متفرق مضامین

میرے آبا و اجداد

(رضیہ خانم)

اپنے خاندان کے بعض افراد کے حالات زندگی جن میں سے بعض صحابی بھی تھے

ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ اپنے بزرگوں کے حالات زندگی جمع کریں۔ اس ارشاد کی تعمیل میں خاکسارنے اس مضمون میں اپنے خاندان کے بعض افراد کے حالات زندگی تحریر کیے ہیں جن میں سے بعض صحابی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے والا بنائے۔ آمین۔

ہمارا تعلق صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختون خواہ) سے ہے۔ ہماری قوم بنگش پٹھان ہے۔ ہمارے آبا کسی وقت صوبہ سرحد سے ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئےتھے۔ 1857ء میں جب غد ر کا زمانہ آیا تو اس وقت ہمارے خاندان کے افراد فرخ آباد صوبہ بہار میں مقیم تھے۔

مجھے اپنے پر دادا کانام معلوم نہیں۔ لیکن میرے پردادا کے بڑے بھائی کانام صوبہ خان صاحب تھا۔

صوبہ خان صاحب کے بہت سے ساتھی غدر میں گرفتارہوگئے تھے۔ گرفتار ی کے ڈر سے صوبہ خان صاحب مع ایک بنگش فیملی، قریشی خاندان کی تین فیملیز اور ایک مغل خاندان جو فرخ آباد میں آباد تھے ہندوستان سے ہجرت کر کے پیدل جہلم آکر آباد ہو گئے۔ لیکن میرےپردادا فرخ آباد میں ہی رہے۔

جہلم آکر کچھ سنبھلنےکے بعد صوبہ خان صاحب نے عمارتی لکڑی کاکام شروع کردیااور اس کاروبار کولمبا عرصہ کامیابی سے چلاتے رہے۔ اس دوران صوبہ خان صاحب کا نکاح قریشی قوم کی ایک نیک اور دین دار خاتون (جنکا چکوال کے علاقہ سے تعلق تھا)سے ہوگیا۔ ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے۔

1۔ فضل بی بی صاحبہ (جو بعد میں میری دادی بنیں)

یہ حافظہ قرآن مجید تھیں۔ جنہوں نے حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے بھائی لقمان الدین صاحب( یانعمان الدین صاحب)سے قرآن مجید حفظ کیا۔ اور عمر بھر بچوں کو جہلم اوربعدہ سرگودھا میں قرآن مجید پڑھاتی رہیں۔ آپ کو اپنے خاوند حاجی عبداللہ خان صاحب کے ساتھ 1902ء میں جب حضر ت مسیح موعودؑ کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم میں مقیم تھے حضوؑر کی بیعت کرنے کی توفیق ملی۔

فضل بی بی صاحبہ اور ان کے خاوند حاجی عبد اللہ خان صاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیت اللہ کا حج کر نے کی بھی توفیق ملی۔

2۔ یعقوب خان صاحب

یہ وٹرنری ڈاکٹر تھے ان کو بھی حضرت مسیح موعودؑکی بیعت کی توفیق ملی۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر یوسف خان صاحب (تاریخ پیدائش16؍ستمبر1899ء) پیدائشی احمدی تھےاور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں لمبے عرصہ تک آنریری مبلغ کے طور پر کام کر نے کی توفیق ملی اور بہشتی مقبرہ (دارالفضل)ربوہ میں مدفون ہیں۔ آپ کی وفات 19؍جنوری 1979ء کو ہوئی۔

نوٹ :

٭…یعقوب خان صاحب کی بیٹی امۃ اللہ جان صاحبہ (جو لمبا عرصہ انگلستان میں مقیم رہی ہیں اور مسز اشرف کے نام سے وہاں مشہور تھیں)بھی بہشتی مقبرہ (دارالفضل)ربوہ میں مدفون ہیں۔ یہ پیدائشی احمدی تھیں۔ آپ کی ولادت 1909ء میں اور وفات 1984ءمیں ہوئی۔ مسز اشرف کے خاوند چودھری محمد اشرف صاحب کا تعلق بہل پور ضلع گجرات سے تھا۔ لیکن انگلستان میں آکر آباد ہو گئے۔ وہیں وفات پائی اور میت ربوہ لائی گئی۔ ان کا جنازہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے پڑھایااورقبرستان عام نمبر1میں تدفین ہوئی۔

