حضرت مصلح موعود ؓ

ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہیے

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(فرمودہ30؍ ستمبر 1929ء بمقام جموں و کشمیر)

کشمیر میں کچھ عرصہ قیام کے بعد سرینگر سے واپس آتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ ایک دن کے لیے جموں میں ٹھہرے۔ احباب جماعت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 30 ستمبر 1929ء کو حضور کی تقریر کا انتظام کیا۔ غیر از جماعت احباب کثرت سے تشریف لائے۔ حسب موقع حضور نے ایک اہم تبلیغی تقریر فرمائی جس میں طالبانِ حق کو توجہ دلائی کہ وہ سچے مذہب اور سچی جماعت کی تلاش میں خدا تعالیٰ سے بذریعہ دعا راہنمائی حاصل کریں۔(انوار العلوم جلد11 صفحہ 2-3) اس تقریر کا متن قارئین کے استفادے کے لیے پیش ہے۔ (ادارہ)

تشہد و تعوذ اور تلاوت سورہ فاتحہ کے بعد فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے منشاء کے ماتحت باوجود اس کوشش کے کہ میں یہاں سے کل ہی روانہ ہو جانا چاہتا تھا مجھے ایک دن کے لئے اس مقام پر ٹھہرنا پڑا۔ میرے دل میں خواہش تھی کہ میں اس مقام کو دیکھوں اس لئے کہ ہماری جماعت کے پہلے خلیفہ اور امام حضرت مولوی نورالدین ایک عرصہ تک اس میں رہے ہیں اور جیسا کہ عام قاعدہ ہے انسان اپنے پیاروں کے مقامات کو دیکھتا ہے۔ مجھے مدت سے اس کا خیال تھا مگر ہر کام کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے۔ جب میری خواہش تھی میں نہ آ سکا مگر اب بغیر اپنی خواہش کے مجبوراً مجھے ٹھہرنا پڑا۔ ہمارے یہاں کے دوستوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان اصحاب کی خاطر جو ابھی سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے کچھ بیان کروں۔ خدا کی حکمت ہے میں سمجھتا تھا میرا وقت ضائع گیا۔ مگر اب خدا نے یہ تقریب پیدا کر دی ہے۔ ممکن ہے میرے اس بیان میں بعض ان لوگوں کو جنہیں تحقیق حق مطلوب ہو کوئی مفید بات معلوم ہو اور وہ فائدہ اٹھائیں۔

مذہب کی غرض

میرے نزدیک مذہب کی غرض فتنہ و فساد پیدا کرنا نہیں بلکہ مذہب دلوں کی صفائی کے لئے ہوتا ہے۔ اگر فتنہ غرض ہوتی تو اسے شیطان با حسن طریق سرانجام دے سکتا تھا۔ مگر مذہب کی ہر گز یہ غرض نہیں۔

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے اپنی جوانی کی زندگی اپنی قوم کی بھلائی میں خرچ کی کوئی عقلمند ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ آپ بڑھاپے کی عمر میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تاریخ میں ایک واقعہ درج ہے جو اگرچہ عام مؤرخین کی نظر سے پوشیدہ ہے مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ جنگ احد کا واقعہ ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت شہید ہوئے۔ اس وقت ابوسفیان نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہے؟ ابوبکر (رضی اللہ عنہ)کہاں ہے؟ عمر(رضی اللہ عنہ)کہاں ہے؟ یعنی سب مارے گئے ہیں۔ اس وقت حضرت عمرؓ جواب دینے لگے کہ میں تمہارے مارنے کے لئے موجود ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا اور اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کہنے دیا۔ لیکن جب ابوسفیان نے کہا اعل ھبل اعل ھبل تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے برداشت نہ ہوسکا۔ اور فرمایا کیوں نہیں کہتے……اللّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَل۔ غرض آپؐ نے ہر گز اپنی ذات نہ منوائی نہ اپنی بڑائی چاہی بلکہ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے۔ پس میں ان واقعات کی موجودگی میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بڑائی دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے تھے۔

پس میں یہی ایک بات پیش کر کے احمدیوں سے بھی اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ تعصب سے کام لینا چھوڑ دیں اور صداقت پر غور کریں۔ اب جب کہ میں گاڑی پر جانے والا ہوں بعض اصحاب نے سوالات کئے ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام کے جواب دے سکوں صرف ایک بات پیش کرتا ہوں جس سے کوئی اہل مذہب انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ خدا کو ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر پیار کرنے والا کوئی وجود نہیں۔ اگر کوئی خدا ہے تو وہ ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اسے ہماری ہدایت کی زیادہ فکر ہے۔

