سیرت النبی ﷺ

اسلام کی تمام دینی و دنیوی ترقیات کی بنیاد نبی اکرمﷺ کے دستِ مبارک سے رکھی گئی

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

اسلامی ترقیات کی سرخیل یقیناً ذاتِ محمدمصطفیٰ ﷺ ہی ہے

ہر تہذیب اور کلچر کی بنیاد کسی عارف باللہ کے روحانی تجربہ اور مشاہدہ حق پر ہوتی ہے اور جتنی بڑی یہ واردات ہوتی ہے اتنا ہی دوام اور استحکام اس تہذیب کو حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد اس فانی فی اللہ کے مشاہدہ حق پر تھی جس نے اپنے دائرہ عروج میں مقام قاب قوسین کو چھو لیا۔

بقول شاعر

موسیٰ زہوش رفت زیک پرتوے صفات

تو عین ذات می نگری در تبسمے

چنانچہ ایک ایسا انقلاب آیا جو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔ مذہبی تاریخ میںیہ واحد انقلاب تھا جو اپنے ساتھ واقعاتی شہادت اور تاریخ کی گواہی رکھتا ہے۔ چنانچہ مشہور مورخ کیرن آرمسٹرانگ لکھتی ہیں :

‘Islam is a religion of success unlike Christianity, which has its main image, in the west at least, a man dying in a devastating, disgraceful, helpless, death……. Mohammad was not an apparent failure. He was dazzling success, politically, as well as spiritually, and Islam went from strength to strength.’

(Bill Moyers Interviews Karen Armstrong. PBS March2002)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے ذرّوں کو ستارہ بنا دیا اور قرآن کی اعجازی تعلیمات سے علمی اور روحانی اجالا پھیلا اور روحانی مریضوں کو شفا ملی۔ نیل کے ساحل سے خاک کاشغر تک تہذیب انسانی ترقی وتمدن کی نئی رفعتوں سے ہم کنار ہوئی اور انسانیت کو ذات پات کے تصورات سےرہائی ملی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا اور سائنس کی دنیا میں نئے افق روشن ہوئے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے مساوات کے تصور جس میں کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے کیا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہندوستان میں مسلم اقتدار آنے سے قبل صوفیا ئے کرام کے فیضانِ نظر سے پہلے اچھوتوں کوشہروں میں داخلے کی اجازت نہیں تھی اس وجہ سے شہر چھوٹے چھوٹے اور معاشی سرگرمیاں محدود تھیں۔ اسلام نے جب ان ذات پات کی زنجیروں سے رہائی عطا کی تو بڑے بڑے شہر بننےلگے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔

اس طرح اسلام نے انسانی عقل کو شرف عطا کیا۔

وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيْرِ (الملک:10)

اور اس کی وجہ سے سائنس کو فروغ حاصل ہوا اور انسان ستاروں کی گزرگاہوں کو ڈھونڈنے کے قابل ہوا۔

لیکن سب سے بڑھ کر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا فیض تھا جس نے ان لوگوں کو جو جانوروں کی طرح کھاتے پیتے تھے

یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا

کا نمونہ بنا دیا۔ اور مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور نہایت مختصر عرصے میں تین براعظموں پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ لیکن دور عروج میں یہ بات فراموش ہو جاتی ہے کہ ان تمام سیاسی، علمی، ثقافتی اور فوجی کامیابیوں کی تہ میں کوئی نفس ذکیہ ہوتا ہے۔ کسی فانی فی اللہ کی دعائیں ہوتی ہیں۔ حقیقی تزکیہ اور سچی روحانیت ہوتی ہے۔ چنانچہ عباسیوں کے دور ِحکومت میں دولت اور کامیابیوں کی چکاچوند میں اس حقیقت کو فراموش کر دیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شریعت میں یہ ہے کہ چالیس ہوں تو ایک روپیہ خدا کی راہ میں دے اور طریقت میں یہ ہے کہ ایک ہے تو چالیس روپے دے لیکن یہ راہ اور یہ پیغام نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے کتاب الحیل لکھی جاتی ہے یہ عباسی دور میں سامنے آتی ہے اس میں شریعت کی پابندیوں سے بچنے کے لیے حیلے بتائے گئے ہیں۔ ایک قاضی صاحب کو ان کی بیوی رقم دیتی ہے کہ اس کے لیے ایک لونڈی خریدی جائے۔ قاضی صاحب لونڈی خرید لاتے ہیں بعدمیں ان کی بیوی پر انکشاف ہوتا ہےکہ قاضی صاحب نے اسے بیوی بنایا ہوا ہے چنانچہ اس بددیانتی پر ان کی بیوی ان کا گریبان پکڑتی ہے۔ قاضی صاحب اسے لے جا کر دکھاتے ہیں کہ ان کی رقم تو اس کمرے میں پڑی ہے یہ لونڈی تو قاضی صاحب اپنی رقم سے خرید کر لائے ہیں۔ اس طرح شریعت کو ہنسی مذاق بنایا جاتا ہے۔ نیکی صرف یہ رہ گئی تھی کہ سقوط بغداد سے ذرا پہلے سنّی ایک عباسی شہزادے کی سرپرستی میں اہل تشیع کے محلے لوٹ رہے تھے اور شیعہ بیرونی حکمرانوں سے مل کر بغداد کی تباہی کے منصوبے بنا رہے تھے اس کا نتیجہ بقول حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ نکلتا ہےکہ

