متفرق مضامین

قرّۃُ العین اولاد کی خواہش اور والدین کی ذمہ داریاں

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

بچے بڑے ہو کر جو بھی بنتے ہیں اس میں بڑا اور بنیادی کردار ماں باپ کا ہوتا ہے۔جیسا ماحول والدین انہیں دیں گے اور جن راہوں پر انہیں چلائیں گے اُسی کے خدوخال ان کے کردار میں ابھر آئیں گے

اولاد کے قرۃالعین یعنی آنکھوں کی ٹھندک ہونے کا مطلب ہے کہ جب بچے پل بڑھ کر جوان ہو جائیں اور معاشرے اور تمدن کا حصہ بن کر عملی زندگی میں قدم رکھیں تو وہ نا صرف با اخلاق اور مہذب انسان ہوں بلکہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں اور یوں والدین انہیں دیکھ کر راحت اور سکون قلب محسوس کریں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات سے بھر جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے اولاد کو قرۃالعین بنانے کی ذمہ داری مکمل طور پر والدین پر ڈالی ہے جنہوں نے دعاؤں اور مناسب تدابیر کے ذریعے بیدار مغزی سے ان کی تربیت کے فرائض سرانجام دینے ہیں۔ والدین کے اس اہم ترین فریضے کی طرف اللہ تعالیٰ نے جن آیات میں توجہ دلائی ہے ان میں سے خاکسار دو کا یہاں ذکر کرنا چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

رَبَّنَا ھَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔ (الفرقان:75)

ترجمہ: اے ہمارے ربّ ! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متّقیوں کا امام بنا۔

یہ ایک بہت جامع دعا ہے۔ جس میں دعا کرنے والا شریک حیات اور اولاد کے قرۃالعین اور دیندار ہونے کے لیے خدا تعالیٰ کے حضور درخواست کرتا ہے۔اس آیت کریمہ میں ایک نہایت درجہ اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ یہاں جیون ساتھی کے قرۃالعین ہونے کا ذکر پہلے ہے اور اولاد کا بعد میں۔ یعنی جب تک والدین ایک دوسرے کےلیے آنکھوں کی ٹھندک نہ ہوں گے وہ آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی اولاد تیار نہیں کر سکتے۔ یعنی ماں باپ اگر نیک ہوں اور وہ دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اولاد مانگیں اور اُن کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کریں تو خدا تعالیٰ اُن کی اولاد کو اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے گا اور انہیں متقیوں کے امام کا درجہ حاصل ہو گا۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم:7)

اے مومنوں اپنے اہل کو بھی اور اپنی جانوں کو بھی دوزخ سے بچاؤ۔(ترجمہ از تفسیر صغیر)
اس آیت میں مومنوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ جہاں وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ رکھیں وہاں اپنی اولاد کی بھی فکر کریں اور ان کی نگرانی کرتے رہیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ خود بھی اور ان کی اولاد بھی خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچے رہیں گے۔

بچے بڑے ہو کر جو بھی بنتے ہیں اس میں بڑا اور بنیادی کردار ماں باپ کا ہوتا ہے۔جیسا ماحول والدین انہیں دیں گے اور جن راہوں پر انہیں چلائیں گے اُسی کے خدوخال ان کے کردار میں ابھر آئیں گے۔ اس حوالے سے یہاں مسلم شریف کی ایک مشہور حدیث پیش کی جاتی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيْهَا مِنْ جَدْعَاءَ’’

(مسلم کتاب القدر باب معنی کل مولود یولد علی الفطر)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :

ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے جیسے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، کیا اُن میں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے ؟ یعنی بعد میں لوگ اس کا کان کاٹتے ہیں اور اُسے عیب دار بنا دیتے ہیں۔

اس حدیث میں دین کے علاوہ بچوں کی معاشرتی زندگی کے حوالے سےبھی استنباط ہوتا ہے کہ والدین ہی ہیں جواُ نہیں نیک یا بد اور اخلاقی کردار سے مزین یا تہی دامن بنا دیتے ہیں۔اور والدین ہی ہیں جو انہیں اعلیٰ تعلیم دلا کر معاشرے میں با عزت اور با وقار مقام حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یا پھر تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کرتے۔

اسی طرح آنحضورﷺ کا فرمان ہے کہ

مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهٗ مِنْ نَحْلٍ اَفْضَلُ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ

(ترمذی ابواب البروالصلۃ۔ باب فی ادب الولد)

کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔

تربیت سے کیا مراد ہے

مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تربیت سے کیا مراد ہے۔ تربیت کی اصطلاح بہت وسیع ہے۔ تربیت اولاد سے صرف یہ مراد نہیں کہ انہیں دنیوی جاہ و منصب کے حصول کے لیے تیار کیا جائے بلکہ قرآن کریم اور حدیث نبویﷺ کی روشنی میں اس میں بچوں کو دینی تعلیم سے کما حقّہ آگاہ کرنا، آداب معیشت، آداب محفل، نماز، روزہ کی پابندی، آداب گفتگو، آداب معاشرت، قانون کی تعظیم و تکریم، دیانت داری، فرائض منصبی کی ادائیگی، محنت کشی، لوگوں کو نفع پہنچانا اور ان سے حسن معاملہ کرنا سب امور تربیت اولاد میں شامل ہیں۔ یہ باتیں خودبخود پیدا نہیں ہو سکتیں بلکہ پوری محنت اور کوشش چاہتی ہیں اور ان امور کی بنیادی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب منہاج الطّالبین میں تربیت یا فتہ بچے کی تعریف درج کی ہے۔ فرمایا:

