سیرت النبی ﷺ

تیمارداری اور تعزیت میں اسوۂ رسولﷺ

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

رنگ وبو بانٹ دے اس سے لے کر

پھول کے بوجھ کو ہلکا کر دے

حضرت سہل بن حنیفؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ غرباء اور مساکین کی عیادت کے لیے جایا کرتے تھے۔ اور ان کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک غریب عورت بیمار ہوئی تو حضورؐ اس کی عیادت کے لیے جاتے رہے۔ اور جب اس کا آخری وقت آیا تو حضورؐ کی تکلیف کے خیال سے صحابہ نے آپ کو اطلاع نہیں کی اور جنازہ پڑھ کردفن کردیا۔ صبح حضورﷺ کو خبر ہوئی تو حضورؐ ناراض ہوئے اور اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھایا۔

اسلام ایک بین الاقوامی مربوط معاشرتی نظام حیات ہے جو ایک انسان کی اکائی سے تمام انسانیت بلکہ تمام مخلوق کے لیے حقوق وفرائض کی قیود وحدود وضع کرتا اور ان پر چلنا سکھاتا ہے۔ یہ ایک حسین تعلیم ہے جو انسان کے اندر وضع کر دی گئی ہے۔ جس پر عمل کرنا فطرت کا حصہ ہے۔ اسے جس پہلو سے بھی دیکھیں وہ پہلو دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت نظر آتا ہے۔ اس میں زیادہ خوبصورتی اس لیے بھی نظر آتی ہے کیونکہ ہمارے سید ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے عمل کر کے ان کاموں کو ہمارے لیے آسان بنا دیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (آل عمران:32)

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اسی طرح فرمایا:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا۔

(الاحزاب:22)

یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔

زیر نظر مضمون میں ہم عیادت اور تعزیت کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بات کریں گے، اور اس ضمن میں خصوصا ًآنحضورﷺ کےاسوہ ٔحسنہ اور ارشادات مبارکہ سے روشنی حاصل کریں گے۔

تندرستی ہزار نعمت ہے

موت وحیات انسانی زندگی کا ایک خاصہ ہے۔اسی طرح صحت وتندرستی اور بیماری بھی انسانی زندگی میں لازم وملزوم ہیں۔ آنحضورﷺ نے صحت کی نعمت کی طرف کیا ہی خوبصورت انداز میں توجہ دلائی ہے۔ فرماتے ہیں :

نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِيْهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ۔

(صحیح البخاری کتاب الرقاق باب لا عیش الا عیش الآخرۃ)

یعنی صحت اور فارغ البالی اللہ تعالیٰ کی دو ایسی نعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ نقصان اٹھاتے اور دھوکاکھاتے ہیں۔ یعنی جتنا ان کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے نہیں رکھتے اور جب وہ ہاتھ سے جاتی رہتی ہیں پھر کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔

ہر مرض قابل علاج ہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیماری ایک تکلیف دہ حقیقت ہے اور اگر کوئی تکلیف غیر محدود نظر آئے تو انسانی صبر کی طاقت جواب دینے لگتی ہے۔ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضورﷺ نے کیا تعلیم عطا فرمائی ؟ اس حدیث سے جانتے ہیں :

حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضورﷺ اور صحابہ کی مجلس میں آیا تو صحابہ یوں محو سماعت تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، میں نے سلام کیا، دریں اثناء ادھر ادھر سے بدو آئے اورانہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا، کیا ہم دوا دارو کیا کریں ؟ آنحضورﷺ نے فرمایا: علاج کیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری بھی نہیں بنائی جس کا علاج نہ بنایا ہو، سوائے ایک بیماری الھرم یعنی بہت بڑھاپے کے۔

اس کی وضاحت آپﷺ نے ایک دوسرے موقعے پر فرمائی کہ یہ غیر معمولی بڑھاپا کیا ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے سوائے (سام) کے کوئی بیماری نازل نہیں فرمائی یا پیدا نہیں کی مگر اس کے لیے دوا ضرور بنائی ہے جو اس دواکو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ نہیں جانتا۔ صحابہ نے عرض کی کہ یہ (سام) کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: موت۔

گویا یہ ممکن ہے کہ کسی بیماری کا علاج ہمیں معلوم نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے علاج اور دوا رکھی ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ ایک اور امر یہ بھی ہے کہ جو مصیبت کسی مومن پر آتی ہے وہ اس کے درجات کو بلند کرتی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ ہے کہ دعا بھی دوا کے ساتھ بیماری کے علاج میں گہرا اثر رکھتی ہے۔ حدیث میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ

حضرت عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان فرمایا کہ کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں ؟ میں نےعرض کی، کیوں نہیں! انہوں نے کہا کہ ایک سیاہ عورت آنحضورﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے مرگی کے دورے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے میرے کپڑے کھل کر ننگ ظاہر ہو جاتا ہے، آپؐ میرے لیے دعا کریں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے اور صبر کرے تو تمہیں جنت ملے گی، لیکن اگر تو شفا ہی چاہتی ہے تو میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تمہیں شفا دے دے، اس نے عرض کیا، میں صبر کر لوں گی لیکن مرگی کی حالت میں میرے کپڑے سرک جاتے ہیں دعا کریں کہ یہ حالت نہ ہوتو آپﷺ نے اس کے لیے دعا کی۔

(صحيح البخاري كتاب المرضىٰ باب من يصرع من الريح)

آنحضورﷺ کی یہ حدیث بہت اہم اور غیر معمولی حقائق کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف یہ بیماری کی تکالیف پر صبر کرنے والوں کو نوشتۂ جنت دیتی ہے تو دوسری طرف بتاتی ہے کہ دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی شفا کو جذب کرتی ہے۔

دوا تدبیر ہے اور دعا اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے

اسلام صرف اسباب کا استعمال نہیں سکھلاتا بلکہ خدا تعالیٰ پر توکل کی حقیقی تعلیم دیتا ہے۔نہ ہی یہ کہ انسان دنیا کا کیڑا ہو جائے اور نہ یہ کہ اسباب جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیے ہیں انہیں ترک کرکے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اس نظام کو بے مقصد سمجھ لے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام توکل اور اسباب کے استعمال کے متعلق فرماتے ہیں :

‘‘فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ(الذاریات:23)

سے ایک نادان دھوکا کھا تا ہے اور تدابیر کے سلسلہ کوباطل کرتا ہے حالانکہ سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ(الجمعۃ:11)

کہ تم زمین میں منتشر ہو جاؤ اور خدا کے فضل کی تلاش کرو۔

یہ ایک بہت نازک معاملہ ہے کہ ایک طرف تدابیر کی رعایت ہو اور دوسری طرف توکل بھی پورا ہو۔ اس کے اندر شیطان کو وساوس کا بڑا موقع ملتا ہے(بعض لوگ ٹھوکر کھا کر اسباب پرست ہو جاتے ہیں اور بعض خدا تعالیٰ کے عطا کردہ قویٰ کو بیکار محض خیال کرنے لگ جاتے ہیں )آنحضرتﷺ جب جنگ کوجاتے تو تیاری کرتے۔ گھوڑے، ہتھیاربھی ساتھ لیتے بلکہ آپ بعض اوقات دو دوزرہ پہن کر جاتے۔ تلوار بھی کمر سے لٹکاتے حالانکہ ادھرخدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا

وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدہ:68)

بلکہ ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تجویز فرمایا کہ اگر شکست ہو تو آپ کو جلد مدینہ پہنچادیا جاوے۔ اصل بات یہ ہے کہ قوی الایمان کی نظر استغناءِ الٰہی پر ہوتی ہے اوراسے خوف ہوتا ہے کہ خدا کے وعدوں میں کوئی ایسی مخفی شرط نہ ہو جس کا اسے علم نہ ہو جو لوگ تدابیر کے سلسلہ کو بالکل باطل ٹھہراتے ہیں ان میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہےکہ اگر بلا آوے تو دیدہ دانستہ اس کے آگےجا پڑیں اور جس قدر پیشہ والےاور اہلِ حرفت ہیں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاویں۔ ’’

(ملفوظات جلد3صفحہ604تا605،ایڈیشن1988ء)

گناہوں کا کفارہ

جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ بیماری جہاں ایک طرف تکلیف دہ امر ہے وہیں اس کی بنا پر انسان اللہ تعالیٰ کی شفقتوں اور پیار کا مورد بن سکتا ہے اور بظاہر یہ تکلیف دہ صورت حال انسان کی روحانی ترقی کا موجب بنتی ہے۔ آنحضورﷺ نے اس امر کو اپنی دیگر احادیث میں مزید واضح فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان کو کوئی مصیبت نہیں پہنچتی یہاں تک کہ اگر کسی کو کانٹا بھی چبھے مگر اللہ تعالیٰ اسے اس کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

دوسری حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو کوئی تھکن یا درد انگیزبیماری یا غم وحزن یا اذیت نہیں پہنچتی خواہ وہ ایک کانٹا چبھنے تک کی ہی کیوں نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے۔ اور فرمایا:

اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ (صحیح بخاری)

مصیبتیں تو دنیا میں رنگ بدل بدل کر آتی ہی ہیں لیکن اگر وہ محبوب کی رضا کا باعث ہوں تو ان کا جھیلنا نہ صرف آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس میں ایک گونہ لذت پیدا ہو جاتی ہے۔ آنحضورﷺ کی بیماری کی بابت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضورﷺ سے زیادہ دکھ درد میں کسی اور کو کبھی نہیں دیکھا۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ کی بیماری میں مَیں آپ کی عیادت کرنے کے لیے آیاتو آپ کو شدیددکھ درد کی حالت میں پایا، میں نے عرض کیا: حضور آپ کو تو بہت تکلیف ہے، کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کو دہرا اجر ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا:ہاں، کسی مسلمان کو کوئی اذیت پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو یوں جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔

(صحیح بخاری)

ایک اَور حدیث میں آنحضورﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر میں اپنے بندے کو اس کی دومحبوب ترین چیزوں (یعنی آنکھوں ) کے ذریعے سے آزمائش میں مبتلا کروں تو ان کے بدلے انہیں جنت عطا کرتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب الطب والمرضی)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان بیماریوں کے علاج خود سکھائے ہیں اوروہ طریق سجھائے ہیں جن پر چل کر انسان نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کیے ہیں اس لحاظ سے انسان نے روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ ان بیماریوں کے نتیجے میں دنیاوی ترقیات حاصل کیں اور انسانی جسم اور خواص الاشیاء پر دسترس حاصل کی۔

بیماری، وبا اور توہم پرستی

مرگی ایک ایسی بیماری ہے جس کے ساتھ بہت سے توہمات کا ذکر جوڑ دیا گیا ہے لیکن آنحضورﷺ نے توہمات کا بھی حل پیش فرمایا اور وبا اور توہم پرستی کے درمیان جو باریک لکیر ہے اسے واضح کر کے بنی نوع بشر پر بہت سے غیر معمولی احسانوں میں سے مزید ایک احسان فرمایا ہے۔ ایک موقعے پر آپؐ نے فرمایا:

لا عَدْوَى وَلَا طِيْرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ

(صحیح البخاري كتاب الطب باب الجذام)

کوئی متعدی بیماری نہیں نہ کوئی نحوست ہے نہ الو میں اور نہ ہی صفر کے مہینے میں کوئی نحوست ہے، اور مجذوم سے یوں بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔

اب اس حدیث سے شروع میں بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی قسم کی متعدی بیماری نہیں ہوتی مگر آخر پر آپ نے بتا دیا کہ ہر بیماری کو وہم بنا لینا مناسب نہیں ہاں اگر واقعی کوئی متعدی بیماری ہو تو اس سے احتراز کرنااز بس ضروری ہے بلکہ اس سے بچنے کے لیے انسان کو ویسے ہی کوشش کرنی چاہیے جیسے وہ کسی درندے سے بچنے کے لیے کرتا ہے۔ اسی لیے آپ نے نحوست اور بدفال لینے جیسے امور کو شرک قرار دیا ہے، فرمایا:

جس کسی کو نحوست کے خیال نے اس کے ضروری کام سے روک دیا تو اس نے شرک کیا۔ صحابہ نے عرض کیا حضورؐ! اس کا کفارہ کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہے: اے اللہ کوئی بھلائی تیری بھلائی کے علاوہ نہیں اور کوئی نحوست تیرے اذن کے سوا نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

درحقیقت انسان ہمیشہ سے توہم پرستی کا شکار رہا ہے اور تاحال جب دنیا خود کو بہت روشن خیال گردانتی ہے توہم پرستی اپنی تمام اشکال میں قائم ہے سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کی تعلیم کے صدقے اس سے نجات دے چکا ہو۔

رتبہ شہادت

لیکن اس سے ہٹ کر جو حقیقی متعدی بیماریاں ہیں اُن سے بچنے کی تعلیم بھی آنحضورﷺ نے ایسے دی کہ توہم پرستی سے الگ کر کے بتا دیا کہ ہمیں ایسے حالات میں خود کو اور دنیا کو کیسے بچانا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسی بیماری کی لپیٹ میں آنے والوں اور ان کے لواحقین کی بھی جس انداز میں آپ نے ڈھارس بندھائی ہے وہ آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی ایک بیّن دلیل ہے۔

فرماتے ہیں :

