سیرت النبی ﷺ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں جنت نظیر معاشرے کا قیام (قسط اوّل)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں …‘‘

سورۃ الاحزاب آیت22میں خالق دوجہاں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے اسوہ کو مثالی اسوہ قرار دیا ہے۔وہ اسوہ جس پر چل کر انسان اپنے ربّ کی رضا کا وارث بن سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سیرت کے تمام خوبصورت اور پاکیزہ پہلو رہتی دنیا تک روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے رہیں گے اور بنی نوع انسان کی اپنے محبوب حقیقی کی طرف رہ نمائی کرتے رہیں گے۔

آج ہم آپ صلی اللہ علیہ والہٖٖ وسلم کی سیرت کے ایک ایسےخوبصورت پہلو پر کچھ حد تک روشنی ڈالیں گے جس کا تعلق آپؐ کی گھریلو زندگی سے ہےاور جوہمارے لیے ہمیشہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ یہ دلکش ذکر اور روح پرور واقعات جن کو پڑھ کر انسان سو جان سے آپ صلی اللہ علیہ والہٖٖ وسلم پر فدا ہوجاتا ہے صرف پڑھ کر لطف اندوز ہونے کے لیے نہیں بلکہ ان پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگی سنوارنے کا بھی شاندار ذریعہ ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماًو عملاً و صدقاً ثباتاً دکھلایا اور انسانِ کامل کہلایا …وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں …‘‘

( اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308)

آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی تمام زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ آپ کو نیکی سے پیار تھا اور آپؐ ساری زندگی تقویٰ کی راہوں پر گامزن رہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَاِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:4تا5)

کہ وہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ اس کا پیش کردہ کلام وحی الٰہی ہے۔ اس کی گواہی آپ کی ازواج مطہرات کی زبانی ہم سب نے بارہا ملاحظہ کی ہے۔

پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجہؓ نے ان الفاظ میں آپؐ کی دلجوئی فرمائی:

’’خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کو اٹھاتے ہیں۔ جو خوبیاں معدوم ہوچکی ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں، ضرورت حقہ میں امداد کرتے ہیں۔‘‘

(صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی)

تو دوسری طرف حضرت عائشہؓ سے کسی کے دریافت کرنے پر کہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے اخلاق کیسے تھے فرمانا کہ رسول اللہؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ شہنشاہ دوجہاں سرور کونین فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہاں زندگی کے ہر معاملے میں اپنے بہترین اور پاکیزہ نمونہ کے ذریعےمعاشرے میں عدل وسکون قائم کرکے دکھایا۔ اسی طرح گھریلو زندگی میں بھی آپؐ کے اسوہ کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ آپﷺ نے ہمیں ناصرف اس طرف رہ نمائی فرمائی کہ شادی کے بعدزندگی کیسے گزارنی ہے بلکہ رشتہ طے کرنے سے پہلے دعا،استخارہ اور ساتھی کے انتخاب میں تقویٰ کو اوّلیت دینے کا ارشاد فرماکر ابتدا میں ہی فرمادیا کہ اس طرح سکھ اور ازدواجی سکون حاصل کرسکتے ہو۔ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے۔ اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنےکے لیےاحساس اور محبت سے نبھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو میاں بیوی کے ساتھ ہر دو خاندانوں کی طرف سے ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس نیک اور پاکیزہ کام کا آغاز جب دعا اور خدا کی محبت کے حصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوگا تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس میں برکت اور خیر رکھ دے گا۔

رشتہ طے کرتے وقت خیر کی طلب

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک موقع پر بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ نکاح ضرور سُکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودّت کا باعث ہو، وہ پیدا ہوتی ہے۔ سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذَاتِ الدِّیْن ہو۔ حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب ونسب اس کے محرکات نہ ہوں۔ پہلے نیت نیک ہو۔ پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍دسمبر 1911ء مطبوعہ خطباتِ نور صفحہ 518-519)