آپ کے دوبیٹے (عباس احمد اورآصف احمد)جوانی میں ہی وفات پاگئے تھے۔ اور دونوں ربوہ میں قبرستان نمبر 1میں دفن ہیں۔

مسز اشرف کی بیٹی حکمت اللہ خان صاحبہ میرے بڑے بھائی عبد الستار خان صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں اور ان کا بیٹا بلال احمد خان سرگودھا میں ہی مقیم ہے اور بیٹی طاہرہ جنود (جو حاجی جنود اللہ صاحب کی بہو ہے)بھی سرگودھا میں ہی مقیم ہے۔

عبدالستار خان صاحب ایڈووکیٹ اور ان کی اہلیہ حکمت اللہ جان صاحبہ قبرستان عام ربوہ میں دفن ہیں۔

٭…یعقوب خان صاحب کے ایک بیٹے احمد خان صاحب بھی تھے۔ ان کے حالات معلوم نہیں۔ احمدی تھے۔

3۔ صوبہ خان صاحب کے ایک بیٹے اسحٰق خان صاحب بھی تھے۔ ان کےحالات معلوم نہیں۔

1865ء کے قریب صوبہ خان صاحب کی وفات ہوگئی۔

میرے دادا حضرت حاجی عبداللہ خان صاحب ؓ

حضرت حاجی عبداللہ خان صاحب ؓاور ان کے چھوٹے بھائی عبدالرحمٰن خان صاحب جو صوبہ خان صاحب کے بھتیجے تھے ان کے والد اور یہ دونوںبھائی فرخ آباد میں ہی تھے۔ صوبہ خان صاحب کو اطلاح ملی کہ ان کے بھائی فوت ہوگئے ہیں اوران کے دوبھتیجے یتیم رہ گئے ہیں تو انہوں نے دونو ںلڑکوں (عبد اللہ خان، عبدا لرحمٰن خان)کو جلدازجلد جہلم بلوالیا۔ صوبہ خان صاحب نے اپنے ان دونوںیتیم بھتیجوں کو گورنمنٹ ہائی سکول جہلم میں مڈل تک تعلیم دلائی۔

حضرت عبداللہ خان صاحبؓ جہلم کچہری میں ملازم ہوگئےاوران کی شادی اپنے تایا صوبہ خان کی بیٹی فضل بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ حاجی عبداللہ خان صاحب کی تبدیلی جہلم سے پنڈدادن خان میں محکمہ میونسپل کمیٹی میں ہوگئی جہاں آپ چار سال سیکرٹری رہے اور وہاں سے ریٹائر ہوکر پنشن لے کر جہلم آگئے۔

حضرت عبداللہ خان صاحبؓ اور ان کی اہلیہ فضل بی بی صاحبہ کو جماعت میں داخل ہونے سے بہت پہلے حج بیت اللہ کی توفیق ملی۔

آپ کے تایا زاد بھائی ڈاکٹر یعقوب خان جو 1906ءمیں مونہ ڈپو سے بطور وٹرنری اسسٹنٹ تبدیل ہو کر سرگودھا آگئے تھےاور حاجی عبد اللہ خان صاحب پنشن لےکر جہلم بیٹھے ہوئے تھے ان کو سرگودھا بلوالیا اور کچہری میں نقل نویسی کی ملازمت مل گئی۔ آپ سرگودھا میں ہی آباد ہو گئے اور اپنا مکان بنالیا جو احمدیہ مسجد بلاک نمبر9کے ساتھ ہی ہے۔ اور جہلم سے آنے کے بعد ساری عمر یہاں ہی گزاری۔ ہمارے دادا حاجی عبد اللہ خان صاحب اور ان کی اہلیہ فضل بی بی صاحبہ کی یکے بعد دیگر ےسرگودھا میں ہی وفات ہوگئی۔ سرگودھا کے قبرستان میں دفن ہوئے لیکن ان کی قبریں معروف نہیں۔

