تعارف کتابسیرت النبی ﷺ

’’دنیا کا محسن‘‘ (قسط سوم۔آخری)

(محمود احمد ملک)

آپؐ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہر ایک قوم کے لئے روحانی بادشاہت پانے کا دروازہ کھلا رکھا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب دنیا کے لیے بھیجا ہے۔ سب انسان خداتعالیٰ کے لیے برابر ہیں

حضرت رسول کریمﷺ کے احسانات بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پانچواں احسان آپؐ کی وہ تعلیم ہے جو آپؐ نے اخلاقی ترقی کے متعلق دی ہے اور جس سے بدی کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔ یعنی انسان خواہ کیسی گندی حالت میں پہنچ جائے یہ نہ سمجھے کہ وہ نیک نہیں بن سکتا۔ اس تعلیم کے ذریعہ سے آپؐ نے مایوسی اور ناامیدی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ آپؐ نے خداتعالیٰ سے علم پا کر فرمایا کہ خدا کی رحمت سے سوائے کافروں کے اَور کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ (یوسف:88)

اسی طرح آپؐ کا دنیا پر یہ بھی احسان ہے کہ آپؐ نے یہ تعلیم دی ہے کہ سچی جستجو کبھی ضائع نہیں جاتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ملنے کے لیے کوشش کریں گے ہم ضرور ان کو ہدایت دے دیں گے۔ (العنکبوت:70) یعنی جو بھی سچے دل سے جستجو کرے گا وہ خداکو پالے گا۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ سکھ یا ہندو یا عیسائی کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ بلکہ طلبِ ہدایت کے متعلق ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے۔

چھٹا احسان آپؐ کا یہ ہے کہ آپؐ نے قومی امتیازات کو مٹا کر انسانی مساوات کو قائم کیا ہے۔ آپؐ سے پہلے ہر قوم اپنے آپ کو اعلیٰ قرار دیتی تھی۔ عرب تحقیر کے طور پر کہتے کہ عجمی جاہل ہیں۔ عجمی کہتے کہ عرب وحشی ہیں۔ رومی کہتے کہ ہم سب سے اعلیٰ ہیں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا :اے عربو!یاد رکھو! تم کو دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں سوائے اس کے کہ تم تقویٰ میں دوسروں سے بڑھ جاؤ۔

پس آپؐ کی تعلیم مساوات کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ اِسی لیے آپؐ نے خداتعالیٰ سے حکم پا کر کہا :تُو کہہ دے کہ قومیں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں (الحجرات:14)۔ قومی مساوات کے ساتھ آپؐ نے تمدنی درجے میں بھی سب کو برابر کر دیا۔ اور فرمایا سوائے ایسی قوموں کے جن کو حرام و حلال کا پتہ نہیں ہے باقیوں سے مل کر تم کھا پی سکتے ہو۔ یعنی جو صاف ستھرے لوگ ہوں یا جن کے ہاں حلال و حرام کا معیار مقرر ہو اُن سے کھانا پینا منع نہیں۔

پھر احکامِ انصاف میں آپؐ نے مساوات کو قائم کیا۔ چنانچہ کسی مسلمان کی یہودی سے لڑائی ہو تو اس میں مسلمان کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ نہ باہمی معاملات میں اپنی قوم کو ترجیح دی جائے گی۔ مثلاً یہود میں حکم ہے کہ یہودی سے سُود نہ لو مگر غیر سے لے لو۔ لیکن رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ نہ کسی مسلمان سے سُود لو نہ کسی اَور سے۔ اگر سُود ظلم ہے تو ہر کسی سے لینا بُرا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایا:تُو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ یہ سن کر صحابہؓ نے کہا مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آگیا؟ مگر ظالم کی کس طرح مدد کی جائے؟ آپؐ نے فرمایا:ظالم کی مدد اِس طرح کرو کہ اُسے ظلم سے روک دو۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی زندگی نہایت مقدس اور پاک تھی۔ پس آپؐ نے انصاف اور مساوات کو قائم کیا اور باہمی معاملات میں سب انسانوں کو برابر قرار دیا۔

