حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض و مقاصد (قسط اوّل)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ تقریر مورخہ 28؍ دسمبر 1945ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی جس میں تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھول کر بیان فرمایا اور لاکھوں مبلغین تیار کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ’’حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغِ اسلام کرنے کے لیے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے‘‘۔

اس کے علاوہ حضور نے اس تقریر میں ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کرنے، تجارت کی طرف توجہ دینے اور زندگیاں وقف کرنے جیسی تحریکات پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو ان کی طرف توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ اسی طرح مرکزِسلسلہ میں بار بار آنے کی بھی تحریک فرمائی۔ آخر پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ’’دنیا میں وہی جماعت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہے جس کے افراد اپنے دلوں میں محبتِ الٰہی رکھتے ہوں‘‘۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےجو منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا اور جماعت احمدیہ نے والہانہ انداز میں اس پر لبیک کہاآج جماعت احمدیہ دنیا بھر میں اس کے عظیم الشان نتائج دیکھ رہی ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔

میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کی آواز پہنچانے کے لئے اپنے مبلّغین کا جال پھیلادیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کو یہ حقیقت بھی کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کامیابی صرف فوج کو بھرتی کرلینے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس فوج کے پاس ہر قسم کا وہ سامان موجود ہو جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم اپنی جماعت میں سے کسی فرد کو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اے بہادر! جا اور اپنی جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے بلکہ اگر ہماری جماعت کی تعداد دس کروڑ ہو جائے تو ہم دس کروڑ سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جاؤ اور دین کی اشاعت کرو اور اس راستہ میں اگر تمہاری جان بھی چلی جائے تو اس کی کوئی پرواہ نہ کرومگر ہمارے شاباش کہنے سے وہ دس کروڑ آدمی ساری دنیا تک پہنچ نہیں سکتا۔ ساری دنیا تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی ریل میں سوار ہونے لگے تو کرایہ ادا کر کے ٹکٹ خریدے، کسی ہوٹل میں کھانا کھائے تو ہوٹل کا بل ادا کرے کسی شہر میں رہائش کے لئے مکان لے تو اُس مکان کا مناسب کرایہ مالک مکان کو پیش کرے۔ جب تک وہ ریل کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،جہاز کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،ہوٹل کا خرچ ادا نہیں کرے گا، مکانوں کا کرایہ ادا نہیں کرے گا اُس وقت تک وہ دنیا تک پہنچ ہی کس طرح سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہو گا کہ اگر وہ اشتہار شائع کرنا چاہے تو اُس کے پاس اِس قدر روپیہ موجود ہو جس سے وہ اشتہار لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچا سکے۔ اگر روپیہ اُس کے پاس نہیں ہو گا تو کاتب اُس کی کتابت کس طرح کرے گا ،پریس اس کو شائع کس طرح کرے گا اور لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے کون اُس کی مدد کرے گا۔ پھر جب کوئی تبلیغ کرنا چاہے گا اس کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ کوئی ہال کرایہ پر لے جس میں تقاریر وغیرہ کے لئے لوگوں کو مدعو کر سکے۔ یہاں بھی اگر ہال کرایہ پرلیا جائے تو پچاس ساٹھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور بیرونی ممالک میں تو کافی روپیہ کی ضروت ہوتی ہے۔ پھر اُس کے لئے بھی ضرروی ہو گا کہ وہ ایسے آدمی اپنے ساتھ رکھے جو اشتہارات تقسیم کرنے میں اس کی مدد کر سکیں۔ یا ایسے بارسوخ ہوں جو علمی طبقہ تک اس کی آواز پہنچا سکیں۔ ان تمام اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر وہ ایک لیکچر بھی دے گا تو خواہ اس میں سَو ڈیڑھ سَو آدمی آئیں اس کا پانچ سات سَو روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ پھر اگر وہ ایک اشتہاربھی شائع کرنا چاہے گا تو اُسے کافی اخراجات کی ضروت ہوگی۔ مثلاً انگلستان کی آبادی چار کروڑ ہے اگر وہ چار کروڑ کی آبادی میں سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کر ے اور ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو سولہ صفحہ کے ایک ہزار اشتہار پر سولہ روپے، ایک لاکھ اشتہار پر سولہ سَو روپیہ، ایک کروڑ اشتہار پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ اور چار کروڑ پر چھ لاکھ چالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا ۔اگر چار کروڑ کی آبادی میں سے بچوں کو نکال دیا جائے اور اُن کی تعداد نصف سمجھ لی جائے تو دو کروڑ کی آبادی کے لئے سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کرنے پرتین لاکھ 20 ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ اور اگر دو کروڑ کے صرف دسویں حصہ تک آواز پہنچائی جائے تب بھی ایک اشتہار کی چھپوائی اور اس کی تقسیم وغیرہ پر 32ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اگر ہم ان اخراجات کو مہیا نہ کریں تو نہ ہم اپنے مبلّغ ساری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں اور نہ وہ اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں۔

