متفرق مضامین

وہی بن گیا مرجعِ خاص و عام جو اس کی گلی میں زیادہ گیا

(نصیر احمد حبیب۔ لندن)

دید بہ شنیدمبدل گردد

انیسویں صدی کے اختتام پر برطانوی ہندوستان نئی سیاسی کروٹیں لے رہا تھا ۔ مغربی علوم کو فروغ حاصل ہو رہا تھا اور ملٹن اور شیکسپیئر کی زبان ہندوستان کی اشرافیہ کی زبان بن چکی تھی ان کا مذہب سپنسر(Spencer) اورکامید(Comte) کا مذہب تھا اور ان کا فلسفہ بینتھم (Bentham) اور مِل (Mill) کا فلسفہ تھا۔

(Abdul Hamid: Muslim separatism in India1-26)

ہندوستانیوں کی نظر جدید تعلیم اور اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کی طرف تھی ۔ مسلمانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ہندوہم سے ملازمتوں میں بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں اس زمانہ میں صرف ایک شخص تھا جو خدا کا نام لے رہا تھا۔ جو یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کا مسئلہ مادی نہیں روحانی ہے۔ زمین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک ان کا تعلق آسمان سے مضبوط ہے ۔ اس کی گواہی ہمیں اردو کے ایک صاحب طرز ادیب جس نے ’’دہلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ جیسی تہذیبی دستاویز تحریر کی یعنی مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک تحریر سے ملتی ہے ۔ لکھتے ہیں:

’’اب ایک ایسے شخص سے میرے ملنے کا حال سنیے جو اپنے فرقے میں نبی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقے والے جانے اس کو کیا کچھ نہیں کہتے ۔ یہ کون ہے ؟جناب مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیہ… ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں۔ اس لیے جب دہلی آتے تو مجھے ضرور بلا بھیجتے ۔ اور پانچ روپیہ دیتے۔ میں اس زمانہ میں ایف اے میں پڑھتا تھا ۔ زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا ذکر ملتا تھااور اس پر وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں ۔ اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہو گی اس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ سے ہٹے رہیں گے۔ ‘‘

(عالمی ڈائجسٹ کراچی بابت اکتوبر 1968ء صفحہ 73-74)

یہ وہ تناظر تھا جب خدا کا ایک فرستادہ دنیا کو یہ بتانے چلا تھا ’’تمہارا یہ خدا ہے‘‘ چنانچہ پنجاب کے ایک دور دراز قصبہ قادیان میں 1891ء میں جلسہ منعقد ہوا جس میں 75کے قریب احباب نے شرکت کی۔ اس جلسہ کا مقصد ربّانی باتوں کو ایمان و یقین اور معرفت کی ترقی کے لیے بیان کرنا تھا ۔ جلسہ کے قیام کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں قلب کو ہے۔ جس طرح انسانی جسم میں خون قلب کی طرف آتا اور پھر ایک نئی توانائی کے ساتھ جسم کے ہر حصہ میں پہنچتا ہےاس طرح احباب جماعت مرکز میں آتے اور ربّانی باتوں کو سنتے ایک نئی توانائی حاصل کرتے اور پھر جوش قدح سے بزم چراغاں کر دیتے۔پنجابی کے مشہور شاعر انور مسعود صاحب نے ایسے ہی نہیں کہاتھا ’’جو بھی اچھا کام کرے لوگ اسے قادیانی کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی کسی چور اچکے ڈکیت پر قادیانی ہونے کا الزام نہیں لگتا‘‘۔

اس کی وجہ یقیناً صالحین کی صحبت اور ربّانی باتیں تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کونوا مع الصدقینکی تشریح میں فرماتے ہیں ’’صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور ارتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو‘‘۔

(الحکم جلد 6 نمبر12مورخ 31 مارچ 1902)

جلسہ سالانہ کے چشم دید واقعات خاکسار نے اپنے بچپن میں اپنے والد محترم حبیب احمد (سابق پروفیسر جامعۃالاحمدیہ)سے سنے۔ وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ جب حضور رضی اللہ تعالی عنہ تقریر فرماتے حاضرین کے دل گویا ان کی مٹھی میں ہوتے ادھر مضمون کی وضاحت کے لیے کوئی دلچسپ واقعہ بیان کرتے محفل کشت زعفران بن جاتی ۔ ادھر کسی دنیا دار کی کسی دل گداز واقعہ کے نتیجہ میں کایا پلٹ جانے کی داستان بیان کرتے تو حاضرین چشم پُر آب ہو جاتے ۔ اپنی والدہ محترمہ سے خاکسار نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کا ذکر سنا جہاں آپؓ نے عالم روحانی کے نوبت خانے کا ذکر کرتے ہوئے بڑے جلالی انداز میں فرمایا :

