خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ دسمبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ … ایم ٹی اے کے ساتھ تعلق رکھیں اور خاص طور پر جمعے کے خطبات ضرور سنا کریں تاکہ خلافت سے تعلق قائم رہے

الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر نوافل اور خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

پانچ مرحومین مکرمہ حمُدیٰ عباس صاحبہ اہلیہ مکرم عباس بن عبدالقادر صاحب خیرپور سندھ،مکرم رضوان سید نعیمی صاحب عراق، مکرم ملک علی محمد صاحب ہجکہ ضلع سرگودھا مکرم احسان احمد صاحب لاہور اور مکرم ریاض الدین شمس صاحب کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ دسمبر 2020ء بمطابق 25؍ فتح 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 25؍ دسمبر2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےگذشتہ خطبات کے تسلسل میں حضرت علیؓ کا ذکر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

گذشتہ خطبے میں حضرت عثمانؓ کی شہادت اور باغیوں کا ذکرہوا تھا۔ اس سلسلے میں حضرت علیؓ نے جو کوششیں کیں اس بارے میں ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ چونکہ تم لوگ صحابہ کے مشابہ ہو اس لیے مَیں چاہتاہوں کہ مسلمانوں کی تباہی کے اسباب تاریخ سے بیان کروں۔ پس تم ہوشیار ہوجاؤ اور جو لوگ تم میں نئے آئیں ان کے لیے تعلیم کا بندوبست کرو۔ حضرت عثمان کے وقت جو فتنہ اٹھا تھا وہ صحابہ سے نہیں اٹھا تھا۔ اس فتنے کے بانی صحابہ نہیں تھےبلکہ وہ لوگ تھے جو بعد میں آئے،جنہیں آنحضرتﷺ کی صحبت نصیب نہ ہوئی۔ پس مَیں آپ لوگوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ کثرت سے قادیان آؤ تاکہ تمہارے ایمان تازہ رہیں اور خشیت اللہ بڑھتی رہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آج کل اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی نعمت مہیا فرمادی ہے۔ پس تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعے کے علاوہ ایم ٹی اے کے ساتھ تعلق رکھیں اور خاص طور پر جمعے کے خطبات ضرور سنا کریں تاکہ خلافت سے تعلق قائم رہے بلکہ بہتر ہوتا رہے اور بڑھتا رہے۔

جنگِ جمل حضرت علیؓ اورحضرت عائشہؓ کے درمیان 36؍ ہجری میں ہوئی۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ حضرت عائشہؓ کے ساتھ تھے۔ حضرت عائشہؓ میدانِ جنگ میں ایک اونٹ پر سوار تھیں اس لیے اسے جنگِ جمل کہا جاتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کےقاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل کر اپنے اوپر سے الزام ہٹانے کے لیے دوسروں پر الزام لگاتے تھے۔اسی لیے جب حضرت علیؓ نے مسلمانوں کی بیعت لے لی تو ان کو علیؓ پر الزام لگانے کا عمدہ موقع مل گیا۔