ہمارے دادا کے چھوٹے بھائی عبدالرحمٰن خان تھے۔ ہمارے دادا نے ان کو میڈیکل سکول لاہور میں داخل کروایا تھا۔ جہاں 3سال کا کورس ہوتاتھالیکن عمل جراحی سیکھنے کے لیے طلباء کو مدفون لاشیں کھود کرلانا ہوتی تھیں اس طریق کار سے متنفر ہو کر میڈیکل کی تعلیم چھوڑ دی اور تعلیم چھوڑ کر فرخ آباد واپس چلے گئے۔

حاجی عبداللہ خان صاحب کی سیرت کے متعلق کچھ امور درج ذیل ہیں یہ امور مجھے ڈاکٹر یوسف خان صاحب کی ایک تحریر سے ملے ہیں۔

’’شہر جہلم سے حضرت حاجی عبد اللہ خان صاحب کی تبدیلی پنڈدادن خان محکمہ میونسپل کمیٹی میں ہوگئی تھی اور وہاں غالباً چار سال سیکرٹری رہے۔پھر وہاں سےپنشن لے کر جہلم آبیٹھے۔ آپ نے کئی محکموں میں استعفیٰ دے کر نئی ملازمتیں اختیار کیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاں کسی نےرشوت دینی چاہی یا قانون کے خلاف کام کروانے کی کوشش کی آپ نے وہاں ہی ملازمت سے فراغت پالی۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ سے قبل ہی بمع اہلیہ صاحبہ حج کیا تھا۔

آپ قریباً 50سے 52سال پنجاب میں رہے مگر اس لمبے عرصہ میں نہ پنجابی سیکھی اور نہ ہی بولی مگر پنجابی کے خلاف اظہار نفرت بھی نہیں کیا۔ ہر ماہ ایک یا دو دفعہ ضرورہماری دادی صاحبہ مرحومہ، یعنی اہلیہ صوبہ خان صاحب کے احسانات کو یاد کر کے فرمایا کرتے تھے یوسف دیکھوہماری یعنی حاجی عبد اللہ خان صاحب کی چچی (اہلیہ صوبہ خان صاحب ) نے ہم کو فرخ آبا د سے بلواکر پالااور یہیں تعلیم دلوائی اور پھر اپنی بیٹی سے ہمارا نکاح کر دیا جو کہ قرآن شریف کی حافظہ ہیں۔ بعض اوقات بوجہ بشریت، غربت ضعیفی فرماتے کہ اگر آج عبدالرحمٰن خان (بھائی عبدالجبار خان صاحب کا بڑا بھائی جوکہ 1908ء میں فوت ہو چکے تھے)زندہ ہوتا تو ہماری خدمت کرتا پھر جلدہی اس خیا ل کی تردید کر دیتے کہ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہم کو لاکھوں سے بہتر رکھا ہے پھر یہ شعر پڑھتے:

و آنَان که غَنی تَرْند مُحْتَاج ترْند

(ترجمہ :جو صاحب ثروت ہیں وہ زیاده ضرورت مند ہیں۔ )

پھر آپ نے ایک مولوی صاحب سے حدیث بخاری پڑھنی شروع کی اور قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا۔جب سات آٹھ سپارے حفظ کر لیتے تو پھر بھول جاتے۔ اس وقت آپ کی عمر 55سال تھی۔

میرےوالد صاحب ڈاکٹر یعقوب خان صاحب بحیثیت وٹرنری اسسٹنٹ مونہ سے تبدیل ہوکر سرگودھا ڈپو میں 1906ء میں آئے تھے اس وقت حضرت تایا صاحب6روپے پنشن لےکر جہلم بیٹھے ہوئے تھے والد صاحب نے ان کو خطوط لکھ کر سرگودھا بلوالیا اور کچہری میں نقل نویسی کی ملازمت مل گئی۔