‘‘اخلاق اور روحانیت کی تعریف کے مطابق دینی بچہ تربیت یافتہ کہلائے گا جس میں مندرجہ ذیل باتیں ہوں۔

1:۔ ذاتی طور پر با اخلاق ہو اور اس میں روحانیت ہو:

اس کا معیار یہ ہے کہ 1۔بچہ بڑا ہوتو امور شرعیہ کی لفظاً و عملاً و عقیدۃً پابندی کرے۔ 2۔ اس کی قوت ارادی مضبوط ہو تا آئندہ فتنہ میں نہ پڑے۔3۔ اس کا اپنا ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اور جان بچانے کی قابلیت رکھنا۔ 4۔ اپنے اموال و جائیداد بچانے کی قابلیت کا ہونا اور اس کے لئے کوشش کرنا۔

2:۔ دوسروں کو ایسا بنانے میں قابلیت رکھتا ہو:

اس کا معیار یہ ہے کہ 1۔اخلاق کا اچھا نمونہ پیش کرے۔ 2۔ دوسروں کی تربیت اور تبلیغ میں حصہ لے۔ 3۔ اپنے ذرائع کو ضائع ہونے نہ دے بلکہ انہیں اچھی طرح استعمال کرے جس سے جماعت و دین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔

3:۔ قانون سلسلہ کےمطابق چلنے کی قابلیت رکھتا ہو:

تیسرے امر کا معیار یہ ہے 1۔ اپنی صحت کا خیال رکھنے والا ہو۔ 2۔ جماعتی اموال اور حقوق کا محافظ ہو۔ 3۔ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچے۔ 4۔قومی جزا اور سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو۔

4:۔ اللہ تعالیٰ سے خاص محبت رکھتا ہو:

چوتھے امر کا معیار یہ ہے 1۔ کلام الٰہی کا شوق اور ادب ہو۔ 2۔ خدا تعالیٰ کا نام اسے ہر حالت میں مؤدّب اور ساکن بنا دے۔ 3۔ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بکلی الگ ہو۔ 4۔خدا کی محبت کی علامات اس میں پائی جائیں۔’’

(منہاج الطالبین صفحہ 64تا65، مطبوعہ 2016ء)

کیا ہی جامع، واضح اور بے مثال تعریف بیان فرمائی ہے۔ تربیت کرنے والے کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس نے اپنے بچوں کے لیے کونسی منزل حاصل کرنی ہے اور تربیت حاصل کرنے والوں کے سامنے بھی ایک ٹارگٹ ہو کہ انہوں نے کیا بننا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بچوں کی تربیت کے لیے ان کو نظام جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں :

‘‘ جماعتی ترقی ہمارے اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے۔ جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے…تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں … پس اس اہم بات کو، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اکتوبر2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اکتوبر2010ءصفحہ6)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض خطبات میں تربیت اولاد کے لیے ماں باپ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے والدہ کو خاص طور پر بچوں کی تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایاہے۔ ایک موقع پر حضورؓ نے ماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں۔ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہوتو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے۔ پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارومدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے۔’’

(اَلْاَزْھَارُ لِذَوَاتِ الْخِمَارِ یعنی اوڑھنی والیوں کےلئے پھول صفحہ 320)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ اس لیے اگر مائیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ وہ بڑے ہو کر قوم اور ملت کے قابل فخر سپوت نہ بنیں۔ ماؤں کو اولاد کی تربیت کے لیے نیک نمونے بننے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

‘‘پس تمہاری تمام تر کامیابی کا انحصار تمہاری اولاد کی تربیت پر ہی ہے۔ تم نماز و روزہ اور صدقہ و خیرات کی پابند رہو اگر تم اِن باتوں پر کار بند نہ ہو گی تو تمہاری اولادیں کس طرح احکامِ شریعت کی پابند ہوں گی۔ تم اپنے نیک نمونہ سے ہی ایک حد تک اپنی اولاد کی تربیت کر سکتی ہو کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ انسان جو نمونہ دکھاتا ہے اردگرد کے لوگ اس کا نمونہ قبول کرتے ہیں اور بچے میں تو نقل کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر مائیں اپنی اولادوں کے لیے نیک نمونہ نہیں بنتیں تو یقیناً ان کی اولادوں کی تربیت اچھی طرح ہونا ناممکن ہے۔’’

(اَلْاَزْھَارُ لِذَوَاتِ الْخِمَارِ یعنی اوڑھنی والیوں کےلئے پھول صفحہ 323)

