متفرق مضامین

باہم لین دین کی بابت اسلامی تعلیمات (قسط دوم۔ آخری)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

قرض و دیگر لین دین کی بابت ہدایات

چونکہ انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ لیکن یہی لین دین جب احکام خداوندی کو نظرانداز کرکے کیا جائے، تو بےانتہا معاشرتی مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ گہری محبتوں میں گندھے ہوئے خونی وجذباتی رشتے بھی پھر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ سو اس اہم بنیادی معاملہ پر اسلام کی وسیع ترین تعلیمات میں سے چند ایک ہی اس مختصر وقت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَ لۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ (البقرۃ:283)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! جب تم اىک معىّن مدت تک کے لیے قرض کا لىن دىن کرو تو اسے لکھ لىا کرو، اور چاہیے کہ تمہارے درمىان لکھنے والا انصاف سے لکھے۔

قرض کا ضبط تحریر میں لانا

اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’دوسرا سبب قومی تنزل کا یہ بتایا ہے کہ لین دین کے معاملات میں احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا۔ قرض دیتے وقت تو دوستی اور محبت کے خیال سے نہ واپسی کی کوئی میعاد مقر ر کرائی جاتی ہے اور نہ اسے ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے۔ اور جب روپیہ واپس آتا دکھائی نہیں دیتا تو لڑائی جھگڑا شروع کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ مقدمات تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور تمام دوستی دشمنی میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپس کے تعلقات کو خراب مت کرو اور قرض دیتے یا لیتے وقت ہماری ان دو ہدایات کو ملحوظ رکھو۔ ( اول) یہ کہ جب تم کسی سے قرض لو تواس قرض کی ادائیگی کا وقت مقرر کر لو۔ (دوم ) روپیہ کا لین دین ضبط تحریر میں لے آؤ۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 643)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے…کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اب یہ دیکھیں کتنا خوبصورت حکم ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں بڑا اعتبار ہے، کیا ضرورت ہے لکھنے کی، ہم تو بھائی بھائی کی طرح ہیں۔ لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ بےاعتباری ہے اس طرح سے تو ہمارے اندر دُوری پیدا ہو گی اور ہمارے اندر رنجشیں بڑھیں گی۔ اور ہمار ے آپس کے تعلقات خراب ہوں گے۔ تو یاد رکھیں کہ اگر تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ اور اگر تعلقات خراب ہوں گے، تو تب ہوں گے جب قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے۔ نہ کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے۔ بعض دفعہ یہ لکھتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چھوٹی رقم کا لین دین ہے اس کو کیا لکھنا، ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اتنی چھوٹی سی رقم کے بارے میں لکھیں، کہ اتنا قریبی تعلق ہے اور اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے تحریر لی جائے۔ یا پھر کوئی چیز استعمال کے لئے لی ہے اس کے بارے میں تحریر لی جائے مثلاً بعض دفعہ بیاہ شادیوں وغیرہ پر بھی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کے لئے لی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وہ بھی لکھ لینی چاہئیں کیونکہ ان میں بھی بعض دفعہ بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعد کی بدظنیوں سے بچنے کے لئے بہترین طریق ہے کہ چھوٹی سی تحریر بنا لی جائے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھوڑے لین دین کو بھی لکھنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’ اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ان جھگڑوں سے بچنا ہے تو لکھا کرو۔ جیسا کہ فرمایا :

وَ لَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ

لین دین خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد پر یعنی جب تک کا معاہدہ ہے وہ بھی لکھو اور معاہدے کی تفصیل بھی لکھو، اور اس سے اکتانا نہیں چاہئے۔ یا اس کو معمولی چیز نہیں سمجھنی چاہئے۔ کیونکہ اکتانے کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کسی وقت بھی تمہارے اندر بدظنیاں پیدا کر دے گا اور بظاہر جو تم بلند حوصلگی کا مظاہرہ کر رہے ہو یا جو تم نے کیا ہے یہ تمہیں ایک وقت میں ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دے گا کہ بلند حوصلگی تو ایک طرف رہی تم ادنیٰ اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کر رہے ہو گے۔ اور اس طرح عموماً ہوتا ہے، عموماً یہ باتیں ہوتی ہیں۔ یعنی تصور میں باتیں نہیں مَیں کر رہا ایسے معاملات آتے ہیں اور کئی جگہ ایسے لین دین میں، ایسے معاملوں میں کئی لوگوں کے قضا میں، امور عامہ میں، جماعت میں یا ملکی عدالتوں میں کیس چلتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ وہی جو ایک وقت میں ہم پیالہ ہم نوالہ ہوتے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تھے، اکٹھے کھاتے تھے، پیتے تھے، بڑی پکی دوستیاں ہوتی تھیں، ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں بھی تلاش کرنی پڑیں تو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ13؍اگست 2004ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد 2صفحہ 565تا566)