ان دونوں نفسوں عبد اللہ خان صاحب اور ان کی اہلیہ فضل بی بی صاحبہ کی وجہ سے اکثر لوگوں کو دینی ودنیاوی فوائدپہنچے۔

حضرت تایا صاحب (یعنی حاجی عبدا للہ خان صاحب)کا عام دستور تھاکہ طعام کھاتے وقت ہر نوالہ کے ساتھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور ایسے ہی ہر نوالہ کے ساتھ الحمد للہ پڑھا کرتے تاکہ خوراک کا وقت بھی عبادت الٰہی میں شمار ہو سکے۔ ہر صبح جب کچہری کو جاتے تو ایک لمبی دعا فرماتے سورہ فاتحہ۔ سورہ اخلاص، درود شریف پڑھ کر اردو میں سب گھر والوں کے لیے دعا فرماتے اور اس کواس فقرے کے ساتھ ختم فرماتے کہ رب العالمین کسی کا محتاج نہ کرنا۔

میرے والد صاحب ڈاکٹر یعقوب خان صاحب نے آپ کی ضعیفی کے زمانہ میں کئی مرتبہ مالی امداد کر نے کی کوشش کی مگر آپ ہمیشہ ایسی خدمت سے انکار فرماتے رہے۔ آپ بیواؤں، یتیموں اور مساکین کے لیے مذہب وملت کا فرق کیے بغیر بہت رحم کرنے والا دل رکھتے تھے۔ اس وجہ سے بہت سے ہندو، سکھ، عیسائی آپ کے خیر خواہوں میں سے تھے۔

بعض عزیزوں کی پرورش و تعلیم کے ساتھ ایک سکھ یتیم لڑکے کی بھی تعلیم و تربیت میں حصہ لیا۔ آپ ہندو ؤں اور سکھوں سے جاکر اس کے لیے چندہ لایا کرتے تھے۔ نیز جب کبھی مسجد احمدیہ میں مہمان آجاتا تو نماز مغرب کے بعد اور کھانے سے پیشتر مجھے فرماتے کہ مسجد میں ایک مہمان آیا ہے۔ یوسف چلو اس کے لیے لوگوں سے کھانا مہیا کر لائیں۔

آپ نے حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کی بعض نظمیں زبانی یاد کی ہوئی تھیں اور ہمیشہ کچہری جاتے آتے وقت صفات الٰہی کے ننانوے اسماء کے دوہرانے کے علاوہ یہ نظم کَریما بہ بَخْشائے بَرْ حَال ما… اکثر پڑھتے۔ علاوہ ازیں راستے میں روزانہ آتے جاتے اگر کوئی مسلم، ہندو یا سکھ مل جاتا تو انہیں ٹھہرا کر بہت شفقت سے اسلامی تبلیغ کرتے۔ آپ سے ہندو اور سکھ ڈاکٹر کچھ فیس دوائی کی قیمت نہیں لیا کرتے تھے۔

کسی شخص کو برا نہیں کہتے تھے اور نہ ہی کسی کلمہ گو کو کافر سمجھتے تھے آپ ہمیشہ نماز تہجد پر قائم رہے اور رات کے وقت بستر میں ہی ایک پیسہ کے مٹی کے چراغ کو روشن کر کے کلام اللہ کی تلاوت فرماتے تھے۔ آپ کی روحانیت، اخلاق فاضلہ نیز حضرت والدہ صاحبہ کے کمال صبر، روحانیت اوراخلاق جمیلہ کا اس عاجز پر ازحد اثر ہوا جو میری تمام زندگی میں راہ نمائی کا ذریعہ رہا۔

نیز یہاں پر اپنی والدہ مرحومہ کے متعلق یہ ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کے اور حضرت والد صاحب جیسا سخی انسان میں نے اپنی عمر میں کہیں نہیں پایا۔

