حکومتِ وقت کی اطاعت اور خیر خواہی (قسط دوم)
گلوبلائزیشن کے دور میں حضرت مسیح موعودؑ کا پیش فرمودہ زریں اصول
شر پسند عناصر کی ایک سوچی سمجھی سازش یا خود کاشتہ کا الزام
گذشتہ قسط میں مذکورہ احوال سے واقفیت کے بعد اب ہم ایک سازش کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں جو برصغیر،خاص کر پاکستان میں علماء عوام الناس میں شر اور بدظنی پیدا کرنے کی خاطر پھیلا رہے ہیں۔ چنانچہ علماء کی اکثریت حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر آپ کی گذشتہ قسط میں پیش کی جانے والی تحریرات کی روشنی میں یہ الزام عائد کرتی ہے کہ گویا آپؑ کو انگریزوں کی سرپرستی حاصل تھی تاکہ اسلا م کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ اسی وجہ سے آپؑ نے انگریزوں کی اس قدر تعریف کی ہے۔ چنانچہ عرف عام میں یہ الزام لگایا جاتاہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا ’’خود کاشتہ پودا‘‘ ہے۔ یہ الزامات لگانے والے علماء اور عوام الناس دراصل حقائق سے عاری اور بے خبر ہوکر ایسے الزام عائد کرتے ہیں اور پھر اندھا دھند تقلید میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ اس سے بڑھ کر تعریفیں اور پذیرائی تو ان کے اپنے اکابرین اور علماء حضرات نے حکومت برطانیہ کی کی ہیں۔ چنانچہ ذیل میں ہم انہیں کی بعض شخصیات کی تحریرات درج کرتے ہیں :
مسلم لیگ کے بنیادی قواعد میں انگریزوں سے وفاداری کا عزم
1906ء میں ڈھاکہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ اس کا جو سب سے پہلا مقصد پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ
’’ہندوستان کے مسلمانوں میں حکومت سے وفاداری کےجذبےکوترقی دینا ‘‘۔
جس کا اعلان نواب سر سلیم اللہ خان نے اپنے خطبہ میں کیا تھا۔
(نمود سحر ؛تحریک پاکستان کی مصور کہانی شائع کردہ محکمہ قومی تعمیر نوحکومت مغربی پاکستان سن 1970ء)
اسی طرح مشہور ومعروف سرسید احمدخان صاحب نے بھی مسلمانان ہند کو برٹش حکومت سے وفاداری اور اطاعت کا ہی درس دیا۔ چنانچہ اپنے حالات زندگی کی بابت آپ نے ایک جگہ تحریر کیا کہ
’’جب سے میں نے ہوش سنبھالا گورنمنٹ انگلشیہ کی نوکری اختیار کی اور مجھ کو شوق ہوا فن تاریخ سے اور جب مختلف ملکوں کی تاریخ میری نظر سے گذری اور اصول گورنمنٹ اور سیاست مدن پر میں نے لحاظ کیا اس وقت سے میری رائے یہی رہی کہ ہماری گورنمنٹ اور ہندوستان کی رعایا میں ایسی محبت اور یگانگت ہوجاوے کہ ہر ایک کے امور مذہبی اور رسم ورواج سے کچھ سروکار نہ رہے مگر تمام رعایا اور ہماری گورنمنٹ انتظام ملکی میں ایک رائے اور ایک قصد اور ایک ارادہ رہیں اور تمام ہندوستان کی رعایا گورنمنٹ انگلشیہ کو اپنا بادشاہ سمجھ کر ا سکی خیر خواہی اور رفاقت میں رہے۔ ‘‘
(سرسید سے اقبال تک از قاضی جاوید صفحہ12)
نیز ایک موقع پر آپ نے اپنی خدمات بھی گنوائیں اور حکومت برطانیہ کی طرف سے ملنے والے انعامات کا بھی ذکر کیا۔ چنانچہ مقالات سرسید میں لکھا ہےکہ
