تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط نہم۔ آخری)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ادنیٰ اور پس ماندہ اقوام کو اسلام میں داخل کرنا چاہیں تو ہمارے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ یا تو ہمارے پاس بہت بڑی زمینیں اور جائیدادیں ہوں اور یا پھر صنعت وحرفت کے لحاظ سے ہمارے پاس کافی طاقت ہو۔ مجھے ایک دفعہ کا نگڑہ کے ضلع سے ایک شخص جو اپنی قوم کا لیڈر تھا ملنے کے لئے آیا اور اس نے کہا ہمارے سات ہزار آدمی اسلام لانے کے لئے تیار ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن آپ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کہنے لگا کوئی بات نہیں ہم کاشتکاری کرتے ہیں اور روپیہ ہمارے پاس کافی ہے اپنے متعلق بتایا کہ میں ٹھیکیدار ہوں اور مجھے مالی رنگ میں کسی قسم کی احتیاج نہیں۔ میں نے کہا پھر بھی کوئی بات تو ہوگی جو اور لوگوں کو چھوڑ کر میرے پاس آئے ہیں۔ کہنے لگا صرف اتنی بات ہے کہ ہماری قوم جس جگہ بسی ہوئی ہے وہ زمین ایک ہندو ٹھاکر کی ہے جس دن ہم مسلمان ہوئے ہندو ٹھاکر نے ہمیں نوٹس دے دینا ہے کہ اپنا سامان اُٹھاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ اگر آپ ہمارے لئے زمین کا انتظام کر دیں تو ہم مسلمان ہونے کے لئے بالکل تیار ہیں مکان وغیرہ ہم خود بنا لیں گے ہمیں اس کے لئے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میں نے کہا میں تو تم سے بھی زیادہ مجبور ہوں سات ہزار آدمیوں کو بسانے کے لئے میں کہاں سے زمین لاؤں۔ اُس نے کہا یوں تو علماء بھی کہتے ہیں کہ ہم کلمہ پڑھانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان سات ہزار آدمیوں کا پھر بنے گا کیا اور جب یہ نکال دئیے جائیں گے تو ان کو مکانوں کے لئے زمین کہاں سے ملے گی۔ اب دیکھو کس طرح سات ہزار آدمی مفت اسلام میں داخل ہو رہاتھا مگر ایک منٹ کے اندر اندر ہاتھ سے نکل گیا۔ اسی طرح اور بہت سے مقامات ہیں جہاں سات سات دس دس ہزار آدمی منٹوں میں اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں وہ بیزار ہیں اپنے مذاہب سے اور بیزار ہیں اپنے مذاہب کے علمبرداروں سے، نہ ان کے مذہب میں نور ہے نہ ہدایت ہے نہ علم ہے نہ دین اور دنیوی ترقی کا کوئی سامان ہے اور نہ کوئی اور خوبی ہے۔اگر ان کی اصلاح اور ترقی کے لئے تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں ہماری جماعت مضبوط ہو جائے اور مختلف مقامات پر کارخانے کھل جائیں تو ان کے کام کے لئے بھی بہت کچھ گنجائش نکل سکتی ہے۔ کانگرس نے دیہات سدھار کے نام سے جو سکیم جاری کی تھی اس کی غرض بھی در حقیقت ہندو مذہب کی مضبوطی تھی کیونکہ اس ذریعہ سے جب مزدور طبقہ کو کام مل جاتا ہے تو ہندو مذہب پر وہ اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اگر مختلف مقامات پر کارخانے جاری ہو جائیں اور جماعتیں ان میں حصہ لیں تو یہ تبلیغ اسلام کا ایک ایسا کامیاب ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ہزاروں ہزار مزدوروں کے لئے کام کرنے کا موقع پیدا ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب ہم ان کو اسلام کی دعوت دیں گے تو ان کے لئے اسلام قبول کرنا موجودہ حالات کی نسبت زیادہ آسان ہوگا۔ یہ وہ اہم اور ضروری تحریکات ہیں جو جماعت کو ہمیشہ اپنے مدنظر رکھنی چاہئیں یعنی تعلیم القرآن کو عام کرنا، دُنیوی تعلیم کے حصول میں ترقی کرنا، تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینا، دفتردوم کو مضبوط کرنا، وقف زندگی کی تحریک میں اپنے آپ کو پیش کرنا، وقفِ تجارت میں اپنا نام لکھوانا، صنعت وحرفت کی ترقی کے لئے جو کارخانے جاری کئے جانیوالے ہیں ان میں حصہ لینا۔اگر ان تمام تحریکات میں جماعت پورے جوش کے ساتھ حصہ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا ایک ایسا مکمل دائرہ تیار ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد جماعت بغیر کسی تکلیف کے اپنے کاموں کو جاری رکھ سکتی ہے اور وہ لٹریچر بھی جو تبلیغی ضرورتوں کے لئے تیار کیا جا چکا ہے یاآئندہ تیار ہوآسانی سے مختلف ممالک میں پھیلایا جا سکتا ہے۔
میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ فضائل القرآن کے موضوع پر گزشتہ سالوں میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جو تقاریرمیں کرتا رہا ہوں(یعنی ۱۹۲۸ء، ۱۹۲۹ء، ۱۹۳۰ء، ۱۹۳۱ء، ۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۶ء میں) ان کو بھی کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔ چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ سوچ سمجھ کر میری لکھی ہوئی تفسیر کو پڑھے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کی تفسیر مکمل نہیں ہوئی۔اصل بات یہ ہے کہ میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سُوَر کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مدنظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنی ہیں۔ فرض کرو ایک نکتہ یہاں ہے اور ایک وہاں اور درمیان میں جگہ خالی ہے تو ہوشیار آدمی دونوں کو دیکھ کر خود بخود درمیانی خلاء کو پُر کرسکے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ جب یہ نکتہ فلاں بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور وہ نکتہ فلاں بات کی طرف تو درمیان میں جو کچھ ہو گا وہ بہرحال وہی ہو گا جو ان دونوں نکتوں کے مطابق ہو۔ اگر درمیانی مضمون کسی اور طرف چلا جائے تو دائیں بائیں کے مضامین بھی لازماً ادھورے رہ جائیں گے اور سلسلۂ مطالب کی کڑی ٹوٹ جائے گی۔ پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لئے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تفسیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں درمیانی آیات کا حل کرنا اُس کے لئے بالکل آسان ہو گا کیونکہ ترتیبِ مضمون اسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ باقی آیتوں کے وہی معنی کرے جواس ترتیب کے مطابق ہوں۔
ایک لطیفہ یاد آگیا جب میں سورہ کہف کی تفسیر لکھنے بیٹھا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں کہ
وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ (الکہف:25،24)
اور اس کا پہلی آیات سے جوڑ کیا ہے؟ میں دو تین گھنٹے سوچتا رہامگر یہ آیت حل نہ ہوئی آخر میں گھبرا گیا اور میں نے کہا اچھا اگر اِس وقت مجھے اس آیت کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو نہ سہی جب میں تفسیر لکھتے لکھتے یہاں پہنچوں گا تو دیکھا جائے گا جب میں سورئہ کہف کی تفسیر لکھتے لکھتے اس آیت سے پہلی آیت پر پہنچا تو اگلی آیت آپ ہی آپ حل ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ اس کے کیا معنی ہیں کیونکہ ان معنوں کے سوا کوئی اور معنی ترتیبِ آیات کے لحاظ سے بن ہی نہیں سکتے تھے۔ اُن دنوں مولوی شیر علی صاحب ولایت میں تھے لطیفہ یہ ہوا کہ جب مولوی شیر علی صاحب انگریزی ترجمۃ القرآن کے نوٹ میرے پاس لائے تو میرے دل میں خیال گزرا کہ چلو یہی دیکھ لو کہ
لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ
کے انہوں نے کیا معنی کئے ہیں۔ جب میں نے دیکھا تو وہی معنی لکھے تھے جو میں نے کئے تھے۔ میں نے کہامولوی شیر علی صاحب نے تو کمال کر دیا کہ جو آیت میرے لئے معمہ بنی رہی تھی اسے اُنہوں نے لندن میں ہی حل کر لیا۔ اس پر ملک غلام فرید صاحب کہنے لگے کہ یہ مولوی شیر علی صاحب کے معنی نہیں بلکہ آپ کے ہی معنی ہیں آپ نے اگست ۱۹۲۸ء میںجوقرآن کریم کا درس دیا تھا اس میں آپ نے اس آیت کے یہی معنی کئے تھے اور مولوی صاحب نے اسی درس کے نوٹوں سے یہ معنی لئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے اُس وقت بھی چونکہ میں ترتیب کے ماتحت تفسیر کر رہا تھا اِس لئے یہ آیت خود بخود حل ہو گئی اور بعد میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے اس کے کیا معنی کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں بغیر ترتیب کے اس پر غور کرنے بیٹھا تو مجھے اس کے کوئی معنی سمجھ میں نہ آئے لیکن ترتیب میں آکر حل ہو گئے۔
پس میری تفسیر کے متعلق یہ اصولی گُر یاد رکھنا چاہئے کہ میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیا ت کے ماتحت چلتی ہے اور جب کوئی تفسیر ترتیب کے ماتحت چل رہی ہو تو ایسی حالت میں اگر کسی کو دو الگ الگ نکتے مل جائیں گے تو خواہ درمیان میں فاصلہ ہو وہ آسانی سے درمیانی آیات کی تفسیر کو نکال سکتا ہے کیونکہ وہ سمجھ جائیگا کہ صحیح تفسیر ہی ہوگی جوان دونکتوں کے مطابق ہو۔ جس طرح پٹواری جب کسی زمین میں الگ الگ مقامات پر کیلے گاڑ دیتا ہے تو پھر اسے کوئی مشکل نہیں رہتی اور وہ آسانی سے پیمائش کر سکتا ہے رسّی کا ایک کونہ ایک کیلے سے باندھ دیتا ہے اور دوسرا کونہ دوسرے کیلے سے اور وہ جانتا ہے کہ اب رسّی اِدھر اُدھر ہو ہی نہیں سکتی اسی طرف جائے گی جس طرف کیلا ہو گا۔ اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو۔ بہرحال فضائل القرآن کا مضمون بھی نہایت اہم ہے اگر یہ مضمون مکمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہین احمدیہ مکمل ہو جائے گی۔ لیکچر تو کئی سالوں سے تیار ہیں مگر ان میں سے چھپا ایک بھی نہیں اب ارادہ ہے کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔
غرض جماعت کی دینی، دنیوی، علمی، تجارتی، صنعتی، اقتصادی اور تربیتی ترقی کے لئے میں نے مختلف تحریکات کی ہوئی ہیں۔ دوستوں کو ان سب تحریکوں میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ پھر سب سے بڑھ کر جو چیز اہمیت رکھنے والی ہے وہ محبتِ الٰہی ہے پس جماعت کو علاوہ اور تحریکات میں حصہ لینے کے کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرے اور انہیں ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ پھر زمینداروں کی اصلاح اور ان کی بہبودی کے متعلق بھی میرے ذہن میں ایک سکیم ہے مگر زمیندار بڑی مشکل سے قابو آتے ہیں۔ کئی باتیں اُن کے فائدہ کی ہوتی ہیں مگر جب انہیں سمجھایا جاتا ہے تو ان باتوں کا انہیں قائل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کے لئے بھی کوئی قدم اُٹھایا جائے جس سے زمیندارہ کام میں ترقی ہو اور پیداوار پہلے سے زیادہ ہوسکے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے یہ تمام طبقات پوری طرح مضبوط ہو جائیں، زمیندار بھی ترقی کی طرف اپنا قدم اُٹھانا شروع کر دیں، تاجر اور صناع بھی مختلف علاقوں میں تجارت اور صنعت شروع کر دیں، مزدوروں اور ادنیٰ اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی مختلف کارخانوں میں کام کرنے کے مواقع پیدا ہو جائیں تو ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو اور عیسائی اسلام میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ آج دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو دل سے سمجھتے ہیں کہ اسلام سچا ہے مگر دُنیوی روکیں ان کو اسلام قبول کرنے کی طرف اپنا قدم بڑھانے نہیں دیتیں۔ اگر ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اور زمیندار اور کارخانہ دار سب کے سب منظم ہو جائیں اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کے لئے ہمارے پاس تجارت اور صنعت وحرفت کا ایک بہت بڑا میدان تیار ہو جائے تو ان لوگوں کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کے متعلق جو ایک ظاہری ڈر پایا جاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ دلیری اور جرأت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیں گے اُس وقت ہمیں وہی نظارہ نظر آنے لگے جو اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ
یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا(النصر:3)
پھر ہمیں یہ خبریں نہیں آئیں گی کہ آج دس آدمیوں نے بیعت کی ہے، آج بیس نے بیعت کی ہے، آج تیس اور چالیس نے بیعت کی ہے بلکہ ہمارے مبلّغ دنیا کے مختلف اطراف سے ہمیں تاروں پر تاریں بھجوائیں گے کہ آج دس ہزار نے بیعت کی ہے، آج پچاس ہزار نے بیعت کی ہے، آج ایک لاکھ نے بیعت کی ہے صرف اپنے ایثار اورقربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے معیار کو اونچا کر لیں گے تو ہماری ترقی ایک یقینی چیز ہے جس میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں ہوسکتی ۔
مَیں آخر میں آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو قادیان میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں ہماری جماعت کے افراد کو کثرت کے ساتھ آنا چاہئے یہاں تک کہ آپ یہ بھی فرماتے کہ جو شخص قادیان میں بار بار نہیں آتا مجھے اُس کے ایمان کے متعلق ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ یہ آپ لوگوں کا ہی قصور ہے کہ صرف جلسہ پر آتے ہیں دوسرے اوقات میں آنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔ اب تو میں سوائے بیماری یا سفر کے ہمیشہ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دین کی باتیں دوستوں کو سکھاتا رہتا ہوں یہ بھی ایک نیاموقع ہے جس سے ہماری جماعت کے افراد کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تاکہ آہستہ آہستہ وہ لوگ تیار ہو جائیں جو دین کی اشاعت کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہوں اور ان کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہو کہ وہ ہر قسم کی قربانی پیش کرکے دین کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح میری خواہش ہے کہ ہر مسجد بلکہ ہر محلہ میں درس جاری ہوں تا کہ لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ پس بجائے اس کے کہ آپ سارازور انہی دنوں میں صرف کریں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسرے مواقع پر بھی مرکز میں آتے رہیں۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ پوربیا چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھاتا ہے اور خوب کھاتا ہے آپ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ اور ایام میں تو یہاں آنے کی کوشش نہیں کرتے اور سال بھر میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں پہنچنے کے لئے پورا زور صرف کر دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کو دوسرے مواقع پر بھی بار بار آنا چاہئے اور اس جگہ دین سیکھنے کے جو مواقع خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور وہ ہمیشہ اپنے فضل اور رحم کی بارش آپ پر اور آپ کے تمام متعلقین اور رشتہ داروں پر برسائے تا کہ دین اور دنیا دونوں کی ترقیات کے سامان آپ کے لئے اور آپ کی آئندہ نسلوں کے لئے ہمیشہ جاری رہیں۔ آمِیْن یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْن۔
(الفضل ربوہ 28؍ اگست1959ء۔22؍جنوری 1960ء۔11؍جولائی 1962ء)
٭…٭…٭