خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍اگست2020ء

سعدؓ جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اورجن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اورفخر جنگِ بدر میں شرکت کے عزت وفخر کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھیں

ابتدائے اسلام میں ایمان لانے والے، مکّی دَور میں تکالیف برداشت کرنے والے، نبی اکرمﷺ کی پہرے داری کا شرف پانے والے، دینِ اسلام اور خلافت کی غیرت رکھنے والے، مستجاب الدعوات ، فارس الاسلام، فاتح عراق، آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

چار مرحومین مکرم صفدر علی گجر صاحب(معروف پنجابی نظم خواں، رضاکار شعبہ ضیافت، الفضل انٹرنیشنل و اخبار احمدیہ یوکے)، مکرمہ عفت نصیر صاحبہ اہلیہ پروفیسر نصیر احمد خان صاحب مرحوم، مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب (کارکن جنرل سیکرٹری آفس یوکے) اور مکرم سعید احمد سہگل صاحب (رضاکار دفتر پرائیویٹ سیکرٹری شعبہ ڈسپیچ) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍اگست2020ء بمطابق 14؍ظہور1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ دو جمعے پہلے جب مَیں صحابہ کا ذکر کر رہا تھا تو اس میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ذکر ہو رہا تھا اور انہی کے بارے میں آج بھی مزید کچھ باتیں ہیں۔ جنگ کا ذکر ہوا تھا۔ جنگ کے دوران حضرت سعد کی اہلیہ حضرت سلمیٰؓ بنت حفصہ نے دیکھا کہ ایک قیدی جو کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا بڑی حسرت سے اس جنگ میں حصہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس کا نام اَبُو مِحْجَن ثَقَفِی تھا جسے حضرت عمرؓ نے شراب پینے پر جلا وطنی کی سزا دی تھی جو یہاں پہنچا۔ یہاں پہنچنے کے بعد اس نے پھر شراب پی جس کی وجہ سے حضرت سعدؓ نے اسے کوڑوں کی سزا دی اور زنجیر پہنا دی۔ اَبُو مِحْجَن نے حضرت سعدؓ کی لونڈی زَہْرَاءْ سے درخواست کی کہ میری زنجیریں کھول دو کہ میں جنگ میں شامل ہو سکوں اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! اگر میں زندہ بچ گیا تو واپس آکر بیڑیاں پہن لوں گا۔ لونڈی نے اس کی بات مان لی اور زنجیریں کھول دیں۔ اَبُو مِحْجَن نے حضرت سعدؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ کا رخ کیا اور دشمنوں کی صفوں میں گھس گیا اور سیدھے جا کر سفید بڑے ہاتھی پر حملہ کیا۔ حضرت سعدؓ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گھوڑا تو میرا ہے لیکن اس پر سوار اَبُو مِحْجَن ثَقَفِی معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا تھا حضرت سعدؓ بیماری کی وجہ سے اس جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہو سکے تھے اور دور سے نگرانی کر رہے تھے۔ بہرحال لڑائی تین دن تک جاری رہی۔ لڑائی جب ختم ہوئی تو اَبُو مِحْجَن ثَقَفِی نے واپس آ کر اپنی زنجیریں پہن لیں۔ حضرت سعدؓ نے اَبُو مِحْجَن کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اگر تم نے آئندہ شراب پی تو میں تمہیں بہت سخت سزا دوں گا۔ اَبُو مِحْجَن نے وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیے گا۔ ایک دوسری جگہ یہ بیان ہے کہ حضرت سعدؓ نے یہ ماجرا حضرت عمرؓ کو لکھا جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر یہ آئندہ شراب سے توبہ کر لے تو اسے سزا نہ دی جائے۔ اس پر اَبُومِحْجَن نے آئندہ شراب نہ پینے کی قسم کھائی جس پر حضرت سعدؓ نے اسے آزاد کر دیا۔

(ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 850-851)

پہلے تو وہاں ذکر ہے کہ لونڈی نے چھوڑا تھا لیکن اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں بیان فرمائی ہے۔ آپؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ حضرت عمر ؓنے انہیں اپنے زمانۂ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا۔ اتفاقاً انہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیا جسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا۔ بہتیرا علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چارپائی پر پڑا رہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اُن کا کمانڈر ہوں ساتھ نہیں ہوں تو فوج بددل ہو جائے گی۔چنانچہ انہوں نے ایک درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لیے بنا لیتے ہیں۔ آپ اس عرشے میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تھے تا مسلمان فوج انہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ ان کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے۔ انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ شراب اگرچہ اسلام میں حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور عادت جب پڑ جائے تو مشکل سے چھوٹتی ہے اور اس سردار کو ابھی اسلام لانے پر دو تین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دو تین سال کے عرصہ میں جب پرانی عادت پڑی ہو تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ پھر عادت جاتی نہیں ہے۔ بہرحال حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکو جب اس مسلمان عرب سردار کی اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپؓ نے اسے قید کر دیا۔ ان دنوں باقاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے۔ جس شخص کو قید کرنا مقصود ہوتا اسے کسی کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس پر پہرہ مقرر کر دیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور دروازے پر پہرہ لگا دیا گیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ وہ سال، جب یہ جنگ ہو رہی تھی، تاریخ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا۔ ایک جگہ پر اسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے بھاگے۔ پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا۔ گھوڑے اس میں کودے اور عرب چونکہ تیرنا نہیں جانتے تھے اس لیے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مر گئے۔ اس لیے اس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں۔ بہرحال وہ مسلمان عرب سردار کمرے میں قید تھا۔ مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرے کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ وہ کڑھتا اور اس بات پر اظہار افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا۔ بے شک اس میں کمزوری تھی کہ اس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑا بہادر، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا۔ جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سن کر وہ کمرے میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرے میں شیر ٹہلتا ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جس کامطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تُو اسلام کو بچاتا اور اپنی بہادری کے جوہر دکھاتا مگر تُو قید ہے۔ حضرت سعد ؓ کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں۔ وہ ایک دن اس کے کمرے کے پاس سے گزریں تو انہوں نے وہ شعر سن لیے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے۔ وہ دروازے کے پاس گئیں اور اس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تجھے پتہ ہے کہ سعدؓ نے تجھے قید کیا ہوا ہے۔ اگر اسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کر دیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے قید سے آزاد کر دوں تاکہ تُو اپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے۔ اس نے کہا اب جو لڑائی ہو تو مجھے چھوڑ دیا کریں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد فوراً واپس آ کر اس کمرے میں داخل ہو جایا کروں گا۔ اس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لیے جوش پایا جاتا تھا اس لیے اس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا۔ چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا۔ سعدؓ نے اسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا۔ گو اُس نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملے کے انداز اور قد کو پہچانتا ہوں۔ میں اس شخص کو تلاش کروں گا جس نے اسے قید سے نکالا ہے اور اسے سخت سزا دوں گا یعنی جس نے اس کواس قید سے باہر نکالا اس کی زنجیریں کھولیں اس کو سخت سزا دوں گا۔ جب حضرت سعدؓ نے یہ الفاظ کہے تو ان کی بیوی کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تو درخت پر عرشہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے اور اس شخص کو تُو نے قید کیا ہو اہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے اور اپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔ میں نے اس شخص کو قید سے چھڑایا تھا تم جو چاہو کر لو۔ میں نے اسے کھلوایا تھا اب جو تم نے کرنا ہے کر لو۔ بہرحال یہ تفصیل حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنی ایک لجنہ کی تقریر میں بیان فرمائی تھی اور یہ بیان فرما کے فرمایا تھا کہ غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ آپؓ نے یہ فرمایا کہ پس آج بھی احمدی عورتوں کو ان مثالوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔

(ماخوذ از قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 428 تا 430)

پھر عورتوں کی قربانی کا حضرت سعدؓ کے حوالے سے ہی مزید واقعہ سنیں۔

انصار کے قبیلہ بنو سُلَیْم کی مشہور شاعرہ اور صحابیہ حضرت خنساءؓ نے اس جنگ میں اپنے چار بیٹے اللہ کی راہ میں قربان کیے۔ حضرت خَنساءؓ کے خاوند اور بھائی ان کی جوانی میں فوت ہو گئے تھے۔ حضرت خَنْساءؓ نے بڑی محنت سے اپنے بچوں کو پالا تھا۔ قادسیہ کی جنگ کے آخری دن صبح جنگ سے پہلے حضرت خَنْساءؓ نے اپنے بیٹوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے میرے بیٹو! تم نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی مرضی سے ہجرت کی ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ اَور کوئی معبود نہیں! مَیں نے تمہارے حسب و نسب میں کوئی عار نہیں آنے دی۔ یاد رکھو کہ آخرت کا گھر اس فانی دنیا سے بہتر ہے۔ بیٹو! ڈٹ جاؤ اور ثابت قدم رہو اور کندھے سے کندھا ملا کر لڑو۔ خدا کا تقویٰ اختیار کرو۔ جب تم دیکھو گے کہ گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے اور اس کا تندور بھڑک اٹھا ہے اور شہ سواروں نے اپنے سینے تان لیے ہیں تو تم اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے اس میں کود جاؤ۔ حضرت خنساءؓ کے بیٹوں نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے میدانِ جنگ میں کود گئے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس روز شام سے پہلے قادسیہ پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔ حضرت خنساءؓ کو بتایا گیا کہ تمہارے چاروں بیٹے شہید ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے انہیں شہادت سے سرفراز کیا۔ میرے لیے کم فخر نہیں کہ وہ راہ حق میں قربان ہو گئے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں ضرور جمع رکھے گا۔

قادسیہ کو فتح کرنے کے بعد اسلامی لشکر نے بابل کو فتح کیا۔ بابل موجودہ عراق کا قدیم شہر تھا جس کا ذکر ہاروت اور ماروت کے سلسلے میں قرآن نے بھی کیا ہے اور یہ وہیں تھا جہاں آج کوفہ ہے۔ شہروں کا جو تعارف ہے اس میں اس کا یہ تعارف لکھا ہے۔ اور پھر آگے یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ فتح کرکے کُوثٰی نام کے تاریخی شہر کے مقام پر پہنچے یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیم ؑ کو نمرود نے قید کیا تھا۔ قید خانے کی جگہ اس وقت تک محفوظ تھی۔ حضرت سعدؓ نے جب وہاں پہنچے اور قید خانے کو دیکھا تو قرآن کریم کی آیت پڑھی۔

تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ(آل عمران:141)

یعنی یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔

کُوثٰیسے آگے بڑھے تو بَہْرَہ شِیْرنامی ایک جگہ پر پہنچے۔ معجم البُلدان جو شہروں کی معجم ہے اس کے مطابق اس کا نام بَهُرِسِيْرْ ہے۔ بَهُرِسِيْرْ دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع عراق کے شہر مدائن کے قریب بغداد کے نواحی علاقوں میں سے ایک مقام کا نام ہے۔ یہاں کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا۔ حضرت سعدؓ کا لشکر قریب پہنچا تو انہوں نے اس درندے کو لشکر پر چھوڑ دیا۔ شیر گرج کر لشکر پر حملہ آور ہوا۔ حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم بن ابی وقاص لشکر کے ہراول دستے کے افسر تھے۔ انہوں نے شیر پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ شیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔

پھر اسی جنگ میں مدائن کا معرکہ بھی ہے۔ مدائن کسریٰ کا پایہ تخت تھا۔ یہاں پر اس کے سفید محلات تھے۔ مسلمانوں اور مدائن کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے دریا کے تمام پل توڑ دیے۔ حضرت سعد نے فوج سے کہا کہ مسلمانو! دشمن نے دریا کی پناہ لے لی ہے۔ آؤ اس کو تیر کر پار کریں اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ حضرت سعدؓ کے سپاہیوں نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور اسلامی فوجیں دریا کے پار اتر گئیں۔ ایرانیوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا تو خوف سے چِلّانے لگے اور بھاگ کھڑے ہوئے کہ دیو آ گئے۔ دیو آ گئے۔ مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کر لیا اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے پتھر پر کدال مارتے ہوئے فرمائی تھی کہ مجھے مدائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ ان محلات کو سنسان حالات میں دیکھ کر حضرت سعدؓ نے سورۂ دخان کی یہ آیات پڑھیں

كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ۔ وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِيْمٍ۔ وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِيْهَا فٰكِهِيْنَ۔ كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ۔(الدخان 26-29)

کتنے ہی باغات اور چشمے ہیں جو انہوں نے پیچھے چھوڑے اور کھیتیاں اور عزت و احترام کے مقام بھی اور نازو نعمت جس میں وہ مزے اڑایا کرتے تھے۔ اسی طرح ہوا اور ہم نے ایک دوسری قوم کو اس نعمت کا وارث بنا دیا۔

بہرحال اس کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں لکھ کر مزید آگے بڑھنے کی اجازت چاہی جس پر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ سردست اسی پر اکتفا کرو اور مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی جائے۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے مدائن کو مرکز بنا کر نظم و نسق کو مستحکم کرنے کی کوشش شروع کی اور اس کام کو بخوبی نبھایا۔ آپؓ نے عراق کی مردم شماری اور پیمائش کروائی۔ رعایا کے آرام و آسائش کا انتظام کیا اور اپنے حسن تدبر اور حسن عمل سے ثابت کیا کہ آپؓ کو اللہ نے جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور فرمایا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے فتح کیا تو رعایا کا خیال نہیں رکھا لیکن مسلمانوں نے جب شہر فتح کیے تو وہاں کے رہنے والوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھا گیا۔

