متفرق مضامین

احمدی خواتین کی شجاعت اور دلیری (قسط دوم)

(امۃ الباری ناصر)

تقسیم بر صغیر کے مخدوش حالات میں خواتین کی مساعی

محترم خواجہ غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ

قادیان کے ارد گرد کے مسلمان دیہات میں سکھوں کے مظالم جب روز بروز بڑھنے لگے۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور آتشزدگی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا ملٹری اور پولیس، لٹیروں اور غنڈوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے اور مسلمانوں کی تباہی کو انتہا تک پہنچا نے میں منہمک ہوگئی اور خطرات کا سیلاب زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ قادیان کے قریب سے قریب تر پہنچنے لگا تو حفاظتی اور دفاعی انتظامات کے سلسلہ میں خواتین اور بچوں کی حفاظت کی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خاص توجہ مبذول فر مائی اور حضور کے ارشاد کے ماتحت لجنہ اماء اللہ کی کارکن خواتین نے ایسی مستورات کی فہرست تیار کی جنہیں ضعفِ قلب کی تکلیف یا کوئی اور عارضہ لاحق تھا تا کہ سب سے پہلے ان کو قادیان سے باہر محفوظ مقام پر پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ پہلے پہل اس قسم کی فہرست میں نام درج کرانے سے بہت سی ایسی خواتین نے انکار کر دیا جنہیں کوئی نہ کوئی عارضہ تو لاحق تھا لیکن دل مضبوط تھے۔ ان کی خواہش تھی جس کا انہوں نے با صرار اظہار بھی کیا کہ موت ہی مقدر ہے تو قادیان سے بہتر جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے ؟ پھر ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ خطرہ کے وقت ممکن خدمات سر انجام دینے کے موقع سے انہیں کیوں محروم کیا جاتا ہے۔ لیکن جب بتایا گیا کہ ان کی موجودگی مردوں کی سر گرمیوں میں مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور دشمن کا مقابلہ اس اطمینان اور انہماک سے نہ ہوسکے گا جو اُن کے چلے جانے کے بعد کیا جا سکتا ہے تو وہ بادل نخواستہ قادیان سے باہر جانے پر آ مادہ ہو سکیں۔

(تاریخ احمدیت جلدیازدہم صفحہ 68-69)

قادیان سے ہجرت کے وقت کسی کے علم میں نہیں تھا کہ حالات کیا رُخ اختیار کریں گے جو جدائیاں ہو رہی ہیں اُن کا دورانیہ کیا ہوگا ان غیر یقینی حالات میں احمدی عورتوں نے کمال حوصلے سے اُن عزیزوں کو بڑھاوے دیے جو حفاظتِ مرکز کے لیے قادیان میں رہ گئے تھے اپنے عزیزوں، اپنی اولاد، اپنے شریک حیات، اپنے مال ومتاع سب کی قربانیاں دیں۔ پائے ثبات میں مضبوطی کی ان گنت مثالیں سامنے آئیں جبکہ لغزش کی کوئی کو تاہی نہ ہوئی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک احمدی خاتون کی بہادری کی مثال دیتے ہوئے فر مایا:

’’جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔ اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ سکھ یا ہندو حملہ کریں تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جائیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں اور ہندوؤں کو جوتلوار اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور ان کی سردار بنائی گئی تھی‘‘۔

( تاریخ لجنہ اما ء اللہ جلد دوم صفحہ 25)

یہ خوش نصیب احمدی خاتون جس نے امام وقت سے تحسین و آفرین کی دولت حاصل کی محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ خان بہادر غلام محمد صاحب آف گلگت تھیں جن کو صحابیہ ہونے کی سعادت بھی حاصل تھی۔

1947ء ہی کی بات ہے سٹروعہ ضلع ہوشیار پور پر 21ہزار سکھوں نے حملہ کردیا ۔مسلمانوں نے قلعہ بند ہو کر انتہائی قلیل سامان کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔یہاں ایک ہزار کے قریب احمدی تھے ۔احمدی خواتین نے بھی جرأت و دلیری سے حصہ لیا اور لڑنے والے مردوں کو پانی پلانے کا کام کیا۔

( تاریخ احمدیت جلد یازدہم صفحہ80)

بہادری، شجاعت اور شہادت کا ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے جو قرونِ اولیٰ کی قر بانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ سیالکوٹ کے ایک احمدی نوجوان غلام محمد ابن مستری غلام قادر صاحب کو ان کی والدہ نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا اگر اسلام احمدیت کی حفاظت کے لیے تمہیں لڑنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھانا۔

اس سعادت مند اور خوش قسمت نوجوان نے اپنی بزرگ والدہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ کی اس نصیحت پر عمل کیا کہ قادیان میں احمدی عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی مگر دشمن کے مقابلہ میں پیٹھ نہیں دکھائی ۔مرنے سے پہلے اس نوجوان نے اپنے ایک دوست کو اپنے پاس بلایا اور اپنے آخری پیغام کے طور پر اس نے یہ لکھوایا کہ