حضرت عائشہؓ فریضۂ حج کی ادائیگی سے واپس آرہی تھیں جب انہیں حضرت عثمانؓ کی شہادت ، حضرت علیؓ کی خلافت اور فتنہ و فساد کی خبر ملی۔ آپؓ مدینے جانے کی بجائے مکّہ واپس تشریف لے گئیں اور لوگوں کو حضرت عثمانؓ کا قصاص لینے کےلیے اکٹھا کیا۔حضرت عائشہؓ،طلحہؓ اورزبیرؓ کے ساتھ ایک بڑا قافلہ بصرہ روانہ ہوا۔ دوسری جانب حضرت علیؓ نے بھی بصرے کا رخ کیا۔دونوں لشکروں کا قیام قریب قریب تھا۔ حضرت علیؓ نے ایک آدمی کو روانہ کیا جو پہلے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؓ کا ارادہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ہمارا ارادہ اصلاح کا ہے۔ پھر وہ شخص حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کے پاس گیا، ان دونوں نے بھی اصلاح کو ہی مقصد بیان کیا۔ اس شخص نے سمجھایا کہ اگر آپ لوگوں کا مقصد اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اگر ایک مجرم کو قتل کریں گے تو اس کی تائید میں ہزار آدمی کھڑے ہوجائیں گے۔ پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسّی میں باندھا جائےپھر شریروں کو سزا دی جائے۔دونوں طرف سے مصالحت کی طرح ڈالی گئی اورمذاکرات کامیاب بھی ہوگئے مگر رات کے وقت وہ گروہ جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھااور اس کا ایک حصّہ حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل تھا، اس گروہ نے حضرت عائشہؓ کے لشکر پر حملہ کردیا۔ حضرت علیؓ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جب تک حضرت عائشہؓ اونٹ پر سوار رہیں گی یہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ آپؓ کے حکم سے حضرت عائشہؓ کے اونٹ کو نشانہ بنایا گیا چنانچہ آپؓ کا اونٹ گرنے کے بعد اہلِ جمل منتشر ہوگئے۔ جنگ کے آغاز میں ہی حضرت زبیرؓ حضرت علیؓ کی زبان سے آنحضرتﷺ کی ایک پیش گوئی سننے کے بعد ،اپنی اجتہادی غلطی بھانپ کر جنگ سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ ایک شقی القلب نے آپؓ کا پیچھا کیا اور اس حالت میں کہ آپؓ نماز پڑھ رہےتھے ان کو شہید کردیا۔ حضرت طلحہؓ نےبھی اپنی وفات سے قبل حضرت علیؓ کی بیعت کا اقرار کرلیا تھا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو مقتولین میں حضرت طلحہؓ کی نعش ملی جس پر حضرت علیؓ نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور آپؓ کے قاتلوں پر لعنت کی۔ جنگ کے اختتام پر حضرت علیؓ نے حضرت عائشہؓ کے لیے سواری اورزادِ راہ کا انتظام کیا اورحضرت عائشہؓ کو چھوڑنے کے لیے خود تشریف لائے۔حضرت عائشہؓ نے اس موقعے پر فرمایا کہ اےمیرے بیٹو! ہم نے تکلیف اور زیادتی سے ایک دوسرے کو ناراض کیا۔ آئندہ ہمارے ان اختلافات کے باعث کوئی شخص ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔ خدا کی قسم میرے اور علی کے درمیان سسرالی رشتےداروں جیسے اختلاف کے سِواکوئی اختلاف نہ تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اےلوگو! حضرت عائشہؓ نے اچھی اور سچی بات کہی، آپ دنیا وآخرت میں نبی کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔

حضرت علیؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ کے درمیان 37؍ہجری میں جنگِ صفین ہوئی۔ صفین شام اور عراق کے درمیان ایک مقام ہے۔ حضرت علیؓ کوفے سےفوج لےکر صفین پہنچے تو حضرت امیرمعاویہ کی سرکردگی میں شامی لشکر وہاں پہلے سے موجود تھا۔ حضرت علیؓ کی یقین دہانی پر کہ وہ لڑنے نہیں آئے حضرت امیر معاویہ تصفیے پر رضامندہوگئے۔حضرت امیرمعاویہؓ کا اصرارتھاکہ حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ کوان کے حوالے کردیں۔ دونوں فریقین کی جانب سےصلح کی ہرممکن کوشش کی گئی تاہم صَفر37؍ ہجری میں باقاعدہ جنگ کا اعلان ہوا۔ جب جنگ کچھ مدت تک کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچی تو امیرمعاویہ کی ہمت پست ہوگئی ۔ اس موقعے پر حضرت عمرو بن عاص نے انہیں مشورہ دیا کہ قرآن مجید کے نسخے نیزوں پر بندھوائیں اور اعلان کروائیں کہ فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جس کے نتیجے میں حضرت علیؓ کےمتبعین میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ حضرت علیؓ کی فوج کی اکثریت نے تحکیم پر رضامندی کا اظہار کیا ۔ شامیوں کی طرف سے عمرو بن عاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو حَکم نامزد کیا گیا۔یہ تحکیم قتلِ عثمانؓ کے واقعے میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہو۔ مگر حکمین نے مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے حضرت علیؓ اور امیرمعاویہ دونوں کو امارت سے معزول کردیا جائے حالانکہ وہ اس لیے مقرر ہی نہیں کیے گئےتھے۔ ایک جلسۂ عام میں حضرت ابوموسیٰؓ نے پہلے حضرت علیؓ کی معزولی کااعلان کیاپھر عمرو بن عاص کھڑے ہوئےاور انہوں نے کہا کہ مَیں ابوموسیٰ کی بات سے متفق ہوں اور حضرت علیؓ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ کو معزول نہیں کرتا۔ حضرت عمرو بن عاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن باوجود نیکی کے انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا یہ ایک علیحدہ مضمون ہے لیکن بہرحال یہ فیصلہ غلط تھا۔ حضرت علیؓ نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور فرمایا کہ نہ حَکم اس غرض کےلیے مقرر تھے اورنہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حکم پر ہے۔منافق طبع باغیوں نے اس صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بحث و مباحثہ کے بعد حضرت علیؓ کی بیعت سے علیحدہ ہوگئے اور خوارج کہلائے۔ انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ واجب الاطاعت خلیفہ کوئی نہیں بلکہ کثرتِ مسلمین کےفیصلے کے مطابق عمل ہوا کرے گا۔

خوارج نے تحکیم کو گناہ قرار دےکر حضرت علیؓ سے توبہ اور خلافت سے معزولی کا مطالبہ کیاجس کے باعث 38؍ ہجری میں حضرت علیؓ اور خوارج کے درمیان جنگِ نہروان ہوئی۔ خوارج نے بصرہ میں جتھا جمع کیا اور عبداللہ بن وہب کو اپناامیر بنایا۔ان لوگوں نے حضرت علیؓ کی مخالفت میں صحابیٔ رسولﷺ حضرت عبداللہ بن خباب، آپؓ کی حاملہ بیوی اور حضرت علیؓ کے سفیر تک کو شہید کیا۔ ایسی صورتِ حال میں حضرت علیؓ نے شام کا ارادہ ترک کرکے ان لوگوں کے مقابلے کا فیصلہ کیا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو حضرت علیؓ نے خوارج کو صلح کی پیشکش کی چنانچہ چار ہزار کے لشکر میں سے ایک سَو حضرت علیؓ سے آملے اور ایک بڑی تعداد واپس لوٹ گئی۔اس جنگ میں تمام خوارج مارے گئے۔ حضرت علیؓ کا لشکر پینسٹھ ہزار سپاہیوں پرمشتمل تھا جس میں سے روایات کے مطابق سات آدمی شہید ہوئے۔

حضرت علیؓ کے واقعات آئندہ ہفتے جاری رہنے کا ذکر کرنے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بار پھر الجزائر اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔الجزائر میں خداتعالیٰ کے فضل سے بہت سارے احمدیوں کو مختلف عدالتوں نے جھوٹے الزامات سے بَری کیا ہے ۔ حضورِانور نے دعاؤں اور نوافل کی طرف توجہ دلاتےہوئے

رَبِّ کُلُّ شَیْءًخَادِمُکَ…۔ اللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فَیْ نُحُورِھِمْ…۔

استغفاراور درود شریف بکثرت پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔

خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔1۔ مکرمہ حمُدیٰ عباس صاحبہ اہلیہ مکرم عباس بن عبدالقادر صاحب خیرپور سندھ۔2۔ مکرم رضوان سید نعیمی صاحب عراق۔ 3۔ مکرم ملک علی محمد صاحب ہجکہ ضلع سرگودھا۔ 4۔ مکرم احسان احمد صاحب ولدمکرم شفقت محمود صاحب لاہور۔ 5۔ مکرم ریاض الدین شمس صاحب ابن مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت ، بلندیٔ درجات اورلواحقین کے لیے صبرِجمیل عطا ہونے کی دعا کی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button