سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت اقدس علیہ السلام کی اولاد

صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب

حضرت اقدسؑ کے دوسرے صاحبزادے مرزا فضل احمد صاحب تھے جوکہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے دو سال چھوٹے تھے۔ آپ اندازاً 1855ء میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اورملازمت

حضرت اقدسؑ نے اس وقت کے مروجہ دستورکے مطابق اپنے بچوں کوعلم کے زیورسے آراستہ فرمایا۔ آجکل کے حساب سے کوئی سکول کالجزتوابھی ایسے عام نہیں ہوا کرتے تھے کہ اس میں داخل کروایاجاتا۔معزز اور شرفاء، بچوں کی تعلیم کے لئے گھروں میں اتالیق کاانتظام کیاکرتے تھے۔ سوآپؑ نے بھی بچوں کے لئے اتالیق مقررفرمائے۔ایک کاذکرحضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے تعارف میں ہوچکاکہ محترم اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل بطورآپ کے بچوں کے اتالیق کے مقررکئے گئے تھے۔

تعلیم وتدریس سے فارغ ہونے کے بعد صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب گورنمنٹ کی ملازمت کے لئے کوشاں ہوئے اورپنجاب اور کشمیر میں مختلف مقامات اور عہدوں پر ملازمت کرتے رہے۔

شادی

محترم صاحبزادہ صاحب کے متعلق مختلف مواقع پر تین شادیاں کرنے کاذکرملتاہے۔ان میں سے سب سے پہلی شادی ان کے ماموں کی بیٹی سے ہوئی۔ گذشتہ اقساط میں بیان ہوچکا ہے کہ آپ کا ننھیال ایمہ ضلع ہوشیارپور کاایک معزز خاندان تھا جوکہ کچھ عرصہ قادیان میں بھی رہائش پذیررہا۔اوراس خاندان سے حضرت اقدسؑ کے جدی خاندان کی رشتہ داریاں چلی آرہی تھیں۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی پہلی شادی اس خاندان کے ایک معزز مرزاجمعیت بیگ صاحب کی صاحبزادی حرمت بی بی صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔

مرزا جمعیت بیگ صاحب حضرت اقدسؑ کے ماموں بھی تھے۔ محترم مرزا جمعیت بیگ صاحب کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ بیٹی کا نام تو حرمت بی بی صاحبہ تھا جو کہ اس عقدمبارک میں بندھ گئی۔ اور بیٹے کا نام مرزا علی شیر تھا۔ ان کی شادی مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیار پوری کی بہن حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی جس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیدا ہوئی۔ مرزا علی شیرصاحب کی اس بیٹی عزت بی بی صاحبہ کی شادی حضرت اقدسؑ کے چھوٹے صاحبزادے مرزا فضل احمد صاحب کے ساتھ ہوئی۔ چنانچہ سیرت المہدی کی ایک روایت میں ذکرہے کہ‘‘حضرت صاحب کے ایک حقیقی ماموں تھے۔(جن کانام مرزاجمعیت بیگ تھا)ان کے ہاں ایک لڑکااورایک لڑکی ہوئے۔اوران کے دماغ میں کچھ خلل آگیاتھا۔ لڑکے کانام مرزا علی شیرتھااور لڑکی کانام حرمت بی بی۔لڑکی حضرت صاحب کے نکاح میں آئی اوراسی کے بطن سے مرزاسلطان احمداورمرزافضل احمدپیداہوئے۔ مرزاعلی شیرمرزااحمدبیگ ہوشیارپوری کی بہن حرمت بی بی سے بیاہاگیاجس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیداہوئی۔یہ عزت بی بی مرزافضل احمدکے نکاح میں آئی…’’

(سیرت المہدی ،جلد اول روایت نمبر212)

سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر 211میں ذکر ہے کہ محترم مرزا فضل احمدصاحب کی شادی اپنے بڑے بھائی محترم مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی کئی سال پہلے ہوچکی تھی۔ محترم مرزافضل احمدصاحب نے ایک اَورشادی محترمہ صاحب جان صاحبہ سے کی اور جن دنوں آپ کشمیرمیں ملازم تھے تب وہاں بھی انہوں نے ایک شادی کی۔اس کے متعلق بہت تفصیلات کاعلم تونہیں ہوسکا البتہ محترمہ صاحب جان صاحبہ کے بارہ میں یہ پتہ چلتاہے کہ وہ بیوہ ہونے کے بعد بھی ساری زندگی اپنے سسرال میں ہی رہیں۔ محترم صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب ہی ان کے اخراجات کے کفیل رہے۔ ہرچندکہ ان کے بیوہ ہونے کے بعد ان کے کچھ رشتہ داروں نے ان کی شادی کسی اورجگہ کرناچاہی اور نکاح بھی کردیاگیا۔لیکن موصوفہ نے اسی گھرمیں رہنے اورحضرت مسیح موعودؑ کی بہوکہلانے کوترجیح دی اور اس گھرکونہیں چھوڑا۔انہوں نے بعدمیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت بھی پائی اور وصیت بھی کی۔چنانچہ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔

صاحبزادہ صاحب کی دوبیویوں کاذکرحضرت اقدسؑ کے ایک مکتوب میں بھی ملتاہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے نام ایک مکتوب میں آپؑ رقم فرماتے ہیں :

‘‘اس کی ایک بیوی تومیرے پاس اس جگہ ہے اورایک قادیان میں ہے۔’’