’’مجھےاسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے۔ میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں میں اپنے گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لیے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی۔ جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا ! دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا۔ میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کردی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا۔ ‘‘ ( الفضل 11؍اکتوبر1947ءصفحہ نمبر2کالم نمبر3)

قیام پاکستان کے بعد خدمات

قیام پاکستان کے بعد نئے نئے مہاجرین کی آبادکاری میں خواتین نے شب وروز محنت کی۔ تاریخ احمدیت میں لکھا ہوا یہ ایک جملہ اپنے دامن میں بہت وسعتیں رکھتا ہے۔ عورتوں کا گھر گھر جاکر سامانِ ضرورت جمع کرنا، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا بچھڑے ہوئے مظلوموں کی داد رسی کرنا بڑی ہمت کا متقاضی تھا۔

کراچی میں محترمہ بیگم شاہنواز صاحبہ نے اپوا (APWA)کے ساتھ مل کر کام کیا۔ لاہور میں محترمہ زینب حسن صاحبہ اور محترمہ امۃ اللہ مغل صاحبہ نے یہ سعادت حاصل کی۔ راولپنڈی میں محترمہ امۃ العزیز صاحبہ اہلیہ راجہ عبد الرؤوف صاحب کی خدمات میں سر گرمی دیکھ کر انہیں راولپنڈی مسلم لیگ خواتین برانچ کی مجلس عاملہ کا ممبر بنا لیا گیا۔ مسلم لیگی خواتین اور لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کے تعاون سے ان کا عمدہ اور مؤثر کام دیکھ کرراولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر اور صدر مسلم لیگ نے خراجِ تحسین پیش کیا۔ حکومت نے آبادکاری کے کام کے لیے چار ارکان پر مشتمل الاٹ منٹ بورڈ قائم کیا۔ان چاروں کو الاٹ منٹ کمشنر کا عہدہ اور اختیارات دیے گئے۔ ان میں سے ایک محترمہ امۃ العزیز صاحبہ تھیں۔ کھاریاں ضلع گجرات میں محترمہ ہاجرہ بیگم اہلیہ چوہدری فضل الٰہی صاحب اور گھسیٹ پور ہ ضلع لائل پور ( فیصل آباد) میں محترمہ نذیر بیگم اہلیہ چوہدری محمد طفیل صاحب۔ سیالکوٹ میں فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری ابراہیم صاحبہ سماعیلہ ضلع گجرات بیگم شفیع صاحبہ ایڈیٹر رسالہ دستکاری لاہور نے آباد کاری کے علاوہ مشرقی پنجاب سے اغوا شدہ لڑکیاں نکالنے کے سلسلہ میں بھی مسلم لیگ کی خواتین کے ساتھ مل کر کام کیا۔ محترمہ نجم النساء صاحبہ کوٹ فرزند علی چک نمبر 125 رحیم یار خان۔ محترمہ حمیدہ خانم صاحبہ بیگم شیخ مسعود احمد رشید لاہور اور محترمہ صغریٰ فاطمہ صاحبہ بہاول نگر نے آباد کاری کے کام میں شبانہ روز محنت سے مخلصانہ خدمات سر انجام دیں۔

جماعت احمدیہ کی قیادت کی بیدار نظری سے متواتر تربیت نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسے مزاج پیدا کیے جو مصلحت کے ساتھ اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہوئے جائز ضرورت پڑنے پر اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر پیش کر سکتے ہیں۔ ہم سے ملک و قوم کے لیے بھی جان کی قربانی کا عہد لیا جاتا ہے۔ پاکستان کاذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فر مایا:

’’جب ملک ہمارے پاس آ چکا ہے تو اس کو بچانا ہمارا کام ہے اب انگریزوں کے خون سے اس ملک کو بچایا نہیں جا سکتا بلکہ خود مسلمانوں کے خون سے اس ملک کو بچایا جائے گا … تم میں سے بعض عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا ہے اگر وہ اَن پڑھ، جاہل، اور غریب عورتیں اچھا نمونہ دکھا سکتی ہیں تو آ سودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں۔‘‘

’’میں دیکھتا ہوں اور خدائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے وہ جن کی اصلاح نہیں ہوگی وہ ذلیل کئے جائیں گے ۔وہ تباہ اور بر باد کئے جائیں گے پس جاؤ اور اپنے مرد وں اور بچوں کی اصلاح کرو ۔جاؤ اور ان میں قربانی کا مادہ پیدا کرو اگر نہیں کروگی تو اس کا عبرت ناک انجام دیکھو گی۔ اولاد یں اس لئے ہوا کرتی ہیں کہ سُکھ کا موجب بنیں مگر ایسی اولادیں سکھ کا موجب نہیں بلکہ ذلّت کا موجب ہوں گی خاندان کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ تنزل کا موجب ہوں گی ‘‘

( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 108)