تحریرکا معین اور شرعی و ملکی قانون کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’کاتب کی تحریر عدالت سے وابستہ ہو، اور قانون سلطنت کے مطابق ٹھیک ہو…کئی لوگ اِس غلطی میں مبتلا ہیں کہ وہ لکھوانے میں اور قانونِ سلطنت کے مطابق رجسٹری وغیرہ کرانے میں تساہل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اجی یہ ہمارے اپنے ہیں یا بڑے بزرگ ہیں ان کی نسبت کیا خطرہ ہے۔ مگر آخر اس حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُٹھاتے ہیں۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 434تا435)

قرض کی واپسی کے متعلق تاکیدی ہدایات اور قرض واپس نہ کرنے والوں کی بابت سخت انذار

لین دین کے معاملات میں سے ایک اہم معاملہ قرض کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔ اس ضمن میں بھی اسلام کی تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔

آنحضرتﷺ تو مقروض کے بارے میں اس قدر احتیاط کیاکرتے تھے کہ آپﷺ ایسے مقروض کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا کرتے تھے جو اپنے قرض کی ادائیگی کا مناسب انتظام نہ کرکے گیا ہو۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ

’’ہم نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا…صحابہ نے عرض کیا حضور اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں آپؐ نے فرمایا کیا اس نے کوئی چیز(ترکہ میں ) چھوڑی ہے۔ صحابہ نے کہا نہیں، پھر دریافت کیا کیا اس کے ذمہ کوئی قرض ہے، صحابہ نے عرض کیا تین دینار ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ (یعنی آپؐ نے نہیں پڑھائی اور کہا کہ دوسرے پڑھ لیں )۔ تو ابوقتادہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس کا جنازہ پڑھا دیں۔ اس کا قرض میرے ذمہ ہے اس پر آنحضورؐ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ‘‘

(بخاری کتاب الحوالۃ باب اذا احال دین المیت علی رجل جاز)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بابت فرماتے ہیں کہ

’’ایک بہت بڑی بیماری جو دنیا میں عموماً ہے اور جس کی و جہ سے بہت سارے فساد پیدا ہوتے ہیں وہ ہے کاروبار کے لئے یا کسی اور مَصرف کے لئے قرض لینااور پھر ادا کرتے وقت ٹال مٹول سے کام لینا۔ بعض کی تو نیت شروع سے ہی خراب ہوتی ہے کہ قرض لے لیا پھردیکھیں گے کہ کب ادا کرنا ہے۔ اور ایسے لوگ باتوں میں بھی بڑے ماہر ہوتے ہیں جن سے قرض لینا ہو ان کو ایسا باتوں میں چراتے ہیں کہ وہ بیوقوف بن کے پھر رقم ادا کر دیتے ہیں یا کاروباری شراکت کر لیتے ہیں۔ …اکثر مشاہدہ میں آتا ہے ایسے لوگ جو بدنیتی سے قرض لیتے ہیں ان کے کاموں میں بڑی بے برکتی رہتی ہے۔ مالی لحاظ سے وہ لوگ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں اور خود تو پھر ایسے لوگ برباد ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی اُس بے چارے کو بھی اس رقم سے محروم کر دیتے ہیں جس سے انہوں نے باتوں میں چرا کر رقم لی ہوئی ہوتی ہے۔ جو بعض دفعہ اس لالچ میں آ کر قرض دے رہا ہوتا ہے، پیسے کاروبار میں لگا رہا ہوتا ہے کہ مجھے غیر معمولی منافع ملے گا۔ وہاں عقل اور سوچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس وہ منافع کے چکر میں آ کر اپنے پیسے ضائع کر دیتے ہیں اور بظاہر اچھے بھلے، عقلمند لوگوں کی اس معاملے میں عقل ماری جاتی ہے اور ایسے دھوکے بازوں کو رقم دے دیتے ہیں۔ تو قرض جب بھی لینا ہو نیک نیتی سے لینا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ نومبر 2005ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد سوم صفحہ679تا680)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نفس امّارہ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم تو جہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرتﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے(یعنی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔ ناقل) پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے، اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے۔ کیونکہ یہ امرِالٰہی کے خلاف ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ607ایڈیشن1988ء)

