خوشاب میں قتل
4؍ نومبر کو خوشاب میں ایک بینک مینیجر کا بینک کے گارڈ کے ہاتھوں قتل، مذہب کے نام پر بہایا جانے والا ایک اور خون تھا۔ اس واقعہ کی جو تفصیلات میڈیا پر بیان ہوئیں ان کے مطابق مینیجر نے گارڈ کو اس کے دفتری فرائض کی انجام دہی میں تساہل پر اس دن پھر بازپرس کی جس پر بگڑ کر، بینک اور اس کے عملہ کی حفاظت پر مامور گارڈ نے، اس غرض سے اس کو دی گئی بندوق سے، فائر کھول کر مینیجر کو قتل کر دیا۔ اور پھر نعرے لگاتا ہوا بینک سے باہر آگیا۔ جلد ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا اور ایک مولوی صاحب کی سربراہی میں جلوس کی شکل میں تھانے پہنچا۔ مولوی صاحب، قاتل اور چند پُرجوش حامی بمع ایک باوردی اہل کار کے تھانے کی چھت پر چڑھ گئے۔ جہاں مولوی صاحب نے دستی لاؤڈاسپیکر پر جلوس کو تسلی دلائی کہ سارا کام عاشقانِ رسول کی امنگو ں کے مطابق ہوگا۔ قاتل سے نعرے لگوائے گئے جن کے جواب میں ’سر تن سے جدا‘کے شور سے نفاذ ِقانون کی ایک علامت ’تھانہ قائد آباد‘ کے در وبام خوب گونجے۔
احمدیوں پر ظالمانہ تہمت
اس واقعہ میں مقتول کے ایک عزیز اور جنازہ پڑھانے والے مولوی صاحب کا مقتول کے احمدی نہ ہونے کا اظہار یہ ملا جلا تاثر دیتا ہے کہ چونکہ وہ احمدی نہ تھا اس لیے اس پر گستاخی کا الزام درست نہیں گویا اگر وہ احمدی ہوتا تو ایسا ممکن تھا۔ یہ بات معاشرے میں احمدیوں کے بارے میں پھیلائے جانے والی غلط فہمیوں کا شاخسانہ اور ان پر صریح تہمت ہے۔ کوئی احمدی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیںسکتا۔ ہر احمدی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تعلیمات اور ان کے عملی نمونہ کے تابع آنحضرتﷺ کا عاشق اور دل سے آپؐ کا نام لیوا ہے۔ آنحضورﷺ سے محبت کرتا ہے۔ آپﷺ پر درود بھیجتا ہے۔ اور ہر دم آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ہر احمدی کے ایمان کا حصہ ہے۔
آنحضرتﷺ کی گستاخی کی ہر ناپاک کوشش ایک احمدی کو انتہائی دکھ دیتی ہے اور اس کے زخمی دل سے وہی تڑپ اٹھتی ہے جس کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ نے ایسے حالات میں ان الفاظ میں فرمایا:
’’اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلّت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم و اللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو اِن گالیوں اور اِس توہین سے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 52)
نیا واقعہ، پرانی کہانی
یہ واقعہ اور اس کے کردار اگر چہ نئے ہیں مگر کہانی پرانی ہے جو 1984ء کے بعد بار بار دہرائی گئی ہے۔ اور اس کے درج ذیل اجزائے ترکیبی ایسے ہر گذشتہ واقعہ میں بھی مشترک رہے ہیں۔
1۔ ذاتی اغراض کے لیے مذہب کا نام
اپنے غصہ اوربغض و حسد کی تسکین یامالی منفعت کی طمع یا خود راہ گم کردہ مذہبی رہ نماؤں کے بہکاووں میں آ کرکسی لا علم اور لائی لگ فرد کا مذہب کے نام پر اپنے ہاتھوں انسانی خون بہانے کی جرأت کرنا۔ اور پھر اس جرم کو کوئی نیکی جاننا اور اس پر فخر کرنا۔
2۔ خود ساختہ منصفی
دینی معاملات میں خود منصف بن جانا اور یہ فیصلہ کر لینا کہ اس کے ہاتھوں جان سے جانے والا واقعی مجرم اور سزا کا مستحق ہے۔ اور یوں عملاً عدل و انصاف کے اس آسمانی نظام کی نفی کرناجو نیک، منصف مزاج اورباصلاحیت منصفین اور دیانت دار گواہوں کی شہادتوں پر مشتمل ہے اور جسے خود منصف ِاعلیٰ خدائے بزرگ و برتر نے اپنے پیارے رحمۃ للعالمین پیغمبرﷺ کے ذریعہ روز ِآخر تک کے لیے اس دنیا میں نافذ فرمایا ہے۔