ایسےہی ایک ولولہ انگیز خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے دو خواتین کی مثالیں دیں۔ ایک بیوہ زمیندار عورت جس نے پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لیے احمدی احباب کی تحریک پر اپنے اکلوتے بیٹے کو پیش کر دیا۔ اور دوسری خاتون نے دو بیٹے اور دو پوتے پیش کر دیے۔ ان مثالوں کے ساتھ زبردست تحسین و آفرین نے سب خواتین کے دل میں اُس وقت بھی تحریص پیدا کی اور آج تک پڑھنے والوں پر اُن کے نقوشِ قدم پر چلنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

آزادی ٔکشمیر کی جنگ میں خدمات

1948ء میں کشمیر کی آزادی کی جنگ میں احمدی نوجوان فرقان فورس کی صورت میں داد شجاعت دے رہے تھے تو احمدی خواتین بھی سر گرم عمل تھیں۔ تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 92پر تحریر ہے:

’’یہ امر احمدی مستورات کے لئے اور با لخصوص لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کے لئے باعثِ فخر ہے کہ احمدی خواتین نے ان مجاہدین کے لئے وردیوں اور کپڑوں کی تیاری میں شبانہ روز محنت اور بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیا اور اس طرح اُن صحابیاتؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق پائی جو حضرت رسول کریمﷺ کے زمانے میں مختلف غزوات میں اپنے دائرۂ عمل کے لحاظ سے اہم جنگی خدمات ادا کرتی رہیں ‘‘ ۔

1958ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین کی دلیری کے واقعات بیان کرتے ہوئےفرمایا:

’’اب تو ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں۔ ضلع جھنگ کے چنڈ بھروانہ اور منگلہ کے لوگ نئے احمدی ہوئے ہیں وہاں کی ایک عورت یہاں آیا کرتی ہے وہ جب بیعت کرنے کے لئے ربوہ آئی تو مہمان خانہ میں ٹھہری رات کو اس کی بیٹی بھی آ گئی اس نے کہا اماں تو نے مجھے کس قبیلہ میں بیاہ دیا ہےوہ تو احمدیت کی بڑی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ بہتیری تبلیغ کرتی ہوں وہ سنتے ہی نہیں۔ اس کی ماں کہنے لگی، بیٹی تو میری جگہ آ جا اور اپنے باپ اور بھائیوں کا کھانا پکا میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور میں دیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ تو اب ہماری عورتیں بھی ایسی ہی ہیں کہ جو کہتی ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ لوگ ہماری تبلیغ کیسے نہیں سنتے۔ ‘‘

’’مجھے یاد ہے 1953ء کے فسادات کے دوران ضلع سیالکوٹ کی ایک عورت پیدل ربوہ پہنچی اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہمارا گاؤں دوسرے علاقے سے کٹ چکا ہے۔ اور مخالفوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے۔ اگر ہم پانی لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں۔ اس وقت ایک فوجی آفیسر یہاں رخصت پرآیا ہوا تھا اس کو میں نے ایک مقامی دوست کے ساتھ وہاں بھیجا تاکہ وہ وہاں جا کر احمدیوں کی امداد کرے۔ اب دیکھو یہ کتنی بڑی ہمت کی بات ہے کہ جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں … خد ا کے فضل سے پرانے زمانے سے ہی جماعت میں ایسی دلیر اور مخلص عورتیں موجود رہی ہیں ۔کسی زمانہ میں نمونہ ابتدائی مسلمانوں میں پایا جاتا تھا لیکن اب اس کا نمونہ احمدیت جو حقیقی اسلام ہے پیش کر رہا ہے اس نمونہ کو یاد رکھتے ہوئے دعا کرو کہ ہمارے اندر ایسے لاکھوں نمونے پیدا ہوں۔ ‘‘

( الفضل 8؍جنوری 1958ء)

تحفظِ ناموسِ رسولﷺ کے نام پر

فروری 1953ء کے آخر میں پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فسادات کے شعلے بھڑک اُ ٹھے۔ تحفظِ ناموسِ رسولﷺ کے نام پر درندگی کا شر م ناک کھیل کھیلا گیا۔ کئی شہروں میں احمدی گھروں پر ظلم وستم کے سفا کانہ حملے کیے گئے۔ احمدیوں نے ثابت قدمی اور بہادری کی نئی داستانیں لکھیں۔ احمدی عورتوں نے بھی ہر جگہ دلیری سے مقابلہ کیا۔ بعض درخشاں مثالیں طبقہ ٔاناث کی سر بلندی کے لیے دہرائی جاتی رہیں گی۔ گوجرانوالہ کے مکرم میاں عبد الرحمٰن صاحب کے گھر کے دروازے توڑ کر مشتعل ہجوم گھر کے اندر آ گیا۔ ایک معزز غیر احمدی دوست نے ہجوم کو بمشکل قابو کیا۔ ایک مولوی صاحب نے عبد الرحمٰن صاحب کو مسلمان ہونے کو کہا ۔اتنے دباؤ اور مخدوش حالات میں اُن کی دبلی پتلی کمزور سی بیوی زینب شیرنی کی طرح باہر آئی اور بارعب آواز میں کہا کہ

