متفرق مضامین

اطاعت کے قابلِ تقلید نمونے

(مرزا خلیل احمد قمر)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

یَنْصُرُکَ رِجْالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ

یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔

آپؑ کو یہ الہام مارچ 1882ء میں ہوا۔جس کوآپ نے براہین احمدیہ جلد سوم میں درج فرمایا۔اس وقت کسی جماعت کا تصور ہی نہیں تھا۔ابھی آپ کو بیعت لینے کا اذن بھی نہیں ہوا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ایک کثیر جماعت ایسے اصحاب کے دینے کی بشارت دی جن کو اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعے آپ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے گا۔

چنانچہ آپؑ کے بعض عربی زبان کےالہامات کاترجمہ یہ ہے:

’’تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے۔سو ان کو وہ وحی سنادے جو تیری طرف تیرے رب سے ہوئی اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتا ہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے۔سو تیرے پر واجب ہے کہ تو ان سے بدخلقی نہ کرے اور تجھے لازم ہے کہ کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے اور ایسے لوگ بھی ہونگے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے تیرے حُجروں میں آکرآباد ہوں گے۔وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اصحاب الصُفَّہ کہلاتے ہیں اور تو کیا جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہونگے۔اصحاب الصفہ کے نام سے موسوم ہیں۔وہ بہت قوی الایمان ہوںگے۔تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونگے وہ تیرے پر درُود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے سو ہم ایمان لائے۔ ان تمام پیشگوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی۔‘‘

( بحوالہ تذکرہ صفحہ 40تا41)

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیعت لینے کاحکم فرمایا توآپ کو واقعی اللہ تعالیٰ نے ایسے جاںنثار مخلص اور اطاعت گزار اور اپنے امام کے حکم پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردینے کےلیے ہر دم تیار رہنےوالے صحابہ عطافرمائے۔ذیل میں ایسے ہی چند مخلص جاںنثار صحابہ کے چند ایمان افروز واقعات قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش ہیں۔

حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاولؓ

حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاول راجہ جموں کی ملازمت سے ستمبر 1892ء میںفراغت کے بعد بھیرہ تشریف لائے۔ اس کےمتعلق آپ کی سوانح پرمشتمل کتاب حیات نور میں لکھا ہے:

’’آپ نے بھیرہ پہنچ کر ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولنے کا ارادہ فرمایا۔ اور اس کے لئے ایک عالیشان مکان بنوانا شروع کیا۔ ابھی وہ مکان ناتمام ہی تھا کہ آپ کو کچھ سامان عمارت خریدنے کے لئے لاہور جانا پڑا۔ لاہور پہنچ کر جی چاہا کہ قادیان نزدیک ہے حضرت اقدس سے بھی ملاقات کر لیں۔ مگر چونکہ بھیرہ میں ایک بڑے پیمانہ پر تعمیر کا کام جاری تھا۔ اس لئے بٹالہ پہنچ کر فوری واپسی کی شرط سے کرائے کا یکہ کیا۔ جب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے تو قبل اس کے کہ آپ واپسی کی اجازت مانگتے۔ حضور نے خود ہی دوران گفتگو میں فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے۔ آپ نے عرض کیا۔ ہاں حضور! اب تو میں فارغ ہی ہوں۔ وہاں سے اُٹھے تو یکے والے سے کہہ دیا کہ اب تم چلے جاؤ۔ آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے۔ کل پرسوں اجازت لیں گے۔ اگلے روز حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی۔ آپ اپنی ایک بیوی کو بلوا لیں۔ آپ نے حسب الارشاد بیوی کو بلانے کے لئے خط لکھ دیا۔ اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آ سکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیا جائے۔ جب آپ کی بیوی آ گئیں تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے۔ لہٰذا آپ اپنا کتب خانہ بھی منگوالیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پُرانی ہے۔ آپ اس کو ضرور بُلا لیں۔ لیکن مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے فرمایا کہ مجھ کو مولوی نورالدین صاحب کے متعلق الہام ہوا ہے۔ اور وہ شعر حریری میں موجود ہے کہ

لاتصبون الی الوطن

فیہ تھان و تمتحن

’’ تو وطن کی طرف ہرگز توجہ نہ کر اس میں تیری اہانت ہوگی اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں گی۔‘‘

پھر ایک موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب! اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر آپ فرماتے ہیں کہ