’’جب غدر ہوا میں بجنور میں صدر ا مین تھا کہ دفعۃً سرکشی میرٹھ کی خبر بجنور میں پہنچی۔ اوّل تو ہم نے جھوٹ جانا مگر جب یقین ہوا تو اسی وقت سے میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور سرکارکی وفاداری پر چست کمر باندھی۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شکسپیئر صاحب کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی کا پہرہ دیتا تھا اور حکام کی اور میم صاحبہ کی اور بچو ں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا…اس کے عوض میں سرکار نے میری بڑی قدردانی کی۔ عہدہ صدر الصدوری پر ترقی کی اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائے اور خلعت پانچ پارچہ اور تین رقم جواہر، ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپیہ کا اور ہزار روپیہ نقد واسطے مدد خرچ کے مرحمت فرمایا۔ ‘‘
(مقالات سرسید جلد7صفحہ44تا48)
اسی طرح سرسید کی بابت مولوی رحمت اللہ کیرانوی کے پیرو کی ایک تحریر میں یہ الفاظ ملتے ہیں :
’’ہندوستان کی مشہور ترین شخصیت سرسید احمد خان جن کو ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے ’فرزند ارجمند‘ کا خطاب حاصل تھا…حکومت کی وفاداری میں ان کی ذات ہر شک وشبہ سے بالاتر تھی‘‘۔
( مجاہد اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی از مولوی اسیر ادروی صفحہ 99)
اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر سرسید نے مسلمانان ہند میںحکومت وقت سے وفاداری بیدار کرنے کی بھرپور سعی کی۔
اقبال کا اپنے اشعار میں ملکہ سے عقیدت کا اظہار
اقبال کے کلام میں بھی ہمیں حکومت ہند اور برٹش حکمرانوں کی بابت کافی قصائد مل جاتے ہیں۔
مزید برآں اقبال نے 1901ء میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک طویل (110 اشعارکا)مرثیہ تحریر کیا۔ چنانچہ اس طویل مرثیہ میں ہر ایک شعر میں مغمومیت کا اظہار تھا ۔ ایک شعر بطور خاص توجہ کا طلب گار ہےجس سے اقبال کے غم کا اندازہ بخوبی ہوسکتا ہے کہ کس طرح ایک عیسائی انگریز حکومت کی سربراہ کی وفات پر ان کو دکھ ہوا۔ آپ لکھتے ہیں کہ
اے ہند تیری چاہنے والی گزر گئی
غم میں تیرے کراہنے والی گزر گئی
(ابتدائی کلام اقبال/بعنوان ’اشکِ خون یعنی ملکہ وکٹوریہ کا مرثیہ‘ صفحہ89-94 شائع کردہ اقبال اکیڈمی پاکستان )
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنے رسالہ ’’الاقتصاد فی مسایل الجہاد‘‘میں اسی برٹش حکومت کے حق میں اور ان کے خلاف جہاد سے مناہی کے ضمن میں یوں لکھتےہیں :
’’ جس شہر یا ملک میں مسلمانوں کو مذہبی فرائض اداکرنے کی آزادی حاصل ہو وہ شہر یا ملک دارالحرب نہیں کہلاتا۔ پھر اگر وہ دراصل مسلمانوں کا ملک یا شہر ہو اقوام غیر نے اس پر تغلب سے تسلط پالیا ہو(جیسا کہ ملک ہندوستان ہے)تو جب تک اس میں ادائے شعایراسلام کی آزادی رہے وہ بحکم حالت قدیم دارالاسلام کہلاتا ہے اور اگر وہ قدیم سے اقوام غیر کے قبضہ وتسلط میں ہو مسلمانوں کو ان ہی لوگوں کی طرف سے ادائے شعایر مذہبی کی آزادی ملی ہو تو وہ بھی دارالاسلام اور کم سے کم دارالسلم والامان کے نام سے موسوم ہونے کا مستحق ہے۔ ان دونوں حالتوں اور ناموں کے وقت اس شہر یا ملک پر مسلمانوں کو چڑھائی کرنا اور اس کو جہاد مذہبی سمجھنا جائز نہیں ہے۔ اور جو مسلمان اس ملک یا شہر میں باامن رہتے ہوں ان کو اس ملک یا شہر سے ہجرت کرنا واجب نہیں بلکہ اور ملکوں یا شہروں سے(متبرک کیوں نہوں )جہاں ان کو امن وآزادی حاصل نہ ہو ہجرت کر کے اس ملک میں آرہنا موجب قربت و ثواب ہے۔ اس شہر یا ملک پر چڑہائی نہ کرنے کے دلایل بہ ضمن مسئلہ دوم گذر چکے ہیں کہ جہاں آنحضرتؐ کوئی مسجد دیکھتے یاوہاں سے اذان کی آواز سنتے وہاں حملہ نہ کرتے اور نہ اس حملہ کی اجازت دیتے۔ اس شہر یا ملک کو دارالاسلام کہنے کی دلیل یہ ہے کہ جب وہ ایک دفعہ دارالاسلام ہوچکا اور اسلام کے تسلط میں آچکا ہے تو جب تک جملہ شعایر اسلام اس سے موقوف نہ ہوں وہ دارالحرب یا دارالکفر کہلائے تو اس میں اسلام پر کفر کا غلبہ تاثیر ثابت ہوتا ہے۔ ‘‘