مساوات کی مثال آپؐ کے معاہدات کی پابندی میں نظر آتی ہے۔ یعنی عہد خواہ اپنے سے ہو یا غیر سے کِس طرح آپؐ اس کی پابندی کراتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ لڑائی کے لیے جا رہے تھے۔ لڑائی کے وقت ایک ایک آدمی قیمتی ہوتا ہے۔ اُس وقت رستہ میں دو آدمی ملے۔ آپؐ کے پوچھنے پر انہوں نے کہا: اسلام لانے کے لیے مکّہ سے آئے ہیں مگر وہاں کہہ آئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی مدد نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا توپھر ہمارے ساتھ شامل نہ ہو، وعدہ خلافی سے بچو۔

تمدنی اور شرعی مساوات کے علاوہ آپؐ نے روحانی مساوات بھی قائم کی۔ چنانچہ آپؐ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہر ایک قوم کے لئے روحانی بادشاہت پانے کا دروازہ کھلا رکھا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب دنیا کے لیے بھیجا ہے۔ سب انسان خداتعالیٰ کے لیے برابر ہیں پس وہ اس کے دین میں شامل ہوکر اعلیٰ روحانی انعامات پا سکتے ہیں۔

ساتواں احسان آپؐ کا یہ ہے کہ آپؐ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے سامان پیدا کیے ہیں۔ مثلاً:

(1)بہت سی لڑائیاں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ دوسرے کے مذہب کو جھوٹا اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ آپؐ نے یہ جھگڑا یہ اعلان کر کے ختم کردیا کہ کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خداتعالیٰ کے نبی نہ گزرے ہوں۔ (فاطر:25)۔ اس اعلان کے ذریعے سب اقوام کے انبیاء کے تقدّس کو قبول کر لیا گیا۔ اور چونکہ سب مذاہب خدا کے قائم کردہ ہیں پس ان کے بزرگوں سے بُغض اور ان مذاہب کا قطعی انکار جائز نہیں۔

(2) دوسری وجہ لڑائی کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی قوم کے بزرگوں کو تو بُرا بھلا نہیں کہتا لیکن اس کے اُصولوں کو بُرا کہتا ہے۔ رسول کریمﷺ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس فعل سے بھی روکا ہے۔ فرمایا: وہ چیزیں جنہیں دوسرے مذاہب والے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے بُت وغیرہ ان کو بھی گالیاں مت دو۔ (الانعام:109)

یہ کتنی اعلیٰ تعلیم ہے جو آپؐ نے دی ہے کہ دوسرے مذاہب کے جو بزرگ سچے تھے انہیں مان لو اور جو چیزیں سچی نہ تھیں انہیں بُرا بھلا نہ کہو۔

(3) تیسری بات فساد پیدا کرنے والی یہ ہوتی ہے کہ ہر مذہب والا دوسرے مذہب کے متعلق کہتاہے کہ وہ قطعاً جھوٹا ہے۔ فرمایا:کیسا اندھیر مچ رہا ہے یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں۔ حالانکہ یہ دونوں کتابِ الٰہی پڑھتے ہیں(البقرہ:114)۔ یعنی ہر ایک چیز میں خواہ وہ کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور جب کوئی چیز کسی فائدہ کی نہ رہے تو بالکل مٹا دی جاتی ہے۔ پس یہ نہ کہو کہ دوسرے میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں۔ یہ خوبصورت تعلیم صرف اسلام نے ہی دی ہے۔ دراصل یہ بزدلی ہوتی ہے کہ دوسروں کی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے۔

رسول کریمﷺ نے امن کے قیام کے لیے دنیا کے سامنے اس صداقت کو بھی پیش کیا ہے کہ ہر مذہب کے اکثر پیرو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں نہ کہ ضد اور شرارت سے۔ پس یہ نیکی کی تڑپ جو اُن کے دلوں میں پائی جاتی ہے نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ اور گو وہ غلطی پر ہوں مگر پھر بھی ان کی یہ سعی قابلِ قدر ہے۔ چنانچہ جب کچھ عیسائی رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور اُن کی عبادت کا وقت ہوگیا تو آپؐ نے انہیں مسجد نبوی میں ہی عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ وہ لوگ سچے دل سے خداتعالیٰ کے قرب کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔

دنیا میں باعثِ فساد یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کسی نہ کسی وجہ سے فساد پیدا ہوجائے تو لوگ اُسے جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسول کریمﷺ نے اس وجہ ِفساد کو بھی یہ کہہ کر دُور فرمادیا کہ جب لڑائی ہورہی ہو اور لڑنے والا دشمن لڑائی چھوڑ دے تو پھر اس سے لڑنا جائز نہیں(البقرہ:193)۔ کیونکہ یہ ایک قسم کی ندامت ہے اور اللہ تعالیٰ نادم کی ندامت کو ضائع نہیں کرتا بلکہ بخشش سے کام لیتاہے اور رحم کرتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:سزا انہیں کو دی جاتی ہے جو ظلم کر رہے ہوں (البقرہ:194)۔ یعنی جو شرارت سے باز آجائیں انہیں سابقہ قصوروں کی وجہ سے برباد نہیں کرتے جانا چاہیے۔

آٹھواں احسان رسول کریمﷺ کا یہ ہے کہ آپؐ نے حُریّتِ ضمیر کے اصل کو قائم کیا ہے۔ علمی ترقی کی جڑ حُریّتِ ضمیر ہے۔ یعنی شک پیدا ہو تو تحقیق کرکے صحیح نتیجے کے مطابق اپنے خیال اور اپنے عمل کو بدلاجائے تو یہی سب ترقیات کی کنجی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اعلان فرمادیا کہ دین کے بارے میں کچھ جبر نہیں ہونا چاہیے(البقرہ:257)۔ چنانچہ ایک دفعہ عربوں نے خواہش کی کہ آپؐ سے سمجھوتہ کرلیں کہ ہم اللہ کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں اور تم بتو ں کی پرستش شر وع کردو۔ اِس پر سورۃالکافرون اتری جس میں ارشاد ہوا: جب میں بتوں کو جھوٹا سمجھتا ہوں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنے ضمیر کو قربان کرکے اُن کی پرستش کروں۔ اور تم واحد خدا کو نہیں مانتے تو تم اس کی پرستش کس طرح کر سکتے ہو۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا۔

نواں احسان صنفِ نازک سے تعلق رکھتا ہے۔ رسول کریمﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کیے جاتے تھے۔ اور عرب لوگ تو انہیں ورثہ میں بانٹ لیتے تھے۔ رسول کریمﷺ نے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت عورتوں کے حقوق کو قائم کیا اور اعلان فرمایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مَردوں کے (البقرہ:229)۔ پھر فرمایا کہ جس طرح مَردوں کے لیے مرنے کے بعد انعام ہیں اِسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ پھر عورتوں کے لیے جائیداد میں حصے مقرر کئے۔ بچوں کی تربیت، نکاح میں رضامندی اور اِس قسم کے بہت سے حقوق آپؐ نے عورت کو عطاکئے۔

دسواں احسان رسول کریمﷺ کا یہ ہے کہ دنیا میں جو توہّم پائے جاتے تھے۔ آپؐ نے ان کا انسداد کیا۔ آپؐ کی آمد سے پہلے جادو اور ٹونے کا بہت رواج تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے ہر ایک امر کے لیے علم پیدا کیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے ذریعہ سے بیماریاں بھی دُور ہوں گی اور ترقیات حاصل ہوں گی۔ بے شک بارش وغیرہ پر ستاروں کا بھی اثر ہوتا ہے مگر یہ ستارے اپنی ذات میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیدا کردہ ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں۔ ان کی گردشوں پر اپنے کام کو منحصر رکھنا فضول اور لغو بات ہے۔ اِسی طرح بلّی، کوّااور اُلّو وغیرہ جانوروں سے شگون لینے کو آپؐ نے ناپسند فرمایا۔ بلکہ قانونِ قدرت کی صحت کو تسلیم کر کے فرمایا: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح:24) یعنی ایک قانون خداتعالیٰ نے جاری کیا ہے اس کے ماتحت چل کر ترقی کر لو۔ اس کے خلاف کروگے تو ترقی نہ ہوگی۔ اسی طرح آپؐ کے بیٹے ابراہیم کی موت پر گرہن لگا تو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت پر گرہن لگا ہے۔ آپؐ نے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا کہ گرہن خداتعالیٰ کے ایک قانون سے تعلق رکھتا ہے اسے کسی کی موت اور حیات سے کیا تعلق ہے۔