’’خبر دار ڈولیو نہ۔ مرنا اِکّو وار اے‘‘

یعنی خبردار ڈگمگانا مت مرنا ایک ہی دفعہ ہے۔

( ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 15صفحہ61)

گوجرانوالہ ہی کے محلہ گوبند گڑھ میں، مستری امام دین صاحب کے گھر صرف اُن کی دو بہوئیں تھیں ۔صادقہ بیگم صاحبہ اور خورشید بیگم صاحبہ ان ہر دو کے بچے اُن کے پاس ہی تھے جو کہ اول الذکر کے چار اور دوسری کے دو ۔اور ساتھ ہی گھر میں ایک رشتہ دار نوجوان لڑکی سخت بیمار تھی۔ جب یہ شورش شروع ہوئی تو انہوں نے بازار سے نئی لوہے کی کنڈیاں منگوا کر دروازوں کو لگا لیں ۔مکان کا کل قیمتی سامان گیلری میں بند کر کے اس کی ڈیوڑھی توڑ ڈالی تاکہ کوئی آدمی گیلری پر نہ چڑھ سکے اس طرح سامان کو محفوظ کر لیا۔ محلہ کے قریبی آدمی متواتر روزانہ ہر تین چار گھنٹہ بعد اُن کے پاس آتے اور اپنی طرف سے محبت اور پیار سے کہتے کہ تم صرف احمدیت سے انکار کردو اس سے تمہاری بے عزتی بھی نہیں ہوگی اور نقصان بھی نہیں ہوگا۔ لیکن ان کا ایک جواب تھا کہ ہم مر جائیں گی لیکن احمدیت سےانکار ہر گز نہ کریں گی۔ یہی سلسلہ متواتر چلتا رہا۔ ازاں بعد محلہ کے غیر احمدیوں نے یہ بھی کہا کہ تم ہمارے گھروں میں چلی جاؤ ہم وہاں تمہاری اچھی طرح حفاظت کریں گے۔ مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہم اپنے گھر ہی میں رہیں گی خواہ کچھ بھی ہو۔ اس طرح اُن کی غیر احمدی رشتہ دار مستورات نے بھی احمدیت سے پھسلانے کی کئی مرتبہ کوشش کی اور کہتی رہیں کہ یہاں کئی گھرانوں نے احمدیت کو چھوڑ دیا ہے تم تو اکیلی ہو۔ اپنے آپ کو بچا لو۔ لیکن ان کا یہی جواب رہا کہ ہم مریں گی بھی تو احمدیت کی راہ ہی میں مریں گی۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد15صفحہ63تا64)

اے محبت عجب آثار نمایاں کردی

زخم و مرہم برہِ یار تو یکساں کردی

سمبڑیال میں بعض احمدی مستورات نے مردوں سے زیادہ دلیری دکھائی ہے۔ مختاراں زوجہ محمد الدین اور حسن بی بی بیوہ صابر خان ہمارے گھر پر آئیں ان کو صحابہؓ اور صحابیاتؓ کی مثالیں دےکر سمجھایا گیا تو ا س قدر دلیر ہو گئیں کہ بالکل مرنے کو تیار ہو گئیں۔

( ماخوذ ازتاریخِ احمدیت جلد 15صفحہ89)

موضع تِرسکہ متصل بڈھا گورایہ میں احمدیوں کو بہت تکلیف دی گئی اور مولویوں نے ان کو جبراً احمدیت سے پھرانا چاہا۔ انہوں نے بھی بزدلی سے کام لیا ان کے ساتھ چند ساعت کے لیے مل گئے اور مولویوں نے کہا کہ اب تمہارا نکاح دوبارہ کیا جائے گا … جب وہ گھروں پر نکاح کے واسطے گئے تو احمدی مستورات کو دروازہ پر پایا۔ مستورات نے بڑی دلیری سے کہا:

’’باہر کھڑے رہو اندر مت آنا ‘‘

مولوی لوگوں نے کہا کہ تمہارے آدمی مسلمان ہو گئے ہیں اب تمہارا نکاح دوبارہ کریں گے … ان کو نیک بیبیوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے بلکہ مرتد ہو گئے ہیں اور ہمارا نکاح ان سے نہیں ہو سکتا۔ مولوی اب ان کو لے جاکر کسی اور جگہ نکاح کریں۔ ہم کو تو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں تو بھی ہم خدا کے فضل سے احمدی ہی رہیں گی۔ اس وقت اُن کی بہادری کو دیکھ کر وہ احمدی مرد بھی دلیر ہو گئے اور مولوی لوگوں کو جواب دے دیا۔

( ماخوذ ازتاریخِ احمدیت جلد 15صفحہ 90)

یکم اپریل 1953ء کو رتن باغ لاہور سے جماعت کے دوسر کردہ احباب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے لختِ جگر تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحبؒ جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پوتے اور حضرت مصلح موعودؓ کے بیٹے تھے گر فتار کر لیے گئے۔ جرم صرف ایک خاندانی زیبائشی خنجر گھر میں رکھنے کا تھا۔ جماعت کا ہر فرد ہل کر رہ گیا۔ اس صدمے میں سب نے کمال صبرو ضبط سے کام لیا اورصرف خدا تعالیٰ کے حضور فریاد کی۔ درد کی کیفیت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے درجِ ذیل اشعار میں دیکھیے۔