’’اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں !‘‘

میری یادوں کا سلسلہ 1970ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے جب خاکسار طفل تھا لیکن 40سال گزر جانے کے بعد بھی تقاریر کے بعض اقتباسات اس طرح دل پہ نقش ہو گئے ہیں گویا کل کی بات ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تقریر فرما رہے تھے اچانک آپؒ نے ارشاد فرمایا وہ احباب کھڑے ہوجائیں جو بیرونی ممالک سے آئے ہیں۔ 75سے زیادہ احباب کھڑے ہوگئے ۔آپؒ نے فرمایا : ایک وہ وقت تھا کہ جلسہ میں شمولیت کے لیے 75 احباب آئے تھے اور آج 75سے زیادہ احباب بیرونی ممالک سے آگئے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ جماعت کی ترقی کا ایک ثبوت تھا۔’’شنید بہ دید مبدل گردد‘‘

اللہ کے فضل سے گزشتہ سال کے موقع پر 91؍ممالک کے نمائندگان تشریف لائے ۔جماعت کی ترقی کے سلسلہ میں یہ زبردست فعلی شہادتیں ہیں ۔ میر تقی میر نے کہا تھا ؎

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

تاریخوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ درج ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے لیے آئے تو آپ نے تنہائی میں آپ سے عرض کی میں مدینہ منورہ میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے علم دین پڑھا کرتا تھا۔ وہ بہت بڑے عالم اور بڑے صاحب کمال صوفی تھے۔ نقشبندی خاندان میں بیعت لیا کرتے تھے اور بہت سے لوگ ان کی بیعت کیا کرتے تھے ۔میرا بھی کئی دفعہ ان کی بیعت کرنے کو دل چاہا مگر دل رک جاتا ۔ یہی خیال آیا کہ بیعت کا فائدہ کیا ہے؟ ایک دفعہ میں نے ان سے عرض کرہی دیا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں انہوں نے ہاتھ آگے بڑھایا میں نے ہاتھ بڑھایا مگر پھر رک گیا میں نے کہا پہلے یہ مجھے بتا دیجئے کہ بیعت کا فائدہ کیا ہوگا ؟فرمانے لگے قال بہ حال مبدل گرددشنید بہ دید مبدل گردد( یعنی یہ علم جو پڑھتے ہو بطور حال وارد ہو جائے گا اور جو کچھ سنتے ہو آنکھوں سے دیکھ لو گے) میں نے عرض کیا کہ آپ میری بیعت لے لیں فرمانے لگے ایک شرط کے ساتھ بیعت لیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میرے پاس کافی عرصہ ٹھہرو۔ میں نے منظور کر لیا اور بیعت ہو گئی ۔ میں کافی عرصہ ان کی خدمت میں ٹھہرا اور جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا وہ سب باتیں پوری ہوئیں۔ اب آپ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام)کی بیعت کا فیض کیا ہوگا ؟حضرت مرزا صاحب یہ واقعہ سن کر ہنس پڑے ( فرمایا )میری بیعت سے ’’دید بہ شنید مبدل گردد‘‘ میں نے کہا پھر آپ میری بیعت لے لیں چنانچہ بیعت ہوگی پھر واقعی ایسا ہوا کہ آپ کے فیض سے صرف شنید پر اتنا زبردست ایمان پیدا ہوگیا کہ کسی دید کی ضرورت ہی نہیں رہی یعنی بغیر دیکھے ہوئے محض سننے سے ایسا ایمان اور یقین دین کی باتوں پر پیدا ہوجاتا تھا کہ کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی تھی۔

( مجدداعظم حصہ اول صفحہ 216)

چنانچہ ان زبردست تاریخی شہادتوں کی روشنی میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر پڑھتے ہیں:

’’ ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰؑ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہوکر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ یں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا ۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘

(تذکرۃ شہادتین،روحانی خزائن جلد 20صفحہ67)

تو محض سننے سے ہی ایسا ایمان ویقین پیدا ہوتا ہے گویا کسی دید کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔

’’دید بہ شنید مبدل گردد‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button