قولِ سدید…پائیدار رشتوں کی بنیاد

نکاح کے وقت تقویٰ اور قول سدید والی آیات پڑھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ کس طرح جنت نظیر معاشرہ قائم کرسکتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پرفرمایا:

’’…نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ آپ جو ناجائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کروا لیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو۔ تو تقویٰ سے دورہوں گے تو پھر یقیناً شرک کی جھولی میں جا گریں گے۔ پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ءصفحہ8)

نکاح کا مقصد

حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اعلانِ نکاح کے موقع پردیے گئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

’’نکاح اور شادی انسانی نسل کے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے، جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ بعض صحابہ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے۔ تجرد کی زندگی گزاریں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو میری سنت پہ عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں ہو گا۔ میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں۔ کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں۔

…پس اس بات کو ہمیشہ ہمارے ہر احمدی جوڑے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر سامنے کوئی مقصد ہو گا تو پھر نئے بننے والے جوڑے کاہر قدم جو زندگی میں اٹھے گا، وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اور کرنے والی ہوں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کےحکم پر عمل کرنے والا ہوتو پھر اس کی سوچ کا ہر پہلو اس طرف جانے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا ہو۔ پس اس سے پھر آپس کے تعلقات مزید بہتر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال انسان رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھتا ہے اور اس طرح یہ ایک جو Bond ہے، آپس کا ایک جو معاہدہ ہے وہ دنیاوی معاہدہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا معاہدہ بن جاتا ہے اور پھر آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں بھی نیک صالح نسلیں ہوتی ہیں اور یہی ایک احمدی مسلمان کا شادی کا مقصد ہونا چاہئے۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍جون2012ء)

نکاح کا ایک مقصد رحمی رشتوں کا احترام

سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اعلان نکاح کے وقت تلاوت کی جانے والی آیات کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کےحکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو، تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کےحملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ءصفحہ6)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:

’’اسلام کی تعلیم یہ ہے جو خوبصورت تعلیم ہے کہ ماں باپ سے احسان کا سلوک کرو، اُن کی عزت کرو، اُن کو اُف تک نہ کہو۔ یہ ماں باپ کا احترام قائم کرتی ہے۔ ماں باپ کے احسانوں کا بدلہ احسان سے اتارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل کرو جو بہترین ہو، ورنہ ماں باپ کے احسان کا بدلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اتار ہی نہیں سکتے۔ اس احسان کے بدلے کے لئے بچوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا خوبصورت تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین کےلیے یہ بھی دعا کرو۔

رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل:25)

کہ اے میرے ربّ! ان پر رحم فرما۔ جس طرح یہ لوگ میرے بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے رحم کرتے ہوئے میری پرورش کی تھی۔

پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اسلام ایک مسلمان کو اپنے والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں سکھاتا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو ایک مسلمان کا اپنے والدین کے لئے ہونا چاہئے۔ یہ دعا صرف زندگی کی دعا نہیں ہے بلکہ والدین کی وفات کے بعد بھی اُن کے درجات کی بلندی کے لئے دعا ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک تو زندگی میں دعا ہے کہ جو ہماری طرف سے کمی رہ گئی ہے اُس کمی کو اس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ پورا فرمائے اور اپنے خاص رحم میں رکھے۔ دوسرے اس رحم کا سلسلہ اگلے جہان تک بھی جاری رہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا رہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍ جولائی 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍اگست2013ءصفحہ7)

رحمی رشتہ داروں سے محبت اورحسن سلوک کی بہترین مثال ہمیں آنحضرتﷺ کے اسوہ میں ملتی ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش ہیں۔

حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ مکہ میں آئیں او رحضور سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کاذکر کیا۔ حضورﷺ نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔

(طبقات ابن سعد جلداوّل صفحہ113بیروت۔ 1960)

ایک بار حضورؐ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کے لیے چادر کا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھرآپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپؐ کے رضاعی بھائی آئے تو آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھالیا۔

(سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین)

رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم فرماتے تھے کہ مسکین کو صدقہ دینا ایک نیکی ہے اور مستحق رحمی رشتہ دار کو صدقہ دینا دوہری نیکی ہے۔ (ترمذی)

ایک دفعہ اُم المومنین حضرت میمونہؓ نے ایک لونڈی آزاد کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو جب اس بارے میں بتایا تو آپؐ نے فرمایا اگر تم اپنے ننہال کو (جو مستحق تھے) یہ لونڈی دے دیتیں تو تیرے لیے بہت زیادہ اجر کا موجب ہوتا۔ (ابودائود)

(بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ199، ایڈیشن 2011ء)

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ بے شمار مثالوں میں سے ایک یہاں دیتا ہوں۔ راوی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہےاور آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ)

لیکن یہاں تھوڑی سی وضاحت بھی کر دوں اس کی تشریح میں۔ بعض باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ(Mixup) ہونے لگ گئے ہیں۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کرلینا بالکل اور چیز ہے۔ اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہےاور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی۔ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے۔ یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے۔ آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جولائی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍جولائی2004ءصفحہ6تا7)

مرد عورتوں پر نگران ہیں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ

یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیاہے۔ اس کی خوبصورت وضاحت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوّام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر بیوی سے چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جون2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی2005ءصفحہ7)

اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک کے بارہ میں حضورِ انورایک اور موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا ایک ارشاد اور اس کی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں :

’’یہ مت سمجھو کہ پھرعورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔ نہیں۔ نہیں۔ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلہٖ

تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں؟ دوسروں کے ساتھ وہ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہواورعمدہ معاشرت رکھتاہو۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 403 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یہ مبارک ارشاد گھروں کی چار دیواری کو جنت بنا نے کے لیے کا فی ہے۔ جس میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کا معیار آنحضر ت صلی ا للہ علیہ وسلم کی حسنِ معاشرت رکھی ہے۔

حضرت معاویہ بن حیدہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس سوال پر کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کی بیوی کا ہم پر کیا حق ہے ؟رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ تم کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، خود لباس پہنتے ہو تو اسے بھی پہناؤیعنی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جو تمہارا اپنا معیار ِزندگی ہے بیوی کے حقوق ادا کرو اور اسے سرزنش کرتے ہوئے چہرے پر کبھی نہ مارو اور کبھی برا بھلا نہ کہو اس سے گالی گلوچ نہ کرو۔ اوراس سے کبھی جدائی اختیار نہ کر ہاں ضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

(ابوداؤ دبحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ786ایڈیشن 2004ء)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ

’’عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے یعنی اس میں پسلی کی طرح طبعی ٹیڑھا پن ہے، … اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو اسے توڑ دوگے۔ اگر تم اسے اس کے حال پر ہی رہنے دوگے تو اس کا جو فائدہ ہے وہ تمہیں حاصل ہوتا رہے گا۔ پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو۔‘‘

( بخاری کتاب الانبیاء باب خلق اَدم و ذریۃ )

ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں ہمیں کیا اسوہ دکھایا۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا، حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کران سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے کہ تم خدا کے رسولؐ کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت ابو بکرؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہؓ سے ازراہِ مذاق فرمایا۔ دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟

تو دیکھیں یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ نہ صرف خاموش رہ کرجھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ حضرت ابوبکرؓ جو حضرت عائشہؓ کے والد تھے ان کو بھی یہی کہا کہ عائشہ کو کچھ نہیں کہنااور پھر فوراً حضرت عائشہؓ سے مذاق کر کے ان کی طبیعت کے بوجھل پن کو بھی دُور فرما دیا۔ پھر آگے آتاہے روایت میں کہ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکرؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہؓ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے دیکھو تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح)

حضرت عائشہؓ کی شہادت گھریلو زندگی کے بارے میں یہ ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنا وقت گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا بلاوا آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے جاتے۔‘‘

(بخاری کتاب الادب باب کیف یکون الرجل فی اھلہ)