تا ریخ اسلام سے ایک واقعہ

قبل اس کے کہ ان تدابیر کا ذکر کیا جائے کہ جن کے ذریعہ سے والدین اپنی اولاد کی بہتر رنگ میں تربیت کر کے انہیں معاشرے کا مفید وجود اور قرۃالعین بنا سکتے ہیں خاکسار یہاں تاریخ اسلام سے ایسے والدین یا یوں کہنا چاہیے کہ ایسی والدہ کا واقعہ درج کرنا چاہے گا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت ایسے بہترین رنگ میں کی کہ وہ بڑا ہو کر قوم کا امام کہلایا اور درس و تدریس کے ذریعے آگے ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا موجب بنا۔اس واقعہ کا ذکر حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں : امام ربیعہ بن فروخ ایک تابعی تھے۔ ان کے والد محترم مدینہ منورہ کے رہنے والے ابو عبد الرحمٰن فروخؒ تھے ابو عثمان ان کی کنیت تھی اس لیے امام ابو عثمان ربیعہ الراعی (المتوفیٰ 136ھ) کے نام سے مشہور تھے۔ان کی والدہ حضرت اُمّ ربیعہ قرن اوّل کی ایک باکمال خاتون تھیں جن کی گود صحیح معنو ں میں گہوارۂ علم و عرفان ثابت ہوئی اور جس نے امام ابو عثمان ربیعہ الراعی جیسا بزرگ عالم دین پیدا کیا۔ ابو عبد الرحمٰن فروخ کی شادی کو ابھی چند ماہ ہوئے تھے کہ اِن کو خُراسان کی مہم پر جانا پڑ گیا۔ اُن کی اہلیہ حمل سے تھیں۔ انہوں نے گھر سے چلتے وقت اپنی اہلیہ کو اپنی کل جمع پونجی تیس ہزار اشرفیاں دیں اور کہا کہ انہیں احتیاط سے رکھنا۔ میرا ارادہ ہے کہ اللہ مجھے میدان جہادسے زندہ سلامت واپس لائے تو اس رقم سے تجارت کروں، ہاں میری غیر حاضری میں تمہیں کوئی ضرورت پیش آئے تو تم اس رقم میں سے جتنی چاہو خرچ کر سکتی ہو اور میرے جانے کے بعد اللہ تمہیں لڑکا یا لڑکی دے تو اس کی پرورش عمدہ طریقے سے کرنا۔ یہ کہہ کر انہوں نے بیوی کو خدا حافظ کہا اور دمشق جا کر اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔

اس زمانہ میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ مسلسل جاری تھا ایک مہم کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی یہاں تک کہ فروخ کو ان مہموں میں حصہ لیتے لیتے پورے ستائیس برس گزر گئے۔ لیکن جہاد کی مصروفیت نے اُنہیں گھر نہ لوٹنے دیا اور نہ گھر سے ان کا کوئی رابطہ قائم ہو سکا۔ ادھر ان کے گھر سے نکلنے کے چار پانچ ماہ بعد اللہ نے ان کی بیوی کو فرزند عطا کیا جس کا نام انہوں نے ربیعہ رکھا۔ جب ربیعہ سن شعور کو پہنچے تو والدہ نے ان کی تعلیم و تربیت کا اعلیٰ انتظام کیا یہاں تک کہ اپنے شوہر کی چھوڑی ہوئی تمام اشرفیاں سب کی سب ربیعہ کی تعلیم پر خرچ کر دیں۔ربیعہ بھی بے حد ذہین اور محنتی تھے انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور پھر چند سالوں کے اندر اندر قرآن، حدیث، فقہ، ادب اور دوسرے تمام علوم پر ایسا عبور حاصل کر لیا کہ ان کے علمی کمالات کی سارے عرب میں دھوم مچ گئی اور بائیس برس کی عمر میں اپنے وقت کے امام تسلیم کیے گئے اور لوگ آپ کو امام ربیعہ الراعی کہنے لگے۔

امام ربیعہ الراعیؒ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر لوگوں کو باقاعدگی سے درس دیتے تھے اور طلبہ دُور دُور سے آکر اُن کے حلقہ درس میں شامل ہوتے تھے۔ ستائیس برس کے بعد فروخ کو جہاد سے فرصت ملی تو انہوں نے سیدھا وطن کا رخ کیا…ستائیس برس کے بعد اسے مدینہ میں کوئی پہچانتا نہ تھا۔ بیٹے نے باپ کو دیکھا بھی نہ تھا اس لیے انہیں گھر میں داخل بھی نہ ہونے دیا۔ انہوں نے اپنا تعارف کر وایا جس پر اُن کی بیوی نے کواڑوں کے پیچھے سے جھانکا تو فوراً اپنے شوہر کو پہچان گئیں اور اُنہیں اندر بُلا لیا۔ اور اپنے بیٹے کو بتایا کہ یہ تمہارے والد ہیں۔ ساتھ ہی فروخ سے کہا کہ یہ نوجوان آپ کا فرزند ہے جو آپ کے جانے کے چند ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔ اب دونوں باپ بیٹا گلے مل کر خوب روئے۔ کھانا کھانے اور آرام کرنے کے بعد فروخ نے بیوی سے اپنی بچائی ہو ئی رقم (تیس ہزار اشرفیوں ) کے بارے میں پوچھا۔ بیوی نے کہا آپ اطمینان رکھیے ساری رقم محفوظ ہے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ امام ربیعہ اذان سنتے ہی مسجد نبوی چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد بیوی نے کہا کہ آپ بھی مسجد نبوی میں جاکر نماز پڑھ آیئے۔ مسجد میں نماز کے بعدانہوں نے دیکھا کہ لوگوں کے درمیان ایک صاحب بڑی شان اور وقار کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ تمام لوگ بڑے ادب اور احترام سے سر جھکائے ہوئے ہیں اور وہ صاحب ان کے سامنے درس دے رہے ہیں۔یہ درس دینے والے صاحب امام ربیعہ تھے۔ چونکہ انہوں نے سر پراونچی ٹوپی پہن رکھی تھی اس لیے فروخ انہیں دور سے پہچان نہ سکے۔ کسی سے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں؟ اس نے حیران ہو کر کہا :‘‘ آپ ان کو نہیں پہچانتے یہ امام ربیعہ الراعی ہیں۔’’

فروخ کو یہ سن کر اس قدر مسرت ہوئی کہ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا ‘‘اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے میرے بیٹے کا درجہ اتنا بلند کیا۔’’