ایک امریکن دہریہ کی کتاب مَیں نے پڑھی ہے جو خداتعالیٰ کے متعلق دیباچہ میں عیسائیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔ ایک بات مجھے سمجھائیں اور وہ یہ کہ اگر خدا ہے تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسے ہمارے ساتھ ہمارے والدین سے زیادہ پیار ہونا چاہئے۔ اس نے سب کچھ ہمارے لئے بنایا تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ پیار نہ کرے اور والدین سے زیادہ ہماری فکر نہ کرے۔ پھر کہتا ہے۔ اگر میں زہر کھاتا ہوں تو مجھے ماں باپ روکتے ہیںدوست روکتے ہیں مگر جب میں گمراہی و ضلالت میں مبتلاء ہوتا ہوں تو کیا وجہ خدا میرا ہاتھ نہیں پکڑتا۔ پھر وہ کہتا ہے مجھ سے کہا جائے گا کہ تم گندے ہو جیسے والدین نالائق اولاد سے ناراض ہو جاتے ہیں اسی طرح خدا بھی تم سے ناراض ہے مگر میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ میں تو گندا سہی مگر تم میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتا جس کا ہاتھ خدا پکڑتا ہو اور اس کو گمراہی وضلالت کے گڑھے سے بچاتا ہو۔ عیسائیوں میں سے کوئی تو ہو جو خدا سے تعلق رکھتا ہو اور خدا اس سے تعلق رکھتا ہو۔

جب میں نے اس کتاب کا یہ مقام پڑھا تو مجھے وجد آ گیا کہ یہ فطرت انسانی بول رہی ہے۔ میں نے کہا بے شک اس کی تسلی عیسائیت نہیں کر سکتی مگر اسلام کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے

وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا

یعنی وہ لوگ جو ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں فرقوں کی کثرت کا یہ حال ہے کہ ان کا گننا بھی آسان نہیں۔ اس حالت میں ایک طالب حق کے لئے سوائے اس کے اَور کوئی راہ نہیں کہ وہ خدا کے حضور جھکے اور صحیح رستہ معلوم کرے۔ ایک صوفی کا واقعہ لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک طالب علم تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگا تو صوفی صاحب نے اسے نصیحت کرنی چاہی اور اس سے دریافت کیا تم اب جاتے ہو مگر یہ تو بتائو اگر شیطان نے تمہارا مقابلہ کیا تو کیا کرو گے۔ طالب علم نے کہا کہ میں بھی اس کا مقابلہ کروں گا۔ صوفی نے کہا اچھا اگر وہ بھاگ جائے اور پھر آ کر مقابلہ شروع کر دے تو پھر کیا کرو گے۔ طالب علم نے کہا میں بھی پھر اس کا مقابلہ کروں گا۔ صوفی نے کہا اس طرح تو تم ہمیشہ شیطان کا مقابلہ ہی کرتے رہو گے۔ پھر آگے کس طرح ترقی کرو گے طالب علم نے کہا پھر آپ ہی بتائیں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ کہا یہ بتائو۔ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے کے لئے جائو اور اس کا کتا تمہارا مقابلہ کرے تو اس وقت کیا کرو گے۔ طالب علم نے کہا میں اسے ہٹائوں گا۔ صوفی نے کہا اگر وہ باز نہ آئے اور اندر جانے نہ دے تو پھر کیا کرو گے۔ اس نے کہا میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ اپنے کتے کو روکو میں اندر آنا چاہتا ہوں۔ صوفی نے کہا۔ بس خدا سے ملنے کا بھی یہی طریق ہے کہ جب شیطان پیچھا نہ چھوڑے تو خدا کی طرف انسان توجہ کرے اور اسے آواز دے کہ تو ہی اسے دور کر دے۔ پس میرے نزدیک بہترین ذریعہ سچائی کی طلب کا یہ ہے کہ انسان خدا کی طرف متوجہ ہو۔ خدا تعالیٰ سے کہے۔ میں کسی مذہب کو اس لئے نہیں مانتا کہ یہ میرے ماں باپ کا مذہب ہے بلکہ میں مذہب کو مذہب سمجھ کر ماننا چاہتا ہوں تو ہی مجھے سچے مذہب کا پتہ بتا۔ جب کوئی یہ طریق اختیار کرے گا تو ضرور خدا اس کی رہنمائی کرے گا۔ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے۔ نہ صرف میرا بلکہ بہت سے غیر مسلموں سے بھی کرایا گیا ہے اور وہ اس طرح کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ پس اگر کسی کو دلائل سے رہنمائی نہیں ہوئی تو وہ یہ طریق اختیار کرے پھر خدا تعالیٰ ضرور اس کی رہنمائی کرے گا۔ سورہ فاتحہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ دعا ہے اور صرف مسلمانوں کے لئے خاص نہیں بلکہ مسلمان، غیر مسلمان سب اس سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں سکھایا گیا ہے کہ بندہ یوں دعا کرے۔ خدایا! ہمیں ایسا رستہ دکھا جو ہدایت کا رستہ ہے اور جو پہلے منعم علیہ گروہ کا رستہ ہے۔ ایسا رستہ نہ دکھا جو مغضوب علیھم یا ضالین کا ہے۔