گیارھواں احسان آپؐ کا دنیا پر یہ ہے کہ آپؐ نے سرمایہ دار اور مزدور کے تعلقات کو ایسے اصول پر قائم کیا کہ دنیا کی ترقی کے لیے رستہ کھل جاتا ہے اور سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے بالکل دُور ہو جاتے ہیں۔ آپؐ نے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے دی ہے اُس میں فیصلہ فرمایا ہے کہ ہر مالدار غریب کے ذریعہ کماتا ہے اس لیے اسے اپنے مال کا 1/40حصہ غریبوں کے لیے الگ کر دینا چاہئے جو اُن پر خرچ کیا جائے۔ لیکن اس کے خرچ کا اختیار گورنمنٹ کو ہوگا جو کچھ تو اپاہجوں پر کرے اور کچھ اُن پر جو اپنی آمد میں گزارہ نہیں کر سکتے اور کچھ غرباء میں سے جو ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں انہیں مدد دے تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل سکیں۔

بارھواں احسان رسول کریمﷺ نے دنیا پر یہ کیا ہے کہ آپؐ نے شراب کو بالکل حرام قرار دیا ہے۔

رسول کریمﷺ کی قربانیاں

اختیار ہونے کے باوجود دوسروں کے فائدے کے لیے اپنی مرضی سے قربانی دینا ہی حقیقی قربانی کہلاتا ہے۔ سچی قربانی دو قسم کی ہے۔ ایک وقتی اور دوسری دائمی۔ رسول کریمﷺ کی قر بانیوں میں دائمی رنگ پایا جاتا ہے۔ آپؐ نیکیوں کو مستقل قائم رکھنے کی ہمیشہ تاکید فرماتے تھے۔

آگے قربانی کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو جبراً وصول کی جاتی ہے جیسے ایمان چھڑوانے کے لیے ظلم کرنا۔ دوم وہ قربانی جسے انسان خود پیش کرتا ہے جیسے طوعی مالی قربانی۔ آنحضورﷺ کے ابتلا دونوں ہی قسم کے تھے۔

ان قربانیوں کی پھر دو قسمیں ہیں۔ (1) اِسْتِکْرَاہِی یعنی ایسی قربانی جو انسان واقعات سے مجبور ہو کر پیش کرتا ہے مگر اس کا دل اسے ناپسند کرتا ہے مثلاً جنگ میں شرکت۔ اور (2) رضائی۔ یعنی ایسی قربانی کہ انسان واقعات سے مجبور ہو کر اسے پیش کرتا ہے مگر پھر بھی اُس کا دل اسے پسند کرتا ہے مثلاً دوسروں کی تعلیم و تربیت کرنا یا اپنی شہادت کی خواہش رکھنا۔ رسول کریمﷺ کی قربانیاں دونوں ہی قسم کی تھیں۔

پھر قربانیاں عارضی مقصد کے لیے بھی ہوتی ہیں اور کسی دائمی صداقت کے لیے بھی جو تمام ذاتی نفعوں کے خیال سے بالاہوتی ہیں۔ رسول کریمﷺ کی قربانیاں اِسی قسم کی تھیں۔ آپؐ نے کسی عارضی مقصد کے لیے قربانیاں نہیں کیں۔ پس آپؐ کی قربانیاں کیا بلحاظ نیت کے اور کیا بلحاظ مقصد کے اور کیا بلحاظ قربانی کی کمیت اور کیفیت کے نہایت عظیم الشان ہیں بلکہ حیرت انگیز ہیں اور اگلوں اور پچھلوں کے لیے نمونہ۔ آپؐ نے نہ صرف خود دنیا کے دائمی نفع کے لیے اور دائمی صداقتوں کے قیام کے لیے خوشی سے قربانیاں نہیں کیں بلکہ آپؐ نے اپنے اَتباع کو بھی یہی تعلیم دی۔ چنانچہ فرمایا: ہم ضرور تمہارے ایمان کے کمال کو ظاہر کریں گے۔ اس طرح سے کہ تمہیں ایسے مواقع میں سے گزرنا پڑے گا کہ تمہیں صداقتوں کے لئے خوف اور بھوک کا سامنا ہوگا۔ اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ پس جو لوگ ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کریں گے اور کہیں گے کہ خدا کی چیز خدا کی راہ میں قربان ہوگئی، انہیں خوشخبری دے کہ ان کی یہ قربانیاں ضائع نہ ہوں گی۔ (البقرۃ:157,156)