پانچ لوگ شہید ہیں، طاعون کی بیماری سے فوت ہونے والا، پیٹ کی بیماری سے فوت ہونے والا، ڈوب کر فوت ہونے والا کسی منہدم چیز کے نیچے دب کر فوت ہونے والااور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والا سب شہداء ہیں۔

نیز صحابہ سے استفسار فرمایا: تم اپنے میں سے شہید کس کو گردانتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔ فرمایا: پھر تو میری امت کے شہید تھوڑے سے ہوئے۔ صحابہ نے عرض کی: تو حضور پھر کون شہید ہیں ؟ فرمایا: جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہو وہ بھی شہید ہےجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرتا فوت ہو جائے وہ بھی شہید ہے جو طاعون کی وبا میں فوت ہو جائے وہ بھی شہید ہے جو پیٹ کی بیماری سے فوت ہو وہ بھی شہید ہے اور ڈوب کر فوت ہونے والا بھی شہید ہے۔

اور ہم جانتے ہیں کہ شہادت کی موت ایک ایسی موت ہے جس کی تمنا ہر مومن کرتا ہے، مرنا تو ہر کسی نے ہے لیکن شہادت کی موت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

لیکن یہ نہیں کہ چونکہ یہ شہادت کی موت ہے تو ہم بھاگ کر اسے گلے لگا لیں، جیسے فرمایا کہ

وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ

(البقرة:196)

یعنی اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو۔ اور فرمایا:

لا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوّ

یعنی دشمن سے مڈھ بھیڑ کی تمنا مت کرو، اسی طرح طاعون اور وبا کے بارے میں آنحضورﷺ نے ہمیں تعلیم دی اور فرمایا:

إذَا سمِعْتُمْ الطَّاعُونَ بِأَرْضٍ، فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإذَا وقَعَ بِأَرْضٍ، وَأَنْتُمْ فِيْهَا، فَلاَ تَخْرُجُوْا مِنْهَا۔

یعنی جب تمہیں کسی جگہ کے بارے میں شنید ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ، اور اگر کسی جگہ طاعون ہو اور تم وہیں ہو تو وہاں سے باہر مت جاؤ۔

اس بابت ایک اہم واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں پیش آیا، جس کی تفصیل احادیث میں یوں آئی ہے:

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطابؓ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپ سرغ نامی مقام میں پہنچے تو فوجوں کے سردار حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اور ان کے ساتھی آپؓ کی پیشوائی کے لیے آئے۔ انہوں نے آپؓ کو بتایا کہ شام کے علاقے میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے ۔حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے مجھے فرمایا کہ مہاجرین کو بلائیے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس ان کو بلا لائے اور حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ طاعون کی وباشام میں پھیلی ہوئی ہے۔ تو انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ اب آپ ایک کام کے لیے نکل چکے ہیں اور ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ اس سے واپس لوٹ جائیں۔ اور بعض نے کہا آپ کے ساتھ لوگوں اور صحابہ کی ایک خاصی تعداد ہے ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ ان کو لے کروبا زدہ علاقے میں جائیں۔ آپ نے ان کا مشورہ سن کرفرمایا آپ جائیے۔ پھر انصار کو بلایا۔ جب وہ آگئے اورآپ نے مشورہ شروع کیاتو وہ بھی مہاجرین کی طرح مختلف الرائے تھے۔ آپ نے ان کا مشورہ سن کر فرمایا آپ جائیے۔ پھر مجھے فرمایاکہ میرے پاس یہاں قریش کے وہ بزرگ جو فتح مکہ سے پہلے کے مہاجر ہیں بلاؤ۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ ان کوبلا لائے۔ تو ان میں سے دو شخصوں نے بھی آپ کے سامنے اختلاف نہیں کیا۔ وہ کہنے لگے ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اس وبا کے ہوتے ہوئے ان کو وہاںنہ لے جائیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ان کے متفقہ فیصلہ کوپسند فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ ہم کل صبح صبح روانہ ہوں گےقافلہ والے صبح چلنے کے لیے تیار رہیں۔ حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ سن کر حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا کیااللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ؟حضرت عمرؓ نے جواب دیاابو عبیدہ یہ بات کسی دوسرے کو کہنی چاہیے تھی(یعنی آپ جیسے سمجھدار سے اس کی توقع نہ تھی)۔ ہاں میں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف فرار ہو رہا ہوں۔ دیکھیں اگر آپ اپنے اونٹ ایک ایسی وادی میں چرنے کے لیے لے آئیں جس کا ایک کنارہ سر سبز و شاداب ہے اور دوسر ابنجر خشک آپ اپنے جانور وادی کے جس کنارے پر چرائیں گے وہ اللہ کی تقدیر ہی ہو گی۔ آپ کا کوئی فیصلہ اس کی تقدیر کے دائرے سے باہر نہیں ہو گا۔

