متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان اور میرا بچپن

(فوزیہ طلعت شمیم۔ بیلجیم)

خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو

دیارِ مہدئ آخر زماں میں رہتے ہو

فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر

ہم اس سے دور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں اور شمع خلافت سے وابستہ اور اس کے نور کے سائے میں پروان چڑھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے آقا کو صحت وسلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمیں ہمیشہ خلافت کی شفقت و محبت سے وابستہ رکھے آمین۔

ہماری جماعت کے اہم پروگراموں میں سے ایک پروگرام جلسہ سالانہ ہے جس کا ہمیں ہر سال بے صبری سے انتظار رہتا ہے چاہے وہ جلسہ سالانہ یوکے، جرمنی یا قادیان ہو۔

قادیان وہ سر زمین جو مسیح پاک علیہ السلام کی جائے پیدائش اورمسکن رہی ہے اور اسی وجہ سے ہمیں اس سے خاص عقیدت اور محبت ہے۔ دسمبر کا مہینہ ہمیں قادیان کے جلسہ سالانہ کی یاد دلاتا ہے۔ پر اس سال پھر سے حالات کے پیش نظر جلسہ منعقد نہ ہو سکا۔ جلسہ کے التوا نے مجھے قادیان میں گزارے اپنے بچپن کے دنوں کی یاد شدت سے تازہ کر دی ہے۔

جلسہ سالانہ سے پہلے قادیان کی خوب صفائیاں کروائی جاتیں۔ ہر محلے کا ایک نگران مقرر کر دیا جاتا۔ ہمارے محلے کے نگران میرے چھوٹے ماموں (حبیب احمد طارق صاحب) ہوتےجن کے ساتھ ہم سب بچوں کی فوج ہوتی جس میں میرے کزنز اور کچھ گلی کے دوسرے بچے وقار عمل میں حصہ لیتے۔ پانی ڈال ڈال کر جھاڑو لگوائی جاتی، نالیاں صاف کروائی جاتیں۔ سڑکوں اور گلیوں کے کناروں پر چونا ڈالا جاتا، بینرز لگائے جاتے اوربورڈز پر رنگ برنگے چاک سے مہمانوں کے لیے خوش آمدید کے اشعار لکھے جاتے اور ہم سب بچوں کو تاکید کی جاتی کہ جب تک جلسہ ختم نہ ہو جائے کسی نے اس کو مٹانا نہیں ہے اور اس نصیحت پر ایسا عمل ہوتا کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ بورڈ ویسے کا ویسا ہی رہتا۔

مہماں جو کرکے الفت آئے بصد محبت

دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت

احباب سارے آئے تونے یہ دن دکھائے

تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے

پھر اسکولوں میں قیام گاہ کا تیار ہونا۔ سارے بینچز، کرسیاں اٹھا کر ایک کمرے میں رکھ دیے جاتے اور ساتھ ہی پرالی کے بنڈل اسکول میں آنے شروع ہو جاتے۔ اور ایک نئی گیم کا آغاز ہوتا۔ ایک بنڈل سے دوسرے پر چھلانگیں لگانا، نہ ڈسٹ ایلرجی کا کوئی خوف اور نہ ہی کپڑے خراب ہونے کا۔ پھر ہر کمرے میں پرالی ڈالی جاتی۔ دوسری طرف بستروں کو دھوپ لگوانے کا کام بھی ہو رہا ہوتا۔

کس بچی نے کہاں ڈیوٹی دینی ہے یہ ایک اہم سوال ہوتا تھا۔ کوشش یہی ہوتی کہ جہاں ہماری سہیلیاں ہیں وہیں ڈیوٹی دی جائے، پرضرورت کے مطابق جس کے حصے جو کام آتا وہ اسے خوشی سے کرتی۔

شروعات آب رسانی سے ہوئی۔ اس ڈیوٹی کا بھی ایک اپنا ہی مزا ہوتا۔ اندر ہی اندر ایک مقابلہ چل رہا ہوتا کہ کس کے کتنے جگ خالی ہو گئے ہیں۔ پھر کبھی پیغام رسانی کی ڈیوٹی دی تو کبھی قیام گاہ میں مہمانوں کو کھانا کھالانے کی۔ محض ان معمولی باتوں میں بھی سیکھنے والوں کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ دین کی خاطر کسی بھی کام کو چھوٹا نہ سمجھنا، مہمانوں کے آنے پر خوش ہونا ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ مہمان داری کے لیے ہروقت تیار رہنا۔ جو بھی کام آپ کے ذمہ لگایا جائے اُسے خوش دلی اور پوری توجہ سے کرنا۔

