حضرت مصلح موعود ؓ

عید الاضحی اور قربانی کے معانی: حضرت مصلح موعودؓ کے بصیرت افروز ارشادات سے ایک انتخاب

(سید احسان احمد۔ مربی سلسلہ الفضل انٹرنیشنل لندن)

مسلمان مذہب اسلام کی ہر تعلیم، ہر حکم اور ہر ارشاد کو پُرحکمت جانتے ہیں۔ عید الاضحی اور اس موقعے پر کی جانے والی قربانی کے فلسفے اور حکمت کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشادات سے ایک انتخاب پیش ہے۔

رؤیا ابراہیمی کی حقیقت

٭…’’ دراصل یہ رؤیا ایک بنیاد تھی جس کا دامن قیامت تک کے لئے وسیع تھا اور اس رؤیا کے دونوں پہلو تھے مُنذر بھی اور مبشر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ رؤیا کے منذرحصّہ کی تکالیف اور دُکھ سے بچنے کے لئے بکرے کی قربانی ادا کرو۔ چنانچہ اسی ابراہیمی سنت کے ماتحت مسلمانوں کو بھی قربانی کا حکم ہے۔ اور اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ مگر چونکہ اس رؤیا کے دونوں پہلو ہیں منذر بھی اور مبشر بھی اسی وجہ سے اس قربانی اور صدقہ میں فرق ہے۔ صدقہ کی قربانی کا گوشت انسان کو خود کھانا جائز نہیں مگر اس قربانی کا گوشت انسان خودبھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے دوستوں اور غرباء و مساکین میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ26؍اگست1920ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 61)

اسلام میں قربانی کی حقیقت

٭…’’قربانی کے معنے ہیں کہ انسان ایک مُردہ کی طرح ہوجائے۔ جو بدست زندہ ہو وہ اسے جدھر چاہے پھیر دے اور جہاں چاہے رکھ دے۔ نہ کوئی اس کی خواہش ہو اور نہ اس کا اپنا کوئی جذبہ ہو۔ وہ اپنے ارادے اور نیت کو بالکل کھو چکا ہو۔ ایسا مُردہ انسان بلکہ بے حس و حرکت پتھر بھی لاکھ درجہ بہتر ہے اس انسان سے جو اپنے ظاہری اعمال سے اپنے اسلام و فرمانبرداری کا دعویٰ کرے مگر امتحان کے وقت جھوٹا ثابت ہو اور اِباء و استکبار کرے۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی 1920ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 61تا 66)

٭…’’اسلام کا اصل الاصول قربانی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسمٰعیلؑ کو قربان کر کے آئندہ نسلوں کے لئے ترقیات اور وصول الیٰ اللہ کی سنت قائم کردی اور کمال فرمانبرداری کا نمونہ دکھا کر اپنا مذہب کھول کر بتا دیا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جب تک خدا کے لئے اپنے اوپر ایک موت وارد نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہر قسم کی ذلت اور رسوائی کو اپنے اوپر لینے کے لئےتیار نہیں ہوجاتا اور مشکلات اور مصائب کے خار دار کوہ و دشت میں نہیں پھینکا جاتا۔ اور دنیا سے بالکل منقطع ہو کر کاٹا نہیں جاتا اس وقت تک قبول بھی نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ26؍اگست1920ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 64)

٭…’’لوگ بالعموم قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ مَیں دیکھتا ہوں طبائع میں عام طور پر کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا مادہ بہت کم پایا جاتا ہے۔ نفس کا مارنا اور خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی تمام تر خواہشات اور امنگوں کو قربان کر کے گردن ڈال دینا، اپنا آپ بھلا کر تمام تر خدا کے لئے ہوجانا اور اِباء و استکبار کو ترک کر دینا نہایت ہی مشکل اور موت سے بھی سخت تر ہے۔ بہت ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے پابند ہوں گے۔ مالوں کی قربانی میں دلیری اور حوصلے سے کام لیں گے۔ نفسانی خواہشات کو قربان کر کے ایثار کا ثبوت دیں گے۔ بدنی اور جسمانی خدمات کے لئے کمر بستہ ہوں گے اپنے اوقات گرامی کی قربانی کے لئے آمادہ نظر آئیں گے مگرتعمیل فرمانبرداری اور ترکِ اِباءو استکبار کے امتحان میں کچے نکلیں گے اور پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ وہ اعمال تو ایسے ہیں کہ کرتے کرتے ان کی عادت پختہ ہوجاتی ہے۔ اور وہ انسان کے ایسے عادت ثانی ہوجاتے ہیں کہ پھر ان کا ترک کرنا انسان کے واسطے مشکل ہوجاتا ہے۔

مگر فرمانبرداری اس بات کا نام ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی روح اور اس کے قلب میں ایک ایسااحساس پیدا ہوجائے کہ وہ ان تمام احکام کی فرمانبرداری اور تعمیل کے لئے ایسا کمر بستہ ہوجائے کہ جب بھی کوئی حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس کے رسولوں اور انبیاء کی طرف سے یا اُن کے نُوّاب اور خُلفاء کی طرف سے صادر ہو۔ سو یہ اس کے ماننے اور فرمانبرداری کے لئے اپنے دل میں کوئی خلش نہ پائے۔ اور تعمیل کے لئے بالکل تیار ہو۔ اِباء و استکبار اور نافرمانی کا خیال ووہم تک بھی اس کے قلب میں نہ گذرے۔ پس انسان ہزار نمازیں پڑھے، صدقات دے اور ظاہری قربانیاں ادا کرے مگر جب تک وہ قلب سلیم نہیں جس میں یہ یقینی عزم ہو کہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کرنا، اِباء و استکبار نہیں کرنا اور خدا تعالیٰ کے لئے ہر موت اپنے اوپر وارد کرنا منظور ہے تب تک کچھ بھی نہیں۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ26؍اگست1920ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 65)