چلاؤ کوئی جا کے مزارِ مسیح پر

نصرت جہاں کے گود کے پالوں کو لے گئے

رُوبہ صفات دشمنِ بدبیں بہ مکرو زُور

قیدی بنا کے شیر مثالوں کو لے گئے

آقا تمہارے باغ میں داخل ہوئے عدو

گلزارِ احمدی کے نہالوں کو لے گئے

جائے گرفت ہاتھ نہ آئی تو بد سرشت

دھبہ لگا کے نیک خصالوں کو لے گئے

( تاریخِ احمدیت جلد 15صفحہ257)

1953ء میں ضلع کوہاٹ کے ایک علاقہ ٹل میں ایک ہی احمدی خاندان تھا۔ اس خاندان پر کیا گزری مریم سلطانہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب بیان کرتی ہیں کہ

’’مخالفین نے میرے شوہر کو دھوکے سے بلا کر علاقہ غیر میں لے جاکر شہید کردیا ۔میں تلاش کرتی پھرتی تھی اور شہر کے لوگ میرے شوہر کے قتل پر خوشیاں منا رہے تھے۔ میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا کوئی میرے غم میں شریک نہ تھا۔ آخر لاش تلاش کر لی اور ٹرک کا انتظام کیا اس میں لاش اور چاروں بچوں کو لے کر ربوہ آ ئیں۔ شوہر کی دکان بھی لوٹ لی گئی۔

جس گھرانے کا باپ، شوہر، بیٹا یا بھائی سب قر بان ہو جاتےہیں وہ سارا گھرانہ اُس قر بانی میں شریک ہوتا ہے۔ پے بہ پے صبر آزما مراحل زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا آ ہنی عزم چاہتا ہے۔ جو بہ توفیق الٰہی احمدیوں کو وافر نصیب ہے۔

1965ء اور 1972ء میں ملک پر دشمن کے ظالمانہ حملے سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی اُ س میں خواتین نے اپنے فوجی بھائیوں کے لئے منظم طریق پر سامان تیار کر کے شب و روز کی محنت سے تحائف کے پیکٹ بنائے۔ جگہ جگہ جلسے کر کے فنڈ اکٹھا کیا۔ چنانچہ کراچی میں 1965ء میں جلسہ کر کے 45تولے سونے کے زیورات اور 36ہزار روپے نقد گورنر سٹیٹ کی خدمت میں پیش کئے گئے اُس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب فوجی نے تشکر نامہ کراچی لجنہ کے نام بھجوایا۔ احمدی خواتین کو لیڈی ڈفرن ہسپتال کراچی میں نرسنگ اور فرسٹ ایڈ کی تر بیت دلوائی گئی۔ ‘‘

( المحراب۔ صد سالہ جشن تشکر نمبر کراچی)

ایک امریکن احمدی خاتون محترمہ خدیجہ صاحبہ کی خداداد جرأت ایمانی کی ایک دلکش مثال دیکھیے۔ وہ پردہ کی پابند تھیں۔ کار کے لائسنس کے لیے فوٹو اتروانے کی شرط پوری نہیں کر سکتی تھیں ۔اس کے لیے ریاستہائے متحدہ کی کانگرس کے ایک نمائندہ اور ایک قانون دان سے مشورہ کیا مثبت جواب سے حوصلہ پاکر 13؍ستمبر 1974ء کو ریا ست اوہائیو کے گورنر کو عرضداشت پیش کی۔ جس کے نتیجے میں پردہ کی پابندی کے ساتھ لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہ ایک شاندار مثال ہے ۔جب خدا تعا لیٰ کے ا حکام پر عمل کے لیے کوئی حوصلہ سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ خود مدد فر ماتا ہے۔

( ماخوذ از الفضل 4؍مارچ 1975ء)