دوستو اب بھی کرو توبہ اگر کچھ عقل ہے

ورنہ خود سمجھائے گا وہ یار سمجھانے کے دن

(کلام محمود)

مارگیج پر مکان کا لینا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’یہاں مکانوں کی مورگیج (Mortgage) ہے تو اس میں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کچھ مالی نظام ایسا ہے جس میں ایسا زیرو زبر ہوا ہے کہ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے عموماً جماعت اس بات کی اجازت دیتی ہے، پہلے خلفاء بھی دیتے رہے کہ مورگیج پر مکان لے لیا جائے۔ تو اس بارے میں مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر تو کم و بیش کرائے کی رقم کے برابر مکان کا مورگیج ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کچھ عرصہ بعد پھر قیمت بڑھتی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں، جن کو فکر ہوتی ہے وہ اپنے مکان بیچ کر دوسرے علاقے میں لے لیتے ہیں اور بنک کی رقم سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہاں اس شرط کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رہائش کا مکان ہو تواس کے لئے اجازت ہے۔ کاروبار کے لئے یہ اجازت نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 15؍ جون 2007ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 249)

کم مالی کشائش والے عزیز واقارب کی مدد

مالی کشائش والے احباب کا ایک تعلق لین دین کے سلسلہ میں مستحق عزیز و اقارب اور دیگر مستحقین کی مالی امداد سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نےامداد باہمی کرتے ہوئے والدین اور دیگر عزیز رشتہ داروں کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلْ مَآ أَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِيْنَ وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ (البقرة:216)

یعنی وہ تجھ سے پوچھتے ہىں کہ وہ کىا خرچ کرىں تُو کہہ دے کہ تم (اپنے) مال مىں سے جو کچھ بھى خرچ کرنا چاہو تو والدىن کى خاطر کرو اور اقرباءکى خاطر اور ىتىموں کى خاطر اور مسکىنوں کى خاطر اور مسافروں کى خاطر اور جو نىکى بھى تم کرو تو اللہ ىقىناً اس کا خوب علم رکھتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوںکو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں، اور مسکینوں کو فقروفاقہ سے بچاتے ہیں۔ اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ357)

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ اپنے قریبی عزیز واقارب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جو لوگ بہتر حالت میں ہیں، اور مالی کشائش رکھتے ہیں وہ خصوصاًاپنے غریب و اقارب کے لیے خرچ کریں۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے کہ اگر کوئی اپنے مستحق رشتہ داروں کو صدقہ دیتا ہے تو یہ اسے دوہرے ثواب کا حق دار بناتا ہے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ

إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِيْنِ صَدَقَةٌ، وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ (سنن نسائی، كِتَابُ الزَّكَاةِ، الصَّدَقَةُ عَلَى الْأَقَارِبِ)

مسکین کو صدقہ دینا بھی صدقہ ہے لیکن رشتہ داروں کو دینے میں دوہرا اجر ہے ایک صلہ رحمی کا اوردوسرے صدقہ کا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’ کسی بھی معاشرے میں نسبتی لحاظ سے بھی اور واضح فرق کے لحاظ سے بھی امیر لوگ بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی ہوتے ہیں۔ ضرورت مندبھی ہوتے ہیں اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بعض مالی کشائش ہونے کے باوجود طبیعتوں کے بخل کی وجہ سے نہ دینی ضرورتوں پر خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے پر یہاں تک کہ اپنے قریبی عزیزوں سے حُسنِ سلوک سے بھی بالکل بے پروا ہوتے ہیں۔ کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کی مالی ضرورت کا جائزہ لے کر اس مال میں سے جو خداتعالیٰ نے انہیں دیا ہے ان پر بھی کچھ خرچ کر سکیں۔ نتیجۃً بعض اوقات پھر رشتوں میں ایسی دراڑیں پڑنی شروع ہوتی ہیں اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ رشتوں کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے…بہرحال جو لوگ خوشحال ہیں، یا نسبتاً زیادہ بہتر حالت میں ہیں، ان کو اپنے ان عزیزوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، خیال رکھنا چاہئے کیونکہ آپس میں محبت پیار بڑھانے کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍ جون 2007ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 235)