جس طرح قربانیاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں اسی طرح وہ کئی شِقّوں کی بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً :(1)شہوات کی قربانی یعنی شہوات کو مٹا دینا۔ (2) جذبات کی قربانی یعنی جذبات کو مٹادینا۔ (3) مال کی قربانی۔ (4) وطن کی قربانی یعنی وطن چھوڑ دینا۔ (5) دوستوں کی قربانی۔ (6) رشتہ داروں کی قربانی یعنی خدا کے لئے اُن کو چھوڑ دینا۔ (7) عزت کی قربانی یعنی خداتعالیٰ اور دائمی صداقتوں کے لیے ذلّت کو برداشت کرنا یا عزت حاصل کرنے کے مواقع کو چھوڑدینا۔ (8) آرام کی قربانی۔ (9) آسائش کی قربانی۔ (10) آئندہ نسل کی قربانی۔ (11) رشتہ داروں کے احساسات کی قربانی۔ (12) اپنی جان کی قربانی۔ (13) دوستوں کے احساسات کی قربانی۔

رسول کریمﷺ نے یہ سب قسم کی قربانیاں کی ہیں۔ آپؐ کی پاکیزہ حیات سے چند مثالیں دیکھیے۔

بھرپور جوانی میں ایک ادھیڑ عمر عورت سے شادی کرکے شہوات کی قربانی دی۔ اور حضرت عائشہؓ سے شادی کے بعد ادھیڑعمر عورتوں سے شادیاں کرکے پھر قربانی کی تاکہ اُن عورتوں کے ذریعے عورتوں میں تعلیم و تربیت کی جاسکے۔

پھر مختلف اوقات میں اپنے جذبات کی قربانی کی۔ مثلاً جنگ بدر میں آپؐ کے چچا عباس قید ہوگئے۔ وہ دل سے مسلمان تھے اور ہمیشہ آپؐ کی مدد کیا کرتے تھے اور مکہ سے دشمنوں کی خبریں بھی بھیجا کرتے تھے۔ مگر کفار کے زور دینے پر جنگ میں شریک ہوئے۔ قید ہونے پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہی انہیں بھی رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا۔ وہ نہایت نازونعم میں پلے ہوئے تھے اور امیر آدمی تھے چنانچہ اس تکلیف کی تاب نہ لاسکے اور کراہنے لگے۔ ان کی آواز سن کر رسول کریمﷺ کو سخت تکلیف ہوئی اور صحابہؓ نے آپؐ کی بےچینی دیکھ کر حضرت عباسؓ کی رسیاں ڈھیلی کر دیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپؐ کو اُن کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپؐ نے پوچھا کہ عباس کو کیا ہوا ہے کہ ان کے کراہنے کی آواز نہیں آتی۔ صحابہ نے عرض کی:یا رسول اللہ!آپؐ کی تکلیف کو دیکھ کر ہم نے ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:یا سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کردو یا اِن کی بھی سخت کر دو۔ جذبات کی یہ قربانی کیسی شاندار ہے۔ کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ جس طرح عباسؓ میرے رشتہ دار ہیں اِسی طرح دوسرے قیدی دوسرے صحابہؓ کے رشتہ دار ہیں۔ اور ان کے دلوں کو بھی وہی تکلیف ہے جو میرے دل کو۔ پس آپؐ نے اپنے لئے تکلیف کو برداشت کیا تاکہ انصاف اور عدل کا قانون نہ ٹوٹے۔

