حضرت مصلح موعود ؓ

کامیابی

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

جناب خواجہ حسن نظامی صاحب کے زیر انتظام دہلی سے ایک نیا رسالہ ’’کامیابی‘‘ کے نام سے جاری ہوا جس کا مقصد مسلمانوں میں تجارتی کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کرنا تھا۔ مکرم خواجہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے درخواست کی کہ حضور اس کی پہلی اشاعت کے لیے مضمون عنایت فرمائیں۔ حضور ان دنوں خود مسلمانوں کو تجارت کی طرف بار بار رغبت دلا رہے تھے۔ چنانچہ اس نیک مقصد کے لیے حضور نے ایک مختصر مضمون تحریر فرمایا جو رسالہ ’’کامیابی‘‘ کے پہلے پرچہ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون اخبار الفضل 12؍ جولائی 1929ء میں بھی شائع کر دیا گیاجو افادۂ عام کے لیے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنوں سے عام طور پر ہمارے اہل ملک ناواقف ہیں اور یہی ہماری ناکامیوں کی وجہ ہے۔ ہمارے ملک میں کامیابی نام ہے روپیہ کا۔ کامیابی نام ہے اچھے کپڑے پہننے کا اور اچھے کھانے کھانے کا۔ کامیابی نام ہے لوگوں پر تسلط پانے اور حکومت کرنے کا۔ مگر حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ غلط مفہوم کامیابی کا نہیں ہو سکتا۔ جن چیزوں کو ہم کامیابی قرار دیتے ہیں انہی کو اپنا کام یعنی مقصد بنا لینا کامیابی کے راستہ میں روک ہوا کرتا ہے۔ یہ چیزیں خود کامیابی نہیں بلک بعض دفعہ کامیابی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے بعض لوگ پوچھ بیٹھا کرتے ہیں کہ حضرت امام حسینؑ کیوں ناکام ہوئے اور یزید کیوں کامیاب ہوا۔ حالانکہ اگر غور کرتے تو یزید باوجود مال و دولت اور جاہ و حشم کے ناکام رہا اور حضرت امام حسینؑ باوجود شہادت کے کامیاب رہے۔ کیونکہ ان کا مقصد حکومت نہیں بلکہ حقوق العباد کی حفاظت تھا۔ تیرہ سو سال گذر چکے ہیں مگر وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسینؑ کھڑے ہوئے تھے یعنی انتخابِ خلافت کا حق اہل ملک کو ہے، کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعد بطور وراثت اس حق پر قابض نہیں ہو سکتا، آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ بلکہ ان کی شہادت نے اس حق کو اَور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ پس کامیاب حضرت امام حسینؑ ہوئے نہ کہ یزید۔

قرآن کریم نے نہایت مختصر الفاظ میں کامیابی کا گُر بتایا ہے اور میں اس کی طرف ناظرین کو توجہ دلاتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ(التوبہ :100)

یعنی وہ لوگ جو دوسروں سے آگے نکلنے اور اول رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان لوگوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی ہر اک چیز کو قربان کر دیتے ہیں یا ایسے لوگوں کے ممد اور معاون ہے کہ کامیابی کا گُر یہ ہے کہ کوئی قوم ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے جو قربانی چاہتے ہیں اور جن کا فائدہ بادی النظر میں انسان کی اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو ہی پہنچتا ہے، دوسری اقوام سے آگے بڑھنے اور اول رہنے کی کوشش کرے۔ یہ وہ گُر ہے جسے ہماری قوم نے نظر انداز کر دیا ہے۔ اور یہی وہ گُر ہے جس کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ ہمارے اندر دولت مند بھی ہیں اور صاحب جائداد بھی لیکن باوجود اس کے ہم کامیاب نہیں۔ اس لئے کہ ہماری قوم اور ہمارے اہل ملک کی کوششیں اپنے نفس کی عزت اور اپنے آرام کے حصول کے لئے خرچ ہوتی ہیں۔ لیکن کامیابی کا گُر یہ ہے کہ قوم سب کی سب مہاجر ہو جائے۔ یعنی اپنے نفس کو بھلا کر ان کاموں میں لگ جائے جو بنی نوع انسان کی مجموعی ترقی کا موجب ہوں یا انصار بن جائے یعنی ایسے لوگوں کی مدد گار اور معاون ہو حتی ٰکہ دنیا کا ہر ایک ملک اپنے گرد و پیش ایسے سامان دیکھے جن کے بغیر اس کا گذارہ مشکل تھا اور جن کا حصول اسی قوم کی شدید قربانیوں کے بغیر ناممکن تھا۔ یہ قوم کامیاب ہوتی ہے اور اس کا ذکر ِخیر دنیا سے کبھی نہیں مٹ سکتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرے برادران وطن اسی صداقت کو سمجھ کر اس کی طرف پوری توجہ کریں گے۔ خالی نقل سے وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ بعض علوم و فنون میں

السَّابِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ

ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اور دوسری اقوام کو اپنے پیچھے چلانے میں کامیاب نہ ہوں گے وہ برابر ناکامی کا منہ دیکھتے رہیں گے۔ لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سابقہ ناکامیاں ہمیں بیدار کر دیں۔ کیا ہماری پستی کے لئے کوئی قَعْرِ مَذَلَّتْ باقی ہے جس تک گرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ کیا ہم بچپن کے زمانہ سے نکل کر شباب نہیں بلکہ پیری کا زمانہ ہی دیکھیں گے اور پھر نابالغ بنے رہیں گے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو بلکہ خدا کرے کہ ہماری قوم بیدار ہو کر مہاجر و انصار کا رنگ دکھاتی ہوئی دنیا کی ترقی کے میدان میں

السَّابِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ

کے دوش بدوش کھڑی ہو اور ہر ایک قربانی عارضی نہیں بلکہ مستقل اس پر آسان ہو اور کامیابی کے میدان میں ایک ایسی پائیدار یادگار چھوڑے جس کے نقش مرور زمانہ سے بھی نہ مٹ سکیں۔ آمِیْن۔

اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن وَ اٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

(الفضل 12۔ جولائی 1929ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button