؤں غیر مردوں کےلیے کشش کا موجب ہو سکتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غیرمردوں کی نظریں ایسی عورت پر اٹھیں گی، جس سے پردہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو گی۔ لیکن اگر پاؤں پر کسی قسم کا بناؤ سنگھار نہیں کیا گیاتو ایسے پاؤں سے چونکہ کوئی کشش پیدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی بے پردگی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر انہیں پردہ میں نہ بھی رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

احادیث میں بھی پردہ کے بارہ میں مختلف ہدایات ملتی ہیں۔ ایک حدیث میں حضورﷺ نے عورت کے چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ اس کے جسم کے باقی حصہ کے پردہ کا حکم دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر عورت کے پاس تہ بند نہ ہو تو کیا وہ صرف اوڑھنی اور قمیص میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ بشرطیکہ اس کی قمیض اتنی لمبی ہو کہ اس کے پاؤں کی پشت کو بھی ڈھک دے۔ ایک روایت میں ہے کہ جنگ احد کے موقعہ پر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓ اپنی تہ بند اوپر اٹھا کر پانی کی مشکیں بھر بھر کر لا رہی تھیں اور مردوں کو پانی پلا رہی تھیں، راوی کہتے ہیں کہ اس حالت میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردہ سے متعلق قرآنی آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے۔ یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341-342)

شرعی پردہ کو بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں۔ مثلاً منہ پر ارد گرد اس طرح پر چادر ہو (اس جگہ انسان کے چہرہ کی شکل دکھا کر جن مقامات پر پردہ نہیں ہے ان کو کھلا رکھ کر باقی پردہ کے نیچے دکھایا گیا ہے) اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ ‘‘

(ریویو آف ریلیجنز جلد 4نمبر1صفحہ 17جنوری 1905ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غض بصرکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مقصدمرد اور عورت کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے ورنہ جو عورت بھی باہر نکلے گی اس کے پاؤں اور اس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی کئی چیزیں مردوں کو نظر آئیں گی۔

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 298)

پس مذکورہ بالانصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کا ہر وہ حصہ جو اس کی زینت کے زمرہ میں آتا ہو اور غیر محرم کےلیے کشش کا باعث ہو، عام حالات میں اس کا پردہ کرنا عورت پر لازم ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button