آپؐ کی جذبات کی قربانیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب کفّار نے ابو طالب سے کہا کہ اب تو حد ہوگئی ہے، تم اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ کہ وہ بے شک کہا کرے کہ ایک خدا کوپُوجو مگر بتوں کو بُرابھلا نہ کہا کرے۔ اگر تم اُسے نہ روکو گے تو ہم پھر تم سے بھی مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ ابوطالب نے رسول کریمﷺ کو بلایا اور خیال کیا کہ میرے ان پر بڑے احسان ہیں یہ میری بات ضرور مان جائیں گے۔ جب آپؐ آئے تو انہوں نے کفّار کی دھمکی بیان کرکے کہا :کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم بتوں کے خلاف وعظ کرنے سے رُک جاؤ تاکہ ہم ان کی مخالفت سے محفوظ رہیں ؟ اب غور کرو کہ ایک ایسا شخص جس نے بچپن سے پالا ہو، پھر محسن چچا ہو۔ اُس کی بات کو جو اُس نے سخت تکلیف کی حالت میں کہی ہو، رَدّکرنے سے احساسات کو کس قدر ٹھیس اور صدمہ پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ قدرتاً آپؐ کو بھی صدمہ پہنچا۔ ایک طرف ایک زبردست صداقت کی حمایت دوسری طرف اپنے محسنوں کی جان کی قربانی۔ ان متضاد تقاضوں کو دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن آ پؐ نے فرمایا کہ اے چچا !میں آپؐ کے لیے ہر تکلیف اٹھا سکتا ہوں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ میں خداتعالیٰ کی توحید اور شرک کی مذمّتوں کا وعظ چھوڑ دوں۔ پس آپؐ بے شک مجھ سے علیحدہ ہوجائیں اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ کوئی اَور ہوتا تو یہ سمجھتا کہ دیکھو میرے اس قدر احسانوں کے باوجود یہ میری بات نہیں مانتا۔ مگر ابو طالب آپؐ کے دل کو جانتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ آپؐ اس قدر احسان کی قدر کرنے والے ہیں کہ اِس وقت میری بات کو ردّ کرنا ان کے اخلاق کے لحاظ سے ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ پس وہ بھی آپؐ کی اس قربانی سے متأثر ہوئے اور بے اختیار ہو کر کہا کہ میرے بھتیجے! تُو جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ جا اور اپنا کام کر۔ ہم تیرا ساتھ دیں گے۔

پھر رشتہ داروں کے جذبات کی قربانی اپنے جذبات کی قربانی سے بھی مشکل ہوتی ہے۔ کئی ماں باپ خو د معمولی کپڑے پہنتے ہیں اور بھوکے رہ لیتے ہیں لیکن بچوں کو اعلیٰ کپڑے پہناتے ہیں اور اچھا کھلاتے ہیں۔ رسول کریمﷺ نے اپنے ذاتی اور اپنے رشتہ داروں کے جذبات کو بھی قربان کر دیا۔ اپنی بیویوں کی طرف سے آسودگی کی خواہش پر قرآن کریم کے الفاظ میں آپؐ کا جواب پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اسی طرح آپؐ کی پیاری بیٹی فاطمہؓ نے ایک دفعہ کہا کہ کام کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، لوگوں کو اتنے اموال اور نوکر ملتے ہیں، ایک لونڈی مجھے بھی دے دی جائے۔ آپؐ نے فرمایا ‘یہ چھالے اس سے اچھے ہیں کہ اُس مال سے تمہیں کچھ دوں۔ تم اس حالت میں خوش رہو کہ یہی خدا تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے’۔ اگرچہ آپؐ کا بھی اس مال میں حق تھا اور آپؐ جائز طور پر اس سے لے سکتے تھے۔ مگر آپؐ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی مسلمانوں کی ضرورت بہت بڑھی ہوئی ہے اپنی نہایت ہی پیاری بیٹی کی تکلیف کو برداشت کیا۔

پھر دوستوں کے جذبات کی قربانی ہے۔ ایک بار حضرت ابوبکرؓ کی کسی یہودی سے گفتگو ہوئی۔ یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریمﷺ پر فضیلت دی تو اس پر حضرت ابوبکرؓ کوغصہ آگیا اور آپ نے اس سے سختی کی۔ مگر جب یہ بات رسول کریمﷺ کو پہنچی تو آپؐ حضرت ابوبکرؓ سے ناراض ہوئے اور فرمایا آپؓ کا یہ حق نہ تھا۔