‘‘ پھر بغداد کا حال ہمیں معلوم ہے وہ محمود غزنوی جو خلیفہ کے اَلَمْ اَلَمْ سے ڈر گیا تھا۔ اسی پایۂ تخت کو ہلاکو نے تباہ کیا۔ ایک ہزار شخص جن پر سلطنت کے متعلق دعویٰ کا گمان تھاان سب کو دیوار میں چن دیا گیا۔ وہ بی بی جس کا نام نسیم بی بی رکھا گیا تھا ایک گلی میں ایسی حالت میں دیکھی گئی کہ کتے اس کا لہو چاٹ رہے تھے اور میری آنکھوں کے سامنے بخارا، سمرقند، دہلی، لکھنؤاور طرابلس کی سلطنتیں مٹ گئیں۔ دہلی کے شہزادوں میں سے ایک کو میں نے جموں میں ستار بجاتے مراسیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا ’’

(الفضل 8؍ اکتوبر 1913 ءصفحہ 15 )

گویا نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر عالم اسلام مغرب کے حملوں کی زد میں تھا اور مسلمان ورطۂ حیرت میں گم تفسیر حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ دیکھ رہے تھے۔ اس بار مغرب کا چیلنج عالم اسلام کے لیے ایک انوکھا واقعہ تھا۔ مغرب کا غلبہ نہ صرف سیاسی میدان میں تھا بلکہ فکری میدان میں بھی تھا۔ علمی اور سائنسی لحاظ سے زمانہ قیامت کی چال چل رہا تھا غالب نے سچ کہا تھا

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں

پر کچھ اب کے سرگرانی اَور ہے

جب بھی کوئی تہذیب مغلوب ہوتی ہے اس کا رد عمل دوطریقوں اور انداز میں سامنے آتا ہے۔ ایک رد عمل جسے ھیرو ڈین (HERODIAN) کہا جاتا ہے اور دوسرا ردعمل جسے زیلٹ (ZEALOT) کہا جاتا ہے۔

ھیروڈین رد عمل میں زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ غالب تہذیب کے طور طریقوں اور اس کی تکنیک کو اپنا لیا جائے اس طرح اس چیلنج کا مقابلہ کیا جائے اور اپنے بوجھ کو ہلکا کیا جائے خواہ پنی روایات ترک کرنی پڑیں۔ اس فکر کو اگر ایک مصرعہ میں سمیٹا جائے تو گویا

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

سرسید کا خیال تھا کہ دین چلے جانے سے دنیا ہاتھ سے نہیں جاتی لیکن دنیا ہاتھ سے چلی جائے تو دین بھی چلا جاتا ہے۔ سر سید احمد خان امت مسلمہ کے زوال کو دُور کرنے کے لیے شاخ کو پکڑنا چاہتے تھے نہ کہ جڑ کو۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خیال تھا کہ

‘‘کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو …عقل مندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔’’

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 8)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام روحانی و اخلاقی اصلاح کو اول خیال کرتے تھے جبکہ سرسیداحمدخان اور ان کے طرز خیال کی پیروی کرنے والے مادی حالت کی تبدیلی زیادہ اہم خیال کرتے تھے۔ لیکن دَور جدید کی امت مسلمہ کی ڈیڑھ سو سال کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقطۂ نظر کی تائید میں شہادت دیتی نظر آتی ہے۔ تمام اسلامی دنیا کاجی ڈی پی جاپان کے جی ڈی پی کا ایک چوتھائی ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن ایک دانشور اور ایک سکالرتھے وہ لکھتے ہیں :

‘It is only the failure of such plans to achieve their economic targets that has led sociologists and economists- generally western – to an awareness that the intangible human element with its moral factors may be all important, although they are still not prepared to do much about it.’