1974ء کے ہنگاموں میں علی پور گوجرانوالہ میں ایک مخالفانہ جلوس کے شورو شر کے ساتھ پانچ چھ آدمی غلام قادر صاحب کے گھر میں گھس آئے اور غلام قادر صاحب کو اور اُن کے داماد عنایت محمد کو گھسیٹ کر باہر لے گئے اور خواتین بے بس دیکھتی رہ گئیں اور ظالموں نے مار مار کر دونوں کو شہید کر دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’گوجرانوالہ میں ہی سید احمد صاحب کے گھرانے کی عورتوں پر کیا گزری اُن کی بیٹی نفیسہ لکھتی ہیں۔ ہم چار بہنیں اور امی جان حیران و پریشان چھت پر چڑھیں تو اچانک جلوس کی ایک ٹولی ہمارے گھر کی طرف بڑھی اور کہنے لگی یہ مرزائیوں کے مربی کا گھر ہے پہلے اسے آگ لگا نی ہے۔ بھائی سید ولی احمد صادق اور میرے اباجان مربی سلسلہ دونوں ہی مسجد میں تھے۔ مسجد دشمنوں کے گھیرے میں تھی اس لیے ان کے آنے کی بھی کوئی امید نہ تھی، مگر کسی طرح ہماری فکر میں وہ مسجد سے نکل آئے اور ہم چاروں بہنوں کو ایک قریبی احمدی محمد احمد صاحب امینی کے گھر چھوڑآئے۔ یہ عشاء کا وقت تھا جب چاروں بہنیں امینی صاحب کے گھر پہنچیں تو دیکھا کہ دیگر احمدی گھروں کی لڑکیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم چھت پر بیٹھ کر ایمان کی سلامتی اور احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیں کیا کرتی تھیں … یکم جون کو تقریباً صبح کے پونے چار بجے پانچ رائفل بردار امینی صاحب کی چھت پر آ گئے۔ مرد اور عورتیں چو بارہ کے کمروں میں چلی گئیں کمرے صرف دو تھے ایک میں مرد اور ایک میں عورتیں جمع ہو گئیں حملہ آور سر پر آ پہنچے جن کی رائفلیں شعلہ بر سانے لگیں۔ آہ وفغاں کا ایک شور بلند ہوا گولیاں چل رہی تھیں دروازے ٹوٹنےکی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہم اپنے کمزور ہاتھوں سے دروازوں کو تھا متے رہے اچانک مردوں کی جانب کا دروازہ ٹوٹا جہاں محمود صاحب اور اُن کے نوجوان بھانجے اشرف صاحب تھے۔ چند لمحوں کے بعد اُن کی آوازوں سے پتہ چلا کہ وہ ماموں بھانجا خاک و خون میں لتھڑے ہوئے تڑپ رہے ہیں۔ ایسا منظر تھا کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔اشرف صاحب کی ٹانگ سے خون کے فوارے بہ رہے تھے۔ اُن کی اہلیہ صاحبہ چھت پھلانگ کر اپنے غیر احمدی عزیز کے ہاں گئیں اور کہا ہمارے گھر گولیاں بر سائی جا رہی ہیں میرا میاں اور بھانجا سخت زخمی حالت میں تڑپ رہے ہیں آپ کچھ مدد کریں مگر اُن کا جواب تھا تمہارے ساتھ ہم کیوں جانیں گنوائیں حملہ آور تو چلے گئے مگر زخمیوں کی چیخوں سے اور درد وکراہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان تھرا رہا ہے ان کی یہ حالت دیکھ کر ہمارے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ہم نے اُن کے منہ میں پانی ڈالا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم کسی طریق سے اُن کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ اشرف صاحب ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے۔ ‘‘(جلسہ سالانہ برطانیہ مستورات سےخطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرمودہ30؍مئی 1994ء)

راضیہ صاحبہ بنت مکرم سید احمد علی صاحب نے اپنا احوال یوں بیان کیا کہ بلوائیوں نے امی کو آواز دے کر کہا کلمہ پڑھو۔ اُمی نے کلمہ پڑھا تو کہا، مرزائن ہمارا کلمہ پڑھو، انہوں نے کہا کہ ہمیں تو اپنا کلمہ آتا ہے اس پر انہوں نے اصرار کیا کہ مرزا کو گالیاں دو۔ اس پر ان کی بہن نے کہا تم ہماری جان لے لو ہمارا ایمان نہیں چھین سکتے۔ اس پر ایک غنڈے نے بہن کو تھپڑ مارا اور دوسرے نے ڈنڈے بر سائے۔ اتنے میں اسی شخص نے کمانی دار چاقو پکڑا اور ابا جان کو کھنچ کر باہر لے جانے لگا اور کہنے لگا یہی ان کا مربی ہے پہلے اس کو ختم کرو۔ بہن زخمی حالت میں بھاگ کر ساتھ والے مکان میں چلی گئی، مگر وہاں کی خواتین نے یہ کہہ کر دھکے دے کر نکال دیا کہ اپنے ساتھ ہمیں بھی مرواؤ گی پھر وہ ایک اور مکان میں گئیں مگر انہوں نے بھی پناہ دینے سے انکار کر دیا اس پر بہن نے اس مکان کی چھت پھلانگ کر گلی پار کی یعنی واپس اپنے مکان میں گئی پانچ فٹ کا فاصلہ تھا دونوں چھتوں کے درمیان، خدا تعالیٰ نے عجیب ہمت عطا فر مائی کہ وہ پانچ فٹ کی گلی پھلانگ کر دوسرے مکان میں گئیں اور پھر دوسرا راستہ اختیار کر کےاپنی جان اور عزت بچائی۔