پھر تعمیر کوفہ ہے۔ مدائن کی آب و ہوا عربوں کی طبیعت کے موافق نہ آئی تو حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓکی اجازت سے ایک نیا شہر بسایا جس میں مختلف عرب قبائل کو الگ الگ محلّوں میں آباد کیا اور شہر کے درمیان ایک بڑی مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازی ایک وقت میں نماز پڑھ سکتے تھے۔ کوفہ دراصل فوجی چھاؤنی تھا جس میں ایک لاکھ سپاہی بسائے گئے تھے۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ حضرت سعدؓ نے ایک عرصہ تک مدائن میں قیام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہاں کی آب و ہوا نے اہل عرب کا رنگ و روپ بالکل بدل دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس سے مطلع کیا تو حکم آیا کہ عرب کی سرحد میں کوئی مناسب سرزمین تلاش کر کے ایک نیا شہر بسائیں اور عربی قبائل کو آباد کر کے اس کو مرکز حکومت قرار دیں۔ حضرت سعدؓ نے اس حکم کے مطابق مدائن سے نکل کر ایک موزوں جگہ منتخب کر کے کوفہ کے نام سے ایک وسیع شہر کی بنیاد ڈالی۔ عرب کے جُدا جُدا قبیلوں کو جُدا جُدا محلوں میں آباد کیا۔ وسط میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں تقریباً چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اور اپنا محل تعمیر کرایا جو قصرِ سعد کے نام سے مشہور تھا۔

(ماخوذ از روشن ستارے صفحہ 84 تا 88) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 117-118 )(معجم البلدان مترجم صفحہ 56) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 610)

پھرمعرکہ نَہَاوَنْد ہے یہاں 21 ہجری میں ایرانیوں نے عراقِ عَجَمیعنی عراق کا وہ حصہ جو فارسیوں کے پاس تھا اس میں مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریاں کیں اور مسلمانوں سے مفتوحہ علاقے واپس لینے کی غرض سے نہاوند کے مقام پر مسلمانوں کے خلاف ڈیڑھ لاکھ ایرانی جنگجو اکٹھے ہوئے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی تو آپؓ نے اہل الرائے کے مشورے سے ایک عراقی حضرت نعمان بن مُقَرِّن مُزْنِی ؓ کو مسلمان فوج کا قائد مقرر فرمایا۔ حضرت نعمانؓ اس وقت کَسکر میں تھے۔ کسکر نہروان سے لے کر بصرہ کے قریب دریائے دجلہ کے دہانے تک کا علاقہ ہے جس میں بیسیوں گاؤں اور قصبے ہیں۔ بہرحال حضرت عمرؓ نے انہیں نہاوند پہنچنے کا حکم دیا۔ ڈیڑھ لاکھ ایرانیوں کے مقابل پر مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تھی۔ حضرت نعمانؓ نے لشکر کی صفوں میں پھر کر انہیں ہدایات دیں اور پھر کہا کہ اگر مَیں شہید ہو جاؤں تو لشکر کےقائد حُذَیفہ ہوں گے اور اگر وہ شہید ہوں تو امیر لشکر فلاں ہو گا اور اس طرح ایک ایک کر کے انہوں نے سات آدمیوں کا نام لیا۔ اس کے بعد اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! اپنے دین کو معزز فرما اور اپنے بندوں کی مدد فرما اور نعمانؓ کو آج سب سے پہلے شہادت کا درجہ عطا فرما۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ آج میری آنکھ ایسی فتح کے ذریعہ ٹھنڈی کر جس میں اسلام کی عزت ہو اور مجھے شہادت عطا ہو۔ جنگ شروع ہوئی۔ مسلمان اس بہادری کے ساتھ لڑے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور اسی جنگ میں حضرت نعمانؓ شہید ہو گئے۔ اَبُوْ لُؤْلُؤَہْ فَیْرُوْزْ اسی جنگ میں قید ہوا اور وہ غلام بن کر حضرت مُغِیرہ بن شُعْبَہ کے حصہ میں آیا۔ یہ وہی شخص نے جس نے بعد میں حضرت عمرؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نہاوند کے امیر کو خط لکھا کہ اگر اللہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے تو خمس یعنی 5/1بیت المال کے لیے رکھ کر تمام مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دو اور اگر یہ لشکر ہلاک ہو جائے تو کوئی بات نہیں کیونکہ زمین کی سطح سے اس کا بطن یعنی قبر بہتر ہے۔

حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ قبیلہ بنو اسد کے لوگوں نے حضرت سعدؓ کی نماز پر اعتراض کیا اور ان کی شکایات حضرت عمر ؓسے کیں کہ صحیح طرح نماز نہیں پڑھاتے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت محمد بن مَسْلَمہؓ کو تحقیق کے لیے بھیجا ۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ شکایات غلط تھیں۔ تاہم بعض مصلحتوں کی بناپر حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو مدینے میں بلا لیا۔

(ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 88 تا 90)

(شرح زرقانی علی مواھب اللدینہ جلد 4 صفحہ 539 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
(معجم البلدان مترجم صفحہ 292)

اس کی تفصیل صحیح بخاری کی روایت میں یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حضرت سعدؓ کی شکایت کی تو انہوں نے ان کو معزول کر دیا اور حضرت عمارؓ کو ان کا عامل یعنی حاکم مقرر کیا۔ کوفہ والوں نے حضرت سعدؓ کے متعلق شکایات میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو حضرت عمرؓ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا اے ابو اسحاق! (ابواسحاق حضرت سعدؓ کی کنیت تھی) یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھاتے۔ ابو اسحاق نے کہا مَیں تو بخدا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھایا کرتا تھا۔ اس میں ذرا بھی کم نہیں کرتا تھا۔ عشاء کی نماز پڑھاتا تو پہلی دو رکعتیں لمبی اور پچھلی دو رکعتیں ہلکی پڑھتا تھا۔ تب حضرت عمرؓ نے کہا ابو اسحاق آپ کے متعلق یہی خیال تھا۔ یعنی مجھے امید تھی کہ اس طرح ہی کرتے ہوں گے۔

پھر حضرت عمرؓ نے ان کے ساتھ ایک آدمی یا چند آدمی کوفہ روانہ کیے تا ان کے بارے میں کوفہ والوں سے پوچھیں۔ انہوں نے کوئی مسجد بھی نہیں چھوڑی جہاں حضرت سعدؓ کے متعلق نہ پوچھا گیا ہو۔ ہر مسجد میں گئے اور لوگ ان کی (حضرت سعدؓ کی) اچھی تعریف کرتے تھے ۔ آخر وہ قبیلہ بَنُو عَبْس کی مسجد میں گئے۔ ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا۔ اسے اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور ابو سَعْدَہ اس کی کنیت تھی۔ اس نے کہا چونکہ تم نے ہمیں قسم دی ہے اس لیے اصل بات یہ ہے کہ سعدؓ فوج کے ساتھ نہیں جایا کرتے تھے اور نہ برابر تقسیم کرتے تھے اور نہ فیصلے میں انصاف کرتے تھے۔ یہ الزام انہوں نے حضرت سعدؓ پر لگائے۔ حضرت سعدؓ نے جو یہ بات سنی تو اس پر حضرت سعدؓ نے کہا۔ دیکھو اللہ کی قسم ! میں تین دعائیں کرتا ہوں کہ اے میرے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور ریا اور شہرت کی غرض سے کھڑا ہوا ہے یعنی جو الزام لگانے والا تھا تو اس کی عمر لمبی کر اور اس کی محتاجی کو بڑھا اور اسے مصیبتوں کا تختہ مشق بنا۔ اس کے بعد جب کوئی اس شخص کا حال پوچھتا جس نے الزام لگایا تھا تو وہ کہتا پیر فرتوت ہوں۔ بہت بوڑھا ہوچکا ہوں۔ بُری حالت ہے۔ مصیبت زدہ ہوں اور حضرت سعدؓ کی بددعا مجھے لگ گئی ہے یعنی لوگوں نے جھوٹا الزام لگوایا تھا۔ اس کا نتیجہ بھگت رہا ہوں۔ عبدالملک کہتے تھے کہ مَیں نے اس کے بعد اسے دیکھا ہے۔ حالت یہ تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی بھنویں اس کی دونوں آنکھوں پر آ پڑی تھیں اور تعجب ہے کہ اس کے باوجود اس کی اخلاقی حالت کا یہ حال تھا کہ وہ راستوں میں چھوکریوں کو چھیڑتا اور چشمک کرتا تھا۔ بخاری میں یہ سارا واقعہ درج ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام والماموم …… حدیث 755)