(Fazl ur Rahman, Islamic Modernism International journal of Middle East Studies, Vol:1No4 Oct,1970)

گویا معاشی ترقی بھی اخلاقی ترقی اور تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا معاملہ اَور قوموں کی طرح نہیں کیونکہ مسلمانوں پر اتمام حجت ہو چکا ہے۔ لیکن سر سید اور ان کے ساتھی جدید تعلیم متعارف کروا رہے تھے اور انہیں یہ اندازہ تھا کہ جدید سائنس پڑھ کر نوجوانوں کے دل میں ضرور شکوک وشبہات پیدا ہوں گے۔ مولوی تو ان سے یہ کہہ کر پیچھا چھڑوا لے گا کہ جاؤ تمہارے جیسے شخص کی دین کو کوئی ضرورت نہیں لیکن ہم نوجوانوں کو کیسے مطمئن کریں گے لہٰذا انہوں نے قدیم فقہ کو مسترد کردیا لیکن متبادل نئی فقہ پیش نہیں کی نہ ہی اس کے کسی پیرو نے ایسا کیا۔ چنانچہ پیشگوئیوں کی حامل مکی دَور کی آیات زیادہ سے زیادہ اور قانونی نوعیت کی مدنی دَور کی آیات کم سے کم پیش کی جاتیں۔

(ماڈرن اسلام ان انڈیا )

ان کے رفقاء نے اسلامی تعلیمات کے بنیادی ماخذ وں کو نذر خط تنسیخ کر کے کہا کہ قرآنی تعلیمات کا غالب حصہ احکام، اخلاق، تاریخی امور، کہانیوں اور پیشگوئیوں پر مشتمل ہے جن کا نسل انسانی کی اجتماعی تہذیبی اور سیاسی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔

( قاضی جاوید، سرسید سے اقبال)

گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ لوگ اسلام کی کشتی سے جو تہلکہ انگیز طوفان کی زد میں آ گئی تھی۔ نفیس مال کی گٹھریاں دریا میں پھینک رہے تھے کہ جہاز کوہلکا کر کے جانوں کو بچایا جائے۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تناظر میں آگے بڑھے جب

بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر رات

شاید اس رات وہ ماہتاب لب جو آئے

جب یہ ماہتاب لب جو آیا تو آپؑ نے پکارکے کہا:

‘‘اس کشتی کا ناخدا خداوند تعالیٰ ہے نہ آپ۔ وہ بار بار وعدہ کر چکا ہے کہ ایسے خطرات میں یہ کشتی قیامت تک نہ پڑے گی اور وہ ہمیشہ اس کو طوفان اور باد مخالف سے آپ بچاتا رہے گا جیسا کہ فرماتا ہے

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: 10)

( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 259 )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صورت حال میں جب کہ لگتا تھا جیسے سامنے پُل صراط ہے اور گزرنے والے کبھی سنت کو بوجھ سمجھ کر ترک کرتے کبھی حدیث کو، کبھی اجماع، کبھی قرآنی آیات کو۔ آپؑ نے فرمایا قرآن کاایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہوگا آ پ نے نہ قرآن کو چھوڑا نہ حدیث کو نہ سنت کونہ اجماع کو نہ آنحضرتﷺ کی ذات باجود کی مرکزیت پر کوئی زد آنے دی۔ آپ کے فیضان نظر سے تاریکیاں سمٹ سمٹ کر رستہ دینے لگیں اور نگاہوں کے سامنے صراط مستقیم روشن ہوگئی۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ سرسید احمد خان کے صاحبزادہ کا نام بھی محمود تھا جسے سر سید نے جدید تعلیم دلوائی انہوں نے وظیفہ حاصل کیا انگلستان میں تعلیم حاصل کی وہ اس دَور میں جسٹس بن گئے جب لوگ ادنیٰ سرکاری نوکری پر فخر کرتے تھے۔ ایک ہمارے سیدنا محمودؓ تھے جن کے حصے میں یونیورسٹی کلاس روم نہیں بلکہ مسجد کا گوشہ آیا جو جدید تعلیم نہیں بلکہ بقول ان کے صرف قرآن پڑھے ہوئے تھے لیکن سید جسٹس محمودبعد میں علیگڑھ کےسیکرٹری مقرر ہوئے لیکن کثرت شراب کی وجہ سے ادارہ کی کوئی خدمت نہیں کرسکے بلکہ انہیں ادارے سے الگ کر دیا گیا تاکہ ادارہ کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ اور ایک ہمارے سیدنا محمودؓ تھے جن کے پاس صرف فیضان نظر تھا۔ اوائل عمر میں تقریر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو مولوی محمد علی صاحب وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَھْدِ کا نشان قرار دیتے ہیں انگلی پکڑ کر جب عالم روحانی کی سیرکرواتے ہیں تو بہادر یار جنگ جیسا مقرر دنگ رہ جاتا ہے۔ مذہب اور سائنس پر لیکچر دیتے ہیں تو اقبال لذت تقریر سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی گتھیاں سلجھاتے ہیں تو شیخ سر عبدالقادر اپنے آپ کوطفل مکتب قرار دیتے ہیں۔ نومبر 1930ء میں پہلی گول میز کانفرنس لندن میں شروع ہوئی تو مسلم اقلیت کی مؤثر ترجمانی کے لیے آپ نے ‘‘ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسائل کا حل’’ کتاب لکھی اس پر ممتاز صحافی عبدالمجید سالک نے لکھا:

‘‘جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ بڑی بڑی اسلامی انجمنوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا۔ ’’

(انقلاب 16؍نومبر1930ء)

مذہبی میدان تو ایک طرف میدان سیاست میں بھی ان کی صلاحیتوں کا لوہا اس طرح مانا جاتا ہےکہ کشمیر کمیٹی کے قیام کے وقت اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ‘‘ میاں صاحب اگر آپ کشمیر کمیٹی کے صدر نہ بنے تو کام نہیں ہوگا۔ ’’

جب سیدنا محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانان ہندوستان کی خدمت میں نکلتے ہیں تو اسی علی گڑھ کالج سے پڑھے ہوئے ایک ممتاز لیڈر مولانا محمد علی جوہر یہ اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے‘‘ناشکرگزاری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمداور ان کی اس منظّم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام توجہات… مسلمانوں کی بہبودی کے لیے وقف کر دیں …وہ وقت دور نہیں جب اسلام کے اس منظّم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لیے…مشعل راہ ہوگا۔ ’’

(ہمدرد دہلی 26؍ستمبر 1927ء)

ایک بار سرسید احمد خان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو دیکھ کر کہا ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا لیکن حیرت ہے کہ ان کے صاحبزادے جدید تعلیم کے حصول کے باوجود علی گڑھ کالج کے ادارے کی ایک کوڑی کی بھی خدمت سرانجام نہ دے سکے جبکہ سیدنا محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیضان نظر سے مسلمانان ہندوستان کی وہ ٹھوس خدمات سر انجام دیں کہ اپنے تو کیا بیگانے بھی ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا محمودؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض نظر سے جو ذوق یقین عطا ہوا تھا وہ جسٹس سید محمود کے پاس نہیں تھا وہ شیکسپئر کے کردارھملٹ کی طرح to beاورnot to beکے تذبذب سے باہر نہ آسکے اور ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے ؎

اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے

یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے

ہماری مغربی ایلیٹ کا یہی مسئلہ ہے کہ ان کو اسی تذبذب اور بےیقینی کی وجہ سے بد عنوانی اور کرپشن کا آزار کھا گیا۔ وہ کوئی خدمت قوم وملت کی نہیں کر سکے

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

ہماری اب تک کی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جدید تعلیم کا حصول جو کہ روحانی اور اخلاقی بنیادوں سے محروم ہو کوئی ٹھوس نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ کیمبرج ہسٹری آف اسلام میں درج ہے۔

‘It is obvious that the simple borrowing of a foreign system of education, shorn of the spiritual moral and cultural basis which gave birth to it, is not like to produce results, unless a new adequate basis for it is Created even with regard to pure technology. It is more than doubtful whether it will lead to the material creativity envisaged, unless it is made the proper instrument of a system of Values adequately adjusted it. To put the matter quite clearly, an engineer may know to build a bridge, but why he should build one, and with what efficiently and Zeal, depend entirely on the values that motivate him. His skill therefore must be made part and parcel of a total cultural pattern. ’