چک سکندر میں جو ایمان افروز داستانیں تحریر کی گئیں اُن میں سے ایک نمونہ حاضر ہے ۔نسیم اختر اہلیہ ولایت خان بیان کرتی ہیں کہ جب چک سکندر پر حملہ آوروں نے احمدی گھرانوں کو آگ لگانا شروع کر دی ہمارے گھر آئے تو گھر کی کھڑکیاں دروازے انہوں نے توڑدیے سارا سامان باہر نکال کر جلا دیا کچھ لوٹ کر لے گئے ہم لوگ گھر کے پچھلے کمرے میں تھے ۔وہ لوگ آ پس میں باتیں کرنے لگے۔ اُن کو یہیں زندہ جلا دو۔ جب وہ سامان جلا رہے تھے تو میری زبان سے کلمہ طیبہ کے الفاظ نکل رہے تھے۔ ایک لڑکا کلامِ الٰہی کو آگ میں پھینکنے لگا تو اُس وقت مجھ سے برداشت نہ ہوا میں بھاگ کر بے خطر اس کی طرف جھپٹی اور کہا ’’ دیکھ قرآ ن نہ پھینکیو ‘‘ وہ آگے بڑھا اور میرے منہ پر تھپڑ مارنے لگا۔ میں نے اپنا منہ آگے کر دیا اور کہا کہ ’’ دیکھو تھپڑ ضرور میرے مار لو جتنے چاہو مار لو مگر قرآ نِ پاک کو کچھ نہ کہو۔‘‘ مگر اُس ظالم نے اس کے باوجود جلتی آگ میں قرآ ن پھینک دیا۔ ظالم آگ میں سامان ڈالتے اور کہتے اب تمہارا مرزا ہی ہے جو تمہیں سامان دے گا۔ میں نے کہا’’پہلے بھی خدا ہی دیتا تھا اب بھی خدا ہی دے گا ‘‘۔ ( خطاب 26؍اگست 1974ء)

جولائی 1986ء میں 22سالہ رخسانہ طارق نے عید کے دن جان کی قربانی دی۔

سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 20؍جون 1986ءکو خطبہ جمعہ میں ارشاد فر مایا :

’’یہ شہادت …ایک نئے باب کا اضافہ کر رہی ہے، ایک نیا سنگِ میل رکھ رہی ہے اس دور کی قربانیوں میں کیونکہ خواتین میں یہ پہلی ہیں جنہیں اس دور میں اللہ کی خاطر جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کا نام رخسانہ تھا۔ ان کے خاوند طارق تو احمدی تھے لیکن ان کے بھائی بشارت احمد ی نہیں۔ …بشارت علماء کی بد کلامی کے نتیجہ میں دن بدن زیادہ بدگو ہوتا چلا گیا اور اخلاقی جرأت کا یہ حال تھا کہ بھائی کے سامنے تو زبان نہیں کھول سکتا تھا لیکن اپنی مظلومہ بھابھی کے سامنے دل کھول کر دل کا غبار نکالتاتھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو گالیاں دیتا تھااور ہر قسم کی بد کلامی سے کام لیتا تھا اور مردانگی کا عالم یہ ہے کہ بھائی کوتو عبادت سے نہیں روک سکتا تھا لیکن اس مظلوم عورت کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا کہ اگر تم احمدی مسجد میں جا کرنمازیں پڑھو گی تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ …

…عید کے روز کا واقعہ ہے کہ طارق اور ان کی بیگم رخسانہ جب عید کی نماز پڑھ کر واپس آئے۔ طارق جب غسل خانے گئے تو پیچھے بچی کو اکیلا پاکر اس نے پھر نہایت بد کلامی سے کام لیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم نے احمدیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں جانا۔ اس نے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے منع کرنے والے۔ عبادت کا معاملہ ہے۔ …چنانچہ اس پر اس نے پستول نکال کر وہیں فائرکیےدو گولیاں تو سینہ چھید کر نکل گئیں اور ایک ٹانگ پر لگی۔ بہرحال تھوڑی دیر کے اندر ہی بچی نے دم توڑ دیا۔ …

…احمدی مستورات قربانیوں میں ہر گز اپنے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ شہادت میں وہ بیویاں جو بیوگی کی زندگی بسر کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتی ہیں اُن کے متعلق یہ گمان کرنا کہ ان کے خاوند ثواب پاگئے اور وہ محروم رہ گئیں، وہ آگے نکل گئے اور وہ پیچھے رہ گئیں یہ بالکل غلط خیا ل ہے۔ مردوں کی شہادت کی عظمت کے اندر ان کی بیواؤں کی قربانیوں کی عظمت داخل ہوتی ہے۔ ان ماؤں کو آپ کیسے بھلا سکتے ہیں جن کے بچےشہید ہوئےاوراللہ کی رضا کی خاطروہ راضی رہیں اوربڑے حوصلے اور صبر کے نمونے دکھائے۔ ان بہنوں کو آپ کیسے فراموش کر سکتے ہیں جن کے ویرہاتھ سےجاتے رہے۔ بہت ہی پیار سے ان کو دیکھا کرتی تھیں، بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا کرتی تھیں اور جانتی ہیں کہ اب کوئی گھر میں واپس نہیں آئے گا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ خواتین، یہ بوڑھیاں، یہ بچیاں، یہ جوان عورتیں یہ ساری قربانیوں سے محروم ہیں اور صرف شہید ہونے والےقربانیوں میں آگےنکل گئے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جون1986ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد5صفحہ436تا440)