بہرحال ان شکایات کا حضرت سعدؓ کو بہت دکھ ہوا اور آپؓ نے کہا عربوں میں سے مَیں پہلا ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے نکلتے اور حالت یہ تھی کہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیزنہ ہوتی سوائے درختوں کے پتےّ ہی۔ ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنیاں کرتا جیسے اونٹ لید کرتے ہیں یا بکریاں مینگنیاں کرتی ہیں یعنی خشک۔ اور اب یہ حال ہے کہ بَنُو اَسَد ابن خُذَیْمَہ مجھ کو آدابِ اسلام سکھاتے ہیں۔ تب تو مَیں بالکل نامراد رہا اور میرا عمل ضائع ہو گیا اور بنو اسد کے لوگوں نے حضرت عمرؓ کے پاس چغلی کھائی تھی اور کہا تھا کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتا۔یہ بھی بخاری کی ہے۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقاص حدیث نمبر3728)

(سنن الترمذی ابواب الزہد باب ما جاء فی معیشة اصحاب النبیﷺ حدیث نمبر 2365-2366)

23؍ ہجری میں جب حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو حضرت عمرؓ سے لوگوں نے عرض کی کہ آپ خلافت کے لیے کسی کو نامزد کریں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے انتخابِ خلافت کے لیے ایک بورڈ مقرر کیا جس میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ان میں سے کسی ایک کو چن لینا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہلِ جنت قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر خلافت سعد بن ابی وقاصؓ کو مل گئی تو وہی خلیفہ ہوں ورنہ جو بھی تم میں سے خلیفہ ہو وہ سعدؓ سے مدد لیتا رہے کیونکہ مَیں نے انہیں اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ انہوں نے کوئی خیانت کی تھی۔

(ماخوذ از صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصة البیعة و الاتفاق علی عثمان بن عفان حدیث نمبر 3700)

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی قبر النبیﷺو ابی بکر و عمر حدیث نمبر 1392)

جب حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے حضرت سعدؓ کو دوبارہ کوفے کا والی بنا دیا۔ آپؓ تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور اس کے بعد کسی وجہ سے حضرت سعدؓ کا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اختلاف ہوا جو اس وقت بیت المال کے انچارج تھے جس کی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے انہیں (حضرت سعدؓ کو) معزول کر دیا۔ معزول ہونے کے بعد حضرت سعدؓ نے مدینے میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فتنہ و فساد شروع ہوا تب بھی آپ گوشہ نشین ہی رہے۔

(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 120)

ایک روایت میں آتا ہے کہ فتنے کے زمانے میں ایک مرتبہ حضرت سعدؓ کے صاحبزادے نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ آپؓ کو کس چیز نے جہاد سے روکا ہے۔ اس پر حضرت سعدؓ نے جواب دیا کہ میں تب تک نہیں لڑوں گا یہاں تک کہ مجھے ایسی تلوار لا کر دو جو مومن اور کافر کو پہچانتی ہو۔ اب تو مسلمان مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ ایسی تلوار لاؤ جس کی آنکھیں، ہونٹ اور زبان ہوں اور جو مجھے بتائے کہ فلاں شخص مومن ہے اور فلاں شخص کافر ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزو ثالث صفحہ 106، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)

اب تک تو مَیں صرف کافروں کے خلاف لڑا ہوں۔

سنن ترمذی کی ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعدؓ نے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں شروع ہونے والے فتنوں کے بارے میں فرمایا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ضرور آئندہ زمانے میں ایک فتنہ ہو گا اور اس میں بیٹھا رہنے والا کھڑے ہونے والے شخص سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہو گا اور چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ یعنی کہ ہر لحاظ سے کسی طرح بھی اس فتنے میں شامل نہیں ہونا بلکہ بچنے کی کوشش کرنی ہے، تو بہرحال کسی نے پوچھا کہ اگر فتنہ میرے گھر میں داخل ہو جائے تو مَیں کیا کروں۔ فرمایا کہ تُو ابنِ آدم کی طرح ہو جانا۔

(سنن الترمذی ابواب الفتن باب ما جاء انہ تکون فتنة ……….حدیث نمبر 2194)

یعنی جیسے قرآن شریف میں اس ابن آدم کا ذکر ہے کہ اپنا بچاؤ تو کرو لیکن ایک دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے لڑائی نہیں کرنی اور یہی واقعہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ وہی مثال آپؓ نے دی تھی۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جب فتنوں کا آغاز ہوا تو اس فتنے کو فرو کرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’گو صحابہؓ کو اب حضرت عثمانؓ کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے۔ مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے دو حصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا جو سِن رسیدہ‘‘ بوڑھے تھے ’’اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھا وہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کو سمجھانے پر صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمانؓ کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’اول الذکر جماعت میں سے حضرت علیؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے۔‘‘

(اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد 4صفحہ 321)

حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علی ؓکی خلافت میں بھی حضرت سعدؓ گوشہ نشین ہی رہے۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت علیؓ اور امیر معاویہ کے درمیان اختلاف بڑھا تو امیر معاویہ نے تین صحابہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت محمد بن مسلمہؓ کو اپنی مدد کے لیے خط لکھا اور ان کو لکھا کہ وہ حضرت علیؓ کے خلاف ان کی مدد کریں۔ اس پر ان تینوں نے انکار کیا۔ حضرت سعدؓ نے امیر معاویہ کو یہ اشعار لکھ کر بھیجے کہ