(Cambridge History of Islam Vol:2, P-655)

اس اقتباس کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ان تحریکوں کے بانیان امت مسلمہ کو زوال سے نجات دلانے کے لیے جو حکمت عملی اپنا رہے تھے وہ غلطی خوردہ تھے۔ ان کی حالت ہندوستانی کہانی کی اس خاتون کی طرح تھی جو اپنی کھوئی ہوئی سوئی باہر گلی میں تلاش کر رہی تھی حالانکہ سوئی اس کی جھونپڑی میں گم ہوئی تھی۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ باہر گلی میں روشنی ہے اور اندر اندھیرا ہے۔ یہی حال ان جدید تحریکوں کے بانیوں کا تھا مسئلہ اندر تھا لیکن وہ اس کا حل باہر ڈھونڈ رہے تھے۔

دوسرا ردّ عمل

اس جدید دَور میں دوسرا ردّعمل جسے ماہرین تاریخ (Zealot Response)کہتے ہیں۔ اس کی جھلکیاں بھی ہمیں جدید اسلامی تاریخ میں نظر آتی ہیں۔

ایک محقق Cantwell Smithجدید دور میں جو مسلم امّہمیں اپنے احیا کےلیے تڑپ پائی جاتی ہے اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

‘The fundamental malaise of modern Islam is a sense that something has gone wrong with Islamic history. The fundamental problem of modern Muslims is how to rehabilitate that history.’

(W C Smith, Islam in Modern History. Princeton University Press, 1957. Page, 41)

چنانچہ مختلف تحریکیں اسلامی دنیا میں سامنے آئیں۔ جنہیں ہم شدّت پسند کہہ سکتے ہیں۔ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس جدید دور میں سوائے تلوار کی طاقت کے ہم اسلامی تاریخ کا احیا نہیں کرسکتے۔

اس نظریہ کو بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں :

‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کیا۔ مضبوط دلائل دیئے، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زور خطابت سے دلوں کو گرمایا۔ اللہ کی جانب سے محیّر العقول معجزے دکھائے۔ اپنے اخلاق اور پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا…لیکن آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہوجانے کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا…

لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی…تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی اور شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا…عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے۔ ’’

(الجہاد فی الاسلام۔ مولانا مودودی صفحہ137تا138)

دراصل یہ وہ تصور اسلام تھا جو کہ مستشرقین اور دشمنان اسلام پیش کرتے ہوئے آرہے تھے جنہیں ڈوزی، سمتھ، جارج سیل، پادری فنڈر اور ہنری کوپی پیش کرتے چلے آرہے تھے۔ مودودی صاحب اور ان جیسے دوسرے مفکرین اس جال میں پھنس گئے اور دشمنان اسلام کے الزامات کو کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ دوبارہ اسی تلوار کے حصول کے لیے دیوانے ہوگئے تاکہ دوبارہ تلوار ہاتھ میں لے کر لوگوں پر اپنا تصور اسلام نافذ کر سکیں۔

اسی طرح کا خیال تحریک اخوان المسلمین کے بانی حسن البنّا کا بھی تھا۔ وہ مصر میں 1906ء میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سےحاصل کی اور بعد میں مذہبی تعلیم انہوں نے دارالعلوم قاہرہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اسماعیلیہ کے شہر میں استاد مقرر ہوئے۔ انہوں نے اپنے چھ ساتھیوں کے ہم راہ تحریک اخوان المسلمین کی بنیاد 1928ء میں رکھی۔ حسن البنّا جب طالب علم تھے انہوں نے 1924ء میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوتے دیکھا۔ وہ سوچتے تھے کہ اسلام کا احیاء دوبارہ ریاست کی طاقت سے ہوسکتا ہے۔

حسن البنّا نے اس کے ساتھ ملکی سیاست میں بھی دخل اندازی شروع کر دی۔ اس وقت مصر کے بادشاہ شاہ فاروق اور وزیراعظم مصطفیٰ النحاس پاشا میں کشمکش شروع ہوگئی کیونکہ وہ بادشاہ کے اختیارات کو محدود کرنا چاہتا تھا۔ شاہ فاروق نے مصطفیٰ النحاس کی حکومت کو برطرف کر دیا اور شہرت حاصل کرنے کے لیے اخوان المسلمینکی سرپرستی شروع کر دی۔ علی ماہر پاشااخوان المسلمینکے وفد کی شاہ فاروق سے ملاقات کرواتا ہے۔ اس وفد کی قیادت حسن البنّا کر رہے تھے۔

Ali Mahir Pasha also made sure that Palace funds were given to the Brotherhood.