اسی طرح صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہوکر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مُرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جاوے گا۔ ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جارہا تھا کہ ایک شخص ابوجندل نامی مکہ سے بھاگ کر وہاں آیا۔ مشرکین کے ظلم سے اس کا جسم زخموں سے چُور تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اسلامی لشکرمیں ہمدردی کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہوگیا۔ لیکن دوسری طرف کفار نے مطالبہ کیا کہ بموجب معاہدہ اسے واپس کر دیا جائے۔ مسلمانوں نے کہا ابھی معاہدہ نہیں ہوا۔ مگر چونکہ رسول کریمﷺ اس شرط پر فیصلہ فرما چکے تھے اس لیے آپؐ نے اسے واپس جانے کا حکم دے دیااورمسلمانوں کے جذبات کو وفائے عہد پر قربان کردیا۔

رسول کریمﷺ کی ساری زندگی مالی قربانی کا ایک بے نظیر نمونہ تھی۔ مکّہ میں محدود وسائل کے باوجود اور مدینہ میں باوجود بادشاہ ہونے کے آپؐ نے سادہ زندگی میں عمر بسر کی اور جس قدر ممکن ہو سکا غربا اور ضرورت مندوں کی خبرگیری کی۔ حتّٰی کہ کبھی کھانا تک پیٹ بھر کر نہ کھایا۔

پھر عزت کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے اور بہت کم لوگ اس کی جرأت رکھتے ہیں۔ رسول کریمﷺ کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھاجانے لگا تو آپؐ نے لکھوایا کہ یہ معاہدہ محمدرسول اللہ اور اہلِ مکّہ کے درمیان ہے۔ حضرت علیؓ یہ معاہدہ لکھ رہے تھے۔ کفار نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو کیونکہ ہم آپؐ کو رسول نہیں مانتے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اسے مٹادو۔ حضرت علیؓ نے جو محبتِ رسول کے متوالے تھے کہا مجھ سے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ تب آپؐ نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹادیا۔

دوسری مثال یہ ہے کہ اُس زمانہ میں مکّہ میں غلاموں کو بہت ذلیل سمجھا جاتا تھا جبکہ رسول کریمﷺ کا قبیلہ بہت معزز تھا اور بڑے بڑے قبیلوں والے اِس قبیلہ کو لڑکیاں دینا فخر سمجھتے تھے۔ مگر آپؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی ایک آزاد کردہ غلام سے کردی۔ یہ عزت کی کتنی بڑی قربانی تھی لیکن اس عملی قربانی سے آپؐ نے لوگوں کو سبق دیا کہ خداتعالیٰ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔ فرق صرف نیکی، تقویٰ، اخلاص اور اخلاق سے پیدا ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا آپؐ نے قرضہ دینا تھا۔ اُس نے آکر سخت کلامی شروع کردی۔ اور گو ادائیگیٔ قرض کی میعاد ابھی پور ی نہ ہوئی تھی مگر آپؐ نے اُس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیج کر کسی شخص سے کچھ قرض منگوایا اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا۔ جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہؓ کو اس پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا دینے پر تیار ہوگئے۔ مگرآپؐ نے فرمایا: اسے کچھ مت کہو کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ کرتا۔ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب آپؐ مدینہ اور قریب کے علاقوں کے بادشاہ ہوچکے تھے۔ اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپؐ کا اس یہودی کی سخت کلامی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھا۔ چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