میری والدہ صاحبہ کے پاس ہندوو سکھ بھی دعا کرانے آیا کرتے تھے اور بعض اوقات کچھ پھل یا مٹھائی بطور تحفہ لاتے مگر والدہ صاحبہ ہر گزقبول نہ فرماتیں۔ جب آپ فوت ہوئیں تو سب محلہ دار بغیر فرقہ بندی اور بعض ہندو سکھ بھی آپ کے جنازہ میں شامل ہوئے۔

ان کے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ میں تین اور دُور کے رشتہ داروں کے ذکر خیر کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ماسی کرم بی بی صاحبہ (خاکسار کی والدہ عائشہ بیگم صاحبہ کی والدہ)کے بزرگ خاوند میاں احمد صاحب (گھڑی ساز) اور ان کے دادا امیرالدین صاحب یہ دونوں بزرگ حضرت مسیح موعود ؑ کے پرانے صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی عالم، متقی اور جہلم کی دونو ںاحمدیہ مساجد کے دو تین مرتبہ لمبے عرصہ کے لیے امام رہے۔ اور اس عاجز نے اس گول زمین کا گذشتہ 56سال سفر کیا ہے اور اکثر اوقات ہر قسم وملت کے علماء، صلحاء، سائینٹسٹس فلاسفروں سے معاملات پڑے ہیں مگر حضرت تایا حاجی عبد اللہ خان صاحب جیسا متقی اور فراخ دل انسان کبھی نہیں پایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ عاجز ان بزرگوں کے لیے تہجد اور دن میں دومرتبہ روزانہ دعا گو رہتا ہے اور یہی خواہش کرتا ہے کہ آخرت یہی ہے کہ ان حضرت کے ساتھ رہائش کی خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ تعالیٰ ان سعید روحوں پر اپنا درود، برکات و رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔ ‘‘

(تحریر محمد یوسف خان صاحب ختم شد)

میرے والد عبدالجبار خان، تاریخ وفات دسمبر 1963ءحاجی عبداللہ خان صاحب کے بیٹے تھے۔ سرگودها كے عام قبر ستان ميں دفن ہیں۔

میری والدہ صاحبہ کا نام عائشہ بیگم ہے۔ آپ 1906ء میں پیدا ہوئیں اورآپ کی وفات 1987ءمیںہوئی۔ آپ بہشتی مقبرہ(دارالفضل)ربوہ میں دفن ہیں۔

میری دادی فضل بی بی صاحبہ نے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہو ا تھا۔ ان کی وفات کے بعد میری والدہ صاحبہ نے اس کو تاحیات جاری رکھا۔ احمدی بچوں کے علاوہ کثرت سے دوسرے بچے بھی آپ سے قرآن مجید پڑھتے رہے۔

والدہ صاحبہ کے والد کانام میاں احمد تھا۔ جو گجرات کے رہنے والے تھے لیکن جہلم میں گھڑی ساز کی دکان تھی اور وہیں رہائش تھی۔ اور جب حضرت مسیح موعودؑ 1902ء میں کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے تو اس وقت حضور کی بیعت کی۔

میاں احمد صاحب کے والد یعنی میرے پڑ ناناکانام امیرالدین صاحب ہے۔وہ بھی حضر ت مسیح موعود ؑکے صحابی تھے۔ انہوں نے 103سال عمر پائی۔ میں نے بچپن میں ان کو دیکھا ہو ا ہے ان کی تدفین گجرات کے قبرستان میں ہوئی تھی۔ لیکن مخالفین نے ان کی قبر دو دفعہ اکھاڑ دی۔ اب قبر معروف نہیں۔

میاں احمد صاحب

جیسا کہ میں لکھ چکی ہوں میرے نانامیاں احمد صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحابی تھے۔ 26؍جون 1916ء کو 37 سال کی عمر میں گجرات میں وفات پائی۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ ان کی قبر معروف نہیں۔