لفظ ’قربانی‘ میں لطیف متضاد جذبات

٭…قربانی ایک عجیب لفظ ہے جوکئی ایک متضاد جذبات کا جامع ہے۔ عام طور پر متضاد جذبات جمع نہیں ہوا کرتے اور جو الفاظ محبت پر دلالت کرتے ہیں وہ ساتھ ہی راحت اور آرام پر بھی دلالت کرتے ہیں لیکن تکلیف اور دکھ پر دلالت نہیں کرتے۔ اور جو الفاظ تکلیف اور دکھ کے مفہوم پر دلالت کرتے ہیں وہ راحت، آرام اور محبت کے مفہوم پر دلالت نہیں کرتے۔ مگر قربانی ایک ایسا جامع لفظ ہے جو جدائی اور وصال، تکلیف اور راحت، خوشی اور غم ان سارے ہی متضاد جذبات کا جامع اور ان پر مشتمل ہے۔ یہ لفظ جس وقت ایک انسان کے قلب میں پیدا ہوتا ہے اور جس وقت اس کے دماغ پراس کا اثر ہوتا ہے وہ ایک ہی وقت میں یہ ساری باتیں محسوس کرتا ہے اور قربانی کا لفظ خود اپنی ذات میں اس کا ثبوت ہوتا ہے بلکہ اُردو میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ بھی وہی معنی رکھتا ہے جو عربی زبان کے لفظ کے ہیں۔ قربانی قرب پر بھی دلالت کرتی ہے اور ذبح ہونے پر بھی۔ ذبح ہو کر یعنی اپنی جان خدا تعالیٰ کے راستہ میں دے کر انسان بظاہر اپنے عزیزوں سے جدا ہوتا ہے مگر قربانی ایسی چیز ہے کہ وہ جدائی میں بھی وصال کے سامان پیدا کر دیتی ہے جس وقت ایک مسلمان سپاہی میدانِ جنگ میں مر کر بظاہر اپنے پیاروں سے جدا ہو رہا ہوتا ہے حقیقتاً وہ اپنے پیاروں کے قریب بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ سب سے پیارا وجود تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتا ہے وہ اپنے خدا کے قریب ہوجاتا ہے۔ پھر انسان کے جتنے عزیز اور پیارے دنیا میں ہوتے ہیں ان سےزیادہ عزیز اور پیارے اگلے جہان میں جاچکے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا میں کسی کا باپ زندہ ہے اور شہادت سے اس کے اور اس کے باپ کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے۔ تو اس کے کئی دادے اور پڑدادے ایسے ہوتے ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں سال سے اگلے جہان میں اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا میں اس کی والدہ زندہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دے کر اس سے جدا ہوتا ہے تو اس کی کئی دادیاں اور نانیاں اس سے محبت کرنے والی اگلے جہان میں موجود ہوتی ہیں۔ اور اگر دنیا میں اس کی اولاد ہے تو خدا تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت اکثر لوگوں کی اولاد کچھ زندہ رہتی اور کچھ مر جاتی ہے۔ پس اگر اس دنیا میں اس کی کچھ زندہ اولاد موجود ہوتی ہے تو اس کی کچھ اولاد اگلے جہان میں بھی ہوتی ہے جس سے جا ملتا ہے۔ تو قربانی گو رنج اور درد کا جذبہ اپنے اندر رکھتی ہے مگر ساتھ ہی راحت اور آرام کا جذبہ بھی اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اور آج کا دن جو قربانی کا دن ہے، وہ اس قربانی کو یاد دلاتا ہے جو نہایت ہی کامل رنگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور پیش کی۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ 4؍مارچ 1936ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 188تا 189)

٭…’’ تم میں سے بہت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے غم میں شریک ہو سکتے ہیں۔ تم میں سے بہت ان کے درد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ تمہارے دماغ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دماغ کی نقل کرسکتے اور تمہاری آنکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں کی نقل کر کے آنسو بہا سکتی ہیں مگر تم میں سے بہت کم ان کے دل کی نقل کر سکیں گے جو اس امید اور یقین سے پُر تھا کہ میرے ربّ نے مجھے اپنے لئے چن لیا۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنے کے لئے چھری اُٹھائی تو اس وقت غالب خیال ان کے دل میں نہ تھا کہ میرا بیٹا مجھ سے جُدا ہو رہا ہے بلکہ یہ خیال غالب تھا کہ میرا خدا میرے قریب ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قربانی کو یاد رکھا ورنہ قربانیاں دُنیا میں ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں۔ اس قربانی میں ایک امتیازی نشان تھا اوروہ یہ کہ حضرت ابراہیمؑ کے دل میں درد اور غم کے جذبات غالب نہ تھے۔ بلکہ یہ خیال غالب تھا کہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ مجھ سے کام لے رہا ہے۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ 4؍مارچ 1936ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 190)