پھر کئی لشکر آنحضورﷺ نے بھجوائے جن میں آپؐ کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔ لیکن اُن کی موجودگی کے باوجود ادنیٰ قوم کے لوگوں اور آزاد کردہ غلاموں کو سپہ سالار بنایا۔ یہ بھی جذبات کی قربانی کی ایک مثال ہے۔ پھر اسی طرح ابولہب کے دو بدبخت بیٹوں نے آپؐ کی بیٹیوں کو صرف اس جرم میں طلاق دے دی کہ آپؐ توحید کا پرچار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکّہ میں آپؐ پر غلاظت ڈالی جاتی، منہ پر تھوکُا جاتا، تھپڑ مارے جاتے، آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر کھینچا جاتااور ہر طرح ہتک کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مگر آپؐ یہ سب باتیں برداشت کرتے کہ خداتعالیٰ کے نام کی عزت ہو۔ آپؐ مکّہ میں صادق اور امین کہلاتے تھے۔ اپنی قوم کی ترقی کا بیڑا اٹھانے کے بعد آپؐ کا نام کاذب اور جاہ طلب رکھا گیا۔ پہلی عزت سب مٹ گئی۔ پہلا ادب نفرت اور حقارت سے بدل گیا۔ مگر آپؐ نے یہ سب کچھ برداشت کیا تاکہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم ہو اور دنیا جہالت اور توہّم پرستی سے آزاد ہو۔ عزّت کی قربانی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی!

پھر وطن ہر ایک کے لیے ایک عزیز چیز ہوتی ہے۔ آپؐ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا اور آپؐ نے یہ قربانی دی۔ اور پھر دوسری بار یہ قربانی زیادہ شان سے تب دی جب آپؐ نے مکّہ کو فتح کرلیا لیکن پھر بھی یہاں مستقل قیام نہ فرمایا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے۔

پھرآپؐ کے دن تبلیغ میں اور راتیں عبادت میں گزرتیں اور اس طرح آپؐ نے ہر آسائش و آرام کو قربان کیے رکھا۔

آپؐ رشتہ داروں کی قربانی کے لیے بھی تیار رہتے تھے اور خطر ناک مقامات اور مواقع پر اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے تھے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کو ہر میدا ن میں آگے رکھتے۔ آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ اُحد کی لڑائی میں اور چچازادبھائی حضرت جعفرؓ شام کے سریّہ میں شہید ہوئے۔

آنحضورﷺ ہمیشہ اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہے۔ چنانچہ آپؐ بے دھڑک ہو کر سخت دشمنوں کے پاس تبلیغ کے لئے چلے جاتے اور میدانِ جہاد میں ہمیشہ سینہ سپر رہتے۔ رات گئے شہر سے باہر شور سنائی دیتا تو تن تنہا گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوکر حالات معلوم کرنے چل دیتے۔ یہود، منافقین اور مشرکین نے آپؐ کے قتل کے کئی منصوبے بنائے جنہیں خداتعالیٰ نے ناکام فرمادیا لیکن آپؐ ہمیشہ اپنی جان کو قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔

رسول کریمﷺ نے دنیا کی ترقی کے لیے اپنی ہی نہیں بلکہ اپنی آئندہ نسل کی بھی نہایت عظیم الشان قربانی دی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے حکم دیا کہ صدقات کا مال میری اولاد کے لئے منع ہے۔ آپؐ جیسا دانا انسان اس امر کو خوب سمجھ سکتا تھا کہ زمانہ یکساں نہیں رہتا۔ میری اولاد پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے کہ وہ لوگوں کی امداد کی محتاج ہوگی۔ لیکن باوجود اس کے ایک ہی رستہ جو غرباء کی ترقی کے لیے کھلا ہے اُسے اپنی اولاد کے لیے بند کردیا۔ او ر اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ آپؐ نے خیال فرمایا کہ اسرائیلی نبیوں کی اولاد کی طرح میری اُمّت کے لوگ بھی میرے تعلق کی وجہ سے صدقہ میری اولاد کو ہی زیادہ تر دیں گے اور دوسر ے غربا ءتکلیف اٹھائیں گے۔ پس دوسرے غرباء کی خاطر اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کردیا۔ اگر مسلمان اِس قربانی کی حقیقت کو سمجھیں تو سادات کو کبھی تنگ دست نہ رہنے دیں۔ اور جو دروازہ صدقہ کی شکل میں بند کیا گیا ہے اُسے ہدیہ کی شکل میں کھول دیں۔

غرض رسول اللہﷺ نے دنیا کے لیے ہر رنگ میں ایسی قربانیاں کیں جن کی نظیر کسی جگہ نہیں مل سکتی۔ آپؐ دنیا میں خالی ہاتھ آئے، باوجود بادشاہ ہونے کے خالی ہاتھ رہے اور خالی ہاتھ چلے گئے، اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button