خوشی خوشی گھر آئے اور بیوی کو بتایا کہ آج مَیں نے اپنے بیٹے کی جو عزت اور شان دیکھی ہے اس سے پہلے کسی بڑے سے بڑے آدمی کی نہیں دیکھی تھی۔ بیوی نے کہا :‘‘آپ کو بیٹے کی یہ عظمت و شان پسند ہے یا تیس ہزار اشرفیاں؟’’ فروخ نے جواب دیا : ‘‘ خدا کی قسم تیس ہزار اشرفیاں اس مرتبے اور شان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔’’ بیوی نے کہا ‘‘تو پھر سن لیں کہ مَیں نے یہ تمام رقم اس کی تعلیم پر خرچ کر دی۔’’ فروخ نےبے ساختہ جواب دیا ‘‘خدا کی قسم ان اشرفیوں کا اس سے بہتر استعمال اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ تم نے بہت خوب کیا کہ ان اشرفیوں کوٹھکانے لگا کر میرے بیٹے کو ایک ایسے خزانے کا مالک بنا دیا جس کو کبھی زوال نہیں۔’’

(حیاۃ الامام ربیعۃ بن فروخ از تاریخ دمشق از حافظ ابن عساکر شائع شدہ 26؍جمادی الاولیٰ 1428ھ بمطابق 11؍ جون 2007ء)

دَور حاضر میں تربیت اولاد

اولاد کی تربیت ایک ایسا فریضہ ہے جس سے غفلت برتنا گناہ سے کم نہیں۔ کیونکہ اس کے دُور رس نتائج نکلتے ہیں۔ دَور حاضر تو اور بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم تربیت اولاد کی طرف توجہ دیں کیونکہ اس دَور میں ہر طرف فسق و فجور اور معصیت کا بازار گرم ہے اور معاشرے میں لامذہبیت اور اخلاقی بےراہ روی بڑی تیزی سے سرایت کر رہی ہے جس سے ہمارے بچوں کا متاثر ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ ہر دَور پہلے سے زیادہ خرابیاں لےکر آتا ہے اس لیے پہلے سے کہیں بڑھ کر ہمیں چوکس وچوبند ہو کر دعائیں کرتے ہوئے اپنی اولاد کو شیطان کے حملوں سے بچانے اور اُن کی تربیت کے لیے ضروری ذرائع بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک مرتبہ تربیت اولاد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

‘‘یہ زمانہ ایسا نہیں جس میں ہم ذرہ بھی غفلت برتیں اور سُستی سے کام لیں۔ اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال لیں، ان کی بہترین رنگ میں تربیت کریں۔’’

(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 405بیان فرمودہ 1973ء)

تربیت اولاد کا وقت

بچوں کی تربیت کی اہمیت اور ذمہ داری سمجھ لینے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب اور کس طرح تربیت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ جو اولاد دیتا ہے اُس نے اپنے بندوں کی رہ نمائی اور تعلیم و تربیت کے لیے جب ایک راستہ دکھا یا اور اُس پر اپنے بندوں کو چلانا چاہا تو اس نے ہر زمانہ میں نبی بھیج کر اُس کے ذریعہ تعلیم پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ برخلاف دنیاوی حکمرانوں اور لیڈروں کے ہر نبی اُس تعلیم پر عمل پیرا ہوتا ہے جس کو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ پھر اس کے ماننے والے خوشی سے اس کی تقلید کرتے ہیں۔اس لیے والدین کو بھی عملی لحاظ سے اپنے بچوں کے سامنے اچھا نمونہ پیش کرنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ان کی نصیحت کےرائیگاں جانے کا امکان ہے۔

ہمارے سامنےایک کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اولاد کی تربیت کے لیے آپﷺ کی زندگی میں اولاد کی محبت کے جذبے کو کام کرتے ہوئے دیکھیں اور اس پر عمل کرکے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کو با برکت بنائیں۔ رسول کریمﷺ نے حُسن تربیت کے لیے یہ پُر حکمت تعلیم بیان فرمائی کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے کانوں میں اذان اور تکبیر کہی جائے۔ اس ارشاد کے ذریعہ آپﷺ نے یہ پیغام دیا ہے کہ بچّےکی پیدائش سے ہی تربیت کا سلسلہ شروع کر دینا چاہیے۔

رسول کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لڑکے بھی دیے اور لڑکیاں بھی اور جو کچھ سلوک آپؐ نے اپنی اولادسے کیا وہ کتب احادیث میں موجود ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بچوں کی تربیت کا و قت کیا ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرتﷺ نے ابتدا سے ہی بچہ کی تربیت کی اور نہ صرف خود کی بلکہ اپنی امت کو سکھایا کہ یوں تربیت کریں۔ تفصیل میں جائے بغیر درج ذیل واقعہ چھوٹی عمر میں ہی بچے کی تربیت کا سبق دیتا ہے۔ ایک دفعہ نواسۂ رسول حضرت امام حسنؓ نے کھیلتے کھیلتے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ آپؐ نے فوراً ان کے منہ سے نکال کر پھینک دی۔ اور کہا کہ صدقہ ہمارے خاندان کے لیے جائز نہیں۔ اس وقت حضرت امام حسنؓ کی عمر 3 سے 4سال کی تھی لیکن آپؐ نے درگزرنہیں کیا بلکہ فوراً روک دیا اور صرف روکا ہی نہیں بلکہ تعلیم دے کر اور سمجھا کر روکا۔