نسل اسماعیلی میں عظیم الشان قربانی کی بے نظیر مثال

٭…’’ یہ قربانی تھی جس کی طرف اشارہ تھا اور یہی وہ قربانی ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کو بھی کرنا تھی۔ پہلی کتابوں میں یونہی لکھا تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے خلاف تمام دنیا کا ہاتھ اٹھے گا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کا ہاتھ تمام دنیا کے خلاف ہوگا۔ چنانچہ پیدائش باب 16 میں یوں بیان ہوا ہے:

’’اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے۔ اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔ ‘‘

اور جس کا یہ حال ہوکہ تمام دنیا اس کے خلاف جمع ہوجائے اسے قربانی بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ حضرت اسماعیل کی اولاد کی اولاد میں سے آپ کے حقیقی وارث حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی سب سے بڑی قربانی کرنی پڑی چنانچہ اسی مقام پر جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ہجرت کرنی پڑی تھی۔ اسی مقام پر آپ کا دانہ اور پانی روک دیا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام تو ایسے وقت میں وہاں پہنچائے گئے تھے کہ وہاں دانہ پانی تھا نہیں مگر یہاں یہ حالت ہے کہ دانہ اور پانی تو موجود ہے مگر پہرہ مقرر کردیا جاتا ہےکہ ان کو دانہ نہ پہنچے اور نہ پانی۔ اور متواتر چھ سال تک یہی حالت رہتی ہےحتیٰ کہ فاقوں کی وجہ سے لوگوں کے چہرے پہچاننے مشکل ہوگئے اور پھر یہ وہی قربانی کے ایام ہیں جن میں آپ کی نہایت پیاری بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہی مشکلات،مصائب اور مشقتوں میں فوت ہوئیں۔ ‘‘

٭…’’حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واسطے تو وہ مشکل چند روزہ تھی۔ مگر یہاں متواتر چھ سال کا عرصہ انہی مشکلات میں بسر کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بڑی قربانی آپ کو اس لئے کرنی پڑی کہ آپؐ ہی وہ نبی تھے جن کا ہاتھ تمام دنیا کے خلاف اور جن کے خلاف تمام جہان کھڑا ہونے والا تھا۔ ‘‘

(خطبہ عید الاضحی 1920ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 63)

سلسلہ عالیہ احمدیہ میں اسماعیلی رنگ

٭…’’ہماری جماعت بھی وہ نیا پودا ہے جسے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں لگایا۔ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام کیا۔

غَرَسْتُ لَکَ بَیَدِیْ دَوْحَۃَ اِسْمٰعِیْلَ۔

اس کے یہی معنے ہیں کہ جس طرح اسماعیلؑ کو علیحدہ کر کے بسایا تھا۔ اسی طرح احمدیت کو بھی دوسروں سے علیحدہ قائم کروں گا۔ چونکہ لوگوں نے اعتراض کرنا تھا کہ ان لوگوں نے اپنی نمازیں، شادی بیاہ، جنازہ وغیرہ کیوں علیحدہ کر لئے؟ اس لئے اس الہام میں خدا تعالیٰ نے اس کا ایک جواب دیا ہے کہ اسمٰعیل کو بھی ابراہیمؑ نے دوسروں سے بالکل علیحدہ کر دیا تھا اور یہ ظلم وفساد اور تفرقہ نہیں تھا بلکہ ضروری تھا تا محمدیؐ نور ترقی کر سکے۔ اس زمانہ میں بھی محمدی نور مدھم ہورہا تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے پھر احمدیت کے پودے کو علیحدہ کر کے لگایا اور اسماعیلی پودے کی طرح اسے بھی وادیٔ غیر ذی زرع میں لگایا یعنی قادیان میں جو ترقی یافتہ اور متمدن دنیا سے بالکل الگ اور علیحدہ مقام ہے۔ پھر اس کی حفاظت بھی ایک بے کس و ناتواں جماعت کے سپرد کی تا دنیا اس کی طرف لالچ کی نگاہ سے نہ دیکھے اور محمدی نور پھر دنیا میں ترقی کرے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک نادان بوڑھا مالی جو اپنے پرانے درختوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے نئے درخت لگائے جانے کو اپنی ہتک سمجھتا ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ اس کا باغ تباہ ہونے والا ہے اور اگر پھل کو دنیا میں قائم رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ نئے نئے درخت لگائے جائیں۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ10؍مئی1930ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ136)

عید الاضحی ہمیں ایک دوسرے کی خاطر قربانی دینے کا سبق دیتی ہے

٭…’’یہ عید جہاں ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ خدا تعالیٰ جب کسی قوم کو ترقی دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے علیحدہ کر کے ایسے مقام پر کھڑا کرتا ہے جہاں دوسرے اس سے نہ مل سکیں۔ اور جہاں کھڑا رہنا بظاہر اس کی تباہی کے مترادف ہو لیکن خدا تعالیٰ کی نصرت اسے بڑھاتی ہے۔ وہاں ہمیں اس عید سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ بغیر قربانی کے اتحاد نہیں ہوسکتا۔ اس عید کے موقعہ پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں تا خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں۔ اور اس کے یہ معنے ہیں کہ قربانی کے بغیر نہ باہمی اتحاد ہوسکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ سے وصال۔ آج کے دن بکرے کھانے کے لئے ذبح نہیں کئے جاتے بلکہ کھلانے کے لئے کئے جاتے ہیں جس کے یہ معنے ہیں کہ ہم دوسروں کے لئے اپنا خون اور گوشت قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ہم نے کئی دفعہ ایسے لطیفے دیکھے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کے ہاں گوشت بھیجا اس نے آگے کسی اور کے ہاں بھیج دیا۔ اور اس طرح دس بارہ گھروں میں پھر پھرا کر وہی گوشت اسی کے گھر آگیا جس نے بھیجا تھا۔ اور اس نے اپنا بھیجا ہوا گوشت پہچان لیا۔ ہم اسے بے فائدہ کام نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس گوشت نے دس بارہ آدمیوں سے اس بات کا اقرار لے لیا ہے کہ ہم اپنا خون اور گوشت پوست ایک دوسرے کے لئے قربان کرنے کو تیار ہیں وہ اپنے ساتھ دس بارہ برکتیں لے کر آیا۔ اب اگر وہی گوشت بھیجنے والے کے گھر میں پکے تو وہ اس کے لئے برکت کا موجب ہوگا کیونکہ وہ دس گھرانوں سے اتحاد کااقرار کراچکا ہے۔