مُعَاوِیَ دَاؤُکَ الدَّاءُ الْعَیَاءُ

وَ لَیْسَ لِمَا تَجِیْءُ بِہٖ دَوَاءُ

اَیَدْعُوْنِیْ اَبُوْ حَسَنٍ عَلِیٌّ

فَلَمْ اَرْدُدْ عَلَیْہِ مَا یَشَاءُ

وَ قُلْتُ لَہٗ اَعْطِنِیْ سَیْفًا بَصِیْرًا

تَمِیْزُ بِہِ الْعَدَاوَةُ وَالْوَلَاءُ

اَتَطْمَعُ فِی الَّذِیْ اَعْیَا عَلِیًّا

عَلٰی مَا قَدْ طَمِعْتَ بِہِ الْعَفَاءُ

لَیَوْمٌ مِنْہُ خَیْرٌ مِّنْکَ حَیًّا

وَ مَیْتًا اَنْتَ لِلْمَرْءِ الْفِدَاءُ

ترجمہ ان کا یہ ہے کہ اے معاویہ ! تیری بیماری سخت ہے۔ تیرے مرض کی کوئی دوا نہیں۔ کیا تُو اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ ابوحسن یعنی حضرت علیؓ نے مجھے لڑنے کے لیے کہا تھا مگر میں نے ان کی بات بھی نہیں مانی اور مَیں نے ان سے کہا کہ مجھے ایسی تلوار دے دیں جو بصیرت رکھتی ہو اور مجھے دشمن اور دوست میں فرق کر کے بتا دے۔ اے معاویہ! کیا تُو امید رکھتا ہے کہ جس نے لڑائی کرنے کے لیے حضرت علیؓ کی بات نہ مانی ہو وہ تیری بات مان لے گا۔ حالانکہ حضرت علی ؓکی زندگی کا ایک دن تیری ساری زندگی اور موت سے بہتر ہے اور تُو ایسے شخص کے خلاف مجھے بلاتا ہے۔ اسد الغابہ کی یہ روایت ہے۔ اس میں واقعہ درج ہے۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزو ثانی صفحہ 455، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہ نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ ابو تراب! (یہ حضرت علیؓ کی کنیت تھی) کو برا کہنے سے آپ کو کس چیز نے منع کیا ہے؟ ان کو آپ برا نہیں کہتے تھے۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا وہ تین باتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمائی ہیں اگر ان میں سے ایک بھی مجھے مل جاتی تو وہ میرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔ ان تین باتوں کی وجہ سے میں کبھی ان کو یعنی حضرت علیؓ کو برا نہیں کہوں گا۔ نمبر ایک یہ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو ایک غزوے میں اپنے پیچھے چھوڑا۔ اس پر حضرت علی نے آپؐ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں۔ اس پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تُو اس بات پر خوش نہیں کہ تیرا میرے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، صرف اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد تجھے نبوت کا مقام حاصل نہیں ہے۔ نمبر دو بات یہ کہی کہ غزوۂ خیبر کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مَیں ایسے شخص کو اسلامی جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اس پر ہم نے اس کی خواہش کی، ہر ایک میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھنڈا ہمیں دیا جائے ہم بھی اللہ سے اور رسول سے محبت رکھتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کو بلاؤ۔ ہم میں سے کسی کو نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ علی کو بلاؤ۔ حضرت علیؓ آئے۔ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کو اسلامی جھنڈا دیا اور اللہ نے اس روز مسلمانوں کو فتح عطافرمائی۔ پھر تیسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ جب آیت

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ(آل عمران: 62)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تُو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو۔ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو بلایا اور فرمایا کہ اے اللہ! یہ میرا اہل و عیال ہے۔ یہ ترمذی کی روایت ہے۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب انا دار الحکمة و علی بابھا حدیث 3724)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بیٹے مُصْعَبْ بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات کا وقت آیا تو ان کا سر میری گود میں تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور مجھ سے کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے! تجھے کیا چیز رلاتی ہے۔ مَیں نے عرض کیا آپ کی وفات کا غم اور اس بات کا غم کہ میں آپ کے بعد آپ کا بدل کسی کو نہیں دیکھتا۔ اس پر حضرت سعدؓ نے فرمایا مجھ پر مت رو۔ اللہ مجھے کبھی عذاب نہیں دے گا اور مَیں جنتیوں میں سے ہوں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جی فلاں نے فلاں پروگرام میں کہہ دیا جنتیوں میں سے کس طرح ہو گئے تو یہاں حضرت سعدؓ بھی فرما رہے ہیں کہ مَیں جنتیوں میں سے ہوں۔ پھر فرمایا کہ اللہ مومنوں کو ان کی نیکیوں کی جزا دیتا ہے جو انہوں نے اللہ کے لیے کیں اور جہاں تک کفار کا معاملہ ہے تو اللہ ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے ان کے عذاب کو ہلکا کر دیتا ہے مگر جب وہ اچھے کام ختم ہو جائیں تو دوبارہ عذاب دیتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے اعمال کی جزا اس سے طلب کرنی چاہیے جس کے لیے اس نے عمل کیا ہو۔

(الطبقات الکبریٰ جزو ثالث صفحہ 108-109، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بیٹے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد سے پوچھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپؓ انصار کے گروہ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ نہیں کرتے تو انہوں نے بھی بیٹے سے پوچھا کہ اے میرے بیٹے! کیا تمہارے دل میں ان کی طرف سے کچھ ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ سلوک جو میں انصار سے کرتا ہوں تو کیا تمہارے دل میں کوئی بات ہے؟ تو میں نے جواب دیا نہیں لیکن مجھے آپ کے اس معاملے سے تعجب ہوتا ہے۔ حضرت سعدؓ نے جواب دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مومن ہی ان کو دوست رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔ پس میں اس لیے ان سے تعلق رکھتا ہوں۔

(اسد الغابة فی معرفة الصحابة جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

جریر سے مروی ہے کہ وہ ایک دفعہ حضرت عمر کے پاس سے گزرے تو حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا مَیں نے انہیں اس حال میں چھوڑا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں باوجود قدرت کے سب سے شریف انسان ہیں۔ سختی میں سب سے کم ہیں۔ وہ تو ان لوگوں کے لیے مہربان ماں جیسے ہیں۔ وہ ان کے لیے ایسے جمع کرتے ہیں جیسے چیونٹی جمع کرتی ہے۔ جنگ کے وقت لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر ہیں اور قریش میں سے لوگوں کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

(الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 3 صفحہ 64، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1995ء)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے 55؍ ہجری میں وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر ستر برس سے کچھ زیادہ تھی۔ بعض کے نزدیک آپ کی عمر چوہتر سال تھی جبکہ بعض کے نزدیک آپ کی عمر تراسی سال تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 110، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)

(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جزء ثانی صفحہ 610 ، دارالجیل بیروت)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی وفات کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ مختلف روایات میں آپ کی وفات کا سال اکاون ہجری سے لے کر اٹھاون ہجری تک ملتا ہے لیکن اکثر نے آپ کی وفات کا سال پچپن ہجری بیان کیا ہے۔

(اسد الغابة فی معرفة الصحابة جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے وفات کے وقت اڑھائی لاکھ درہم ترکے میں چھوڑے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 110، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عَقِیق مقام پر وفات پائی جو مدینے سے سات میل کے فاصلے پر تھا یا دس میل کے فاصلے پر تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہاں سے لوگ آپ کی میت کو کندھوں پر رکھ کر مدینہ لائے اور مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ کا جنازہ مروان بن حکم نے پڑھا جو اس وقت مدینےکا حکمران تھا۔ آپ کی نماز جنازہ میں ازواج مطہرات نے بھی شرکت فرمائی۔ آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔

(اسد الغابة فی معرفة الصحابة جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 110، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)

(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جزء ثانی صفحہ 610 ، دارالجیل بیروت)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے جنازے کے بارے میں روایت ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ حضرت عائشہؓ سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی وفات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے یہ کہلا بھیجا کہ لوگ ان کا جنازہ لے کر مسجد میں آئیں تا کہ وہ یعنی ازواج بھی ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جنازہ ان کے حجروں کے سامنے رکھا گیا تا کہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ پھر انہیں باب الجنائز سے باہر لے جایا گیا جو بیٹھنے کی جگہوں کے پاس تھا۔ پھر ان ازواج مطہرات کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے اس بات پر نکتہ چینی کی ہے اور کہتے ہیں کہ جنازے مسجد میں داخل نہیں کیے جاتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓکو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ لوگ کتنی جلدی ایسی باتوں پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں جن کا ان کو علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے ہم پر اعتراض کیا ہےیعنی حضرت عائشہؓ نے کہا کہ لوگوں نے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں سے گزاراگیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بَیْضَاءکی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھی تھی۔ یہ مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب الصلاة علی الجنازة فی المسجد973)

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 109، سعد بن ابی وقاص، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان، 1990ء)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنی مرض الموت میں وصیت کی کہ میرے لیے لحد بنانا اور مجھ پر اینٹیں نصب کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ بھی مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فی اللحد و نصب اللبن علی المیت966)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مہاجرین مردوں میں سے سب سے آخر پر وفات پائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنی وفات کے وقت ایک اونی جبہ نکالا اور وصیت کی کہ مجھے اس کا کفن پہنانا کیونکہ مَیں اس جبے کو پہن کر غزوۂ بدر میں شامل ہوا تھا اور مَیں نے اسے اسی وقت کے لیے یعنی وفات کے وقت کےلیے سنبھال کر رکھا تھا۔

(اسد الغابة فی معرفة الصحابة جزء ثانی صفحہ 456، سعد بن مالک، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ’سیرت خاتم النبیین‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی جب صحابہ کے وظیفے مقرر ہوئے توبدری صحابیوں کاوظیفہ ممتاز طورپر خاص مقرر کیا گیا۔ خود بدری صحابہؓ بھی جنگِ بدرکی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور مستشرق ولیم میور صاحب لکھتے ہیں ۔ بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے۔ سعد بن ابی وقاصؓ جب 80سال کی عمر میں فوت ہونے لگے توانہوں نے کہا کہ مجھے وہ چوغہ لا کر دو جو مَیں نے بدر کے دن پہنا تھا اور جسے مَیں نے آج کے دن کے لیے سنبھال کررکھا ہوا ہے۔ یہ وہی سعدؓ تھے جو بدر کے زمانہ میں بالکل نوجوان تھے اورجن کے ہاتھ پر بعد میں ایران فتح ہوا اور جو کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر ان کی نظر میں یہ تمام عزتیں اورفخر جنگِ بدرمیں شرکت کے عزت وفخر کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھیں اور جنگِ بدر والے دن کے لباس کووہ اپنے واسطے سب خلعتوں سے بڑھ کر خلعت سمجھتے تھے اور ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسی لباس میں لپیٹ کر ان کو قبر میں اتارا جاوے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 373)

پہلے روایت آ چکی ہے کہ آپ نے قصر سعد بنایا تھا تو اس کے تعمیر ہونے پر کسی کے دل میں کوئی خیال بھی ہو، سوال اٹھتا ہو تو یہی اس کا جواب ہے کہ انہوں نے آخر میں گوشہ نشینی اختیار کی اور پھر جس چیز کو پسند کیا وہ بدر کی جنگ میں پہنا ہوا لباس تھا اور اس سے پہلے بھی ان کی جو گوشہ نشینی کی حالت تھی وہی ان کی عاجزی اور سادگی کی دلیل ہے۔

حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں غزوۂ بدر میں شامل ہوا تھا تو اس وقت میری صرف ایک بیٹی تھی۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجة الوداع کے موقعے پر بھی آپ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ میری اولاد بہت زیادہ ہو گئی۔ حضرت سعدؓ نے مختلف اوقات میں نو شادیاں کیں اور ان سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چونتیس بچوں سے نوازا جن میں سترہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں تھیں۔

(ماخوذ از روشن ستارے جلد 2 صفحہ 98-99)

(الاصابہ جلد 5 صفحہ 219 عمر بن سعد بن ابی وقاص مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت سعد بن وقاصؓ کا یہ ذکر اب ختم ہوا۔ آئندہ ان شاء اللہ دوسرے صحابہ کا ذکر شروع ہو گا۔

آج میں نماز کے بعد کچھ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جو جنازہ ہے وہ مکرم صفدر علی گجر صاحب کا ہے جو شعبہ ضیافت مسجد فضل میں رضا کار کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ 25؍جولائی کو بوجہ ہارٹ اٹیک ان کی وفات ہوئی۔ چند روز ہسپتال میں داخل رہے۔ اناسی سال ان کی عمر تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

خدا کے فضل سے موصی تھے۔ انہوں نے تیس سال تک شعبہ ضیافت یوکےمیں بطور والنٹیئر خدمت کی توفیق پائی اور آخر دم تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں، کارکنان اور احباب جماعت کی بھی بے مثال خدمت اور ضیافت کی توفیق پاتے رہے۔ اس کے علاوہ مرحوم نے ایک لمبا عرصہ تک الفضل انٹرنیشنل اور اخبار احمدیہ کی پیکنگ و پوسٹنگ میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ بڑا لمبا عرصہ ان کا اسائلم کیس لٹکا رہا اور جب ایک لمبے عرصے کے بعد اسائلم کیس پاس ہوا اور ان کی فیملی کے یوکےآنے کے سامان ہوئے تو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کرتے تھے اور کبھی شکوہ نہیں کیا کہ اتنا لمبا عرصہ ان کو اکیلا رہنا پڑا۔ مرحوم خلافت کے شیدائی تھے اور ہمیشہ اسی دَر پر فدا رہے بلکہ ایسے شیدائی تھے کہ مَیں کہوں گاکہ ایسے تھے کہ وہ دوسروں کے لیے ایک مثال تھے۔ احباب جماعت اور اپنے رحمی رشتے داروں سے محبت اور عزت کا تعلق بھی رکھنے والے تھے۔ انتہائی دعا گو، نمازوں کے پابند، خدمت گار، ہردلعزیز اور بہت شفیق طبیعت کے مالک تھے۔ پنجابی کے شاعر بھی تھے اور اپنی خوش الحان آواز کی وجہ سے احباب جماعت میں مقبول تھے۔ مرحوم کو جلسہ سالانہ پر عوام میں نظم پڑھنے کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا تھا۔ مرحوم کا تعلق لاہور کی معروف جماعت ہانڈو گجر سے تھا۔ مرحوم نے اپنے پیچھے اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔

مکرم عطاء المجیب راشد صاحب لکھتے ہیں کہ صفدر علی صاحب بہت سادہ مزاج تھے۔ مخلص اور بے لوث خدمت سلسلہ کرنے والے انتھک خادمِ سلسلہ تھے۔ کہتے ہیں ان کی تین غیر معمولی خصوصیات ہیں جنہوں نے میرے دل میں ان کی محبت بڑھائی۔ پہلی یہ کہ ان میں اللہ کا شکر بہت تھا۔ باوجود محدود وسائل کے بات بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کیا کرتے تھے۔ دوسرے خلیفہ وقت اور خلافت سے محبت دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کہتے ہیں مجھے نہیں یاد کہ کبھی مختصر سی ملاقات بھی ہوئی ہو اور اس میں انہوں نے خلافت سے محبت کے تعلق کا اظہار نہ کیا ہو ۔ تیسرے یہ کہ خدمت دین جو ہے وہ دلی محبت کے ساتھ کرتے اور اس کو سعادت سمجھتے تھے۔

ان کی بیٹی تحسین صاحبہ لکھتی ہیں کہ زندگی کے ہر لمحے میں انہوں نے دوسروں کو سکھ دیا۔ ان کے کسی جاننے والے کو یا مسجد میں کسی کو بھی پریشانی ہوتی تھی تو وہ گھر میں ہم سب کو اس کا نام بتا کر دعا کے لیے کہتے تھے۔ ہر حال میں اللہ کا شکر کرتے تھے۔ دوسروں سے نیکی کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے تھے کہ آپ نے مجھے نیکی کا موقع دیا۔ پھر کہتی ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ تم دونوں بہنیں مجھے اس لیے بھی بڑی پیاری ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو بیٹیوں کی عزت کرے گا اس کو جنت میں میرا ساتھ ملے گا۔ کہتی ہیں کہ انہوں نے ہمیں بہت محبت کے ساتھ عزت و احترام بھی بہت دیا۔

دوسری بیٹی رضیہ صاحبہ ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ ہمیشہ ہمارے والد خلافت کی اطاعت اور محبت کی تلقین کرتے تھے اور خود بھی خلافت سے محبت کا بہت بڑا نمونہ تھے۔ کہتی ہیں کہ جو بھی ان کی تعزیت کے لیے آتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہمیں لگتا تھا کہ ہم سے زیادہ پیار کرتے ہیں لیکن وہ سب سے ہی پیار کرتے تھے۔ ہمیں لگتا تھا کہ وہ مسجد میں قریب قریب کے لوگوں سے ہی تعلق نبھاتے ہیں لیکن ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ہمارے خاندان کا حصہ تھے۔ دور دور کے لوگوں کے بھی کام کرتے تھے اور ان سے تعلق نبھانے والے تھے۔ یہ ان کی بےلوث محبت اور خدمت کی وجہ سے ہے جو لوگوں نے ان کے ساتھ اس طرح اظہار کیا ہے۔ مجھے بھی بہت سے خطوط ان کے بارے میں لوگوں نے لکھے ہیں اور ہر خط سے یہی لگتا ہے کہ ان کا ہر ایک سے ذاتی تعلق، پیار اور اخلاص کا تعلق تھا۔ کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس طرح ہر طبقے میں ہر دلعزیز ہوں اور اسی طرح ان کی ہر مجلس میں ہر لکھنے والے نے یہی لکھا ہے کہ ان کی باتوں کا محور خلافت اور اس سے تعلق ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں اور دعاؤں کا وارث بنائے۔ ان کی اہلیہ صاحبہ کو صحت دے۔ صبر اور سکون عطا فرمائے۔ ان کی اہلیہ بھی لمبے عرصے سےبیمار ہیں ۔ان کی بھی انہوں نے بڑے اخلاص، پیار اور محبت سے بہت خدمت کی ہے اور اپنے تمام کاموں اور فرائض کے ساتھ خدمت کی ہے۔ خدمت تو لنگر خانے میں دارالضیافت میں بھی کرتے تھے اور ایک وقفِ زندگی سے بڑھ کر خدمت کا ان میں جذبہ تھا اور ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے گھریلو فرائض بھی نبھائے اور اسی طرح زبان نہ آنے کے باوجود انگریز ہمسایوں کی بھی خدمت کیا کرتے تھے۔ ان سے بھی تعلق رکھا اور انہوں نے بھی ان کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرمہ عفت نصیر صاحبہ کا ہے جو مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 3؍مئی کو ستانوے سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

ان کی شادی 1951ء کو مرحوم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب سے ہوئی تھی۔ بچوں میں، لواحقین میں ان کی ایک بیٹی عائشہ نصیر صاحبہ ہیں جو ڈاکٹر عنایت اللہ منگلا صاحب امریکہ کی اہلیہ ہیں۔ بیٹوں میں ظہیر احمد خان ہیں اور ڈاکٹر منیر احمد خان ہیں اور ان کے یہ دونوں بیٹے خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں بیاہے گئے ہیں۔ ان کے ایک پوتے بصیر احمد خان واقف زندگی ہیں اور اس وقت بڑے احسن رنگ میں ایم ٹی اے میں ٹرانسمشن میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہاں پڑھائی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔

ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ جب ہم چھوٹے تھے تو والدہ کے ساتھ ہی سوتے تھے اور ہماری اکثر رات کو آنکھ کھلتی تھی تو تہجد کی نماز میں رو رو کر دعا کر رہی ہوتی تھیں۔ یہی بات ان کی بیٹی نے بھی لکھی ہے۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرتی تھیں اور ہم بچوں پر بھی لازمی تھا کہ صبح تلاوت کر کے سکول جائیں۔ اس کے بغیر اجازت نہیں۔ شروع میں، ساٹھ کی دہائی میں یہ لاہور میں بھی رہی ہیں۔ وہاں جنرل سیکرٹری لجنہ کے طور پر ماڈل ٹاؤن میں خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ 28سال تک صدر لجنہ دارالنصر غربی کی خدمت سرانجام دی اور اس وقت وسائل بھی تھوڑے ہوتے تھے اور پھیلے ہوئے محلے تھے، سواریاں نہیں تھیں۔ پیدل ہی دور دور کے علاقوں میں، دارالنصر کا جو محلہ تھا دریا تک پھیلا ہوا تھا وہاں تک خود جایا کرتی تھیں۔ پھر جب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے احباب جماعت کو یہ تحریک فرمائی کہ اپنے تمام غیر احمدی رشتے داروں اور کمزور احمدیوں کو خطوط لکھے جائیں تو اس میں انہوں نے بھی اپنے رشتے داروں کو بے شمار خطوط لکھے۔

کسی نہ کسی بہانے غریب عزیزوں اور محلہ داروں کی مدد کرتی رہتیں اور خاص طور پر رمضان کے دنوں میں ضرور انہیں کچھ نہ کچھ پکا کر بھیجتی رہتیں۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو آپس میں جوڑیں اور پھٹنے سے بچائیں۔ ان کی بیٹی عائشہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ایک واقف زندگی کے ساتھ بہت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ زندگی گزاری اور ہماری تعلیم و تربیت کو اپنا اولین فرض سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ دعائیں بھی بہت کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد اور نسلوں کو بھی ان کی نیک خواہشات کو پورا کرنے والا اور دعاؤں کا وارث بنائے۔