اسی طرح جب ربیب ابی سلمہ آپﷺ کی گود میں بیٹھ کر آپؐ کے ساتھ کھانا کھانے لگا اور اس کے ہاتھ برتن کے چاروں طرف پڑنے لگے تو آپؐ نے فرمایا : بچے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ اور برتن میں صرف اپنے آگے سے کھانا لو سارے برتن میں ہاتھ نہ ڈالو۔ان واقعات سے ظاہر ہے کہ آنحضورﷺ نے بچپن سےہی بچوں کی عملی تربیت کا طریق اختیار فرمایا۔

تربیت اولاد کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ملفوظات میں ہماری رہ نمائی کے لیے بہت سا مواد چھوڑا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی کتاب منہاج الطالبین میں بڑی تفصیل کے ساتھ بچوں کی تربیت کے طریق بھی بتائے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے کی تعلیم و تربیت کی عمر کے بارے میں فرماتے ہیں :

‘‘یہ بات بھی غور کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے…طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے۔ انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔’’

( ملفوظات جلد 1 صفحہ 60 مطبوعہ 2016ء)

اسی طرح حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘ چھوٹے بچوں کو جب دین سے بالکل آگاہ نہ کیا جائے اور صرف مدرسہ کی تعلیم دی جائے تو وہی باتیں ان کے بدن میں شیر مادر کی طرح رچ جائیں گی۔ پھر سوا اس کے اور کیا ہے کہ وہ اسلام سے پھر جائیں … پس ضرور ہے کہ پہلے روز ساتھ ساتھ روحانی فلسفہ پڑھایا جاوے۔’’

( ملفوظات جلد 5 صفحہ 637، ایڈیشن1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

‘‘غرض بچپن کی تربیت ہی ہوتی ہے جو انسان کو وہ کچھ بناتی ہے جو آئندہ زندگی میں وہ بنتا ہے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ نے فرما یا کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے آگے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جب بچہ بالغ ہوجا تا ہے تو ماں باپ اسے گرجا میں لےجا کر عیسائی بناتے ہیں۔بلکہ یہ ہے کہ بچہ ماں باپ کے اعمال کی نقل کر کے اور ان کی باتیں سن کر وہی بنتا ہے جو اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ بچہ میں نقل کی عادت ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ اسے اچھی باتیں نہ سکھائیں گے تو وہ دوسروں کے افعال کی نقل کرے گا۔’’

(منہاج الطالبین صفحہ 57، مطبوعہ 2016ء)

حضرت مصلح موعود خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے سیکھنے کا عمدہ زمانہ بچپن کی عمر بیان فرمائی ہے۔اس لیے اس عمر میں بچوں کی تربیت کی طرف ضرور توجہ دینی چاہیے۔ فرمایا:

‘‘طفولیت کا زمانہ بہت سے امور میں معافی چاہتا ہے۔ گو وہ تربیت کا زمانہ ضرور ہوتا ہے ہم اس زمانہ میں بچے کو تربیت سے آزاد نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جو بچوں کی غلطی پر یہ کہا کرتے ہیں کہ ‘‘بچہ ہے جانے دو’’ وہ اول درجہ کے احمق ہوتے ہیں وہ جانتے ہی نہیں کہ بچپن کا زمانہ ہی سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے اگر اس عمر میں یہ نہیں سیکھے گا۔ تو بڑی عمر میں اس کے لئے سیکھنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ درحقیقت اگر ہم غور کریں تو بچپن کا زمانہ سب سے زیادہ سیکھنے کے لئے موزوں ہوتا ہے۔ اور اسی عمر میں اس کی تربیت اسلامی اصولوں پر کرنی چاہئے۔ پس گو بچہ بعض اعمال کے لحاظ سے معذور سمجھا جاتا ہے۔ سیکھنے کا عمدہ زمانہ اس کی وہی عمر ہے۔’’

(مشعل راہ جلد 1 صفحہ 513، فرمودہ 19؍مارچ 1948ء)

جہاں تک تربیت اولاد کے طریقوں کا تعلق ہےتو اس کے لیے مفکرین، فلاسفرز، بزرگوں اور دینی تعلیم میں دسترس رکھنے والے لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ، علم اور تجربے کی بنا پر کئی نکات بیان کیے ہیں۔ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

بچوں کو معاشرے کا فعال رکن بنانا

بچوں کی تربیت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ والدین جہاں اس کی تربیت کرتے ہیں وہاں پر جماعتی پروگراموں اور کلاسوں میں اُن کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔گھر سے باہر نکلنا اور اپنے ہمجولیوں کے ساتھ پڑھنا، اٹھنا بیٹھنا، کھیلنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ملتے رہیں تو اِس سے اُن کے اخلاق درست ہوں گے۔بدی کا مقابلہ ارادہ کی قوّت سے ہوتا ہے اور وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک بچے اچھے اور بُرے دونوں قسم کے بچوں سے نہ ملیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

‘‘جس بچے کو گھر بند رکھا جائے اور کسی سے نہ ملنے دیا جائے وہ پچاس برس کی عمر میں بھی لڑکا ہی رہے گا۔ کیونکہ اس کی مثال اس کانچ کے برتن کی سی ہو گی جسے ذرا ٹھوکر لگی اور وہ ٹوٹ گیا۔جب بھی کوئی بدی اس کے سامنے آئے گی وہ مقابلہ نہیں کر سکے گا، لیکن اگر وہ لوگوں سے ملتا رہے تو اس کے اندر شناخت پیدا ہو جاتی ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے۔ اور بدی سے بچنے کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 1925ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 9 صفحہ 153)