آج کے دن جو قربانی کی جاتی ہے وہ اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کو تیار ہیں اور پھر یہ خدا کے سامنے اقرار ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو تیرے لئے قربان کرنے کو تیار ہیں، نیز یہ اتحاد کا دن ہے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ پس اپنے دل میں عہد کرو کہ ہم اپنے بھائی کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں اگر کسی کو تباہ ہوتا دیکھو تو ہر ممکن قربانی کر کے اسے بچاؤ۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ10؍مئی1930ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ138)

سورۃ الکوثر کی لطیف تفسیر کی روشنی میں عید الاضحی اورجماعت احمدیہ کا خصوصی تعلق

٭…’’یہ عیدہمارے سلسلہ سے خاص تعلق اور مناسبت رکھتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس عید کو ہمارے سلسلہ میں ایک خاص خصوصیت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی کسی جمعہ یا عید کا خطبہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ مگر ایک مرتبہ اسی عید کے موقعہ پر الہام کے ذریعہ حکم ہوا کہ خطبہ پڑھیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھا اور اب وہ خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ کر موجود ہے۔ تو یہ عید ہمارے سلسلہ سے ایک خاص مناسبت اور تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مناسبت بیان فرمائی ہے۔ جو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کو عیدالاضحی سے مشابہت بتائی ہے اور وہ مشابہت اللہ تعالیٰ نے سورۂ کوثر میں بیان کی ہے جو مَیں نے ابھی پڑھی ہے۔ فرماتا ہے:

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکُوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ۔ ‘‘

٭…’’اس سورۃ میں لفظِ کوثر رکھ کر خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے کہ ہم نے تجھے خیر کثیر دیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی۔ اس کا نمونہ کسی اور جگہ نہیں پایا جاتا۔ دیکھو کتاب ملی تو وہ کہ جس کا نمونہ تمام دنیا میں نہیں مل سکتا۔ اس کا مقابلہ وہ کتابیں بھی نہیں کر سکتیں جو الہامی کہلاتی ہیں۔ پھر انسانوں کی بنائی ہوئی کتابوں نے کیا کرنا ہے جس طرح سورج چڑھنے سے تمام دیئے گُل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کے نازل ہونے پر باقی تمام کتابیں بے نور ہوگئیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو روحانی درجہ حاصل ہوا۔ وہ بھی خیر کثیر کا نمونہ تھا۔ پھر آپ کو جو اخلاق عطا کئے گئے وہ بھی ایسے تھے کہ جن کا نمونہ ملنا محال ہے۔ پھر جو صحابہؓ ملے وہ بھی ایسے کہ جن کا نمونہ صفحۂ عالم سے ناپید ہے۔ کوئی قوم ان کے مقابلہ پر نہ ٹھہر سکی۔ انہوں نے اطاعت کی تو ایسی کہ کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس کی جماعت نے ان جیسی اطاعت کی ہو۔ ‘‘

٭…’’پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ہم نے تجھے ایسی خیر کثیر عطا کی ہے جو اسی دنیا میں ختم ہونے والی نہیں بلکہ جنت میں بھی جاری رہے گی۔ یہ معنے کرنے سے کفار کا اعتراض ردّ ہوجاتاہے اور یہی درست ہیں۔ گویا ان کو کہا گیا ہے کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ اس میں کوئی خیر نہیں تو یہ غلط ہے۔ ہم نے تو اسے اتنی خیر عطا کی ہے کہ جو نہ صرف اس دنیا تک محدود ہے بلکہ آخرت میں بھی جائے گی اور اگر کہو کہ اس کی اولاد نہیں تو ہم اسے ایک ایسا بیٹا دیں گے۔ جو بہت نیک اور بڑا سخی ہوگا۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہاں ہم عقل و فکر سے کام لیں اور قرآن کریم کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس اولاد کا ذکر کیا گیا ہے وہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے۔ کیونکہ جسمانی اولاد کے متعلق تو خدا تعالیٰ صاف طور پر فرما چکا ہے کہ یہ نبی تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہے۔ ‘‘

٭…’’یہ بات باقی رہ گئی ہے کہ یہ خبر کس زمانہ اور کس وقت میں پوری ہونی چاہیئے تو یہ صاف بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفار کا روحانی اولاد کے سلسلہ کے نہ چلنے کے متعلق اعتراض نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علی ؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور بہت سے اعلیٰ شان اور درجہ کے صحابہ موجود تھے۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد روحانی سلسلہ کو جاری رکھ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جاری رکھا تو یہ اعتراض اس وقت ہوسکتا تھا جبکہ یہ خطرہ ہو کہ روحانی نسل کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اس لئے ایسے ہی زمانہ کے متعلق یہ خبر ہے کہ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس وقت مسلمان یہودی اور نصاریٰ ہو جائیں گے۔ پس جس زمانہ میں مسلمان یہودی اور نصاریٰ ہوگئے تو پھر یہ صاف بات ہے کہ اس وقت وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد نہیں ہوسکتے۔ اسی وقت یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ پھر ان کی روحانی اولاد کا سلسلہ کس طرح چلے گا۔ اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکُوْثَرَ۔