نظام وصیت میں شمولیت

حضرت مسیح موعود ؑنے رسالہ الوصیت دسمبر 1905ء میں شائع فرمایا۔

آپ نے دسمبر1906ء میں ہی وصیت کے لیے درخواست قادیان بھیج دی ان کے خط پر ڈاکخانہ کی مہر GUJRAT CITY 29 DE 06 (یعنی 29؍دسمبر1906ء ) کی ہے۔

ان کی وصیت کی تحریر کی نقل درج ذیل ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہُ ونصلی علی رسولہ الکریم

(1) میں مسمی احمدولد امیر الدین قوم ملک سکنہ گجرات بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلا جبرواکراہ۔ اپنی رضامندی اور خوشی سے آج بتاریخ یکم دسمبر1906ء حسب ذیل وصیت کرتا ہوں اور لکھ کر کہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اس وصیت پر عمل کریں۔

(2) میں اقرار کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب ؑمسیح موعود رئیس قادیان ضلع گورداسپور کے کل دعاوی پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہوں اور مرید اور پیروہوں۔

(3) میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے رسالہ الوصیت جو حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے بتاریخ24دسمبر 1905ءشائع ہواہے تمام و مکمل پڑھ لیا ہے میں ان ہدایات کی جواس میں درج ہیں پابند ہوں اور ایسا ہی میں ان تمام ہدایات اور ضوابط اور قواعد کا بھی پابند رہوں گاجورسالہ الوصیت کےبعد حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سےیا ان کی مقرر کردہ انجمن احمدیہ قادیان کی طرف سےبہشتی مقبرہ واقع قادیان کے متعلق یا دیگر اغراض انجمن مذکورہ کے متعلق شائع ہوئے یا ہوں گے۔ میرا ان تمام اور ایسا ہی میرے بعد میرے ورثاان تمام ہدایات ضوابط مشتہرہ انجمن مذکورہ کے معاملہ وصیت ہٰذامیں پابند رہیں گے۔

(4) میری کوئی جائیداد نہیں میں اپنی ماہوار ی آمدنی کا دسواں حصہ اغراض انجمن مذکورہ و لنگر خانہ و اعانت میگزین میں دونگا-10ماہواری کارپردازان مقبرہ بہشتی۔ 10لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ۔ 4اعانیت میگزین یبہ ماہواری چندہ سہ ماہی تک اداکردیاکرونگا۔

(5) اگر میری آمدنی اس کے بعد بڑھ گئی تو میں اس کا بھی10/1زائداداکرونگا۔

(6) میں یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میراجنازہ احمدی جماعت پڑھے اور اگر میں قادیان میں فوت ہوں یا کسی اور جگہ تو احمدی جماعت میری لاش ایک صندوق میں بند کر کےبہ ہدایت انجمن مذکورہ جواب شائع ہوچکے ہیں۔ یا آئندہ شائع ہوں گے۔ دارالامان قادیان میں پہنچا دی جاوے۔ اور وہاں کارپردازمقبرہ بہشتی کے سپرد کی جاوے۔

(7) میری یہ بھی وصیت ہے کہ میری تجہیز و تکفین اور میری لاش کو قادیان شریف پہنچانے اور وہاں دفن کرنے کے متعلق جس قدراخراجات ہوں۔ ان اخراجات کا حسب مشورہ کارپردازان مقبرہ بہشتی اندازہ کر کے میں رقم اخراجات انجمن مذکورہ کو حوالہ کر دوں گا جس کا انجمن مذکورہ کی طرف سے میں ادا کرونگا۔ اور اگران اخراجات کے لئےمیری کوئی رقم اپنی زندگی میں الگ نہ کر سکااور ایسا ہی اگر وہ رقم ادا کردہ اصلی اخراجات سے کم ہوئی تومیری متروکہ جائیدادان اخراجات کی متکفل ہوگی اور میرے ورثا ان اخراجات کے اداکرنے کے ذمہ دار ہوں گےجو میری روح کی نجات کا باعث ہوں گےاور میرے پسماندگان ان اخراجات کو اہم اور جائز ضرورت شرعی سمجھیں گے۔