اگلا جنازہ مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب کا ہے جو جنرل سیکرٹری آفس یوکےکے کارکن تھے۔ 31؍مارچ کو وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ 31؍دسمبر 1934ء کو موضع رائے پور ریاست نابھہ ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام رحمت علی تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد مرحوم کے تایا جان چودھری کریم بخش صاحب نمبر دار جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے ان کے ذریعہ سے آئی تھی۔ عبدالرحیم ساقی صاحب مرحوم کے والد کی خالہ زاد اور تایا زاد بہن رحیمن بی بی صاحبہ صحابیہ اہلیہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری رشتہ میں آپ کی پھوپھی بھی لگتی تھیں۔ ساقی صاحب مرحوم کو 1958ء سے لے کر 1968ء تک دس سال بطور سیکرٹری مال اور قائد مجلس خدام الاحمدیہ تخت ہزارہ خدمت کی توفیق ملی۔ پارٹیشن کے بعد یہ تخت ہزارے آ کر آباد ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 1968ء میں جماعت احمدیہ تخت ہزارہ کے امیر مقرر کیے گئے اور جولائی 1974ء تک بطور امیر جماعت خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ 13؍جولائی 1974ء کو تخت ہزارہ کے غیر احمدی شر پسند ٹولے نے ارد گرد کے علاقوں میں سے غنڈوں اور معاندین احمدیت کے بہت بڑے مسلح جتّھے کو جمع کر کے احمدیوں کے خلاف فسادات برپا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مسجد کے ایک حصےکو آگ لگا کر اس پر قبضہ کر لیا۔ مہمان خانے کو مکمل طور پر جلا دیا۔ ساقی صاحب کی کریانہ کی دکان تھی اس کو لُوٹ کر آگ لگا دی۔ اسی طرح آپ کی ایک دوسری کپڑے کی دکان تھی اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ گھروں کو نذر آتش کر دیا اور یہ بھی اندر ہی تھے اور دھوئیں کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے۔ بے ہوشی کی حالت میں شر پسند ان کو اٹھا کے مسجد میں لے گئے اور لاؤڈسپیکر سے اعلان کر دیا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور توبہ کر لی ہے تا کہ دوسرے احمدی بھی جماعت سےمنحرف ہو جائیں۔ بہرحال جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے دیکھا کہ برچھیوں اور نیزوں کے نرغے میں یہ بیٹھے ہیں اور اس کا ان کے ذہن پہ بڑا اثر ہوا۔ پھر وہاں سے ان کو بچوں نے ہی اس وجہ سے لاہور ان کے کسی عزیز کے پاس بھجوا دیا۔ وہاں ان کا علاج ہوا اور یہ وہاں رہے۔ پھر لاہور میں ہی ایک جماعت میں جہاں سیٹل (settle)ہوئے تھے، جا کےدوبارہ آباد ہوئے۔ انہوں نے کاروبار شروع کیا اور اپنے عزیز کے ملحقہ مکان کے ملحقہ حصہ میں نماز کا سینٹر بنایا۔ باجماعت نمازوں کے قیام کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی۔ سینکڑوں بچوں کو اور لوگوں کو قرآن کریم پڑھایا۔

پھر نومبر 2000ء میں یہ ہجرت کر کے لندن آگئے۔ یہاں اس کے بعد 2020ء تک نیشنل جنرل سیکرٹری آفس یوکےمیں رضاکارانہ طور پر باقاعدگی کے ساتھ خدمات سرانجام دیتے رہے اور واقفینِ زندگی سے بڑھ کر وقت کے پابند تھے۔ پہلے دفتر پہنچتے تھے تا کہ کسی کو انتظار نہ کرنا پڑے بلکہ بعض دفعہ دفتر آنے سے پہلے اگر کبھی ناشتے میں دیر ہو گئی تو ناشتہ کیے بغیر آ جایا کرتے تھے اور پھر ان کی یہ خوبی تھی کہ ان کے بچوں نے لکھا ہے کہ روزانہ قرآن کریم کے تین سپارے تلاوت کیا کرتے تھے۔ خلافت کے ساتھ بڑی عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ بچوں اور بڑوں کو ہمیشہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے اور خلیفۂ وقت کا ادب اور کامل وفا کے ساتھ اطاعت کرنے کی طرف بڑے درد کے ساتھ نصائح کیا کرتے تھے۔ واقفین اور خاص طور پر مربیان کا دلی احترام اور ان کے ساتھ محبت کرنے والے وجود تھے۔ تقریباً ساٹھ سال سے زائد عرصہ رضاکارانہ طور پر خدمت دینیہ بجا لانے کی ان کو توفیق ملی۔ ان کے بیٹے خالد محمود صاحب کولیئرزوڈ (Colliers Wood) کے صدر جماعت بھی ہیں۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد اور ان کی نسل کو بھی ان کی نیک خواہشات کو پورا کرنے والا بنائے۔

اگلا جنازہ جو پڑھاؤں گا وہ سعید احمد سہگل صاحب کا ہے۔ یہ ہمارے پی ایس دفتر میں شعبہ ڈسپیچ (dispatch) میں رضا کار تھے۔ ان کی 12؍اپریل کو نوّے سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ مرحوم کا بچپن قادیان میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ لمبا عرصہ یہاں پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کے ڈسپیچ سیکشن میں بطور رضا کار خدمت کی توفیق پائی۔ بڑے پڑھے لکھے علم دوست شخص تھے۔ دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اور جماعتی مسائل کا بھی خوب علم رکھتے تھے۔ نمازوں کے پابند اور خلافت کے شیدائی تھے۔ بہت عاجز اور شرافت کا ایک نمونہ تھے۔ اپنے حلقے میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ مَیں نے دیکھا ہے جب بھی ملے تو انتہائی عاجزی سے اور ان کو بڑا درد ہوتا تھا کہ ان کی اولاد بھی اسی طرح جماعت سے تعلق رکھنے والی ہو۔ اسلم خالد صاحب لکھتے ہیں کہ آپ خاص علمی مزاج رکھتے تھے۔ اکثر دوپہر کے کھانے پر مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے اور خاص طور پر عیسائیت اور یہودیت پر گہرا علم تھا۔ ہمارے دفتر کے کارکن بشیر صاحب لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں بھی کوشش رہی کہ جماعتی خدمت کریں۔ ایک دفعہ بتایا کہ کسی کام کی غرض سے مسجد آ رہے تھے کہ چکر آ گیا اور نیچے گر گئے اور چوٹ بھی لگی لیکن اس کے باوجود دفتر ضرور آتے تھے حالانکہ کافی دور سے پیدل آنا پڑتا تھا تا کہ خدمت کا موقع ہاتھ سے نہ جائے۔ اپنا بڑا مکان بیچ کر مسجد کے قریب فلیٹ لے لیا تھا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کے حق میں بھی ان کی دعائیں قبول فرمائے۔

(الفضل انٹر نیشنل 4ستمبر 2020ء صفحہ 5تا10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button