’’خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں۔ میرے واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے۔‘‘

(حیات نور صفحہ184تا185)

حضرت مولوی صاحبؓ نےحضر ت اقدس کے ارشاد پر فوری لبیک کہا اور تعمیرات وغیرہ کے بارے میں حضورؑ سے کچھ عرض نہ کیا کہ مبادا حضرت اقدس کے اس فرمان کی خلاف ورزی ہو جائے کہ ’’مولوی صاحب! اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔‘‘ بس ادھر حکم ملا۔ ادھر اٰمنّا و صدّقنا کہا۔

اطاعت امام کی ایک نادر مثال

’’(حضرت اقدس علیہ السلام کو۔ناقل) ابھی دہلی پہنچے چند ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بیمار ہو گئے۔ اس پر حضور کو خیال آیا کہ اگر مولوی نورالدینؓ صاحب کو بھی دہلی بلا لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو تار دلوادیا۔ جس میں تار لکھنے والے نے امیجی ایٹ (Immediate) یعنی بلاتوقف کے الفاظ لکھ دیئے۔ جب یہ تار قادیان پہنچا تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ اسی حالت میں فوراً چل پڑے۔ نہ گھر گئے نہ لباس بدلا نہ بستر لیا۔ اور لطف یہ ہے کہ ریل کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے پیچھے سے ایک آدمی کے ہاتھ کمبل تو بھجوادیا مگر خرچ بھجوانے کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور ممکن ہے گھر میں اتنا روپیہ ہو بھی نہ۔ جب آپ بٹالہ پہنچے تو ایک متمول ہندو رئیس نے جو گویا آپ کی انتظار ہی کر رہا تھا، عرض کی کہ میری بیوی بیمار ہے۔ مہربانی فرما کر اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیجئے۔

فرمایا۔ میں نے اس گاڑی پر دہلی جانا ہے۔ اس رئیس نے کہا۔ میں اپنی بیوی کو یہاں ہی لے آتا ہوں۔ چنانچہ وہ لے آیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا۔ وہ ہندو چپکے سے دہلی کا ٹکٹ خرید لایا۔ اور معقول رقم بطور نذرانہ بھی پیش کی۔ اور اس طرح سے آپ دہلی پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔‘‘

(حیات نور صفحہ285)

حضرت مسیح موعودؑ سے عاشقانہ تعلق

حضرت مصلح موعود ؓحضرت مسیح موعودؑ کے اس عاشق کا یوں تذکرہ فرماتے ہیں:

’’میں نے ان لوگوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا اندازہ لگایا ہے جو آپ کی صحبت میں رہے۔ میں نے سالہا سال ان کے متعلق دیکھا کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جُدائی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا تھا اور دنیا میں کوئی رونق نظر نہیں آتی تھی۔حضرت خلیفہ اول جن کے حوصلہ کے متعلق جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ کتنا مضبوط اور قوی تھا وہ اپنے غموں اور فکروں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگر انہوں نے کئی دفعہ جب کہ آپ اکیلے ہوتے اور کوئی پاس نہ ہوتا مجھے کہا میاں! جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے۔میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی۔‘‘

(خطبات محمود جلد اول صفحہ 144-145)

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو حضرت خلیفہ اوّل کو اس قدر صدمہ ہوا کہ شدت غم کی وجہ سے آپ کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی تھی اور ضعف اس قدر تھا کہ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتے اور کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے …۔‘‘

(نبوت اور خلافت اپنےوقت پر ظہور پذیرہو جاتی ہے، انوار العلوم جلد 18صفحہ 241)

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ

حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓکی وفات پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓایڈیٹر الحکم نے ایک تفصیلی مضمون تحریر فرمایا۔اس میں سے ایک واقعہ حضرت منشی صاحب ؓکا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت عشق اور فدائیت کا درج ذیل ہے۔