(8) یہ بھی اقرار کرتاہوں کہ میں نے یہ وصیت صرف ابتغاء لوجہ اللّٰہ کی ہے۔ اور اگر حالات آئندہ کے ماتحت جن کا مجھےاس وقت علم نہیں میری لاش مقبرہ بہشتی میں دفن نہ ہوسکے تو اس صورت میں بھی میری یہ وصیت قائم رہے گی۔ لیکن یہ ضروری ہو گا کہ میری لاش کو مقبرہ بہشتی میں پہنچانے کی کوشش کی جاوےاور جب تک کارپردازان مقبرہ بہشتی اجازت نہ دیں میری لاش کہیں اور دفن نہ کی جاوے البتہ امانت کے طور پر کہیں اور دفن کیجاسکتی ہے۔

(9) یہ کہ اگر حسب فقرہ تحت میری لاش مقبرہ بہشتی دفن نہ ہوسکے تو جو اخراجات متعلق انتقال لاش میں جمع کروا چکا ہوں گا یا میری جائیداد متروکہ سے وصول ہوئے تھے اس کو بھی وصول کرنے اور خرچ کرنے کا اختیار میرے ورثا کو نہ ہوگا بلکہ انجمن کو ہوگا۔

گواہ شد:

آپ کی وصیت کانمبر609ہے۔

آپ کی میت قادیان نہ لے جائی جاسکی اور گجرات شہر میں ہی تدفین ہوئی۔ آپ کا یاد گار کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں چار دیواری کے اندر والے حصہ میں لگا ہوا ہے۔

دفتر بہشتی مقبر ہ کے نام ایک خط میں لکھا کہ جنوری 1906ءسے مارچ 1906ءتک چندہ 6؍اپریل کو بھیج دوںگا۔

ہماری والدہ عائشہ بیگم صاحبہ، حضرت میاں احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ میاں احمد صاحب کی اہلیہ کا نام کرم بی بی صاحبہ تھا جو سرگودھا میں دفن ہیں۔ ان کا تعلق بھی گجرات سے تھا۔

ہمارے والدعبدالجبار خان صاحب کے حسب ذیل بہن بھائی تھے۔

1۔ عبدا لجبار خان صاحب خود

2۔ ایک بہن مریم بی بی۔ جو صوبہ سرحد میں بیاہی ہوئی تھیں۔ ان کے خاوند کو بوجہ احمدی ہونے کے کسی نے شہید کر دیا تھا۔ ان کے خاوند کانام شاہ محمد خان صاحب تھا۔ ان کے ایک بیٹے حبیب احمدخاں تھے جو محکمہ جیل خانہ جات صوبہ سرحد میں کسی جگہ (غالباً مردان میں )ملازم تھے۔ یہ وفات پاچکے ہیں۔ ان کی دو بہنیں بھی تھیں جن کے نام معلوم نہیں۔

حبیب احمد خان صاحب کے دوبھائی امریکہ میں آبادہیں۔

1۔ بشارت احمد خان صاحب

2۔ مبارک احمد خان صاحب

3۔ ایک بیٹی حضرت احمد نور صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں جن کی کوئی اولاد نہ تھی۔

ہماری والدہ عائشہ بیگم صاحبہ کے بھائی جوانی میں فوت ہو گئے تھے۔ ایک بھائی ملک نذیر احمد صاحب کچھ مدت زندہ رہے۔ ان کے دو بیٹے تھے۔

1۔ مکرم ملک محمود احمد مرحوم(شیزان میں ملازم تھے)

2۔ مکرم ملک ناصر احمد مرحوم قبرستان عام ربوہ میں دفن ہیں۔ ان کی والدہ اقبال بیگم صاحبہ بہشی مقبرہ دارالفضل میں دفن ہیں۔ آپ 1906ء میں پیدا ہوئیں اورآپ 10؍جون 1990ء کو وفات پا گئیں۔