تربیت میں ذیلی تنظیموں کا مؤثر دخل

حضرت مصلح موعودؓ نے بچوں کی تربیت کی خاطر انہیں جماعتی تنظیم میں پرو دیا۔7سال کی عمر سے ایک احمدی بچہ اطفال الاحمدیہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ تو اس سے پہلے بھی اس کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے مگر اب تنظیم کو بھی اس کی ذمہ داری دے دی گئی۔اطفال کے بعد خدام اور انصار کی تنظیمیں احمدی مسلمانوں کی تربیت اوران کی زندگی سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ستمبر، اکتوبر 1991ءمیں خاکسار کی لاہور ماڈل ٹاؤن سے تبدیلی احمدیہ ہال کراچی میں ہوئی۔وہاں پر قیام کے دوران ایک دفعہ گلشن احمد میں ایک تدفین کے لیے گیا تو وہاں پر میری ملاقات ہوائی جہاز کے ایک کپتان سے ہوئی۔ قبر میں مٹی ڈالنے اور پھر قبر کے دعا کےلیے تیار ہونے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے۔ اس دوران احباب انتظار میں کھڑے باتیں کر رہے تھے چونکہ اُن دنوں اُس خطّہ میں پے در پے ہوائی جہاز کے کچھ حادثات ہوئے تھے۔ان حادثات کے بارے میں بات ہو رہی تھی تو وہاں پر کھڑے ایک احمدی کپتان نے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی پائلٹس کے ذریعہ بہت کم حادثات ہوتےہیں۔ کیونکہ عموماً قواعد وضوابط کو پس پشت ڈالنے کی صورت میں حادثہ پیش آتا ہے، الاّ ماشاء اللہ اور ایک احمدی شروع سے ہی پوری کوشش کرتا ہے کہ فلائی کرنے کے لیے تمام ضروری ہدایات کو followکیا جائے اس لیے وہ حادثہ سے بچ جاتا ہے۔ مگر یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوتا ہے اور ماں باپ کی تربیت اور سلسلہ کے ساتھ منسلک ہونے کا نتیجہ۔ پھر انہوں نے کہا بچہ جب سات سال کا ہو جاتا ہے تو وہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کا حصہ بن جاتا ہے جہاں اسے تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھے اور بُرے کی تمیز بتائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ پھر وہ خدام الاحمدیہ میں جاتا ہے تو اس کے قائدین اس کی صلاحیتوں کو اور زیادہ نکھارتے ہیں اور پھر چالیس سال کی عمر میں وہ انصار اللہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس سارے عرصہ میں اُس میں اطاعت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ جہاں بھی جاتا ہے اُسے اپنے سائق اور قائد کی بتائی ہوئی باتیں یاد آتی ہیں۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ احمدی پائلٹ اپنے اس کام میں دی گئی ہدایات اور نظام کو followکرتا ہے کیونکہ اس کو بچپن سے اس کی عادت ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ذیل میں ایک ارشاد پیش کرتا ہوں جس سے جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کے ساتھ جڑے رہنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ فرمایا :

‘‘پھر الله تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسان ہے کہ جماعت کی برکت سے …ہمیں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کا نظام میسر ہے۔ تربیتی کلاسیں ہیں، اجتماع ہیں، جلسے وغیرہ ہوتے ہیں جہاں بچوں کی تربیت کا انتظام بھی ہے۔ لیکن یہاں بھی وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو بچوں کو اجلاسوں وغیرہ میں بھیجیں اور جن کا نظام کے ساتھ مکمل تعاون ہو اور جو اپنے بچوں کو نظام کے ساتھ مسجد کے ساتھ …مکمل طور پر جوڑ کے رکھتے ہیں۔ بعض مائیں اپنے بچوں کو اجلاسوں وغیرہ میں اس لئے نہیں بھیجتیں کہ وہاں جا کر دوسرے بچوں سے غلط باتیں اور بدتمیزیاں سیکھتے ہیں۔ بہرحال یہ تو پتا نہیں کہ وہ بدتمیزیاں یا غلط باتیں سیکھتے ہیں کہ نہیں لیکن ایسے بچے، بہرحال تجربے کی بات ہے، کہ ایسے بچے بڑے ہو کر دین سے بھی پرے ہٹتے دیکھے ہیں اور پھر وہ ماں باپ کے بھی کسی کام کے نہیں رہتے۔ اس لئے غلط ماحول سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو نظام کے ماحول سے باندھ کر رکھیں۔’’

(الفضل انٹرنیشنل 29؍اگست 2003ء صفحہ 3)

کتب، اخبارات اور رسائل کا استعمال

تربیت کے لیے قرآن مجید، حدیث کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی تعلیم بھی ضروری ہے۔ چاہیے کہ بچے سکول کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ بھی جاری رکھیں اور والدین اس بات کی کڑی نگرانی رکھیں کہ ان کا بچہ علاوہ اپنے مقررہ تعلیمی نصاب کے حضرت مسیح موعودؑ کی کسی کتاب کا مطالعہ بھی کرتا رہے ان کتابوں میں علم و حکمت کے دریا بہتے ہیں۔ اور ان کا مطالعہ كُونُوا مَعَ اَلصَّادِقِیْنَ کا جلوہ گاہ ہے۔