ہم تجھے اس وقت ایک ایسا بیٹا دیں گے جس سے روحانی نسل چلے گی۔ ‘‘

٭…’’پھر ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو وہ لوگوں کو اس قدر مال دے گا کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔ یعنی وہ اس قدر سخی ہوگا کہ ساری دنیا پر اس کی سخاوت پھیل جائے گی۔ اس کے متعلق یُفِیْضُ الْمَالَ بھی آیا ہے اور یَفِیْضُ الْمَالَ بھی کہ وہ خوب مال لٹائے گا اور لوگوں کو خوب مال ملے گا۔ مگر لوگ نہیں لیں گے ہاں اس کی طرف سے دینے میں کوئی کوتاہی نہ ہوگی تو گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا نام دوسرے لفظوں میں کوثر رکھا ہے کیونکہ کوثر کے معنے بہت سخی کے بھی ہیں۔ اور مسیح کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اس قدر سخاوت کرے گا کہ لوگ قبول نہیں کریں گے۔ عام طور پر سخی اس کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی مانگے اور وہ دے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ خود لوگوں کے پاس جا کر مال دے گا۔ نہ یہ کہ جب اس سے مانگنے آئیں گے تو دے گا۔ یہ بہت بڑھ کر سخاوت ہے اور یہ صرف حضرت مسیح کے متعلق ہی فرمایا ہے اور کسی کے متعلق نہیں فرمایا۔ اور ایسے ہی آدمی کو کوثر کہہ سکتے ہیں۔ تو

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکُوْثَرَ

میں مسیح موعود کی آمد کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ‘‘

٭…’’ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ اس سورۃ میں حضرت مسیح موعوؑد کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی ہے نیز اسے عید اضحی سے مشابہت دی گئی ہے کیونکہ اس میں نماز پڑھنے اور قربانی دینے کا حکم ہے۔ اور یہی وہ عید ہے جس کے موقعہ پر نماز پڑھی اور قربانی دی جاتی ہے۔ پس اس طرح عید کو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ جس طرح اس میں مومن کے لئے ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور قربانی دے۔ اسی طرح مسیح موعوؑد کے زمانہ میں مومنوں کا فرض ہوگا کہ خوب خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور قربانیاں دیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ مسیح موعودؑ کے آنے کے وقت ان کو ایک ایسا انعام دیا جائے گا کہ اس کے شکریہ میں وہ اپنے رب کے حضور جس قدر بھی ہوسکے عبادت کریں۔ یہاں پہلے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے یعنی انسان پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرے اور پھر قربانی کرے یعنی دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اس میں اُسے جو کچھ خرچ کرنا پڑے کرے۔ اصل قربانی نفس کی ہی ہوتی ہے اور اسی کو کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ ‘‘

٭…’’ہمیں اس آیت سے یہ فائدہ اور یوم عید سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیئے کیونکہ یہ عید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ پرعمل کریں۔ پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ خوب دعائیں کریں اور قربانیوں میں لگی رہے۔

قربانیوں میں سب سے ضروری اپنے نفس کی قربانی ہے اس کے کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ اور دوسری بھی ہر قسم کی قربانیوں سے دریغ نہ ہونا چاہیئے۔ جب یہ ہوگا تو اس وقت ہماری کامیابی یقینی ہے کیونکہ اسی وقت ہمارا دشمن ابتر ہوگا اور اس کی نسل منقطع ہوجائے گی۔ یہاں خدا تعالیٰ نے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ کے بعد اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ رکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے نفس کی اصلاح کرنے اور قربانیاں دینے کے بعد دشمن ابتر ہوگا۔ ‘‘

٭…’’پس میں یہاں کی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں۔ … بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے مسیح موعودؑ کو مان لیا ہے اب ہمیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے، ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس طرح خدا تعالیٰ خوش نہیں ہوگا۔ خوش اسی وقت ہوگا جبکہ

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ

پر عمل کیا جائے گا اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور گرا دیا جائے گا اور ہر ایک قربانی کی جائے گی لیکن اگر یہ نہیں تو پھر کچھ نہیں۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے فرائض سمجھیں اور ایک طرف اپنے اخلاق و عادات، اعمال و افعال، تقویٰ و طہارت میں ترقی کریں تو دوسری طرف ہر ایک قربانی کریں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے انسان کے احسان کے مقابلہ میں کہدے کہ میں نے بہت قربانی کر دی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے کسی فضل اور انعام کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی قربانی ایسی نہیں جو پیش کی جاسکے۔ اس کے لئے تو اگر خدا کے لئے جان و مال، بیوی، بچے، عزیز و رشتہ دار بھی قتل کرا دینے پڑیں تو پھر بھی کچھ نہیں۔ ‘‘

(خطبہ عید فرمودہ 28؍ستمبر1917ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 25تا 35)