’’(حضرت منشی ظفر احمد صاحب) قادیان آتے تو بےخوداور مست ہو جاتے۔ دنیا اور اس کے علائق سے الگ نظر آتے۔ نہ ملازمت کی پرواہ نہ کسی اورکاڈر…حضرت منشی ظفراحمد صاحب صرف ایک جوڑا کپڑوں کا جو پہنےہوئے تھے لے کر آئے تھے۔ یہ لوگ طبیعت میں جب بے کلی محسوس کرتے دیوانہ وار بھاگے چلے آتے تھے۔ حضرت کو دیکھ لیا کچھ باتیں سن لیں۔ زندگی کی نئی روح لے کر واپس چلے گئے۔ ان کو خیال تھا کہ تین دن کے بعد تو آہی جاؤں گا۔ صرف ایک ہی جوڑا زیب بدن تھا۔ جب تین دن کے بعد ابھی ٹھہرنے کا حکم ہوا تو خیال تھا کہ شاید چند روز کے بعد اجازت ہو جائے۔ مگر اجازت کے لیے خود تو زبان ادب کھل نہ سکتی تھی۔ اورحضرت کی اپنی محبت اور جذب بھی اجازت نہ دیتے تھے۔

مجھ کو یاد ہے کہ دو ہفتہ تک اسی لباس میں رہے۔ اب اس میں میلا پن نظر آنے لگا۔ وہ عام طور پر سفید لباس گرمیوں میں پہنتے تھے۔ ایک دن آئے اور ہنستے ہوئے کہاکہ شیخ صاحب کیا کیا جائے کپڑے میلے ہو رہے ہیں۔میں اَور لایا نہ تھااور اب لکھ کر بھی نہیں منگوا سکتا۔ میں وہاں کے خطوط کے جواب بھی نہیں دیتا۔ کچھ ایسا انتظام کر دو کہ ظہر کی نماز تک کپڑے صاف ہو جائیں۔ میں نے کہا کہ میں حضرت سے عرض کروں تو فرمایا۔بالکل نہیں۔ یہ چیز تو ان کے علم میں آنی نہیں چاہیے۔ تم چاہتے ہو کہ شاید اس طرح پر اجازت مل جائے۔ میں تو کسی رنگ میں اجازت کا سوال پیش ہی نہیں کرنا چاہتا۔ ہم لوگ بڑے بے تکلف تھے۔ میں نے کہا کہ پھر مطلب کیا ہے۔ پگڑی اور پاجامہ کرتہ توظہر تک تیار ہو سکتاہے۔ کوٹ نہیں ہو سکتا۔اس وقت کی قادیان آج کی قادیان نہ تھی کہ بیسیوں مشینیں سلائی کا کام کر رہی ہیں کہنے لگے یہ مطلب نہیں۔ ایک تہ بند لاؤمیں باندھ لیتا ہوں۔ ان کپڑوں کو اگر دھوبی کپڑے گھاٹ پر دھودے تو دھلا لویا پھر گھر میں صابن سے دھلا لو۔صاف ہو جائیں۔ پھر دو ہفتہ کے بعد دیکھ لیں گے۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ نہیں سلوا لیتے ہیں مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ خیر وہ کپڑے دھلوائے گئے اور ظہر تک تیار ہوئے۔ بالآخر جب صورت یہ نظر آئی کہ انہوں نے اجازت تو لینی نہیں۔ اسے سوء ادب یقین کرتے ہیں تو میں نے مفتی فضل الرحمٰن صاحب مرحوم سے کہا ظفر احمد مجھ سے مانتا نہیں۔ کپڑے وہ لائے نہ تھے۔ ایک ہی جوڑا ہے۔ انہوں نے کہا ماننے نہ ماننے کا سوال ہی کیا۔ اور تم نے پوچھا ہی کیوں بنوا دینے تھے۔ اور اب بھی یہی کرنا چاہئے۔ آخر دو جوڑے کپڑوں کے تیار کرا لئے۔ اور جب پھر تہ بند باندھ کر دھونے یا دھلانے کا مرحلہ پیش آیا تو کپڑے دھوبی کو دے کر کہا کہ جمعہ کو ملیں گے تو وہ حیران ہوئے کہ مجھے اندر ہی قید کر دیا۔ میں اس طرح پرحضرت کے سامنے چلا جاؤں؟ اتنے میں مفتی صاحب وہ کپڑے لے کر آئے اور کہا کہ لو یہ کپڑے پہنو۔ نہیں تو حضرت صاحب سے جا کر کہتا ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ وہ جا کر کہہ دے گا۔ تب مجھے کہا کہ اب اس کو مجھ پر داروغہ مقرر کردیا۔اچھا بھائی لاؤ۔ یہ سب باتیں محبت کی ایک شان لئے ہوتی تھیں۔