3۔ خود ساختہ محتسب
خود کو منصف گرداننے کے ساتھ خود ہی محتسب بھی بن جانااور اس سزا کو نافذ کر دینا جس کا قاتل کے خام خیال میں اس کا معتوب مستحق ہے۔ اور یوں عملاً قرآن کریم کی اس تعلیم کی نفی کر دینا جس کے تحت کوئی شخص بھی دوسروں کے اعمال کا ذمہ دار نہیں۔ حتیٰ کہ خود آنحضرتﷺ سے فرمایا گیا کہ
لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ (الغاشیہ:23)
یعنی تُو ان پر داروغہ نہیں۔
دنیا میں ملکی قوانین کے تحت کیے گئے جرائم کی سزا دہی حکومت کا کام ہے اور دینی معاملات جو بندے اور اس کے خدا کے درمیان ہوتے ہیں سزاؤں کی معافی یا سزاد ہی صرف مالک ِیوم الدین کے ہاتھ میں ہے اور کوئی دوسرا اس میں دخل اندازی کا مجاز نہیں ہے۔
4۔ مجرم کی پذیرائی
گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کی پذیرائی اور بعد از مرگ اس کی قبر کا آستانہ بننا، پھر اس کے بعد ایسے قاتلوں کا ہیرو بننا اور اس سوچ کی ہر سطح پر مسلسل تشہیر سے عوام الناس کا یہ سمجھ لیناکہ انسانی جان لینے کا یہ گھناؤنا جرم بھی قابل تعریف ہو سکتا ہے۔ یا ایسے قاتل بھی محترم ہوسکتے ہیں اور یوں عملاً قرآن کریم کی اس تعلیم کی نفی کر دینا:
مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا (المائدہ:33)
جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ لی ہو…تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔
5۔ انصاف کی بے توقیری
ریاستی قوانین افراد کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ لیکن جب کسی قانون کی بنیاد ہی ایک طبقہ کی حق تلفی پر ہوتو پھر اس کا نفاذ مزید حق تلفیوں کے بغیر کیسے ہو سکتاہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریّا می روَد دیوار کج
پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
یہی سبب ہے کہ ایسے واقعات میں اکثر قانون کے نفاذ کے ذمہ دار فریق بنے نظر آتے ہیں۔ اور حق و انصاف کی اس بے توقیری میں انتظامیہ کے ساتھ عدلیہ بھی شریک دِکھتی ہے۔
6۔ میڈیا کی جانب داری
جہاں خبر بھی اپنا نفع نقصان دیکھ کر لگتی ہووہاں حقیقت کا کھوج لگا کر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ ان واقعات کو جس طرح رپورٹ کیاجا تاہے وہ ظاہر و باہر ہے۔
اکثر مقتول کا مذہب یہ متعین کر تا ہے کہ خبر کیسی اور کتنی ہو۔ اس حالیہ واقعہ میں جب ابتدا میں مقتول کو احمدی بیان کیا گیا تو خبر گرم رہی اور قاتل کو حب رسولﷺ سے سرشار بیان کیا گیا۔ بعد میں جب مقتول کے ایک عزیز اور جنازہ پڑھنے والے مولوی صاحب نے اس کی تردید کر دی اور اسے سنّی بریلوی بتایا تو یہ خبر غیر اہم ہو کر پس پشت چلی گئی۔ تاہم پھر بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے اس نا روا عمل کی مذمّت کرنے کی بہت کم لوگوں میں ہمت پیدا ہوائی۔
7۔ مقام خوف
ناانصافی اور ظلم و زیادتی کے یہ سارے انداز ایک ایسے معاشرے کی علامات ہیں جو زوال پزیر ہو ۔ انسانیت، شرافت، سچائی اور انصاف کو چھوڑ کر اورناانصافی اور ظلم و زیادتی کی راہ اختیار کر کے کب کوئی معاشرہ پنپا ہے۔ قرآن کریم میں مذکور اعلیٰ اقدار سے تہی مٹا دی جانے والے تہذیبوں کے حا لات سے آج کے حالات کی یہ مماثلت یقیناً مقام خوف ہے۔
٭…٭…٭