پس میرے نزدیک جو شخص ہدایت کا طالب ہے وہ تعصب سے دور ہو کر مذاہب کی قیود سے باہر ہو کر خدا سے دعا کرے کہ اے خدا! تو نے مجھے پیدا کیا، تو سچائیوں کا منبع ہے، تو ہی سچا ہادی ہے تو مجھے سچائی کا رستہ دکھا۔ میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص چالیس دن تک ایسا کرے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے لئے رہنمائی کے سامان پیدا کر دے گا۔ یہ ایسا طریق ہے جس سے ہر شخص خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر میں دلائل پیش کروں اور آپ لوگ متاثر بھی ہو جائیں تو بھی ہو سکتا ہے کہ کل کو کوئی اَور آئے اور ان باتوں کو غلط قرار دے اور ان کے خلاف دلائل پیش کرے اور پھر ان سے تم متاثر ہو جائو اس لئے میں ایسی بات پیش کرتا ہوں کہ خود بخود خدا کی طرف سے رہنمائی حاصل ہو جائے۔ یہ وہ طریق فیصلہ ہے جو میں اپنے لئے بھی پسند کرتا اگر میں ہدایت کی تلاش میں ہوتا مگر چونکہ بعض لوگ دلائل کے خواہشمند ہوتے ہیں اور وہ دلائل سننا چاہتے ہیں سو میں ان اصحاب کے لئے مختصراً چند باتیں پیش کرتا ہوں۔

ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہو چکی تھی اور دینی لحاظ سے وہ بالکل کورے تھے۔ اسلام صرف نام کا رہ گیا تھا اور قرآن کریم سے عمل اٹھ گیا تھا۔ صرف رسومات کی پابندی باقی تھی اس لئے خدا کے قاعدۂ مستمرہ کے ماتحت ضرور تھا کہ کوئی مامور و مرسل آتا جو مسلمانوں کی حالت سنوارتا۔ اسلام قائم کرتا احکام قرآن کی پابندی کراتا۔ حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ میں مسیح موعود ہوں اور خدا کی طرف سے مامور و مرسل ہوں۔ میرا کام یہ ہوگا کہ میں اسلام کو دنیا میں قائم کروں اور غیر مذاہب کے حملوں سے اسے بچائوں، اعتراضات کا قلع قمع کروں اور حقیقت اسلام پیش کروں۔ چنانچہ آپؑ ہی کے ذریعہ وہ اعتراض جو مدت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین اسلام کی طرف سے کیا جاتا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے پھیلا ہے دور ہوا۔ آپؑ نے ثابت کیا کہ اسلام کی اشاعت کا باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ تھی جس سے سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح لاکھوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ آج بھی خدا نے مسیح موعودؑ کو بھیجا ہے جو آپؐ کا غلام ہے تا آپؐ کا غلام دنیا میں اسلام بغیر تلوار پھیلائے تا دنیا جان لے کہ جو کام شاگرد کر سکتا ہے وہ استاد کیوں نہیں کر سکتا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استاد تھے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپؐ کی اتباع سے اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات حاصل ہو سکتے ہیں۔ دیکھو استاد کا کمال کیا یہ ہوتا ہے کہ اس کی نسبت کہا جائے یہ ایسا کامل ہے کہ اس کا کوئی شاگرد پرائمری سے بڑھ نہیں سکتا۔ یا یہ کہ یہ ایسا کامل ہے کہ اس کے شاگرد بی اے اور ایم اے ہیں۔ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے نبوت مل سکتی ہے۔ سورہ فاتحہ میں جو اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ آیا ہے اس کی دوسرے مقام پر اس طرح توضیح کی گئی ہے کہ