(Chistine Sixta Rinehart: Volatile Social Movement And The Origins Of Terrorism. Lexington Books, U.K. page 19 )

یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ یہ اسلامی تحریکیں جو اسلامی ریاست کا قیام چاہتی ہیں بعض اوقات آمروں کے ساتھ گٹھ جوڑ سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ بعض اوقات آمروں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتی ہیں کہ انسان کو حیرت ہوتی ہےکہ کوئی بندہ طاقت کے حصول کے لیے اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔

چنانچہ پاکستان میں یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دَور میں جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد صاحب یحییٰ خان کی تعریف میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے کہا کہ

‘‘مجھے قوی امید ہے کہ اسلامی نظام حکومت کا جو سلسلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے منقطع ہوا تھا اس کی بحالی کا آغاز انشاء اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عاشقوں میں سے ایک شخص کے ہاتھوں پاکستان کی سرزمین سے ہوگا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ یحییٰ صاحب کو عزم، ہمت اور اس اخلاص کے ساتھ پاکستان میں اسلامی جمہوری نظام بحال کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔’’(ایشیا 14؍دسمبر 1968ء صفحہ 18)

انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گویا میاں طفیل محمد صاحب کے نزدیک یحییٰ خان صاحب اُس سلسلہ کو بحال کرنے جارہے تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے منقطع ہوا تھا۔

چنانچہ اس طرح جماعت اسلامی نے دورِ آمریت میں حکمرانوں کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ گویا وہ بھی اخوان المسلمین کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔

لیکن شیخ حسن البنّا کہتے تھے کہ حصولِ اقتدار کےلیے مناسب تیاری ضروری ہے۔

چنانچہ وہ اپنے متبعین سے خطاب فرماتے ہوئے اعلان کرتے ہیں :

‘‘مسلمان بھائیو جب تم تین سو جتھے روحانی، اخلاقی، سائنسی، ثقافتی اور جسمانی تعلیم و تربیت سے اچھی طرح آراستہ کر لو گے تو اس وقت مجھے کہنا میں تمہارے ساتھ سمندروں کی گہرائیوں میں اُتر جاؤں گا۔ فلک کو چیر دوں گا۔ ہر ایک حریف سخت جاں سے نبرد آزما ہوجاؤں گا۔ ’’

(Chistine Sixta Rinehart : Volatile Social Movement And The Origins Of Terrorism. Lexington Books, U.K. page 19 )

اخوان المسلمین نے اپنا ایک فوجی یونٹ نظام خاص کے عنوان سے قائم کر لیا جو کہ نوجوانوں میں حربی روح قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا تھا۔

حسن البنّا نے محسوس کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقتدار پر ہاتھ ڈالا جائے۔ ان دنوں مصر حکومتِ برطانیہ کی سرپرستی میں تھا۔ حسن البنّا نے وزیراعظم محمود النقراشی (1888-1948ء)پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ جلد از جلد برطانیہ کا جوا گردن سے اُتارے۔ النقراشیبرطانیہ سے مذاکرات کر رہے تھے لیکن حسن البنّا اور اُن کا فوجی یونٹ نظام خاص مطمئن نہیں تھا۔ انہیں بین الاقوامی صورتِ حال کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے النقراشی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر یے جو کہ حکومت کے استعفیٰ پر منتج ہوئے۔ لیکن النقراشیحکومت دوبارہ برسرِاقتدار آگئی اور اب انہوں نے اخوان المسلمینکے ساتھ سختی سے نپٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس تلخ صورت حال میں وزیراعظم النقراشیکا قتل ہوگیا۔

(Sarah F Salwen: From Pulpit To Party. Page 17)

حسن البنّا کو اب احساس پیدا ہوا کہ سیاست کا راستہ غلط تھا چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ ہمیں ملک کا معیار مذہبی، سماجی اور معاشی طور پر بلند کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اور سیاست کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔

(The Muslim Brotheren, Ishaq Musa. Page 21)

کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

تاہم جو سلسلہ کشمکش کا وزیراعظم النقراشی کے قتل سے شروع ہوا وہ 12؍فروری 1949ء کو حسن البنّا کے قتل پر منتج ہوا۔ اس سے اس تحریک کو ایک دھچکا لگا۔ یہ تحریکیں دراصل جدید دَور میں اسلام کے احیاء کے لیے اٹھیں لیکن ان تحریکوں کے رہ نما امت مسلمہ کے اصل مسئلہ کا اندازہ نہ کر سکے۔ وہ یورپ کی فاشسٹ تحریکوں سے متاثر تھے اور اسی انداز میں وہ اسلام کا احیاء چاہتے تھےان کا تصورِ اسلام سطحی تھا۔ ان کے پاس نہ تو دیدہ بینا تھا اور نہ قلبِ مطہر کہ وہ اسرار کو سمجھ سکتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

‘‘خدا کی پاک کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل اور پاک فطرت… رکھتے ہیں۔ دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہوسکتے’’

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 126)

مولانا رومی نے کیا خوب فرمایا ہے:

لحن مرغاں را اگر وصف شوی

If thou learn the tongue of the bird

برضمیر مرغ واقف شوی

Thou can’t know their heart

گربیا موزی سفیرے بلبلے

If thou understand the melody of nightingale

تو چہ دانی کوچہ گوید باگلے

Thou can’t grasp its whispering to the flower

یہ مفکرین اسلام کا نہیں بلکہ اپنا تصورِ اسلام نافذ کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

‘‘جب تک انسان صاحبِ حال نہ ہو اور اس تنگ راہ سے گزرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیھم السلام گزرے ہیں۔ تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبر کی جہت سے مفسّر القرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوئی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے۔ ’’

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6صفحہ18تا19)

چنانچہ یہ لیڈرز مزاج شناس رسول ہونے کا دعویٰ کرنے لگے اور قرآن کی غلط تفسیریں کر کے اپنے ایجنڈے کو آمروں کی مدد سے آگے بڑھانے لگے اور نوجوان نسل کے ذہن مسموم کرکے ان کو نام نہاد جہاد کی آگ میں دھکیل دیا اور وہ آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے۔ ان نوجوانوں کو استعماری طاقتوں نے سوشلزم کے خلاف جنگ میں ایندھن کی طرح استعمال کیا۔ یہ استعماری طاقتیں اپنا مطلب پورا کر کے چلتی بنیں اور ملک دہشت گردی کا شکار ہوگئے ہزاروں معصوم جانیں ضائع ہوئیں اور ابھی تک اس فتنہ سے نجات نہیں ملی۔ عالم اسلام کا اصل مسئلہ بقول مشہور مؤرخ ٹائن بی ‘‘اسلام ایک مرتبہ پھر مغرب سے نبرد آزما تھا اور اس کی پشت دیوار سے لگی ہوئی تھی اس مرتبہ اس کی مشکلات صلیبی دَور کے نازک دَور سے بھی زیادہ تھیں کیونکہ اہل مغرب کی برتری نہ صرف سامان حرب میں تھی بلکہ معیشت میں بھی تھی جس پر آخر کار فنون جنگ کا انحصار ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر اس کی برتری اخلاقی، روحانی ثقافت میں تھی جو کہ وہ اندرونی قوت ہے جو تہذیب کے مظاہرکو جنم بھی دیتی ہے اور اسے قائم بھی رکھتی ہے۔’’

(Arnold Joseph Toynbee, Civilization on Trial. Page 187)

یہاں ٹائن بی نے مغرب کی اخلاقی اور روحانی روایت کاذکر کیا ہے جو کہ ان مفکرین کی نظر میں نہیں تھی چنانچہ ضرورت تھی اخلاقی اور روحانی احیاء کی لیکن بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘وہ جو خود اندھا ہے وہ کیونکر تمہیں دکھاوے گا۔ ’’

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 24)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہی صراطِ مستقیم دکھانے کے لیے آئے تھے جس پر چل کر امت مسلمہ اپنی روحانی و اخلاقی تکمیل کر سکے۔اسلامی تاریخ کا مدنی دَور جس میں

وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا(النصر:3)