مکرم ملک محمود احمد صاحب نے اپنے والد (میاں احمد صاحبؓ)اور دادا (ملک امیر الدین صاحب )کے حالات لکھے ہوئے ہیں۔ محترم ملک محمو د احمد ناصر صاحب نے لکھا ہے کہ ہمارا تعلق گجرات شہر سے ہے۔ ہمارے دادا اور والد کامکان گجرات میں ہی ہے۔ ہمارے دادا اور والد کی وفات اسی مکان میں ہوئی۔ ہمارے دادا امیر الدین صاحب کے پاس چارپائی پر تکیہ کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب حقیقة الوحی رکھی ہوئی ہوتی تھی جب آپ لیٹتے اس کو کھولتے اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے چہرہ مبارک کو دیکھتے۔ بہت ہی صابر شاکر انسان تھے۔ آپ کے تمام بیٹے، پوتے سوائے ایک پوتی (خاکسار ہ کی والدہ)ان کی زندگی میں عین عالم جوانی میں وفات پاگئےتھے۔ اس سب کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی تھے۔ کہتے ہیں کہ جب آپ کے آخری پوتےملک نذیر احمد صاحب فوت ہوئے تو انہوں نے ان کی میت کے پاس کھڑے ہوکر کہا اے اللہ میں تیری رضا پر راضی ہوں۔

آپ نے تمام عمر انتہائی بڑھاپے کی حالت میں بھی کبھی نماز نہیں چھوڑی۔

آپ اپنا ایک واقعہ سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں کشمیر خانپار میں تھا(آپ کشمیری تھے)وہاں ایک مزار پر گیا۔ غالباً تھکاوٹ کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئےتو کہتے ہیں کہ عین بیداری کی کیفیت میں آپ کی حضرت عیسٰی ؑسے ملاقات ہوئی۔

مکرم عبد الجبار خان صاحب مرحوم کی اولاد حسب ذیل ہے:

1۔ عبدالغفارخان صاحب مرحوم ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر

یہ بہشتی مقبرہ دارالفضل میں دفن ہیں۔ 1974ء کے سٹیشن کے واقعہ کے سلسلہ میں ان کے خلاف بھی مقدمہ قائم ہوا تھا۔

2۔ عبدالستار خان صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا کے مشہور وکیل تھے۔ اور ساری عمر وہیں practice کی۔

ربوہ کے عام قبرستان میں دفن ہیں۔

3۔ عبدالسلام خان صاحب سرگودھا میں محکمہ فوڈ میں ملازم تھے۔

1974ء میں ان پر مخالفین نے راستہ پر جاتے ہوئے لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا۔

9بلاک والا مکان ان کی ملکیت تھا۔ یہ مکان 1974ء کے احمدی مخالف فسادات میں جلادیا تھا۔ اور سارا سامان لوٹ لیا گیا۔

عبدالسلام خان صاحب، ان کی فیملی اور ان کی والدہ ہجرت کر کے ربوہ آگئے۔

قریباً ایک سال بعد عبدالسلام صاحب کے مکان کو مرمت کر دیا گیا اور دوبارہ سرگودھا میں رہائش اختیار کی۔

4۔ عبدالرحمٰن خان صاحب واپڈا میں آفس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شیخوپورہ میں آباد ہوگئے۔ آج کل اپنے بچوں کے پاس کینیڈا میں ہیں۔

5۔ عبد الرحیم خان صاحب ریٹائر ڈ ڈی ایس پی (لیگل)آج کل اپنی بیٹی کے ساتھ شارجہ میں مقیم ہیں۔

6۔ بیٹی صفیہ خانم مرحومہ صاحبہ اہلیہ قریشی محمد نصر اللہ صاحب مرحوم۔ احمدیہ قبرستان فیصل آباد میں دفن ہیں۔

قریشی صاحب بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں دفن ہیں۔ آپ کی وفات 30؍جنوری 2008ء میں ہوئی۔

7۔ خاکساررضیہ خانم۔ خاکسار کی شادی چودھری حمیداللہ صاحب سے 1960ء میں ہوئی۔ اس وقت سے ربوہ میں مقیم ہوں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button