افراد جماعت سے قربانی کا مطالبہ

٭…’’ پس یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں اور نہ یہ دن کوئی معمولی دن ہے۔ یہ دن ہر شخص کو بتلاتا ہے کہ تمہارا خدا تمہارے قریب ہے۔ تم ہاجرہ اور اسمٰعیلؑ کی طرح بن جاؤ۔ تمہارا خدا ساری دنیا کو تمہارے قدموں میں ڈال دے گا۔ جو کچھ حضرت ہاجرہ نے کیا تھا وہ ہر مومن عورت کرسکتی ہے اور جو کچھ حضرت اسمٰعیلؑ نے کیا تھا وہ ہر مومن بچہ کرسکتا ہے۔ کوئی روک درمیان میں حائل نہیں۔ پس مت خیال کرو کہ اس وقت اس قربانی کا موقعہ تھا مگر آج نہیں۔ آج بھی قربانی کا موقعہ ہے۔ آج بھی تم میں سے ہر شخص دین کے لئے اسمٰعیل بن سکتا ہے۔ آج بھی تم میں سے ہر عورت دین کے ہاجرہ بن سکتی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں داخل ہو کر روحانی طور پر سب لوگ ہاجرہ اور اسمٰعیلؑ کی اولاد ہوچکے ہیں۔

پس میں ہاجرہ کی بچیوں سے کہتا ہوں کہ تم اپنی ماں کی صفات اپنے اندر پیدا کرو اور میں اسمٰعیلؑ کی اولاد سے کہتا ہوں کہ تم اپنے باپ کی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔ تمہارا رب آج بھی اسی طرح قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جس طرح اس نے حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیلؑ سے مطالبہ کیا۔ کیونکہ اس زمانہ کے مامور کو بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا۔ اور اس نے لوگوں سے کہا ہے۔

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بےشمار

پس ہر شخص آج بھی اسمٰعیل بن سکتا اور ہر عورت آج بھی ہاجرہ بن سکتی ہے کیونکہ اس زمانہ میں جس شخص کو خدا تعالیٰ نے ہمارا روحانی باپ قرار دیا ہے اس کا نام اس نے ابراہیم رکھا ہے۔ پس تمہارے لئے آج بھی موقعہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اسمٰعیلی ثابت کرو۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ 4؍مارچ 1936ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 192تا193)

احمدی نوجوانوں کو اسماعیلی رنگ اختیار کرنے کی تلقین

’’پس میں جماعت کے نوجوانوں کو آج توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اسماعیلی رنگ میں رنگین کریں۔ اور ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار رہیں۔ خواہ وہ اخلاقی ہوں یا جسمانی یا مالی۔ یاد رکھو اسلام کا درخت قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر تمہاری خواہش ہے کہ اسلام ترقی کرے۔ تو اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرو اور وہ تمام قسم کی قربانیاں کرو جو تم سے پہلے کسی امت نے دنیا میں کی ہوں۔ کیونکہ جس طرح اسلام جامع کمالات متفرقہ ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اس کے متبعین کی قربانیاں بھی تمام امتوں کی متفرق قربانیوں کی جامع ہوں۔ پھر خدا تعالیٰ بھی اسی طرح ان قربانیوں کی یاد دنیا میں قائم رکھے گا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد قائم رکھی۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی تھی اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ساری دنیا یاد رکھے گی۔ مگر خدا تعالیٰ نے اسے قائم رکھا اور اس قربانی کی یاد دنیا سے مٹنے نہ دی۔ پس یہ مت سمجھو کہ تمہاری قربانیاں کون دیکھے گا تمہاری قربانیوں کو آسمان پر دیکھنے والا خدا موجود ہے۔ اور وہ انہیں دنیا سے مٹنے نہیں دے گا۔ اول تو جس شخص کے دل میں قربانی کا صحیح جذبہ ہو وہ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ مجھے کوئی دیکھنے والا ہے یا نہیں۔ لیکن اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو تو مَیں اسے کہتا ہوں ابراہیم ؑکی قربانی کس نے دیکھی تھی۔ کیا اس وقت وہاں کوئی مؤرخ موجود تھایا الفضل تھا جس میں یہ واقعہ لکھا گیا۔ خدا نے آسمان پر اسے دیکھا اور کہا مَیں اس قربانی کو نہیں بھلاؤں گا اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہیں بھولی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص حقیقی طور پر اسماعیلی قربانی کے لئے تیار ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے نہیں بھولے گا۔ اور نہیں بھولنے دے گا بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ اور دنیا میں قائم رکھی جائے گی۔ پس اپنے اندر ابراہیمی جذبہ پیدا کرو اور اسماعیلی نمونہ دکھاؤ تب تم دیکھو گے کہ زمین تمہارے لئے بدل جائے گی آسمان تمہارے لئے بدل جائے گا۔ اور وہ دشمن جو تم پر حملہ کر رہے ہیں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کے اور تمہارے درمیان حائل ہوجائے گا اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی تلوار تمہاری حفاظت کرے گی لیکن ضرورت اس ایمان کی ہے جو عورتوں کو حضرت ہاجرہ کے مشابہ بنا دے۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ 4؍مارچ 1936ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 194تا195)

نسل ابراہیم کو محفوظ رکھنے کامعجزہ اور جماعت احمدیہ کو پیغام

اللہ تعالیٰ نے چار ہزار سال قبل جو وعدہ حضرت ابراہیمؑ کی نسل کو محفوظ رکھنے کا کیا تھا اس کو نامساعد حالات کے با وجود پورا فرمایا۔ اس امر کو ایک عظیم معجزہ قرار دیتے ہوئے نیز اس بات کا بیان کرتے ہوئے کہ اس میں جماعت احمدیہ کے لیے کیا سبق ہے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