بعض اوقات حسن سلوک کے باوجود کمزور عزیز و اقارب کی طرف سے غیر مناسب رویہ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس قسم کے حالات کے باوجود مناسب طریق پر امداد جاری رہنی چاہیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’ایک احمدی کا معیار تویہی ہے کہ اس میں صرف اپنی خواہشات نہ ہوں بلکہ وہ اپنے بھائیوں کی خواہشات کا بھی احترام کرنے والا ہو۔ اپنی بہنوں کی خواہشات کا احترام کرنے والا بھی ہو۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں کی خواہشات کا احترام کرنے والا بھی ہو۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والا بھی ہو۔ غصے کی وجہ سے یا کسی ناراضگی کی وجہ سے اگر کوئی ضرورت مند ہے تو کسی بھی وقت اس کو اپنی مدد سے محروم نہ کرے، اس کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچے …پس اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں۔ مسکینوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں۔ یہاں ان مغربی ممالک میں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے کشائش حاصل کر چکے ہیں اپنے عزیزوں کو، ایسے عزیز جو زیر نگیں نہیں بلکہ قرابت داری ہے، جو غریب ملکوں میں رہتے ہیں اور جن کی مالی کشائش نہیں، ان کو بھی وقتاً فوقتاً تحفے بھیجتے رہا کریں… اور یہ خیال ایسا ہو کہ اس میں احسان جتانا نہ ہو بلکہ اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی کا نظارہ پیش کر رہا ہو، دل کی گہرائیوں سے خدمت ہو رہی ہو۔ اس حکم کے تابع یہ مدد ہو رہی ہو کہ دایاں ہاتھ اگر دے رہا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ یہ طریق ہے جس سے دوسرے کی عزت نفس بھی قائم رہتی ہے۔ یہ طریق ہے جس سے معاشرے میں سلامتی پھیلتی ہے اور یہ طریق ہے جس سے ایک د وسرے کے لئے دعاؤں سے پُر معاشرہ بھی قائم ہوتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍ جون 2007ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ236تا237)

ہدیہ وتحائف کی بابت اسلامی تعلیمات

شادی بیاہ، ویگر خوشی کے مواقع پر یا عام حالات میں بھی تحائف کا تبادلہ بھی لین دین کا ایک اہم معاملہ ہے۔ تحائف دینے کی پسندیدگی کی نسبت رسول پاکﷺ نے فرمایا ہے کہ

تَهَادَوْا تَحَابُّوا

ایک دوسرے کو تحفے دو اس سے تمہاری آپس کی محبت بڑھے گی۔

(مؤطا امام مالک کتاب الجامع باب حسن الخلق ماجاء فی المھاجرۃ)

البتہ تحفہ دے کر واپس مانگنے کو رسول پاکﷺ نے انتہائی نامناسب اور ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔

چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کسی آدمی کےلیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو تحفہ دے کر اسے واپس لے لے سوائے والد کے(والد اپنی اولاد کو دیا ہو ا تحفہ اس سے واپس لے سکتا ہے)اور والد کے علاوہ جو شخص تحفہ دے کر واپس لیتاہے اس کی مثال اس کتے کی مانند ہے جو کھاتا ہے اور جب سیر ہو جائے تو قے کر دیتاہے اورپھر اپنی قے کو کھا لیتاہے۔

(ابو داؤد کتاب الاجارۃ باب الرجوع فی الہبۃ)

اسی طرح خصوصاً کم ثروت والے والدین کی خدمت کے متعلق رسول پاکﷺ کے ایک ارشاد کو حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ

ایک شخص نبی کریم ؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے کر خرچ کر دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں پھر آپؐ نےیہ بھی فرمایایقیناً تمہاری بہترین کمائیوں میں سے ایک بہترین کمائی تمہاری اولاد ہے، پس تم ان کے اموال میں سے کھا سکتے ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَا لِلرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِہِ)

دوسری طرف حضورﷺ نے سوال کرنے کوبھی انتہائی ناپسند فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت حکیم بن حزام روایت کرتے ہیں کہ

میں نے رسول اللہﷺ سے مانگا تو آپؐ نے مجھے دیا۔ پھر میں نے مانگا تو آپؐ نے مجھے دیا۔ پھر آپؐ نے مجھ سے فرمایا:

حکیم! یہ مال (دیکھنے میں) خوشنما اور (مزے میں) شیریں ہے۔ جس کسی نے اِسے سیر چشمی سے لیا اُس کے لیے تو اس میں برکت دی جاتی ہے، اور جس نے جان جوکھوں میں ڈال کر اور للچا للچا کر لیا اُس کے لیے اِس میں کبھی برکت نہیں ڈالی جائے گی۔ اور وہ اُس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نچلے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے…۔

(بخاری کتاب الوصیہ باب تاویل قولہ من بعد وصیۃ یوصی بھا)

حضرت مسیح موعود ؑنے ہمیشہ یہ تعلیم دی کہ اگرکبھی مشکل اوقات درپیش ہوں تو پھر جو کچھ مانگنا ہے وہ صرف خدا تعالیٰ سے ہی مانگنا بہتر ہے۔ جیسےحضورؑ نے شیخ محمد بخش رئیس کڑیانوالہ ضلع گجرات کو یہ نصیحت لکھ کر دی تھی کہ

بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو

مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے

حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر

کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

(بعنوان انابت الی اللہ کی تعلیم۔ از درثمین صفحہ102 بحوالہ الفضل 13؍جنوری 1928ء)

اسی طرح لین دین میں امانتوں کی ادائیگی کی بابت حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ ہمیں خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ

لَااِیْمَانَ لِمَنْ لَااَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْن لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ

(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ135مطبوعہ بیروت)

یعنی جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا اس کا کوئی دین نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اب امانت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ کسی نے کوئی چیز یا رقم کسی کے پاس رکھوائی تو وہ اس طرح واپس کر دی۔ یہ تو ہے ہی لیکن کوئی بھی شخص جو بھی کام کر رہا ہے اگر وہ اس کا حق ادا نہیں کر رہا، چاہے کام میں سستی کرکے حق ادا نہیں ہو رہا یا کاروباری آدمی کا اپنے کاروبار میں دوسرے کو دھوکے دینے کی و جہ سے اس سے انصاف نہیں ہو رہا، حق ادا نہیں ہو رہا تویہ خیانت ہے کیونکہ کاروبار میں، لین دین میں مثلاً اگر کسی نے کسی دوسرے پر اعتبار کیا ہے تو اس کو امین سمجھ کر ہی، اس کو امانتدار سمجھ کر ہی اس سے کاروبار یا لین دین کامعاہدہ کیا ہے۔ اگر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو یہ خیانت ہے… تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ایمان میں کمزوری کی نشانی ہیں۔ وعدوں کا پاس کرنا ہے۔ اگر اپنے عہد نہیں نبھا رہے تو عہد توڑنے کے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں اور عہد توڑنے کے ساتھ ساتھ خیانت بھی کر رہے ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍جون 2007ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 239تا240)

ایک اَور جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں کہ

’’ایک اور حکم … جس نے آج کل بھائی کو بھائی سے دور کر دیا ہے۔ چند سال پہلے جن میں مثالی محبت نظرآتی تھی اب بغض، کینے اور حسد نے ان کو ایک دوسرے کے لئے اندھا کر دیا ہے اور وہ حکم جس پر عمل نہ کرنے سے یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں مناہی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ

وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (البقرۃ:189)

اور اپنے ہی اموال آپس میں جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو اور نہ تم انہیں حُکاّم کے سامنے اس غرض سے پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے(یعنی قومی) اموال میں سے کچھ کھا سکو۔

تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ دوسرے کے مال کھانے کے لئے قومی مال نہ کھاؤ۔ وہ بھی ایک وجہ ہے۔ پھر رشوت دے کر غلط فیصلے اپنے حق میں نہ کراؤ۔ ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھنے سے، ایک دوسرے کی جائیداد پر نظر رکھنے سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ کسی کی جائیداد کے بارے میں عدالت بے شک دوسرے کو حق بھی دلا دے لیکن اپنے اندر ہمیشہ ٹٹول کر دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعی یہ میرا حق ہے؟ آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس طرح تم آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈالتے ہو۔ اس وجہ سے جہاں دو گھروں میں نفرتیں پلتی ہیں، معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ ناجائز مال کھانے کی وجہ سے ایسے لوگ پھر اپنے گھر کی سلامتی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پس اس بات کی بڑی سختی سے پابندی کرنی چاہئے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو سلامتی سے محروم کرنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان چیزوں سے بچائے رکھے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جون 2007ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 256)

ہمیشہ مشتبہ امور سے اجتناب کرناضروری ہے

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللّٰهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ۔ (آل عمران: 8)

وہى ہے جس نے تجھ پر کتاب اتارى اُسى مىں سے محکم آىات بھى ہىں، وہ کتاب کى ماں ہىں اور کچھ دوسرى متشابہ (آىات) ہىں پس وہ لوگ جن کے دلوں مىں کجى ہے وہ فتنہ چاہتے ہوئے اور اس کى تاوىل کى خاطر اُس مىں سے اس کى پىروى کرتے ہىں جو باہم مشابہ ہے حالانکہ اللہ کے سوا اور اُن کے سوا جو علم مىں پختہ ہىں کوئى اُس کى تاوىل نہىں جانتا وہ کہتے ہىں ہم اس پر اىمان لے آئے، سب ہمارے ربّ کى طرف سے ہے اور عقل مندوں کے سوا کوئى نصىحت نہىں پکڑتا۔

اسی طرح حدیث شریف میں لکھا ہے کہ

الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُوْرٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ، كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيْهِ مِنَ الْإِثْمِ، أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالمَعَاصِي حِمَى اللّٰهِ مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ۔

(بخاری کتاب البیوع، باب الحلال بین والحرام بین وبینھما مشتبھات )

حضرت نبیﷺ نے فرمایاحلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور اُن کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جس نے وہ چیز چھوڑ دی جس میں گناہ کا اِشتباہ ہے تو وہ کھلے گناہ کو بطریق اولیٰ چھوڑنے والا ہوگا اور جس نے ایسے اَمر کے اِرتکاب کی جرأت کی جس میں گناہ کا اِشتباہ ہے تو قریب ہے کہ وہ کھلے کھلے گناہ میں مبتلا ہوجائے اور نافرمانی کی باتیں اللہ کی طرف سے ممنوعہ چراگاہ ہیں۔ جو شخص چراگاہ کے اِردگرد چرائے، قریب ہے کہ اس میں جاپڑے۔

پس جہاں بتایا گیا ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح۔ ان کے درمیان کچھ مشتبہ باتیں ہیںجنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ایسی باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ نیز بتایا گیا ہے کہ ایمان کی صحت کا دارومدار تقویٰ پر ہے، جس کا مرکز دل ہے۔ معاملات بیع و شراء میں انسان بالعموم حرص اور لالچ کی وجہ سے بسا اوقات اندھا ہوجاتا ہے اور ان سے مغلوب ہوکر دولت کمانے کی دُھن میں حق و باطل کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اِس لیے آنحضرتﷺ کا محولہ بالا اِرشاد عین موقع ومحل کی مناسبت سے اور اہمیت مضمون کے پیش نظر یہاں بیان کیا گیا ہے۔

خاکسار اپنے مضمون کا اختتام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان نصیحت آموز الفاظ پر کرتا ہے:

تکبّر سے نہیں ملتا وُہ دِل دار

ملے جو خاک سے اُس کو ملے یار

کوئی اس پاک سے جو دِل لگاوے

کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے

پسند آتی ہے اُس کو خاکساری

تذلّل ہے رہ درگاہِ باری

عجب ناداں ہے وہ مغرور و گم راہ

کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ

بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے

مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 551)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button