حضرت مصلح موعود ؓسیرت النبی ﷺ

عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیﷺ

از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی و المصلح الموعود رضی اللہ عنہ

(شائع شدہ الفضل قادیان ، 12؍ جون 1928ء۔سیرت النبیﷺ نمبر)

مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی الفضل کے خاص نمبر کے لئے مضمون لکھوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نمبر میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ درجہ اور ارفع شان کے اظہار کے لئے شائع ہونے والا ہے، مضمون لکھنا ایک ثواب کا کام ہے۔ پس باوجود اس کے کہ ان دنوں مَیں سخت عدیم الفرصت ہوں اور پھر ساتھ ہی بیمار بھی، ایک مختصر سا مضمون لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو ایسا شاندار ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ میں کس پہلو کو اختیار کروں اور کس کو چھوڑوں۔ اور انتخاب کی آنکھ خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے لیکن میں اس زمانہ کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مضمون کے لئے آپ کی زندگی کے احسن حصہ کو لیتا ہوں کہ کس طرح آپؐ نے دنیا کو اس غلامی سے نجات دلائی ہے جو ہمیشہ سے دنیا کے گلے کا ہار ہو رہی تھی اور وہ عورتوں کی غلامی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے عورتیں ہر ملک میں غلام اور مملوک کی طرح تھیں اور ان کی غلامی مردوں پر بھی اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ لونڈیوں کے بچے آزادی کی روح کو کامل طور پر جذب نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ سے عورت اپنی خوبصورتی یا خوب سیرتی کے زور سے بعض مردوں پر حکومت کرتی چلی آئی ہے لیکن یہ آزادی حقیقی آزادی نہ تھی کیونکہ یہ بطور حق کے حاصل نہ تھی بلکہ بطور استثناء کے تھی اور ایسی استثنائی آزادی کبھی صحیح جذبات کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے ہوئی ہے اس وقت تک کسی مذہب اور قوم میں عورت کو ایسی آزادی حاصل نہ تھی کہ اسے بطور حق کے وہ استعمال کر سکے۔ بے شک بعض ملک جہاں کوئی بھی قانون نہ تھا وہ ہر قسم کی قیود سے آزاد تھے لیکن اسے بھی آزادی نہیں کہا جا سکتا اسے آوارگی کہا جائے گا۔ آزادی وہ ہے جو تمدن اور تہذیب کے قواعد کو پورا کرتے ہوئے حاصل ہو ان قواعد کو توڑ کر جو حالت پیدا ہو وہ آزادی نہیں کہلا سکتی کیونکہ وہ بلند ہمتی پیدا کرنے کا موجب نہیں بلکہ پست ہمتی پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس سے قبل عورت کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی جائیداد کی مالک نہ تھی، اس کا خاوند اس کی جائیداد کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ اسے اس کے باپ کے مال میں سے حصہ نہ دیا جاتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کے مال کی بھی وارث نہیں سمجھی جاتی تھی گو بعض ملکوں میں اس کی حین حیات وہ اس کی متولی رہتی تھی۔ اس کا نکاح جب کسی مرد سے ہو جاتا تھا تو یا تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کی قرار دے دی جاتی تھی اور کسی صورت میں اس سے علیحدہ نہیں ہو سکتی تھی اور یا پھر اس کے خاوند کو تو اختیار ہوتا تھا کہ اسے جدا کر دے۔ لیکن اسے اپنے خاوند سے جدا ہونے کا کوئی حق حاصل نہ تھا، خواہ اسے کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ خاوند اگر اس کو چھوڑ دے اور اس سے سلوک نہ رکھے یا کہیں بھاگ جائے تو اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی قانون مقرر نہ تھا۔ اس کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اور اپنے آپ کو لے کر بیٹھی رہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو بھی پالے اور بچوں کو بھی پالے۔ خاوند کا اختیار سمجھا جاتا تھا کہ وہ ناراض ہو کر اسے مار پیٹ لے اور اس کے خلاف وہ آواز نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اگر خاوند فوت ہو جائے تو بعض ملکوں میں وہ خاوند کے رشتہ داروں کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ وہ جس سے چاہیں اس کا رشتہ کر دیں خواہ بطور احسان کے یا قیمت لے کر بلکہ بعض جگہ وہ خاوند کی جائیداد سمجھی جاتی تھی۔ بعض خاوند بیویوں کو فروخت کر دیتے تھے یا جوئے اور شرطوں میں ہار دیتے تھے اور وہ بالکل اپنے اختیارات کے دائرہ میں سمجھے جاتے تھے۔ عورت کا بچوں پر کوئی اختیار نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کا زوجیت کی صورت میں نہ اس سے علیحدگی کی صورت میں۔ عورت کے گھر کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی اور دین میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کوئی درجہ نہیں رکھتی۔ دائمی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خاوند عورتوں کی جائیداد کو اڑا دیتے تھے اور اس کو بغیر کسی گزارہ کے چھوڑ دیتے تھے۔ وہ بیچاری اپنے مال میں سے صدقہ خیرات یا رشتہ داروں کی خدمت کرنے کی مجاز نہ تھی جب تک کہ خاوند کی مرضی نہ ہو اور وہ خاوند جس کے دانت اس کی جائیداد پر ہوتے تھے کبھی اس معاملہ میں راضی نہ ہوتا تھا۔ ماں باپ جن کا نہایت ہی گہرا اور محبت کا رشتہ ہے ان کے مال سے وہ محروم کر دی جاتی تھی حالانکہ جس طرح لڑکے ان کی محبت کے حقدار ہوتے ہیں، اسی طرح لڑکیاں ہوتی ہیں۔ جو ماں باپ اس نقص کو دیکھ کر اپنی لڑکیوں کو اپنی زندگی میں کچھ دے دیتے تھے ان کے خاندانوں میں فساد پڑ جاتا تھا۔ کیونکہ لڑکے یہ تو نہ سوچتے تھے کہ باپ ماں کے مرنے کے بعد وہ ان کی سب جائیداد کے وارث ہونگے ہاں یہ ضرور محسوس کرتے تھے کہ ان کے ماں باپ ان کی نسبت لڑکیوں کو زیادہ دیتے ہیں۔ اسی طرح خاوند جس سے کامل اتحاد کا رشتہ ہوتا تھا، اس کے مال سے بھی اسے محروم رکھا جاتا۔ خاوند کے دور دور کے رشتہ دار تو اس کی جائیداد کے وارث ہو جاتے اور وہ عورت جو اس کی محرم راز اور عمر بھر کی ساتھی ہوتی جس کی محنت اور جس کے کام کا بہت سا دخل خاوند کی کمائی میں تھا وہ اس کی جائیداد سے محروم کر دی جاتی تھی۔ یا پھر وہ خاوند کی ساری ہی جائیداد کی نگران قرار دے دی جاتی لیکن وہ اس کے کسی حصہ میں تصرف سے محروم تھی۔ وہ اس کی آمد کو تو خرچ کر سکتی تھی لیکن اس کے کسی حصہ کو استعمال نہیں کر سکتی تھی اور اس طرح بہت سے صدقات جاریہ میں اپنی خواہش کے مطابق حصہ لینے سے محروم رہتی تھی۔ خاوند اس پر خواہ کس قدر ہی ظلم کرے وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی تھی یا جن قوموں میں جدا ہو سکتی تھی ایسی شرائط پر کہ بہت سی شریف عورتیں اس جدائی سے موت کو ترجیح دیتی تھیں۔ مثلاً جدائی کی یہ شرط تھی کہ خاوند یا عورت کی بدکاری ثابت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ظلم بھی ثابت کیا جائے۔ اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ بہت سی صورتوں میں جب عورت کا خاوند کے ساتھ رہنا ناممکن ہوتا تھا تو اسے کامل طور پر جدا کرنیکی بجائے صرف علیحدہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا جو خود ایک سزا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنی زندگی کو بے مقصد بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ یا پھر یہ ہوتا تھا کہ خاوند جب چاہے عورت کو جدا کر دے لیکن عورت کو اپنی علیحدگی کا مطالبہ کرنے کا کسی صورت میں اختیار نہ تھا۔ اگر خاوند اسے معلقہ چھوڑ دیتا یا ملک چھوڑ جاتا اور خبر نہ لیتا تو عورت کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اس کا انتظار عمر بھر کرتی رہے اور اسے اپنی عمر کو ملک اور قوم کے لئے مفید طور پر بسر کرنے کا اختیار نہ تھا۔ شادی کی زندگی بجائے آرام کے اس کے لئے مصیبت بن جاتی تھی اس کا کام ہوتا کہ وہ خاوند اور بیوی دونوں کا کام بھی کرے اور خاوند کا انتظار بھی کرے۔ خاوند کا فرض یعنی گھر کے اخراجات کے لئے کمانا بھی اس کے سپرد ہو جاتا اور عورت کی ذمہ داری کہ بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش کرے یہ بھی اس کے سپرد رہتا۔ ایک طرف قلبی تکلیف دوسری طرف مادی ذمہ واریاں۔ یہ سب اس بے کس جان کے لئے روا رکھی جاتی تھیں۔ عورتوں کو مارا پیٹا جاتا اور اسے خاوند کا جائز حق تصور کیا جاتا۔ خاوندوں کے مرنے کے بعد عورتوں کا زبردستی خاوند کے رشتہ داروں سے نکاح کر دیا جاتا تھا یا اور کسی شخص کے پاس قیمت لے کر بیج دیا جاتا۔ بلکہ خاوند خود اپنی عورتوں کو بیچ ڈالتے۔ پانڈوں جیسے عظیم الشان شہزادوں نے اپنی بیوی کو جوئے میں ہار دیا اور ملک کے قانون کے سامنے دروپدی جیسی شریف شہزادی اف نہ کر سکی۔ بچوں کی تعلیم یا پرورش میں ماؤں کی رائے نہ لی جاتی تھی اور ان کا بچوں پر کوئی حق نہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اگر ماں اور باپ میں جدائی واقع ہو تو بچوں کو باپ کے سپرد کیا جاتا تھا۔ عورت کا گھر سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کی زندگی میں نہ بعد۔ جب چاہتا خاوند اسے گھر سے نکال دیتا تھا اور وہ بے خانماں ہو کر ادھر ادھر پھرتی رہتی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان سب ظلموں کو یک قلم مٹا دیا گیا۔ آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ خداتعالیٰ نے مجھے عورتوں کے حقوق کی نگہداشت خاص طور پر سپرد فرمائی ہے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ مرد اور عورت بلحاظ انسانیت برابر ہیں اور جب وہ مل کر کام کریں تو جس طرح مرد کو بعض حقوق عورت پر حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح عورت کو مرد پر بعض حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ عورت اسی طرح جائیداد کی مالک ہو سکتی ہے جس طرح مرد ہو سکتا ہے اور خاوند کا کوئی حق نہیں کہ عورت کے مال کو استعمال کرے جب تک کہ عورت خوشی سے بطور ہدیہ اسے کچھ نہ دے۔ اس سے جبراً مال لینا یا اس طرح لینا کہ شبہ ہو کہ عورت کی حیا انکار سے مانع رہی ہے نادرست ہے۔ خاوند بھی جو کچھ بطور ہدیہ اسے دے وہ عورت کا ہی مال ہوگا اور خاوند اسے واپس نہیں لے سکے گا۔ وہ اپنی ماں اور اپنے باپ کے مال کی اسی طرح وارث ہوگی جس طرح کہ بیٹے اپنے ماں باپ کے وارث ہوتے ہیں ہاں چونکہ خاندانی ذمہ واریاں مرد پر ہوتی ہیں اور عورت پر صرف اپنی ذات کا بار ہوتا ہے اس لئے اسے مرد سے آدھا حصہ ملے گا۔ اسی طرح ماں بھی اپنے بیٹے کے مال سے اسی طرح حصہ پائے گی جس طرح باپ۔ گو مختلف حالات اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے کبھی باپ کے برابر اور کبھی کم حصہ اسے ملے گا۔ وہ اپنے خاوند کے مرنے پر اس کے مال کی بھی وارث ہوگی خواہ اولاد ہو یا نہ ہو کیونکہ اسے دوسرے کا دست نگر نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کی شادی بے شک ایک پاک اور مقدس عہد ہے جس کا توڑنا بعد اس کے کہ مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے انتہائی بے تکلفی پیدا کر لی نہایت معیوب ہے۔ لیکن یہ نہیں کہ اگر عورت اور مرد کی طبیعت میں خطرناک اختلاف ثابت ہو یا مذہبی، جسمانی، مالی، تمدنی،طبعی مغائرت کے باوجود انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اس عہد کی خاطر اپنی عمر کو برباد کر دیں اور اپنی پیدائش کے مقصد کو کھو دیں۔ جب ایسے اختلافات پیدا ہو جائیں اور مرد اور عورت متفق ہوں کہ اب وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تو وہ اس معاہدہ کو با رضا مندی باطل کر دیں۔ اور اگر مرد اس خیال کا ہو اور عورت نہ ہو تو آپس میں اگر کسی طرح سمجھوتہ نہ ہو سکے تو ایک پنچایت ان کے درمیان فیصلہ کرے جس کے دو ممبر ہوں ایک مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے پھر اگر وہ فیصلہ کریں کہ ابھی عورت اور مرد کو اور کچھ مدت مل کر رہنا چاہئے تو چاہئے کہ ان کے بتائے ہوئے طریق پر مرد اور عورت مل کر رہیں۔ لیکن جب اس طرح بھی اتفاق نہ پیدا ہو تو مرد عورت کو جدا کر سکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں اس نے جو مال اسے دیا ہے وہ اسے واپس نہیں لے سکتا۔ بلکہ مہر بھی اسے پورا ادا کرنا ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر عورت مرد سے جدا ہونا چاہے۔ تو وہ قاضی سے درخواست کرے اور اگر قاضی دیکھے کہ کوئی بد اخلاقی کا محرک اس کے پیچھے نہیں ہے تو وہ اسے اس کی علیحدگی کا حکم دے اور اس صورت میں اسے چاہئے کہ خاوند کا ایسا مال جو اس کے پاس محفوظ ہو یا مہر اسے واپس کر دے۔ اور اگر عورت کا خاوند اس کے حقوق مخصوصہ کو ادا نہ کرے یا اس سے کلام وغیرہ چھوڑ دے یا اس کو الگ سلائے تو اس کی مدت مقرر ہونی چاہئے۔ اور اگر وہ چار ماہ سے زائد اس کام کا مرتکب ہو تو اسے مجبور کیا جائے کہ یا اصلاح کرے یا طلاق دے۔ اور اگر وہ اس کو خرچ وغیرہ دینا بند کر دے یا کہیں چلا جائے اور اس کی خبر نہ لے تو اس کا نکاح فسخ قرار دیا جائے (تین سال تک کی مدت فقہائے اسلام نے بیان کی ہے) اور اسے آزاد کیا جائے کہ وہ دوسری جگہ نکاح کر لے اور ہمیشہ خاوند کو اپنی بیوی اور بچوں کے خرچ کا ذمہ وار قرار دیا جائے۔ خاوند کو اپنی بیوی کو مناسب تنبیہ کا اختیار ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ تنبیہ سزا کا رنگ اختیار کرے تو اس پر لوگوں کو گواہ مقرر کرے اور جرم کو ظاہر کرے اور گواہی پر اس کی بنیاد رکھے اور سزا ایسی نہ ہو جو دیرپا اثر چھوڑنے والی ہو۔ خاوند اپنی بیوی کا مالک نہیں وہ اسے بیچ نہیں سکتا نہ اسے خادموں کی طرح رکھ سکتا ہے، اس کی بیوی اس کے کھانے پینے میں اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کے ساتھ سلوک اپنی حیثیت کے مطابق اسے کرنا ہوگا اور جس طبقہ کا خاوند ہے اس سے کم سلوک اسے جائز نہ ہوگا۔ خاوند کے مرنے کے بعد اس کے رشتہ داروں کو بھی اس پر کوئی اختیار نہیں۔ وہ آزاد ہے، نیک صورت دیکھ کر اپنا نکاح کر سکتی ہے، اس سے اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خاص جگہ پر رہے، صرف چار ماہ دس دن تک اسے خاوند کے گھر ضرور رہنا چاہئے تا اس وقت تک وہ تمام حالات ظاہر ہو جائیں جو اس کے اور خاوند کے دوسرے متعلقین کے حقوق پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ عورت کو اس کے خاوند کی وفات کے بعد سال بھر تک علاوہ اس کے ذاتی حق کے خاوند کے مکان میں سے نہیں نکالنا چاہئے تا اس عرصہ میں وہ اپنے حصہ سے اپنی رہائش کا انتظام کر سکے۔ خاوند بھی ناراض ہو تو خود گھر سے الگ ہو جائے عورت کو گھر سے نہ نکالے کیونکہ گھر عورت کے قبضہ میں سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں عورت کا بھی حصہ ہے اس سے مشورہ لے لینا چاہئے اور اسے بچہ کے متعلق کوئی تکلیف نہیں دینی چاہئے۔ دودھ پلوانے، نگرانی وغیرہ بچہ کے متعلق تمام امور میں اس سے پوچھ لینا چاہئے اور اگر عورت اور مرد آپس میں نبھاؤ کو ناممکن پا کر جدا ہونا چاہیں تو چھوٹے بچے ماں ہی کے پاس رہیں۔ ہاں جب بڑے ہو جائیں تو تعلیم وغیرہ کے لیے باپ کے سپرد کر دیئے جائیں۔ جب تک بچے ماں کے پاس رہیں ان کا خرچ باپ دے بلکہ ماں کو ان کے لئے جو وقت خرچ کرنا پڑے اور کام کرنا پڑے تو اس کی بھی مالی مدد خاوند کو کرنی چاہئے۔ عورت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور دینی انعامات بھی وہ ہر قسم کے پا سکتی ہے۔ مرنے کے بعد بھی وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات پائے گی اور اس دنیا میں بھی حکومت کے مختلف شعبوں میں وہ حصہ لے سکتی ہے۔ اور اس صورت میں اس کے حقوق کا ویسا ہی خیال رکھا جائے گا۔ جس طرح کہ مردوں کے حقوق کا۔

یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دی جب اس کے بالکل برعکس خیالات دنیا میں رائج تھے۔ آپ نے ان احکام کے ذریعہ عورت کو اس غلامی سے آزاد کرا دیا۔ جس میں وہ ہزاروں سال سے مبتلا تھی جس میں وہ ہر ملک میں پابند کی جاتی تھی جس کا طوق ہر مذہب اس کی گردن میں ڈالتا تھا۔ ایک شخص نے ایک ہی وقت میں ان دیرینہ قیود کو کاٹ دیا اور دنیا بھر کی عورتوں کو آزاد کر دیا۔ اور ماؤں کو آزاد کر کے بچوں کو بھی غلامی کے خیالات سے محفوظ کر لیا اور اعلیٰ خیالات اور بلند حوصلگی کے جذبات کے ابھرنے کے سامان پیدا کر دیئے۔

مگر دنیا نے اس خدمت کی قدر نہ کی۔ اس نے وہی بات جو احسان کے طور پر تھی اسے ظلم قرار دیا۔ طلاق اور خلع کو فساد قرار دیا۔ ورثہ کو خاندان کی بربادی کا ذریعہ، عورت کے مستقل حقوق کو خانگی زندگی کو تباہ کرنے والا۔ اور وہ اسی طرح کرتی چلی گئی اور کرتی چلی گئی اور تیرہ سوسال تک وہ اپنی نابینائی سے اس بینا کی باتوں پر ہنستی چلی گئی اور اس کی تعلیم کو خلاف اصول فطرت قرار دیتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وقت آگیا کہ خدا کے کلام کی خوبی ظاہر ہو اور جو تہذیب و شائستگی کے دعویدار تھے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہذیب سکھانے والے احکام کی پیروی کریں۔ ان میں سے ہر اک حکومت ایک ایک کر کے اپنے قوانین کو بدلے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول کی پیروی کرے۔