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (سورۃ النساء:70)

اس آیت میں منعم علیہ گروہ کے چار درجے بیان فرمائے گئے ہیں۔ نبی،صدیق، شہید، صالح۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے انسان یہ چار درجے حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرے انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک یہ بھی فرق ہے کہ پہلے انبیاء کی اتباع سے نبی نہیں بن سکتے تھے صدیق اور شہید ہو سکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کمال حاصل تھا کہ حضور کی اتباع سے نبی بھی بن سکتے ہیں۔

بعض لوگ ناواقفیت کے باعث یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میںمع کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ نبی نہ ہونگے نبیوں کے ساتھ ہونگے۔ مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے۔ یہ مع صرف النبیین کے ساتھ ہی نہیں۔ بلکہ الصدیقین، الشھداء، الصالحین سب کے ساتھ بھی ہے اور اگر ان کے معنی درست تسلیم کئے جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ نبی نہ ہونگے،نبیوں کے ساتھ ہونگے۔ صدیق نہ ہونگے بلکہ صدیقوں کے ساتھ ہونگے۔ شہید نہ ہونگے بلکہ شہداء کے ساتھ ہونگے۔ صالح نہ ہونگے بلکہ صالحین کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو ان معنی سے تو امت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

یہاں مع بمعنی مِن یعنی ’سے‘ کے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ استعمال موجود ہے۔ چنانچہ آیا ہے۔

تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار

یعنی نیکوں میں سے کر کے مار، یہ معنی نہیں کہ جب کوئی نیک بندہ مرنے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ وفات دے دے۔

پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مقام نبوت بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے جو نبی بنے گا۔ اس کی نبوت دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے وہ امتی ہوتا ہے۔ پس ایسی نبوت کے حصول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان نہیں۔ حدیث میں آیا ہے لَوْکَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّااتِّبَاعِیْ یعنی اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا اَور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ پس اگر نبی کے ماتحت ہونے سے کسر شان ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے۔ حضرت مرزا صاحب باوجود دعویٰ نبوت کے امتی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے اظہار میں عزت سمجھتے تھے۔ چنانچہ آپ کا یہ مشہور شعر ہے۔ ؎

کرامت گرچہ بے نام و نشان است

بیا بنگر ز غلمانِ محمد

اسی طرح آپ اپنے فارسی الہامی قصیدہ میں فرماتے ہیں۔

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ نعتیں لکھیں جن کا پہلی نعتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ آپؑ سے پہلے کی کہی ہوئی نعتیں صرف زلفوں گیسوئوں کے ذکر پر مشتمل ہوتی تھیں۔ اور کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا وغیرہ۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی نعتیں کہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا۔ ان نعتوں کا موازنہ صرف مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔

ایک شخص نے جب مجھ سے سوال کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بھی نعت دیکھی جائے اس میں آپ کے کمالات کا ذکر نہیں ہوتا، آپ کی خوبیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا صرف گیسوئوں اور زلفوں کی تعریف ہوتی ہے تو میں سخت شرمندہ ہوا اور میں نے اسے یہ جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نعتیں لکھی ہیں وہ آپ دیکھیں۔

غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ نعتیں لکھی ہیں جن سے اسلام کی محبت ظاہر اور نمایاں طور پر نظر آتی ہے جو شخص بھی ان نعتوں کو دیکھے کبھی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کے لئے کوئی دعویٰ کرتا ہوگا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کرنے والے ہوں اور پھر حضور کی عزت وعظمت قائم کرنے کے لئے ایسی ایسی نعتیں بھی لکھیں۔ بالآخر میں کہتا ہوں آپ لوگ خدا تعالیٰ ہی سے راہنمائی حاصل کریں اور اس کے لئے یہ طریق اختیار کریں جو دعا کا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا کرے کہ ہم صحیح رستے پر گامزن ہوں اور اس کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔

(الفضل 3۔ دسمبر 1929ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button