کا نظارہ دیکھا گیا اس سے پہلے ایک مکی دَور بھی ہے۔ جس میں ایک فانی فی اللہ کی اندھیری رات کی دعائیں ہیں اس دَور میں امت مسلمہ تزکیہ اور تربیت کے دَور سے گزرتی ہے جس کے بعد فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں۔ لیکن ان جدید تحریکوں کے قائدین کی نظر میں اس دَور کی کوئی اہمیت نہیں اُن کے نزدیک ایک فانی فی اللہ کی اندھیری رات کی دعائیں اور انفاس قدسیہ تاثیریں نہیں بلکہ تلوار دلوں کے زنگ اتارتی ہے۔ اور وہ تلوار کے حصول کے لیے دیوانے ہوگئے لیکن ان کی ڈیڑھ سو سال کی تاریخ شہادت دیتی ہے کہ انہیں نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ امّت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی سچ فرمایا کہ

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

حرف آخر

ماہرین تاریخ کے نزدیک ہیروڈین اور Zealot جواب (رسپانس) سطحی جواب میں اور کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ کامیاب جواب وہ ہوتا ہے جو گہرائی سے آتا ہے۔ جس کے امکان کی طرف اشارہ ملتا ہے کیونکہ مشہور مؤرخ ٹائن بی کے مطابق فطرت خلاکو نہ تو مادی دنیا میں پسند کرتی ہے نہ ہی روحانی دنیا میں۔ وہ مغربی تہذیب جو اس روحانی خلا کو پُر کرنے میں ناکام رہی ہے اُس نے اٹھنے والی کسی بھی تحریک کے ہاتھ میں بے مثال ذرائع رسل و رسائل دے دیے ہیں۔

(Civilization On Trial, Page 208)

یہ واضح رہے کہ ٹائن بی احمدیہ تحریک کو بھی ایسی تحریک میں شامل سمجھتا ہے جو کہ مغرب کے چیلنج کے جواب میں سامنے آئی اور روحانی خلا کو پُر کرسکتی ہے جسے مغربی تہذیب پُر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور مغربی تہذیب اپنے مادی ذرائع رسل و رسائل کے ذریعے سے غیر شعوری طور پر اس کی مدد کرے گی جس طرح رومن سلطنت کی سڑکوں کی تعمیر سے عیسائی مبلغین کو فائدہ پہنچا اور وہ عیسائیت کا پیغام مغرب میں پھیلانے میں کامیاب ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر جو بات ٹائن بی 1948ء میں تحریر کر رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا ادراک اپنی خداداد روحانی بصیرت سے 1900ء میں کر رہے تھے۔ فرماتے ہیں :

‘‘خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان مہیا کردیا ہے اور ریل اور تار اور اگن بوٹ اور احسن انتظاموں اور سیروسیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے۔ ’’

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 17)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کی ذاتی خوبیوں پر پورا یقین تھا وہ جانتے تھے نہ اسلام کبھی ماضی میں تلوار کے زور سے پھیلا اور نہ مستقبل میں پھیلے گا۔ آپؑ فرماتے ہیں :

‘‘تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوارسے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔ ’’

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 167)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یقین کامل تھا کہ

‘‘ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی…….دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ’’

(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ67)

قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ

(الرعد:44)

یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ تو خدا کا رسول نہیں ان کو کہہ دے کہ تم میں اور مجھ میں خدا گواہ کافی ہے اور نیز وہ جس کو کتاب کا علم ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قول بغیر فعل کے کچھ چیز نہیں۔

(الحکم جلد 11نمبر 41 مورخہ 17نومبر 1907ء صفحہ 13)

جب کفار نے آپؐ کو کہا کہ آپ رسول نہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں ایسی فعلی شہادت دی کہ فاران کی چوٹیوں سے فتح مکہ تک عالم امر کے ارتسامات نظر آئے۔ اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تلوار سے دلوں کا زنگ اتارنے والوں کو متنبہ کیاکہ

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

کیا دورِ جدید میں تاریخ اس کی گواہی نہیں دیتی۔ اور کیا جب آپؑ نے احمدیہ جماعت کے متعلق فرمایا تھا:

‘‘میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں ۔سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اوراب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ’’

(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67)

کیا تاریخ اس کی شہادت نہیں دیتی کہ گو جماعت کی راہ میں کوہ گراں ڈالے گئے لیکن کیا اس کو کوئی روک سکا؟

جے توں مَنّیں تے دساں اک گل

چن سورج نے دوویں ساڈے ول

پار لنگناں ای تے نال ساڈے چل

چل پتن چنا دے مل

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button