حضرت عباسؓ کہتے تھے کہ اتنے میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ آئے اور وہ کسی اپنے کام کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے وہ کہنے لگے مجھے اس کے متعلق ایک بات معلوم ہےجو میں نے رسول اللہﷺ سے سنی۔ آپؐ فرماتے تھے جب سنو کہ وبا کسی ملک میں ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگرکسی ملک میں پڑے اور تم وہاں ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے تھے حضرت عمرؓ نے سن کر اللہ کا شکرکیا اور وہیں سے واپس چلے گئے۔

(بخاری کتاب الطب باب ما یذکر فی الطاعون5729)

عیادت مریض

ایک بیمار شخص جسے کوئی متعدی بیماری نہ ہو اس کی بیمار پرسی اور تیمار داری ایک فریضہ ہے جس کا آنحضورﷺ نے کئی مواقع پر ارشاد فرمایا، مثلاً ایک موقع پر تین کام آپ نے ارشاد فرمائے کہ یہ کرنے چاہئیں۔ فرمایا:

بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور بیمار کی عیادت کرو اور غلاموں کو آزاد کرواؤ۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپﷺ نے چند چیزوں سے مومنوں کو منع فرمایا اور چند چیزوں کے کرنے کا ارشاد فرمایا ان میں سے عیادت مریض بھی تھی۔ اور صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے صرف ارشاد فرمایا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا۔

حضرت ابوامامہؓ کہتے ہیں کہ

آنحضرتﷺ تمام انسانوں میں سے بہترین عیادت کرنے والے تھے۔

(سنن نسائی کتاب الجنائزباب عددالتکبیرعلی الجنازۃ)

آپ اپنے صحابہ کی عیادت کو جاتے، بیمار پرسی کرتے دعائیں کرتے دلاسا دلاتے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

میں ایک مرتبہ بیمار ہو گیا تو آنحضرتﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدل چلتے ہوئے میری عیادت کو تشریف لائے، انہوں نے دیکھا کہ میں بے ہوش پڑا ہوں، سو آنحضورﷺ نے وضو کیا اور وضو کا باقی پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آگیا، میں نےدیکھا کہ آنحضورﷺ تشریف فرما ہیں، میں نےعرض کی، حضور میں اپنے مال کے بارے میں کیا کروں۔ (ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور یہ اپنی بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے) کس طرح اس مال کا فیصلہ کروں ؟ تو آنحضورﷺ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا حتیٰ کہ آیت میراث نازل ہوئی۔

تیمار داری کے لیے ضروری نہیں کہ صرف بالغ لوگوں کی ہی کی جائے، بلکہ آنحضورﷺ بچوں کی تیمار داری بھی کرتے تھے۔ اس ضمن میں صرف دو حدیثیں درج کرنے پر اکتفا کریں گے۔

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچے کی عیادت کےایک واقعہ اپنے ایک خطبہ میں یوں فرمایا:

‘‘حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ میرا بچہ حالتِ نزع میں ہے ہمارے پاس آئیں تو آپؐ نے کہلا بھیجا اور فرمایا کہ اللہ ہی کا ہے جو لے لے اور اسی کا ہے جو عنایت کرے اور ہر بات کا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔ اس لیے تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہو۔ انہوں نے پھر آپؐ کو بلابھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دی کہ ان کے پاس ضرور آئیں۔ آپؐ اٹھے اور آپؐ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور کئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب آپؐ پہنچے توبچہ اٹھا کر لایا گیا۔ وہ بچہ اس وقت دم توڑ رہا تھا اور ایسی ہی دم توڑنے کی آواز آ رہی تھی۔ عثمانؓ کہتے تھے کہ میرا خیال ہے اسامہؓ نے کہا کہ جیسے پرانی مشک ٹھکرانے سے آواز دیتی ہے یعنی ایسی آواز آ رہی تھی کہ بڑے بڑے سانس لے رہا تھا۔ بچے کی یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ یہ کیا ہے! آپؐ نے جواب دیا یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے اور اللہ بھی اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز، باب قول النبیﷺ یعذب المیت ببکاء اھلہ علیہ …… الخ حدیث 1284) یہ کوئی جذباتی حالت ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ’’

( خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جنوری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍جنوری2020ءصفحہ8)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ کسی اہم دینی معاملہ میں صحابہ کے ساتھ مصروف تھے جس کی وجہ سے پہلے پیغام پر تشریف نہیں لے کر گئے۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ

أَنَّ غُلَامًا مِنَ اليَهُودِ كَانَ يَخدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِندَ رَأسِهِ، فَقَالَ : أَسلِم . فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِندَ رَأسِهِ، فَقَالَ لَه : أَطِع أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ. فَأَسلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: الحَمدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَنقَذَهُ مِنَ النَّارِ

( بخاري 1356)

ایک یہودی بچہ جو آنحضورﷺ کا خدمت گذار تھا بیمار ہو گیا، آنحضورﷺ اس کی عیادت کو تشریف لے کر گئے تو اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اسے فرمایا: اسلام لے آؤ، اس پر اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو سرہانے کے پاس ہی تھا، اس نے کہا کہ ابوالقاسم یعنی آنحضورﷺ کی بات مان لو، سو وہ بچہ مسلمان ہو گیا، آنحضورﷺ وہاں سے نکلے تو یہ فرما رہے تھے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اسے آگ سے بچا لیا۔

تو ایک ایسا بچہ جو آنحضورﷺ کا خادم تھا آپ اس کی عیادت تک کے لیے گئے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسے کبھی پہلے اسلام لانے کا نہیں کہا تھا، لیکن جب دیکھا کہ یہ چند گھڑی کا مہمان ہے اسے اللہ تعالیٰ کی راہ کی طرف بلا کر اس کی آخرت سنوار دی۔ اور ہمارے لیے یہ اسوہ قائم فرما دیا کہ نہ صرف بچوں کی بھی عیادت کرنی ہے بلکہ اپنے ملازموں بلکہ غیر مسلموں کی بھی عیادت کرنی اور حقوق ادا کرنے ہم پر واجب ہیں۔ اور یوں یہ تعامل اور آپ کی سنت تالیف القلوب کا ایک بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔

بلا امتیاز عیادت و تعزیت

مریض کی عیادت کے لیے حضورﷺ رنگ و نسل اور مذہب کا کوئی امتیاز روا نہ رکھتے اور امیر و غریب، مسلم و غیرمسلم کے ساتھ بھی ہمدردی کا سلوک فرماتے ۔ ہر ایک اس چشمۂرحمت سے سیراب ہوتا رہا۔

حضرت سہل بن حنیفؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ غرباء اور مساکین کی عیادت کے لیے جایا کرتے تھے۔ اور ان کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک غریب عورت بیمار ہوئی تو حضورؐ اس کی عیادت کے لیے جاتے رہے۔ اور جب اس کا آخری وقت آیا تو حضورؐ کی تکلیف کے خیال سے صحابہ نے آپ کو اطلاع نہیں کی اور جنازہ پڑھ کردفن کردیا۔ صبح حضورﷺ کو خبر ہوئی تو حضورؐ ناراض ہوئے اور اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھایا۔

(موطا امام مالک۔ کتاب الجنائز)

عبداللہ بن ابی بن سلول منافقوں کا سردار اور حضورؐ کا دلی دشمن تھا مگر جب وہ بیمار ہوا توحضورؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجنائزباب العیادۃ)

آپؐ تیمار داری کے دوران بھی تربیت کے باریک در باریک پہلوؤں پر بھی نظر رکھتے اور گناہ اور مباح کاموں کے درمیان حد فاصل سکھاتے اور عمل کرکے لوگوں کو بتاتے کہ فطری جذبات کا اظہار بہترین طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے کیسے کیا جا سکتا ہے:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کو کسی بیماری کی شکایت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ان سب کو اپنے ساتھ لے کر ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو آپؐ نے ان کو گھر والوں کے جمگھٹ میں پایا۔ آپؐ نے فرمایا کیا یہ فوت ہو گئے؟ لوگ بیماری کی وجہ سے اکٹھے ہوئے تھے۔ گھر والے ارد گرد اکٹھے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں یا رسول اللہؐ ! فوت نہیں ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب گئے۔ ان کی حالت دیکھی تو آپؐ رو پڑے۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو دیے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ سنتے نہیں۔ دیکھو کہ اللہ آنکھ کے آنسو نکلنے سے عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کے غمگین ہونے پر بلکہ اس کی وجہ سے سزا دے گا یا رحم کرے گا اور آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور پھر فرمایا اور میّت کو بھی اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض حدیث 1304)

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے ہیں :