ازواج کے ساتھ الفت و مودت کا سلوک

گھریلو تعلقات کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی نصیحت احادیث میں آتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر اس کی ایک بات اسے ناپسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ ہو سکتی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث 3648)

یعنی اگر اس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہیں تو کچھ اچھی بھی ہوں گی۔ ہمیشہ اچھی باتوں پر تمہاری نظر رہے۔

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200)

دونوں طرف سے یہ سلوک ہو گاتو تبھی گھر کا امن اور سکون قائم رہ سکتاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے تو عورتوں کے حق اس طرح قائم فرمائے کہ ایک دفعہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے علم میں یہ بات آئی کہ صحابہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا : عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا:اسے تھپڑ نہ مارو، گالیاں نہ دو، گھر سے نہ نکالو۔ پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :اے اللہ کے رسولؐ! بیوی کا حق خاوند پر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا جو تُو کھاتا ہے، اس کو بھی کھِلا۔ جو تُو پہنتا ہے اس کو بھی پہنا۔ اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اس کو بد صورت بنا۔ اس کی کسی غلطی کی وجہ سے سبق سکھانے کے لئے اگر تجھے اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کر۔ یعنی گھر سے اُسے نہ نکال۔

(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا حدیث 2142)

(ماخوذ از خطاب جلسہ سالانہ سپین فرمودہ3؍اپریل 2010ء)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم جب بھی حضرت خدیجہؓ کا ذکر فرماتے تو بہت تعریف کرتے۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُن سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا ’’جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا تو خدیجہ نے مجھے قبول کیا جب لوگوں نے میرا کفر کیا تو وہ ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کردیا تھا انہوں نے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے انہی سے مجھے اولاد بھی عطا فرمائی۔‘‘

(مسند احمدبن حنبل جلد6صفحہ117المکتب الاسلامی۔ بیروت)

آنحضر ت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم حضرت عائشہؓ کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ اُن سے فرمانے لگے کہ عائشہ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتاہوں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں ربّ محمد(ﷺ ) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ربّ ابراہیمؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا نام چھوڑتی ہوں (دل سے توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی محبت نہیں جاسکتی)۔

(بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن)

اب خاکسار آپ کا وہ واقعہ بیان کرنا چاہتی ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ایک موقع پر اپنی اہلیہ حضرت صفیہؓ کے ساتھ الفت و مودت کا وہ سلوک کیا کہ انسان کا اس پیار پر قربان ہونے کے لیے دل کرتا ہے۔ جس کو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سیرت طیبہ سے لاعلم اور آج کا نام نہادماڈرن معاشرہ مغرب سے منسوب کرکے بڑے فخر سے بیان کرتے ہوئے اس کی تقلید کرتاہے۔ اس بات سے بےخبر کہ اس کی بہترین مثال آپؐ نے آج سے پندرہ سوسال پہلےعملاً پیش کی۔

جنگ خیبر سے واپسی پر صحابہؓ نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ اونٹ پر آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم حضرت صفیہؓ کے لیے خود جگہ بنا رہے ہیں۔ وہ جُبہ جو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے پہنا ہوا تھا اتار کر تہ کر کے بیٹھنے کی جگہ پر رکھا۔ پھر سوار کراتے وقت اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا اور فرمایا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔ ( بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا ایک اَور خوبصورت واقعہ جس کو Glass with careکی عملی تفسیر کہہ سکتے ہیں۔ ہم سب نےبارہا پڑھا سنا ہے جس کو پڑھ کر انسان ہمیشہ محظوظ ہوتا ہے۔ عورتوں کے احترام اور ان کی نزاکت کا آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو بہت خیال تھا۔ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی بیویا ں اونٹوں پر سوار تھیں کہ حدی خواں انجشہ نامی نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کردیا۔ آنحضر ت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم فرمانے لگے ’’اے انجشہؓ۔ تیرا بھلا ہو اذراآہستہ! دیکھتے نہیں یہ نازک شیشے ہمرا ہ ہیں۔ ان آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچے۔ یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں اونٹوں کو آہستہ ہانکو۔‘‘ اس واقعہ کے ایک راوی ابو قلابہؓ بیان کیاکرتے تھے کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے عورتوں کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو شیشے کہا۔ یہ محاورہ اگر کوئی اَور استعمال کرتا تو تم لوگ عورتوں کے ایسے خیر خواہ کو کب جینے دیتے ضرور اسے ملامت کرتے۔ (مسلم)

(بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ 785، ایڈیشن 2004ء)

حضرت صفیہؓ بیان فرماتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپؐ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیامجھے اونگھ آگئی اور سر پالان کی لکڑی سے جا ٹکرایا۔ حضورؐ نے بڑے پیار سے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے۔ اے لڑکی۔ اے حییکی بیٹی ذرا احتیاط، ذرا اپنا خیال رکھو۔ پھررات کو جب ایک جگہ پڑائو کیا تو وہاں میرے ساتھ بہت محبت بھری باتیں کیں۔ فرمانے لگے دیکھو تمہارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اس نے کی تھی اور یہ سلوک ہم سے روا رکھا تھا جس کی بنا پر مجبوراًتیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس پر میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ مگر تم خود جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ہمیں مجبوراً اور جواباً کرنا پڑا ہے۔ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پاس سے اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپؐ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا۔ (ھیثمی)

(بحوالہ اسوہ ٔانسان کامل صفحہ 453)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب میں بیاہ کر آئی تو میں حضورؐ کے گھر میں بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ مل کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ جب حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم گھر تشریف لاتے(اور ہم کھیل رہی ہوتیں ) تو میری سہیلیاں حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو دیکھ کر ادھر اُدھر کھسک جاتیں لیکن حضورؐ ان سب کو اکٹھا کرکے میرے پاس لے آتے اور پھر وہ میرے ساتھ مل کر کھیلتی رہتیں۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الانبساط الی الناس)

حضرت عائشہؓ دوسری جگہ فرماتی ہیں کہ جب حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم جنگ تبوک سے واپس آئے یا شاید یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم خیبر سے واپس آئے تومیرے پاس تشریف لائے۔ ان کے صحن میں ایک جگہ پردہ لٹک رہا تھا ہوا کا ایک جھونکا آیا تو اس پردہ کا ایک سراہٹ گیا۔ اس پردہ کے پیچھے حضرت عائشہؓ کی گڑیاں رکھی تھیں پردہ ہٹا تو وہ نظر آنے لگیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے پوچھاعائشہؓ یہ کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیاکہ میری گڑیاں ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی نظر پڑی تو دیکھا کہ ان گڑیوں کے درمیان میں ایک گھوڑا کھڑا ہے جس کے چمڑے کے پر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے ان گڑیوں کے درمیان کیا نظر آرہا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ گھوڑا ہے۔ آپؐ نے پوچھا (پروں کی طرف اشارہ کرکے) کہ گھوڑے کے اوپر یہ کیا چیز ہے۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ پَر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا بھئی تعجب ہے پروں والا گھوڑا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپؐ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان کا بھی ایک گھوڑا تھا جس کے بہت سے پر تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب میں نے یہ کہا تو حضورؐ بے اختیار ہنس پڑے اور ایسی شگفتہ کھلی ہوئی ہنسی تھی کہ حضورؐ ہنسے تو دہن مبارک اتنا کھل گیا کہ مجھے حضورؐ کے سامنے کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے۔

(بخاری کتاب الادب باب اللعب بالبنات)

ایک عید کے موقع پر اہلِ حبشہ مسجدنبویؐ کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم حضرت عائشہؓ سے فرماتے ہیں کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کروگی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کرلیتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں دیرتک آپؐ کے پیچھے کھڑی رہی اور آپؐ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپؐ کے رخسار کے ساتھ رخسار ملا کے یہ کھیل دیکھتی رہی۔ آپؐ بوجھ سہارے کھڑے رہے یہاں تک کہ میں خود تھک گئی۔ آپؐ فرمانے لگے اچھا کافی ہے تو پھر اب گھر چلی جاؤ۔

(بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے اسوہ کو اپنائیں۔ آپؐ گھر میں کیسا پیارا سلوک فرمایا کرتے تھےحضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’بعض اوقات حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑتے بھی ہیں۔‘‘ اب کوئی سوچ سکتا ہے آج کے زمانے میں کہ اس طرح بیویوں کے ساتھ دوڑ لگائے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بہت سادہ اور بے تکلف تھے…ایک مرتبہ آپؐ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہو گئے تا عائشہ آگے نکل جائیں اور وہ آگے نکل گئیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جنوری 2000ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍مارچ2000ءصفحہ8)

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ایک مثالی شوہر تھے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سراپا محبت تھے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اپنی ازواج سے محبت کی اور انہیں محبت کرنا سکھائی۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بعض دفعہ مجھے چوسنے والی ہڈی دیتے اور میں چوستی تو پھر مجھ سے لے کر اسے اس جگہ سے چوستے جہاں پر میرا منہ لگا ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم مجھے برتن دیتے تو میں اس سے پیتی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اسی جگہ سے برتن کو منہ لگا کر پیتے جہاں میرا منہ لگا ہوتا۔

( مسند احمد بن حنبل الجزءالسادس صفحہ24)

آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی گھریلوزندگی کی ایک انتہائی خوبصورت مثال یہ ہے کہ ایک موقع پر حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں :رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اپنی جوتی کو پیوند لگا رہےتھے اور میں چرخہ کات رہی تھی… اچانک میری نظر حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی پیشانی پر پڑی تو اس پیشانی پر پسینے کے قطرے ابھر رہے تھے۔ اس پسینے کے اندر ایسا نور تھا جو ابھرتا چلا آرہا تھا اور بڑھ رہا تھا۔ یہ نظارہ دیکھ کر میں سراپا حیرت بن گئی… حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی نگاہ مجھ پر پڑی تو فرمایا! عائشہ تم حیران کیوں ہوئی بیٹھی ہو؟ میں نے کہا یارسول اللہ! میں نے آپؐ کی پیشانی پر ایسا پسینہ دیکھا ہے کہ اس کے اندر ایک نور چمکتا دمکتا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ خدا کی قسم! اگر ابوکبیر ہجلی حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو دیکھ پاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اشعار کا مصداق آپؐ ہی تھے۔ آپؐ نے فرمایا! اس کے اشعار کیا ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے وہ اشعار پڑھ کر سنائے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے مبرا ہیں اَور تو کوئی ایسا نہیں جو ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے اس طرح مبرا ہو… حضور نے ہاتھ میں جو کچھ تھا انہیں رکھ دیا۔ عائشہ کہتی ہیں آپ نے مجھے قریب کیا اور میری پیشانی کو چوما اور فرمایا اے عائشہ! جو سرور مجھے اس وقت تجھ سے حاصل ہوا ہے اتنا سرور تو تجھے بھی میرے نظارے میں حاصل نہیں ہوا ہو گا۔ … یہ آپؐ کی ازدواجی زندگی کے حالات ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ محبت جو خدا کے لیے ہو، وہ لذتیں جو خدا کی خاطر ہوں، ان محبتوں اور لذتوں کے کیا رنگ ہوا کرتے ہیں۔

(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول صفحہ 541)

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا:

تم خدا کی رضا چاہتے ہوئےجو خرچ کرو گے اس پر تمہیں ضرور اجر ملے گا۔ یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔

(بخاری کتاب الایمان)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’بعض مردوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو کماتے ہیں وہ باہر ہی کھاتے پیتے اُڑا دیتے ہیں اور بیوی کو تنگ کرتے ہیں۔ باہر پھر کر کھانا کھانے کی عادت اچھی بات نہیں ہےسوائے اس کے کہ اگر ہو سکتا ہو تو بیوی کو بھی ساتھ لے کر جاؤ… میرا اپنا بھی ہمیشہ یہی طریق رہا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جنوری 2000ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍مارچ 2000ءصفحہ6)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button