پس حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے لئے صرف فوج کی موجودگی کافی نہیںہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ فوج کے پاس وہ سامان ہو جو فتح و کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے مگر میںدیکھتا ہوں کہ جماعت میں باوجود اخلاص کے اور باوجود عقل اورسمجھ کے تحریک جدید کے متعلق جس کاکام بیرونی ممالک کے مبلّغین کے لئے اخراجات مہیا کرنا اور تبلیغ کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا ہے کچھ بے تو جہی سی پائی جاتی ہے اور جس طرح بیمار کو ایک لمبے عرصہ تک چارپائی پر لیٹے رہنے کے بعد چلنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اِسی طرح ہماری جماعت کے افراد میں بھی ایک لمبی قربانی کے بعد تھکان کے آثار نظر آ رہے ہیں حالانکہ دین کے کاموں میں کسی قسم کی سستی اور غفلت پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ اِس میں کچھ میر ی بھی غلطی تھی کہ میں نے تحریک جدید کے متعلق ابتداء میں یہ خیال کر لیا کہ وہ دس سال میں ختم ہو جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید دس سال کے اندر اندر ایسا مضبوط ریزروفنڈ قائم ہو جائے گا جس کی آمد سے تبلیغی اخراجات آسانی سے پورے ہوتے رہیں گے مگر یہ قیاس غلط نکلا اور جماعت کو مزید قربانیوں کی تحریک کرنی پڑی۔تم اسے میری غلطی قرار دے دومگر بہرحال یہ ایک انسانی اندازہ تھا جو غلط نکلا۔ مگر کیا تم میری غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو نقصان پہنچادو گے یا میری غلطی کی وجہ سے دین میں کسی قسم کی کمزوری کا پیدا ہونا برداشت کرلو گے؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے امام نے غلطی کی اس نے سمجھا کہ دس سال کے اندر تحریک جدید کی آمد سے ایسا ریزرو فنڈ قائم ہو جائے گا جو تبلیغی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا مگر اس کا خیال غلط نکلا لیکن دین کا کام تو بہرحال تم نے چلانا ہے۔ اگر تم دین کا کام نہیں کروگے تو آخر وہ کونسی جماعت ہے جو اِس وقت اسلام کی مدد کے لئے آگے آئے گی۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں کیا ان میں سے کسی کو بھی یہ فکر ہے کہ اسلام کو تقویت حاصل ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جودنیا سے مٹ چکا ہے وہ پھر پوری شان کے ساتھ قائم ہو، اگر غور کرو تو تمہیں محسوس ہوگا کہ صرف ہماری جماعت ہی اِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کر رہی ہے۔ اب بتاؤ کہ کیا خدا کے دین اور اُس کی فوج میں شامل ہو کر تم بھی موسیٰ ؑکے ساتھیوں کی طرح یہی کہوگے کہ

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هٰهُنَا قَاعِدُوْنَ(المائدہ :25)

تو اور تیرا ربّ آپ دونوںدشمن سے جاکر لڑتے رہوہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہر وہ شخص جس کے اندر ایمان کا ایک ذرّہ بھی پایا جاتا ہو وہ کہے گا کہ اگر میری گرتے گرتے یہاں تک حالت پہنچنے والی ہو تو خدا اس دن سے پہلے مجھے موت دے دے تا کہ میری زبان سے موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ فقرہ نہ نکلے

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هٰهُنَا قَاعِدُوْنَ

بلکہ میری زبان وہی کچھ کہے جو محمد رسول اللہﷺکے ساتھیوں نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ آگے بڑھئے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے(سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 13،12۔ مطبوعہ مصر 1295ھ) یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر ہونا چاہئے اور یہی ایمان ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بُری نگاہ سے دیکھنا آسان بات نہیں۔ جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا کوئی شخص آگے نہیں بڑھے گا اُس وقت تک وہ محمد رسول اللہ ﷺ کوبُرا بھلا نہیں کہہ سکے گا۔ یہ ایمان ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بناتا ہے اور یہی قربانی کی روح ہے جو مُردوں کو زندہ کر دیا کرتی ہے۔پس جماعت کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق اس کے اندر سستی اور غفلت کے جو آثار نظر آرہے ہیں ان کو دور کرے اور قربانیوں کے میدان میں اپنا قدم کبھی ڈھیلا نہ ہونے دے۔

مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خدائی تدبیر تھی کہ اس نے مجھے غفلت میں رکھا اور اصل حقیقت اس وقت منکشف ہوئی جب تحریک جدید کی دس سالہ میعاد ختم ہونے کو آئی تم کچھ کہہ لو میرے ساتھ تو یہ بات بالکل ویسی ہی ہوئی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا کہ باہرنکلو شاید دشمن کے تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہو جائے یا شاید کفار کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو جائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ دراصل بدرکی جنگ میں نہ مسلمان لڑنے کی نیت سے نکلے تھے نہ کفار، کفار تو لشکر لے کر اِس لئے نکلے تھے کہ مسلمانوں کے رُعب کو مٹایا جائے اور مسلمان اِس لئے نکلے تھے کہ کفار کا علاقہ پر اثر نہ پڑے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے تو آپؐ کو الہام ہوا کہ دشمن کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو گا مگر ابھی مسلمانوں کو آپ بتائیں نہیں۔چنانچہ جب وہ عین بدر کے موقع کے قریب پہنچ گئے تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو اَب بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ارادہ کا کیا سوال ہے آپ حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔(سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 13،12۔ مطبوعہ مصر 1295ھ) اب دیکھو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے علم تھا کہ کفار سے مقابلہ ہونے والا ہے اور نہ صحابہؓ کو اِس بات کا علم تھا۔ جب عین بدرکے مقام پر جاپہنچے تب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے صحابہؓ کو بتایا کہ خدا تعالیٰ انہیں مدینہ سے کس غرض کے لئے لایا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ کئی کمزور جو دوسرے موقع پر کمزوری دکھا جاتے عین موقع پر آکر بہادر بن گئے اور انہوں نے دین کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اسی طرح تحریک جدید میں اللہ تعالیٰ نے ایک تدبیر کی میں پہلے یہی سمجھتا رہا کہ یہ بوجھ شاید دس سال تک ہی رہے گامگر آخر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا کہ یہ قربانی جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک کرنی پڑے گی۔ پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو دُور کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قربانیوں کا جو موقع عطا فرمایا ہے اِس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔ یہ کام ایسا ہے جو لاکھوں روپیہ کا تقاضا کرتا ہے اور جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اِسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کردیں گے تو ہمیں اِن تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو گی اُس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلّغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button