‘‘نوحہ کرنا جو ہے وہ غلط ہے۔ اس وقت ہو سکتا ہے کہ دیکھ کر ان کی ایسی حالت ہو یا آپؐ کی دعا کی کیفیت پیدا ہوئی ہو اس میں بھی آپؐ کو رونا آ گیا ہو لیکن باقیوں نے یہ سمجھا ہو کہ ان کا آخری وقت ہے اس لیے رونا شروع کر دیا۔ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ رونا منع نہیں ہے لیکن بری بات اور منع یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے ظاہر ہونے پر ناراض ہو جائے۔ پس آنسو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے نکلیں تو اس کا رحم جذب کرتے ہیں ورنہ اگر برا منا کر نکلیں اور اس پر نوحہ کیا جائے تو پھر یہ سزا مل جاتی ہے۔ بہرحال اس وقت فوت نہیں ہوئے تھے جبکہ بیماری ان کی شدید تھی۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جنوری 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍جنوری2020ءصفحہ8)

آپؐ نہ صرف اپنے اسوہ سے بلکہ لوگوں کو ترغیب دلا کر بھی عیادت پر ساتھ لے جاتے۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ انصار میں سے ایک شخص آپؐ کے پاس آیا۔ اس نے آپؐ کو سلام کیا۔ پھر وہ انصاری پیچھے مڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصاری بھائی! میرے بھائی سعد بن عبادہؓ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون اس کی عیادت کرے گا۔ آپؐ اٹھے اور ہم آپؐ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے کچھ اوپر لوگ تھے۔ ہم نے نہ جوتے پہنے تھے نہ موزے، نہ ٹوپیاں تھیں نہ قمیص۔ یعنی بڑی جلدی میں آپؐ کے ساتھ ساتھ چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ ہم اس قدر زمین میں چلے یہاں تک کہ ہم ان کے یعنی سعد بن عبادہؓ کے پاس آئے۔ سارے لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے تھے وہ سب پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے وہ اصحابؓ جو آپؐ کے ساتھ تھے ان کے قریب آ گئے۔

(صحیح مسلم کتاب الجنائز، باب فی عیادۃ المرضٰی 2138)

عیادت مریض…نیکیوں کے حصول کاذریعہ

آنحضرتﷺ عیادت مریض اور تعزیت کرنے کے حوالے سے صحابہ کو ترغیب بھی دلاتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ آج کس نے روزہ رکھا ہے؟حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مَیں نے رکھا ہے۔ پھر فرمایا آج کس نے جنازے میں شرکت کی ہے؟ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مَیں نے کی ہے۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا آج مسکین کو کس نے کھانا کھلایا ہے؟ حضرت ابو بکرؓ نے پھر عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مَیں نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ پھر حضورﷺ نے پوچھا کہ آج مریض کی کس نے عیادت کی ہے؟ اس پر حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مَیں نےآج مریض کی بھی عیادت کی ہے۔ یہ سن کر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایک دن میں یہ تمام نیکیاں بجا لائی ہوں وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔

ہجرت اور بیماری

اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی دنیا کے 213؍ممالک میں بستے ہیں جہاں بعض اوقات بعض ملکوں میں شدید مخالفت کا سامنا ہوتا ہے اور نوبت شہادت تک پہنچتی ہے، ان میں سے بہت سے احمدیوں کو ہجرت بھی کرنا پڑی۔ اسی طرح تبلیغ دین اور طلب علم کے لیے بھی احمدیوں کو دیگر ممالک جانا پڑتا ہے اور آب وہوا تبدیل ہونے سے بعض اوقات انسان بیمار ہو جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ ہجرت مدینہ کے وقت پیش آیا۔ ایسے میں ہمیں آنحضورﷺ کا کیا اسوہ ٔحسنہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بدری صحابہ کے ذکر کے تسلسل میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صحابہ وہاں بیمار ہونے لگے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت عامر بن فُہَیْرَہبھی شامل تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب بخار ہوتا تو یہ شعر پڑھتے۔ عربی شعر تھا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر شخص جب وہ اپنے گھر میں صبح کواٹھتا ہے تو اسے صباح الخیر کہا جاتا ہے بحالیکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے نزدیک تر ہوتی ہے اور حضرت بلالؓ جب ان کا بخار اتر جاتا تو بلند آواز سے رو کر یہ شعر پڑھتے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ کاش مجھے معلوم ہو آیا مَیں کوئی رات وادیٔ مکہ میں بسر کروں گا اور میرے ارد گرد اِذْخَر اور جَلِیْلگھاس پات ہوں اور کیا مَیں کسی دن مَجَنَّہ میں پہنچ کر اس کا پانی پیوں گا۔ مَجَنَّہبھی مکے سے چند میل پر مَرُّ الظَّھْرَان کے قریب ایک جگہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کا ایک مشہور میلہ مَرُّ الظَّھْرَانمیں عُکَاظْ کے بعد لگتا تھا اور عرب کے لوگ عُکَاْظ کے بعد مَجَنَّہ منتقل ہو جاتے اور بیس روز قیام کرتے تھے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ وہاں میں پانی پیوں گا اور کیا شَامَہ اور طَفِیْل پہاڑ میرے سامنے ہوں گے۔ شعر میں عرض کر رہے ہیں، بیان کر رہے ہیں۔ طَفِیْل بھی مکہ سے تقریباً دس میل پر ایک پہاڑ ہے اور اس کے قریب ایک اَور پہاڑ تھا جس کو شَامَہ کہتے تھے۔ پھر حضرت بلالؓ کہتے کہ اے اللہ! شَیْبَہ بن رَبِیْعَہ، عُتْبَہ بن ربیعہ اور اُمَیّہ بن خَلَف پر لعنت ہو کیونکہ انہوں نے ہماری سرزمین سے ہمیں وبا والی زمین کی طرف نکال دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بھی اور حضرت بلالؓ کی بھی یہ باتیں سنیں تو آپؐ نے فرمایا اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکّہ پیارا ہے یا اس سے بڑھ کر۔ اے اللہ! ہمارے صاع میں اور ہمارے مُدّ میں برکت دے۔ یہ صَاعَ اور مُدّ بھی مشہور پیمانوں کے نام ہیں۔ وزن کرنے کے لیے (استعمال) کیے جاتے ہیں اور مدینہ کو ہمارے لیے صحت بخش مقام بنا اور اس کے بخار کو جُحْفہ کی طرف منتقل کر دے۔ جُحْفہبھی ایک دوسرا شہر ہے مکےکی جانب۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ ہم مدینہ آئے اور وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وَبَا زَدہ مقام تھا۔ انہوں نے کہا بُطْحَان نالے میں تھوڑا سا پانی بہتا تھا وہ پانی بھی بدمزہ بودار تھا۔ بُطْحَانبھی مدینےکی ایک وادی کا نام ہے۔ یہ بخاری میں روایت ہے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل المدینۃ باب کراھیۃ النبیﷺ ان تعری المدینۃ حدیث: 1889) (ماخوذ از فرہنگ سیرت صفحہ58، 180، 259 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز) (شمائل النبیﷺ صفحہ 76 حاشیہ) (شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 172 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جب قادیان سے ہجرت ہوئی ہے تو اس وقت احمدیوں کو خاص طور پر ہجرتِ مدینہ کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے کہ ہمیں اس ہجرت سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلالؓ کے اس واقعےکا حوالہ دیتے ہوئے اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت جماعت کو یہ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ مَیں اَوروں کو تو نہیں جانتا، اَوروں کو تو نہیں کہہ سکتا جو دوسرے لوگ غیر احمدی مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لُٹے ہوئے ہو۔ تم نے ہجرت کی ہے اور لُٹ پُٹ کے آئے ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائیدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے تشریف لائے اس وقت مدینہ کا نام یثرب ہوا کرتا تھا اور وہاں ملیریا بخار بھی کثرت سے ہوتا تھا۔ ملیریا پھیلنا شروع ہوا تو مہاجرین کو بخار چڑھے۔ ادھر وطن کی جدائی کا صدمہ تھا۔ ان میں سے بعض نے رونا اور چلَّانا شروع کر دیا کہ ہائے مکہ! ہائے مکہ! ایک دن حضرت بلالؓ کو بھی بخار ہو گیا انہوں نے شعر بنا بنا کر شور مچانا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپؐ خفا ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم ایسے کام کے لیے یہاں آئے ہو؟ ہجرت کی ہے تو شور مچانا کیسا؟ حضرت مصلح موعودؓ احمدیوں کو جو اس وقت ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آئے تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہیں یہ کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تم یہ نہ دیکھو کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔ تم دیکھو کہ ہم نے کس کے لیے کھویا ہے۔ اگر تم نے جو کھویا وہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کھویا ہے تو تم خوش رہو اور کسی موقع پر بھی اپنی کمریں خم نہ ہونے دو۔ تمہارے چہرے افسردہ نہ ہوں بلکہ ان پر خوشی کے آثار پائے جائیں۔

(ماخوذ از قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 379) (خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ستمبر 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍اکتوبر2020ءصفحہ6تا7)

اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق محمدیؐ اپنانے اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button