٭…’’دیکھ لو خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا۔ یہ ایک ایسا زندہ نشان دنیا کے سامنے ہے۔ ایسا زندہ معجزہ دنیا کے سامنے ہے کہ جس کا انکار کوئی بڑے سے بڑا دہریہ بھی نہیں کرسکتا۔ اس معجزہ سے فائدہ اٹھانے والا آج دنیا میں سوائے ہماری جماعت کے اور کوئی نہیں۔ ہماری جماعت کے بانی علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑفرمایا ہے۔ اور یہ معجزہ دکھا کر اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو بتایا ہے کہ میرے وعدوں کے بارہ میں تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیئے۔ اور جو اس بارہ میں کسی شک میں ہو وہ دیکھے کہ ابراہیم اول کے ساتھ چار ہزار سال قبل میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ کس طرح پورا ہوا ہے اور جب مَیں اتنے پرانے وعدوں کو نہیں بُھلاتا تو اپنے تازہ وعدوں کو کس طرح بُھلا سکتا ہوں۔ اور یہ معجزہ دکھا کر اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ جس طرح ابراہیمؑ کی نسل کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور قوت اور کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ نہیں مٹا سکتا۔ اسی طرح اے جماعت احمدیہ! تمہیں بھی کوئی طاقت اور کوئی قوت تباہ نہیں کرسکتی۔ ہاں یہود ابراہیم اول کی جسمانی اولاد ہیں اورجسمانی تعلق میں دین کی شرط نہیں ہوتی۔ مگر تم ابراہیم ثانی کی روحانی نسل ہو اور روحانی نسل کے لئے دین کی شرط نہایت ضروری ہے۔ پس تمہیں کوئی قوت اور طاقت مٹا نہیں سکتی بشرطیکہ تم اس روحانی تعلق کو مضبوط رکھو جو تم نے ابراہیم ثانی کے ساتھ قائم کیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہود کو مٹنے نہیں دیا کیونکہ ابراہیم اول سے ان کا جسمانی تعلق قائم ہے اور ہم ابراہیمؑ ثانی کی روحانی نسل سے ہیں اور جب تک یہ روحانی تعلق قائم ہے۔ ہمیں کوئی نہیں مٹا سکتا۔ یہ روحانی تعلق قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مثیل ثابت کرے۔ اور اپنی جان کو دین کی خدمت کے لئے ایک حقیر تحفہ کے طور پر پیش کر دے اور اسے ایک بے حقیقت قربانی قرار دے۔‘‘

(خطبہ عید الاضحی فرمودہ27؍نومبر1944ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ 280)

رضاۓ باری تعالیٰ کی خاطر اپنا غم بھلانے کا سبق

٭…’’آج کی عید اس بات کا سبق اپنے اندر رکھتی ہے کہ اپنے آقا کی خوشی اور اس کی مرضی کے موقع پر انسان کو اپنا غم بالکل بھول جانا چاہیئے۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ26؍اکتوبر1947ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ297)

٭…’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں یہ عید ابراہیمؑ کے اس واقعہ کی یادگار کے طور پر امتِ محمدیہ میں قائم کی گئی ہے۔ اب ہمیں غور کرنا چاہیئے کہ اس عید میں وہ کونسی چیز ہے جو یادگار سمجھی جاسکتی ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ یہ عید تبھی یادگار ہوسکتی ہے جب ابراہیمؑ نے اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنا اپنے لئے عید سمجھا ہو۔ اگر اسمٰعیلؑ کی قربانی کو انہوں نے عید نہیں سمجھا تو یہ عید اس واقعہ کی یادگار بھی نہیں ہوسکتی۔ یادگار اسی صورت میں کہلاسکتی ہے جب ابراہیمؑ نے اسمٰعیلؑ کی قربانی کو اپنے لئے عید سمجھا ہو۔ اور درحقیقت یہی سبق ہے جو اس عید کے ذریعہ دیا گیا ہے۔ عیدالاضحیہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی کو مصیبت نہیں سمجھا۔ ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی کو آفت نہیں سمجھا۔ ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی کو ابتلاء نہیں سمجھا بلکہ چونکہ وہ اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت گیا تھا اس لئے اس دن ابراہیمؑ ویسی ہی خوشی محسوس کر رہا تھا جیسے عید کے دن ہم بکرا ذبح کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ویسی ہی خوشی اس روز ابراہیمؑ کا قلب محسوس کر رہا تھا۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ26؍اکتوبر1947ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ298)

اپنے بیٹے کی قربانی کو عید سمجھا

٭…’’مسلمانوں کو قربانی کی اہمیت کا کوئی احساس ہی باقی نہیں رہا۔ وہ قربانی کی توفیق رکھنے کے باوجود چند روپے خرچ کرنا بھی اپنے اوپر بوجھ محسوس کرتے اور بکرے کی قربانی بھی موت کی طرح سمجھتے ہیں۔ مگر ابراہیم علیہ السلام نے یہ نمونہ دکھایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی قربانی کو عید سمجھا اس نے کہا مجھ سے زیادہ خوش قسمت انسان اور کون ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے نوازا اور وہ اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئےتیار ہوگیا اور سچے وفا دار کی یہی علامت ہوتی ہے، وہ اپنےدوست اور محبوب کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے کجا یہ کہ ایسا محبوب اور دلدار ہو جو نہ صرف محبوب اور دلدار ہو بلکہ انسان کا خالق اور مالک اور آقا بھی ہو۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ26؍اکتوبر1947ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ299)