جلسہ گاہ کا پرامن اور بابرکت ماحول دل پر ایک عجیب کیفیت طاری کرتا تھا۔ سیدھے ہو کر بیٹھنا، سروں پر دوپٹے رکھنا، تقاریر کو غور سے سننا، زیرلب درود شریف پڑھنا بہرحال مجالس کے سب آداب اس مجلس میں شامل ہونے پر اپنے آپ ہی آجاتے۔ ایسی ہی بابرکت مجالس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ(سورۃ التوبہ:119)

پھر علم وعرفان، ایمان و روحانیت کی ترقی کے لیے لگائی گئی مجالس کو فرشتے اپنے پروں سے ڈھانپ لیتےہیں اور پھر ان میں بیٹھنے والا انسان کبھی بدبخت نہیں ٹھہرتا۔ (مسلم کتاب الذکر) ایسی مجالس میں بکثرت تسبیح وتحمید درود اور استغفار میں لگے رہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ فرشتے ذکر کی مجالس کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔

یقیناً بچپن میں سنی گئی باتوں کا اثر ساری زندگی پر ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ نعرے اور روح پرور تقاریر کا اثر بچوں سے لے کر بڑوں تک یکساں دکھائی دیتا۔ بچپن کی عمر کی کھیتی میں بویا ‍گیااچھا بیج ساری عمر کی عمدہ فصل کا ضامن ہوتا ہے یا پھر یہ کہ یہ نصیحتیں پتھر پر لکیربن جاتی ہیں۔ سچائی سے محبت، جھوٹ سے نفرت، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اوراسی سے دل لگانا، اسی سے مدد مانگنا اور اسی پر توکل کرنا، ہر حال میں اس کا شکر گزار رہنا، خدمت دین کے لیے ہر وقت تیار رہنا، انصاف کا قیام، درگزر، احسان، حیا، ادب وغیرہ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلوٰۃ و السلام نے بھی شاملین جلسہ کے لیے بے شمار برکات کا وعدہ فرمایا ہے ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمۃ اللہ پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے۔ اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 341)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کاخوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔ ‘‘

(شہادۃالقرآن)

1991ء کا جلسہ سالانہ قادیان نہایت بابرکت اور اپنے آپ میں ایک بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قادیان تشریف لائے۔ یہ ہجرت کے بعد پہلی بار کسی خلیفۃالمسیح کا قادیان میں آنا تھا۔ لوگوں کے جذبات اور خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جیسے پیاسی زمین پر ابر رحمت کی برسات ہو۔ قادیان کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔ دنیا بھر سے شاملین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ گلیوں اور سڑکوں پر چلنا مشکل تھا۔ بیت الدعا، بیت الذکر، بیت الفکر، مسجد مبارک اور مسجد اقصی ٰکی زیارت کے لیے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہوتیں۔ خلیفہ وقت کے پیچھے نمازیں پڑھنے، دعائیں مانگنے کے لیے ہر کوئی بے قرار تھا۔ مجالس سوال وجواب اور دیگر مجالس میں شرکت کا موقع کوئی بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ صبح نماز کے بعد جب حضورؒ بہشتی مقبرہ دعا کی غرض سے تشریف لے جاتے تو سڑک کے دونوں طرف لوگ اپنے پیارے امام کے دیدار اور مصافحہ کی غرض سے کھڑے رہتے۔ احمدی تو احمدی ہندو سکھ بھی اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مبارک قدموں کا قادیان کی سرزمین پر پڑنا تھا کہ قادیان کی ترقی شروع ہو گئی۔ گیسٹ ہاؤسز اور کئی نئی عمارات کی تعمیر عمل میں آئی۔ پھر 2005ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قدم بوسی کا شرف قادیان کی سر زمین کو حاصل ہوا۔ اس کے بعد تو جیسے قادیان کی کایا ہی پلٹ گئی ہو اور آج قادیان پنجاب کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

اللہ ہمیشہ یہ خلافت رہے قائم

احمد کی جماعت میں یہ نعمت رہے قائم

ہمارے جلسہ سالانہ ہمارے جنت کے باغ ہیں

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! جنت کے باغ سے کیا مراد ہے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں۔

اللہ کرے کہ حالات جلد بہتر ہوں اور ہمیں اپنے کھوئے ہوئے جنت کے باغ دوبارہ حاصل ہو جائیں اور ہم سب اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے بنیں۔ آمین

وہ قادیاں کی رونقیں وہ کو بہ کو محبتیں

خدا کرے ہمیں ملیں جہاں کہیں بھی ہم رہیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button