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثالثؒ نےمسند خلافت پر متمکن ہونے سے قبل 26؍اکتوبر 1956ء کو مجلس انصار اللہ مر کزیہ کے سالانہ اجتماع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘…ہم فزکس یا کیمسٹری کے بعض ابتدائی اصول سکھانے کے لئے کالجوں کی فیس دیتے ہیں۔ اس کام کے لئے بہت سا سٹاف رکھتے ہیں۔ اور لاکھوں روپیہ کیمیکلز اور آلات سائنس پر خرچ کرتے ہیں مگر روحانی باتوں کے متعلق سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں ان کے متعلق کسی خاص جدوجہد کی ضرورت نہیں۔ خدا تعالیٰ خود ہی ہمارے بچوں کے دماغوں میں یہ باتیں ڈال دے گا۔یہ بالکل غلط اور انہونی بات ہے۔ ہمیں جس طرح اپنے بچوں کی دنیوی تعلیم کے لئے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ تب جا کر وہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے بچوں کی روحانی تعلیم کی بھی فکر کرنی چاہئےاور اس کےلئے اگر ہمیں اپنا مال خرچ کرنا پڑے یا خود تکالیف برداشت کرنی پڑیں تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ہم دنیوی تعلیم کی خاطر بعض اوقات اپنے جذبات کو بھی قربان کر دیتے ہیں … جب ہم دنیا کے امتحان پاس کرنے کے لئے اس قسم کی جذباتی قربانی ضروری سمجھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ روحانی امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہم اس سے بڑھ کر قربانی کی ضرورت نہ سمجھیں اور خیال کر لیں کہ ہمیں اس کے لئے کسی خاص کوشش اور محنت کی ضرورت نہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ اس کے گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا دور ہو رہا ہے۔’’

( الفضل 26؍ دسمبر 1956ء بحوالہ ماہنامہ مصباح نومبر 1998ء)

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ خلفائے مسیح موعودؑ کی کتب و سلسلہ کا دیگر لٹریچر، رسائل و اخبارات ہمیں پڑھنے کے لیے ملتے ہیں۔ان میں بھی نہایت اعلیٰ قسم کے روحانی، علمی اور تربیتی مضامین اور ایمان افروز واقعات ہوتے ہیں جن سے نہ صرف بڑوں کو بلکہ ہمارے بچوں کو بھی اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے رہنا چاہیے۔

اخبارات میں اخبار بدراور الفضل ہمیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات تازہ ارشادات اور ملاقاتوں کی رپورٹس اور جماعتی خبریں پہنچاتے ہیں۔ اور آجکل تو عالمی خبرنامہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس سے ہم خود بھی فیضیاب ہو سکتے ہیں اور ہمارے بچے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔اس طرح جماعت کے بارے میں ہر قسم کی معلومات ملنے سے ہمارے بچوں کی نظام جماعت میں دلچسپی بڑھے گی اور وہ خود بھی جماعتی خدمات بجا لانے میں فخر محسوس کریں گے۔

بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اتنی ساری کتب و رسالے ہیں۔ اس پر مزید کوئی نہ کوئی اخبار یا رسالہ نکل آتا ہے۔ دوسری طرف پڑھنے کو وقت نہیں ملتا۔دراصل یہ اور اس طرح کی باتیں کمزوریٔ نفس کا نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہم بے شمار ٹی وی چینلز، موبائل فونز، کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس سے نہیں گھبراتے اور ان کا بند ہونا گوارانہیں کر سکتے۔اس لیے جماعت ایسا لائحہ عمل بناتی ہے تا کہ مختلف مصروفیات اور مسائل میں گھرا ہوا انسان جب صحت نیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اور اس کے سچے دین کی طرف اپنی تسکین کے لیے توجہ کرے تو اس کے لیے روحانی مائدہ بھی ہر شکل میں موجود ہوتا کہ وہ اپنی طبیعت کے تقاضے کے مطابق فائدہ اٹھا سکے۔ عموماً انسان تنوّع پسندہے۔ ایک ہی چیز اور ایک ہی انداز سے اکتا ہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ مختلف ذرائع سے احباب جماعت تک تعلیم پہنچانا انسان کی اس فطری ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ اور پھر یہ روحانی مائدہ اس کثرت سے موجود ہو کہ جب چاہے جہاں سے چاہے اپنی مرضی کے طیّب رزق سے اپنی روحانی سیرابی کے سامان کر سکے۔ جماعت احمدیہ اور اس کی ذیلی تنظیمیں اپنے و سائل کے مطابق یہ مائدہ بڑوں کے لیے بھی اور بچوں کے لیے بھی مختلف زبانوں میں احباب جماعت کے گھروں تک پہنچانے کی کوشش میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے گھروں کے دروازے بھی کھولے جائیں اور مہدی علیہ السلام نے جو روحانی خزائن بانٹے ہیں اُن سے خود بھی استفادہ کیا جائے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کی جائے۔

ایم ٹی اے سے استفادہ

تربیت اولاد کے لیے ایک ذریعہ ایم ٹی اےبھی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جنہوں نے ایم ٹی اے کا اجرا فرمایا تھا نے 31؍ مئی 1991ء کو سرینام میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے جماعت کو تلقین فرمائی:

‘‘آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نئی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں …’’

پھر فرمایا :

‘‘اپنی اولاد کو خطبات سنانے کا انتظام کریں اور انہی الفاظ میں سنائیں خلاصوں پر راضی نہ ہوں۔… اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑ دیں۔ اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ ان کو غیروں کے حملوں سے بچانے والے ہوں گے۔ ان کے اخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍مئی 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد10صفحہ471تا473)