(مکتوبات احمدجلددوم ،ص 127مکتوب نمبر 86)

حضرت اقدسؑ ان دنوں لدھیانہ میں مقیم تھے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ بیوی حضورؑ اورحضرت اماں جانؓ کے ساتھ ہی رہتی ہوگی۔

فرمانبرداربیٹا

ہدایت کا ملنا تو نصیبوں کی بات ہے کہ

اِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ( القصص: 57)

یقیناً توکسی کوہدایت نہیں دے سکتاکہ جسے توپسندکرے۔بلکہ اللہ ہی ہے کہ جسے چاہے ہدایت نصیب کرے اوروہ ہدایت پانے والوں کوزیادہ بہترطورپرجانتاہے۔

اگرچہ حضرت اقدسؑ کے یہ دونوں بیٹے فوری طور پر احمدیت قبول نہیں کرسکے، کیوں نہیں کرسکے یہ ایک الگ امر ہے۔ البتہ جہاں تک ان دونوں بیٹوں کے مزاج اور طبائع کاتعلق ہے تو مزاجاً یہ اپنے باپ کے سعادت مند اور فرمانبردار بیٹے تھے۔ اور اپنے باپ سے محبت اور عقیدت کا تعلق رکھنے والے تھے۔ ایک بار حضرت اقدسؑ نے صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب کے متعلق فرمایا: ‘‘وہ میرا فرمانبردار تھا اس نے کبھی مجھے ناراض نہیں کیا’’

(مطبوعہ الفضل 22؍اپریل 1941ء بحوالہ مضامین بشیر صفحہ448جلد اول)

اور خاص طور پر ان کی فرمانبرداری اور اطاعت تو گویازباں زدِ عام تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘مرزا فضل احمد صاحب…… حضرت مسیح موعوعلیہ السلام کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے مگر انہوں نے کبھی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظاہری رنگ میں مخالفت یا تکذیب نہیں کی بلکہ ہمیشہ از حد مؤدّب اور فرمانبردار رہے حتی کہ جب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اہم دینی معاملہ میں ان کو یہ ہدایت بھیجی کہ اگر تم میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو جو اَشد مخالفین کے ساتھ تھی طلاق دے کر الگ کر دو تو مرزا فضل احمد صاحب نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوا دیا اور عرض کیا کہ آپؑ کے ارشاد پر یہ طلاق نامہ حاضر ہے۔ آپ جس طرح پسند فرمائیں اسے استعمال فرمائیں۔’’

(مسئلہ جنازہ کی حقیقت ،ازمرزابشیراحمدصاحب ؓ،ایڈیشن اول صفحہ 67)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے… وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اسی طرح کریں۔’’

(انوار خلافت۔انوار العلوم جلد 3صفحہ149)

وفات مرز افضل احمد صاحب

صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔اور 1903ء میں ملتان میں متعین تھے کہ ان کی اجل مسمّیٰ آن پہنچی اور خداکی تقدیرغالب آئی اور ان کی زندگی کاچراغ بجھ گیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

خداکی شان بھی عجیب ہے کہ آپ کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کواپنے اس چھوٹے بھائی کی وفات کی خبربھی خداتعالیٰ نے پہلے سے دے دی۔چنانچہ ‘‘مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان اپنے والدِ بزرگوار حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے برادر خورد صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کو کشف میں ایک پوسٹ کارڈ دکھایا گیا جس پر یہ الفاظ مندرج تھے۔ ‘‘اخوک ڈائیڈ’’(اخوک died) یعنی تیرا بھائی فوت ہو گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے بھائی کی وفات کے بارہ میں خبر دے دی۔’’

(حضرت مرزاسلطان احمد،مرتبہ میرانجم پرویز،صفحہ2)

مرزافضل احمدصاحب کاجنازہ

مرزاامام الدین صاحب وغیرہ محترم مرزافضل احمد صاحب کاجنازہ لے کرقادیان آئے اور حضرت مسیح موعودؑ کوبھی ان کی وفات کی اطلاع دی گئی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خداکے حکم سے ہراحمدی کوہراس فردکی نمازجنازہ پڑھنے سے منع کردیاہواتھا جواحمدی نہ ہو۔ ہرچندکہ محترم صاحبزادہ صاحب اس رنگ میں مخالف نہ تھے۔اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری بھی ایسی تھی کہ کئی احمدی دوستوں کوامیدتھی کہ شایداستثنائی طور پران کی نمازجنازہ کی اجازت مل جائے گی۔ اورانہوں نے درخواست بھی کی۔لیکن خدائی احکامات اورحدودپر سب سے زیادہ کاربند اور پابند رہنے والے اس کے نبی اور مامورہی ہواکرتے ہیں۔اوروہ بلاخوف لومۃ لائم وہی کرتے ہیں جس کا انہیں خداحکم دیتاہے۔کوئی تعلق کوئی رشتہ اور کوئی خوف انہیں ان کی راہ سے ہٹاسکتاہے نہ کمزورکرسکتاہے۔وہ

یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

کی مجسم تصویرہوا کرتے ہیں۔ اسی لئے حضرت اقدسؑ نے اپنے اس بیٹے کی نمازجنازہ بھی ادانہیں کی۔

حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ؓ نے اس واقعہ کی تفصیلات اپنی کتاب ‘‘مسئلہ جنازہ کی حقیقت’’ صفحات 67تا 78میں بیان کی ہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button