(رسالہ الاقتصاد فی مسایل الجہاد از محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ صفحہ19-20)
محمد حسین بٹالوی صاحب کی مذکورہ بالا کتاب کے عوض ان کو برٹش حکومت کی جانب سے بطور انعام زمین بھی دی گئی تھی۔ چنانچہ اس بارے میں مسعود عالم دہلوی لکھتے ہیں کہ
’’مولوی محمد حسین بٹالوی (ف1338ھ) نے جہاد کی منسوخی پر ایک رسالہ الاقتصاد فی مسائل الجہاد فارسی زبان میں تصنیف فرمایا تھا اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع کرائے تھے۔ معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس کے معاوضے میں سرکار انگریزی سے انہیں ’’جاگیر‘‘بھی ملی تھی۔ ‘‘
(ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک از مسعود عالم ندوی صفحہ29حاشیہ)
علامہ شبلی نعمانی سے متعلق قاضی جاوید صاحب لکھتے ہیں :
’’انگریزی حکومت نے شمس العلماء کا خطاب دیا اور اپنی مختلف علمی و تعلیمی کمیٹیوں میں ان کو ممبر بنایا اور دربار میں بھی بہ حیثیت شمس العلماء ان کی کرسی تھی۔ دربار تاج پوشی کے موقع پر بھی وہ شریک ہوئے تھے اور شاید ایڈورڈ نے ان کو بار بخشا تھا۔ ‘‘
(سرسید سے اقبال تک از قاضی جاوید صفحہ123)
ابوالکلام آزاد سے متعلق بھی ’’سرسید سے اقبال ‘‘ کا مصنف لکھتا ہے کہ
’’اپنے سیاسی شعور کے ارتقا کے اس مرحلے پر مولانا آزاد حصولِ آزادی کی جدوجہد میں تشدّد کے استعمال کو ناپسند کرتے تھے۔ سید احمد خان، مرزا غلام احمد اور دیگر مسلم دانشوروں کی طرح وہ انگریزی حکومت کی اس بنا پر تعریف کرتے تھے کہ اس نے ہندوستان کو امن و امان کی صورتِ حال عطا کی ہے اور اس سے مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی مل گئی ہے۔ لہٰذا اب باغیانہ شر و فساد اور مغویانہ قانون شکنی کا کوئی جواز موجود نہیں۔ ایسا کرنا خدا کے نزدیک بھی جرم ہوگا۔ ‘‘
(سرسید سے اقبال تک از قاضی جاوید صفحہ211 بک ٹریڈرز لاہور)
مذکورہ حوالہ جات کے الفاظ قابل غور ہیں، جس کے بارے میں یہ نام نہاد علماء اپنے اندھا دھند مقلدین کو آگاہی نہیں فراہم کرتے، نتیجةً حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مخالفت برائے مخالفت کی ڈگر پر چلتے چلے جارہے ہیں۔
’’ سید احمد خان، مرزا غلام احمد اور دیگر مسلم دانشوروں کی طرح وہ انگریزی حکومت کی اس بنا پر تعریف کرتے تھے کہ اس نے ہندوستان کو امن و امان کی صورتِ حال عطا کی ہے اور اس سے مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی مل گئی ہے‘‘۔
یہ تو ان نامی گرامی حضرات کے بیانات تھے جن کو آج برصغیر کی عوام بھی علماء گردانتی ہے۔ آئیے اب ایسے اخبارات و رسائل پر بھی نظر ڈالتے ہیں جو برٹش حکومت کی پذیرائی اور تعریف میں بھرپور طور پر شریک تھے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