غرض یہ واقعہ منشی صاحب کے اخلاص۔ایثار۔ادب اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے کمال محبت وکمال اطاعت کی ایک شان لئے ہوئے ہے۔خدا کی رضا کے لئے انہوں نے ملازمت کے رہنے نہ رہنے کاخیال ہی نہیں کیا۔‘‘

(الفضل 4؍ستمبر1941ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کا ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایاکہ وہ کہتے تھے کہ

’’میں جب سرشتہ دار ہوگیا اور پیشی میں کام کرتا تھاتو ایک دفعہ مسلیں وغیرہ بند کرکے قادیان چلا آیا۔ تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو آپؑ نے فرمایا ابھی ٹھہریں۔ پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے۔ اس پر ایک مہینہ گذرگیا۔ ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں۔ کام بند ہوگیا اور سخت خطوط آنے لگے۔ مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق وہم بھی نہ آتا تھا۔ حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری کے جانے کا خیال تھا۔ اور نہ کسی بازپرس کا اندیشہ۔ آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں آیا۔ میں نے وہ خط حضرت کے سامنے رکھ دیا۔ پڑھا اور فرمایا۔ لکھ دو ہماراآنا نہیں ہوتا۔ میں نے وہی فقرہ لکھ دیا اس پر ایک مہینہ اور گذر گیا۔ تو ایک دن فرمایا۔ کتنے دن ہوگئے۔ پھر آپ ہی گننے لگے۔ اور فرمایا۔ اچھا آپ چلے جائیں۔ میں چلاگیا۔ اور کپورتھلہ پہنچ کر لالہ ہرچرن داس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا تاکہ معلوم کروں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ منشی جی آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیاہوگا۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو فرمایا ان کا حکم مقدم ہے۔‘‘

(اخبار الفضل 28؍اگست 1941ء)

حضرت منشی اروڑے خانصاحب کپورتھلویؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت منشی صاحبؓ کے بارے میں فرمایا:

’’ایک دفعہ کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہنسے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی بہت محظوظ ہوئے…

غرض اس دوست نے بتایا کہ منشی اروڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ مجسٹریٹ کو بھی ڈرادیتے ہیں۔ پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا میں قادیان جانا چاہتا ہوں مجھے چھٹی دے دیں اس نے انکار کردیا۔ اس وقت وہ سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا قادیان میں مَیں نے ضرور جانا ہے۔ مجھے آپ چھٹی دے دیں۔ وہ کہنے لگا کام بہت ہے۔ اس وقت آپ کو چھٹی نہیں دی جاسکتی۔ وہ کہنے لگے بہت اچھا آپ کا کام ہوتا رہے۔ میں تو آج سے ہی بددعا میں لگ جاتا ہوں۔ آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں۔ آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسانقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈرگیا۔ اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا تو وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کردینا۔ کیونکہ منشی اروڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائے گا۔ اس طرح وہ آپ ہی جب بھی منشی صاحب کا ارادہ قادیان آنے کا ہوتا انہیں چھٹی دے دیتا اور وہ قادیان پہنچ جاتے۔‘‘

(اخبار الفضل 28؍اگست 1941ء)

حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحبؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایک اور جلیل القدر صحابی (جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سرخ سیاہی کے چھینٹوں کے گواہ تھے اور ان کی قمیص پر چند چھینٹے پڑے تھے ) کے حضرت اقدس سے محبت اور عشق کا واقعہ بیان کرتے ہیں:

’’میاں عبد اللہ صاحب سنوری بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے۔ اس لئے جب میاں عبداللہ صاحب سنوری کی چھٹی ختم ہوگئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جانے کیلئے اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا ابھی ٹھہرجاؤ۔ چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوادی مگر محکمہ کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی۔ انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔ چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آسکتا۔ اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈسمس کردیا۔ چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے۔ پھر جب واپس آگئے تو محکمہ نے یہ سوال اٹھادیا کہ جس افسر نے انہیں ڈسمس کیا ہے۔ اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈسمس کرتا۔ چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے۔ اور پچھلے مہینوں کی جو وہ قادیان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی۔‘‘

(الفضل 28؍ اگست 1941ء)

حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ؓ

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓاپنے بزرگ والد حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’خلافت ثانیہ کا عہد شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانی…نے والدصاحب سے فرمایاکہ آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے تئیں کب وقف کریں گے۔والدصاحب نے عرض کی کہ میں تو حاضر ہوں۔جب حضور حکم دیں، وکالت ترک کر کے حضور کی خدمت میں آجاؤں۔چنانچہ آپ نے اپریل١٩١٧ء میں وکالت کی پریکٹس ختم کر دی اور چند ماہ بعد قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 11صفحہ 73)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ایڈیٹر الحکم کو تحریک شدھی کے دوران خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ کارزار شدھی میں حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اکرن کا معرکہ شدھی مجھ کو ذاتی طور پر اس کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔جب یو پی اور ریاست بھرتپوروغیرہ میں شدھی کی تحریک زوروں پر ہوئی۔اور اکرن کے متعلق حکام ریاست کی زبردستیوں کی شکایات پہنچیں توحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ …نے خاکسار عرفانی کو اس میدان میں اترنے کا حکم دیا…حضرت چوہدری صاحبؓ کو بھی اس معرکہ میں شریک ہونے کا حکم مل گیا۔چوہدری صاحب باوجود یکہ نحیف الجثہ تھے۔اور ساری عمر خداکے فضل وکرم سے انہوں نے ہر طرح آرام و آسائش میں گزاری تھی۔پھر عمر کا آخری حصہ اور یوپی کی خوفناک گرمی کے ایام۔مگر وہ مجھ سے زیادہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ میرے شریک کار ہوئے۔میں اس زمانہ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔چوہدری صاحبؓ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کا مجھے کافی موقع ملا۔ہم کو بعض اوقات مشورہ دیا گیا کہ اکرن میں نہ ٹھہریں۔مگرہم نے فیصلہ کر لیا کہ ہم اس کو نہیں چھوڑیں گے۔چنانچہ ہماراڈیرہ اکرن میں تھا۔پانی کی تکلیف اور گرمی کی شدت، رہنے کو جگہ نہیں۔چاروں طرف دشمنوں کاحلقہ اورحکام ِریاست ان کے مددگار۔مگر خدا شاہد ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ہم اکرن کے مقام پر اس طرح ڈٹے ہوئے تھے کہ حکام کو بھی حیرت ہوتی تھی۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 11صفحہ 160-161)

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا۔ اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی۔ اور میری بیوی کہہ رہی تھیں کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں۔ بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہو سکی۔ سکول والے تقاضہ کر رہے ہیں بہت پریشانی ہے۔ ابھی وہ یہ بات کہہ رہی تھیں کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اور کرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے، آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو کر ابھی دفتر میں آ جائیں۔ جب میں دفتر میں جانے لگا تو میری اہلیہ نے پھر کہا کہ آپ لمبے سفر پر جا رہے ہیں۔ اور گھر میں بچوں کے گذارا اور اخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ میں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں؟

میں نے کہا کہ میں سلسلہ کا حکم ٹال نہیں سکتا۔ صحابہ کرامؓ جب اپنے اہل و عیال کو گھروں میں بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کو یہ بھی خطرہ ہوتا تھا کہ نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یا شہادت کا مرتبہ پا کر ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوجاتے ہیں۔ اور بچے یتیم اور بیویاں بیوہ ہوتی ہیں… اس پر میری بیوی خاموش ہو گئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لئے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا۔ اس حالت میں میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا۔ کہ

’’اے میرے محسن خدا تیرا یہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہو رہا ہے اور گھر کی حالت تجھ پر مخفی نہیں تو خود ہی ان کا کفیل ہو اور ان کی حاجت روائی فرما۔ تیرا یہ عبدِ حقیر ان افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لئے راحت و مسرت کا کوئی سامان مہیا نہیں کر سکتا۔‘‘

میں دعاکرتا ہوا ابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی۔ جب میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلاکر مبلغ یکصد روپیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیا جائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں۔میں نے وہ روپیہ لے کر انہی صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ میں تو اب گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑا ہوں۔ بازار سے ضروری سامان خورونوش لینا ہے وہ آپ میرے گھر پہنچا دیں۔ کیونکہ میرا اب دوبارہ گھر میں واپس جانا مناسب نہیں۔وہ صاحب بخوشی میرے ساتھ بازار گئے۔ میں نے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لئے دیدیا۔ اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھر بھجوا دی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔

(حیات قدسی جلد چہارم صفحہ 5)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button