زندہ خدا کی موجودگی میں ہمیں کونسی پریشانی؟

٭…’’ایک مومن کو نسبت کا اصل ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے۔ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بہت بڑے محبوب ہیں مگر خدا ہمیں آپ سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ اگر عورت کو اپنے خاوند کی موت، اپنے باپ کی موت، اپنےبیٹے کی موت اور اپنے بھائی کی موت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں پریشان نہیں کر سکتی تھی تو ہمیں اپنے زندہ خدا کی موجودگی میں کوئی مصیبت کس طرح پریشان کر سکتی ہے۔ اگر ہمارا نقصان ہوجائے تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ ہمارے خدا کا ایسا ہی ارادہ تھا۔ اور ہمیں راضی برضارہ کر اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانا چاہیئے۔ لیکن اگر بفرض محال ہمارا خدا ہی ہمیں مارنے پر تُلا ہوا ہے تو پھر ہمیں کوئی طاقت موت سے بچا نہیں سکتی۔ اس صورت میں ہمارااپنے متعلق فکر کرنا نادانی اور حماقت ہے۔ بہرحال دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے۔ اگر ہمارے خدا نے ہماری موت کا فیصلہ کر دیا ہے تو پھر کوئی طاقت ہمیں اس موت سے بچا نہیں سکتی۔ اس صورت میں غم میں مبتلا رہنا بالکل فضول ہے۔ اور اگر ہمارے خدا نے ہمیں زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تو اس صورت میں بھی ہمارا گھبرانا اور پریشان ہونا بیوقوفی اور پاگل پن کی بات ہے۔ بےشک غموں اور مصیبتوں کے وقت خوشی کا اظہار مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک مشاطہ، ایک نائی اور ایک دھوبی تھوڑے سے پیسوں کی خاطر اپنے آقا کے سامنے اپنے چہرہ کو اس لئے ہشاش بشاش بنالیتے ہیں کہ کہیں ان کے تعلقات اپنے آقا سے خراب نہ ہوجائیں تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ جب خدا نے ہماری جماعت کے لئے ایک عید تجویز کی ہے تو ہم مصائب کے دوران میں بھی خوشی کے ساتھ اس عیدکو منائیں اور ہشاش بشاش چہروں کے ساتھ اپنے رب کی عطا کردہ خوشی میں شریک ہوں۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ26؍اکتوبر1947ءمطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ303)

ہنستے چہروں کے ساتھ قربانی کرو

٭…’’عید الاضحیہ کے معنے ہیں قربانیوں کی عید جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مفہوم ہے کہ قربانیوں پر لوگ رویا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں تمہارا اس طرح امتحان لوں گا کہ تم قربانی کرو اور ہنسو۔ اور اگر ہمارا خدا چاہتا ہے کہ ہم ہنستے ہوئے اس کے حضور قربانی پیش کریں تو ایک مومن کی حیثیت سے، ایک عاشق کی حیثیت سے، ایک مُحِبّ کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم قربانی کریں اور ہنستے ہوئے کریں۔

پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں آج کی عید کی حکمت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیئے۔ یہ عید بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو قربانیاں کرنی پڑیں گی اور ان کا فرض ہوگا کہ وہ ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ قربانیاں کریں۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ26؍اکتوبر1947ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ303تا304)

ایک کافر عورت کی قربانی کی مثال

ایک جرمن عورت کی مثال بیان کرتے ہوئے جس کےتمام بیٹوں نے ملکی فوج کی خاطر لڑتے ہوئے جان دی حضورؓ فرماتے ہیں:

٭…’’اگر ایک عورت، کافر عورت، ایسی قوم کی عورت جو توحید کے علم سے ناواقف تھی جو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار سے ناواقف تھی۔ ملک کی خاطر اپنے ساتوں بیٹے قربان کر سکتی ہے اور پھر اپنے آخری بچہ کی وفات پر اپنی کمر کو سیدھا کرتے اور اپنے چہرہ پر خوشی کے آثار ظاہر کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر کہتی ہے کہ کیا ہوا اگر میرا بیٹا مارا گیا ہے۔ وہ قوم اور ملک کی خدمت کرتا ہوا مارا گیا ہے تو ایک زندہ قوم، ایک موحد قوم، ایک خدا سے تعلق رکھنے والی قوم اوررات اور دن خدا تعالیٰ کے معجزات اور نشانات دیکھنے والی قوم کو کس طرح خوشی سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مصائب برداشت کرنے چاہئیں۔ اگر وہ خدا تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتی ہے۔ تو اس کا فرض ہے کہ وہ ہر مصیبت پر رضا بالقضا کا اعلیٰ نمونہ دکھائے۔ اپنے آپ کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دے اور اس کے لئے مرنا خندہ پیشانی سے قبول کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ہلاک نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ جو لوگ خدا کے لئے مرتے ہیں انہیں کوئی شخص مار نہیں سکتا۔ وہ ایک تنو مند درخت کی طرح دنیا میں بڑھتے اور پھیلتے اور پُھولتے ہیں جس کی جڑیں ایک طرف زمین کی پاتال تک چلی جاتی ہیں اور دوسری طرف اس کی شاخیں آسمان تک پھیل جاتی ہیں۔ ‘‘

(خطبہ عیدالاضحی فرمودہ26؍اکتوبر1947ء مطبوعہ خطبات محمود جلد دوم صفحہ304)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button