انگریزی قانون جو طلاق اور خلع کے لئے کسی ایک فریق کی بدکاری اور ساتھ ہی ظلم اور مارپیٹ کو لازمی قرار دیتا تھا 1923ء میں بدل دیا گیا اور صرف بدکاری بھی طلاق اور خلع کا موجب تسلیم کر لی گئی۔

نیوزی لینڈ میں 1912ء میں فیصلہ کر دیا گیا کہ سات سالہ پاگل کی بیوی کا نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے اور 1925ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر خاوند یا بیوی عورت اور مرد کے حقوق کو ادا نہ کریں تو طلاق یا خلع ہو سکتا ہے اور تین سال تک خبر نہ لینے پر طلاق کو جائز قرار دیا گیا (بالکل اسلامی فقہاء کی نقل کی ہے مگر تیرہ سو سال اسلام پر اعتراض کرنے کے بعد)۔

آسٹریلیا کی ریاست کوئینز لینڈ میں پانچ سالہ جنون کو وجہ طلاق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ٹسمانیا میں 1919ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ بدکاری، چار سال تک خبر نہ لینا، بدمستی اور تین سال تک عدم توجہی، قید، مارپیٹ اور جنون کو وجہ طلاق قرار دیا گیا ہے۔ علاقہ وکٹوریا میں 1923ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ خاوند اگر تین سال خبر نہ لے، بدکاری کرے، خرچ نہ دے یا سختی کرے، قید، مارپیٹ، یا عورت کی طرف سے بدکاری یا جنون یا سختی اور فساد کا ظہور ہو تو طلاق اور خلع ہو سکتا ہے۔

مغربی آسٹریلیا میں علاوہ اوپر کے قوانین کے حاملہ عورت کی شادی کو بھی فسخ قرار دیا گیا ہے(اسلام بھی اسے ناجائز قرار دیتا ہے)۔کیوبا جزیرہ میں 1918ء میں فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ بدکاری پر مجبور کرنا، مارپیٹ گالی گلوچ، سزا یافتہ ہونا، بدمستی، جوئے کی عادت، حقوق کا ادا نہ کرنا، خرچ نہ دینا، متعدی بیماری یا باہمی رضامندی کو طلاق یا خلع کی کافی وجوہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔

اٹلی میں 1919ء میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ عورت اپنے مال کی مالک ہوگی اور اس میں سے صدقہ خیرات کر سکے گی یا اسے فروخت کر سکے گی (اس وقت تک یورپ میں عورت کو اس کے مال کا مالک نہیں مانا جاتا تھا) میکسیکو امریکہ میں بھی اوپر کے بیان کردہ وجوہ کو طلاق و خلع کے لئے کافی وجہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی باہمی رضامندی کو بھی اس کے جواز کیلئے کافی سمجھا گیا ہے۔ یہ قانون 1917ء میں پاس ہوا ہے۔ پرتگال میں 1915ء میں، ناروے میں 1909ء میں، سویڈن میں 1920ء، اور سوئٹرزلینڈ میں 1912ء میں ایسے قوانین پاس کر دئے گئے کہ جن سے طلاق اور خلع کی اجازت ہوگئی ہے۔ سویڈن میں باپ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال تک کی عمر تک بچہ کے اخراجات ادا کرے۔

یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں گو قانون اب تک یہی کہتا ہے کہ بچہ پر باپ کا حق ہے لیکن عملاً اسلامی طریق پر اصلاح شروع ہو گئی اور جج عورت کے احساسات کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں اور مرد کو مجبور کر کے خرچ بھی دلوایا جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس قانون میں بہت کچھ خامیاں ہیں گو مرد کے حقوق کی حفاظت زیادہ سختی سے کی گئی ہے۔ عورت کو اس کے مال پر تصرف بھی دلایا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی بعض ریاستوں میں یہ بھی قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ اگر خاوند اپاہج ہو جائے تو بیوی پر بھی اس کے اخراجات کا مہیا کرنا لازمی ہوگا۔

عورتوں کو ووٹ کے حقوق دیئے جا رہے ہیں اور ان سے قومی امور میں مشورہ لینے کے لئے بھی راہیں کھولی جا رہی ہیں لیکن یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے پورے تیرہ سو سال کے بعد ہوئی ہیں اور ابھی کچھ ہونی باقی ہیں۔ بہت سے ممالک میں ابھی عورت کو باپ اور ماں اور خاوند کے مال کا وارث نہیں قرار دیا گیا۔ اور اسی طرح اور کئی حقوق باقی ہیں جن میں اسلام اب بھی باقی دنیا کی راہنمائی کر رہا ہے لیکن ابھی اس نے اس کی راہنمائی کو قبول نہیں کیا لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو ان معاملات میں بھی دنیا قبول کرے گی جس طرح اس نے اور معاملات میں قبول کیا۔ اور آپؐ کا جہاد عورتوں کی آزادی کے متعلق اپنے پورے اثرات اور نتائج ظاہر کرے گا۔

اللّٰھم صلی علی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

مرزا محمود احمد

(الفضل 12 جون 1928ء صفحہ 3 تا 5)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button