اوقات کی قربانی

بچوں کی تربیت میں ماں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس لیے ماؤں کو اس کام کے لیے وقت بھی دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کمانے کی ذمہ داری مرد پر رکھی ہے۔ اگرچہ عورت کو یہ اجازت دی ہے کہ حسب حالات وہ کام بھی کر سکتی ہے مگر اس وقت جب وہ مجبور ہو۔ اگر ماں باپ دونوں کام کرتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے بہت کم وقت نکال پائیں گے۔ اس طرح ان کے بچوں میں تربیتی اعتبار سے کہیں نہ کہیں خلا باقی رہ جاتا ہے۔ یہ کوئی شرم کی بات نہیں کہ عورت گھر میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور آنے والی نسل کی صحیح تربیت اور بہتر پرورش کرے۔ بصورت دیگر ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر ماں باپ دونوں کام کریں تو عام طور پر ان کی غیر حاضری اور عدم نگرانی کے نتیجہ میں بچوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اولاد ہی ماں باپ کی دولت اور مستقبل ہے۔

اولاد کے لیے دعائیں

نیک اولاد مانگنا اور اس کی تربیت کے لیے دعائیں کرنا انبیاء علیہم السلام کا طریق ہے۔ اولاد کی تربیت کےلیے دعائیں کرنا اور اُن کی تربیت کےلیے کوشش کرنااور انبیاء کی سنّت پر عمل کرنا ثواب کا موجب ہے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کا خدا تعالیٰ سے نیک اولاد مانگنے کا قرآن مجید میں یوں ذکر آتا ہے۔

ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ھَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ۔(آل عمران:39)

یعنی تب زکریا نے اپنے ربّ کو پکارا (اور) کہا کہ اے میرے ربّ! تو مجھے (بھی) اپنی جناب سے پاک اولاد بخش۔ تو یقیناً دعاؤں کو بہت قبول کرنے والا ہے۔

حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اپنے اہل کو نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے وہ خداتعالیٰ کے ایک پسندیدہ وجود تھے۔ قرآن مجید میں حضرت اسمٰعیلؑ کے متعلق ذکر ہے۔

وَ کَانَ یَاۡمُرُ اَھۡلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ ۪ وَ کَانَ عِنۡدَ رَبِّہٖ مَرۡضِیًّا۔(مریم:56)

اور وہ اپنے گھروالوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتا تھااور اپنے ربّ کے حضور بہت ہی پسندیدہ تھا۔

اسی طرح قرآن مجید میں حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کااپنے بیٹوں کو توحید کا سبق دینے کا ذکر ملتا ہے۔

وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔

(البقرۃ:133)

اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) اس بات کی تاکید کی (اور کہا کہ) اے میرے بیٹو! اللہ نے یقیناً اس دین کو تمہارے لئے چن لیا ہے۔ پس ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم (اللہ کے) پورے فرمانبردارہو۔

اولاد کےلیے دعاؤں کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل فرمان تو ہمیشہ دل و دماغ میں رہنا چاہیے تا کہ ہم کبھی بھی اور عمر کے کسی بھی مرحلہ پر اپنے اس فریضہ سے غافل نہ ہوں۔ فرمایا:

‘‘خودنیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو’’۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 108تا 110۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو پاکیزہ منظوم کلام میں بھی آپ کی بعض دعاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ اس جگہ بطور نمونہ چند دعائیہ اشعار درج کیے جاتے ہیں۔

مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے

تری درگاہ میں عجز و بکا ہے

وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے

زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے

مری اولاد جو تیری عطا ہے

ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے

تری قدرت کے آگے روک کیا ہے

وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے

( درثمین اردو)

ہمیں ہر وقت خدا تعالیٰ سے اپنے نیک انجام اور اپنی اولاد اور نسل کے راہِ راست پر رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اس لیے جو والدین چاہتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں ایک جنّت پیدا کریں اور ہماری اولاد ہمارے لیے قرۃالعین بنے تو ان کو دعاؤں کے ذریعہ اپنی اولادوں کی تربیت کرنا ہوگی اور یہ دعاحرز جان بنانا ہوگی:

رَبَّنَا ھَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔(الفرقان:75)

یعنی اے ہمارے ربّ ہمیں اپنے ازواج کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 14؍نومبر2008ء کو خطبہ جمعہ میں اس آیت کی تلاوت کرنے اور ترجمہ بیان فرمانے کے بعد فرمایا :

‘‘یہ جامع دعا ہے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، ایک دوسرے کے لئے بھی اور اپنی اولاد میں سے بھی ایسی اولاد ہمیں عطا کر جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور جب اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھاتا ہے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک مانگو تو اللہ تعالیٰ کے ان لامحدود فضلوں کی دعا مانگی گئی ہے جس کا علم انسان کو نہیں، خداتعالیٰ کو ہے جس کا انسان احاطہ ہی نہیں کر سکتا۔ اور میاں بیوی اور اولادیں نہ صرف اس دنیا میں ان نیکیوں پر قدم مار کر جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہیں ایک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان نیکیوں کی وجہ سے جو انسان اس دنیا میں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے انعامات سے نوازتا ہے۔ ایک مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیک اولاد ان نیکیوں کو جاری رکھتی ہے جس پر ایک مومن قائم تھا۔ اپنے ماں باپ کے لئے نیک اولاددعائیں کرتی ہے جو اس کے درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری نیکیاں کرتی ہے جو ان کی درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں۔ پس یہ اولاد کی نیکیاں اور اپنے ماں باپ کے لئے دعائیں اگلے جہان میں بھی ایک مومن کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کرتی ہیں۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍نومبر2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍دسمبر2008ءصفحہ5)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں محض اپنے فضل سے خلافت سے جوڑے رکھے اور خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت کرنے اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button