راہ وفا میں متاعِ جاں کا نذرانہ پیش کرنے والیوں میں محترمہ اہلیہ صاحبہ حاجی میرا ں بخش صاحب انبالہ(13، 14 اگست 1940ء) محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاری عاشق حسین صاحب سانگلہ ہل (9؍اگست 1978ء)اور انڈو نیشیا کی دو خواتین محترمہ اڈوٹ صاحبہ اور محترمہ اویسہ صاحبہ جماعت چیا نڈرم ( اندازاً 1948ءتا1983ء) بھی شامل ہیں۔

(مجلہ لجنہ مرکزیہ 1989ء)

2010ء کے سانحہ لاہور میں ایک بہادر بچی کی مثال پڑھیے :

ایک چار سالہ بچی نور فاطمہ بھی تھی جو اپنے والد مکرم محمد اعجاز صاحب کے ہمراہ جمعہ پڑھنے آئی ہوئی تھی اور اس کے دو اطفال کی عمر کے بھائی بھی ہمراہ تھے سب کو گرینیڈ پھٹنے سے زخم آئے لیکن سب سے گہرا زخم اس بچی کے رخسار پر آیا جو تقریباً ڈیڑھ انچ تھا یہ بچی بھی تقریبا ًتین گھنٹے محبوس رہی اور رونا تو درکنار اُف تک نہ کی جب کوئی بولتا تو یہ اشارے سے منع کرتی اور کہتی باہر گندے لوگ ہیں خاموش رہیں۔

(ماہنامہ انصار اللہ نومبر دسمبر 2010ءصفحہ62)

ایک ماں نے باپ کے شہید ہونے کے بعد اس کے بیٹے کو اگلے جمعے مسجد میں بھیج دیا کہ وہیں کھڑے ہوکر جمعہ پڑھنا ہے جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تاکہ تمہارے ذہن میں یہ رہے کہ تمہارا باپ ایک عظیم مقصد کے لیے شہید ہوا تھا تاکہ تمہیں احساس رہے کہ موت بھی ہمیں کبھی اپنے عظیم مقصد کے حصول سے خوف زدہ نہیں کر سکتی۔

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ جرمنی 27؍جون2010ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ یوکے 30؍ جولائی 1994ء اور جلسہ سالانہ جرمنی 26؍اگست 1994ء کےموقع پر خواتین سے خطاب میں احمدی خواتین کی قربانیوں کی دل گداز داستانیں بیان کیں اپنی کیفیت کے بیان میں آپ نے یہ شعر پڑھا

روکے ہوئے ہیں ضبط و تحمل کی قوتیں

رگ رگ پھڑک رہی ہے دل نا صبور کی

( خطاب 30؍جولائی 1994ء از الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 368)

ایک مستقل نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :

’’ان واقعات کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے ہماری ذمہ داری ہے۔ اور یہ قرض ہےان شہیدوں اور ان خدا کی راہ میں تکلیفیں اُٹھانے والوں کا ہم پر ۔لیکن اگر ہم اس قرض کو ادا کریں گے اور جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا ہے خدا کی محبت میں سر شار ہو کر اس جذبہ قر بانی کو اپنا لیں گے تو آئندہ نسلوں پر ہم احسان کرنے والے ہو ں گے ہم ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو شہیدوں کی طرح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اللہ ہمیں ابد الآباد تک زندہ رکھے ‘‘۔

(الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 406)

حرفِ آخر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’اصل زندگی خدا تعالیٰ کی رضا ہے ۔آج ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان نمونوں پر قائم رہنا ہے تاکہ اس فیض سے محروم نہ رہیں جو ایمان کی اعلیٰ مثالیں قائم کرکے اولین نے حاصل کیا جو آج بھی مسیح موعودؑ کے ماننے والے حاصل کر رہے ہیں۔ پس پاک دل اور صاف روح ہوکر قربانیوں میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جائیں اور اپنی روایات کو کبھی نہ چھوڑیں اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ احساس بٹھاتی چلی جائیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا ہونا چاہیے اور اس کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہو۔ میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ اے احمدی عورتو اور اے بچیو! اور خاص طور پر وہ بچیو جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے اور وقفِ نَو میں شامل ہو …اسلام کے خلاف جنگ میں جو براہین اور دلائل کی جنگ ہے، اپنے آپ کو تیار کرکے دشمن پر جھپٹ پڑو۔ دنیا کی چھوٹی چھوٹی لالچوں کو بھول جاؤ اور صرف اور صرف ایک خیال رکھو کہ آج ہم نے دنیا کو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے جھنڈے کے نیچے لا کر کھڑا کرنا ہے ۔‘‘

(مستورات سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ یوکے 2007ء فرمودہ 28؍جولائی2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍نومبر2015ءصفحہ16)

جورو جفا سے پیہم زخمی حریمِ جان ہے

یہ کارواں وفا کا پھر بھی رواں دواں ہے

فکرو نظر میں عالی کردار میں مثالی

وہ اولیں جلالی یہ آخریں جمالی

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button