متفرق مضامین

ظہور اسلام سے قبل کے حالات

(محمود احمد ملہی۔ مربی سلسلہ، جرمنی)

بنی نوع انسان میں سب سے عظیم ہستی،جس نے انسان کےتہذیب و تمدّن اور مذہب پر سب سے گہرا اثر ڈالا، وہ ہستی شہنشاہ عالم، سرور کائنات، فخر موجودات، آقائے دوجہاں حضرت اقدس محمد مصطفےٰﷺ کی ذات گرامی ہے۔ مذہبی تاریخ کا ہر طالب علم اس امر کو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو انقلاب ِعظیم حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے دنیا میں برپا کیا وہ اس سے قبل نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا اورنہ کبھی کسی کان نے سنا۔ دعوت الیٰ اللہ انبیاء علیھم السلام کا اوّلین فریضہ ہے اور اللہ تعالیٰ انبیاء علیھم السلامکو دنیا میں توحید خالص کے قیام کے لیے مبعوث کرتا ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی انبیا ء آتے ہیں سب نے اپنی قوم اور لوگوں کو ان کے خالق کی طرف بلایا ہے کہ تمہارا معبود حقیقی خدا تعالیٰ ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو اس کی تمام تر صفات کے ساتھ اس پر ایمان لاؤ۔

جس احسن طریق پر اور اعلیٰ درجہ میں یہ کا م ہمارے آقا و مولیٰ سیدنا حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے کیا اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ آپﷺ کی بعثت سے قبل دنیا گمراہی کی اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ امام الزّماں حضرت اقدس مسیح موعود ؑعرب کی اس حالتِ گمراہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زادبوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا رہا ہے۔ اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خوری اور قماربازی وغیرہ فسق کےطریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا اور چوری اور قزّاقی اور خون ریزی اور دخترکشی اور یتیموں کا مال کھا جانے اور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہریک طرح کی بُری حالت اور ہریک نوع کا اندھیرا اور ہرقسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہودہ ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو اس سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر یہ امر بھی ہریک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا وہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہوگئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصوم ؐ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدل کردیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہوگئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں اپنے مالوں اپنے عزیزوں اپنی عزتوں اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہٗ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ‘‘

( سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 76تا 77 حاشیہ)

الغرض ظہور اسلام سے قبل عرب میں جاہلیت کی انتہا تھی۔ قرآن کریم نے اس کا ان الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے۔

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی البَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42)

یعنی تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہوگئی تھی اورزمانہ کی حالت ایک مصلح کے ظاہر ہونے کی متقاضی تھی۔

عرب کے لوگ سخت مزاج اور وحشی تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی اور وہ لوگ شقی القلب اور پتھر دل تھے۔ دن رات شراب خوری اور زنا کاری کا بازار گرم رہتا اور ایسی مخرب الاخلاق برائیوں میں سب سے زیادہ ملوث انسان ہی قوم میں قابلِ تقلید شمار ہوتا تھا۔

ماں باپ کا تر کہ ان کے ہاں صرف ان جوان لڑکوں کو ملتا جو لوٹ مار میں خوب چاق و چوبند ہوتے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے۔ عورتوں، لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو ورثہ سے محروم رکھتے اور انہیں کچھ نہ دیتے۔

عدل و انصاف کاتو کوئی نام ونشان ہی نہ تھا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون جاری تھا۔ قدیم رسوم اور عادات پر مبنی معاشرہ تھا۔ قبائل کے درمیان جنگ و جدل عام تھا۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پرسالہا سال کی دشمنی اس قوم کا وطیرہ تھی اور کئی نسلوں تک ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے خون کا پیاسا رہتا تھا۔

حمایتیوں کو محض آواز دینا کافی ہوتا تھا اور پھر برسوں قبائل کے درمیان بدلے کے قتل کا سلسلہ جاری رہتا۔ چنانچہ جنگ بسوس جو ایک حلیف قبیلے کی اونٹنی کو ہلاک کیے جانے کے انتقام سے شروع ہوئی تھی،چالیس سال تک جاری رہی،اور باہم قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ مردوں اور عورتوں کوقید کرنے اور لونڈی و غلام بنانے کا رواج عام تھا۔ عورتوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ نہ بیٹی کے لحاظ سے، نہ بیوی کے لحاظ سےاور نہ ماں کے لحاظ سے۔

آئیں اب ہم واقعات کی روشنی میں عرب کی وادیوں،بستیوں اور گلی کوچوں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جس وقت ہمارے پیارے آقا نبی کریمﷺ کفر کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے وحئ الٰہی کی مشعل لے کر کھڑے ہوئے اس سے قبل عرب کی کیا حالت تھی ؟ دنیا اس وقت کس قسم کے گناہوں اور کس طرح کے فسق و فجور میں مبتلاتھی؟ اخلاقی اور مذہبی حالت کس درجہ تک گری ہوئی تھی ؟ فضول اور لایعنی رسموں کی کتنی بہتات تھی ؟ توہمات اور بت پرستی کا کیسا جال پھیلا ہوا تھا ؟ معمولی باتوں پر کٹ مرنے اور چھوٹے چھوٹے امور پر برسوں لڑتے رہنے کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا ؟

کعبہ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السلام نے صرف خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنایا تھا۔ لیکن بعدازاں عرب لوگ گمراہ ہوگئے اور خدا کی پرستش چھوڑ کر بتوں کو پوجنے لگے۔ اس ضلالت میں یہ لوگ اس قدر بڑھے کہ خود خانہ کعبہ میں بت لا کر رکھ دیے اور ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے۔ ان بتوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ تین سو ساٹھ تک پہنچ گئی۔ خدا کی پناہ ! شاید دنیا کے کسی بت خانہ میں اتنے بت نہ ہوں گے جتنے خدا کے اس گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ جب مکہ میں بت پرستی شروع ہوئی تو چونکہ کعبہ تمام عرب کا مذہبی مرکز تھا اور ہرشخص کے دل میں کعبہ کا ادب اور اس کی تعظیم تھی اس لیے آہستہ آہستہ سارے عرب میں بت پرستی پھیل گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہرقبیلے کا، ہر خاندان کا، ہرگھرانے کا، بلکہ ہرشخص کا خدا علیحدہ بن گیا۔ جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو اپنے ساتھ تین پتھر لے جاتا۔ راستے میں جہاں قیام کرتا ان پتھروں کا چولہا بنا کر کھانا پکاتا اور کھا پی کر جب فارغ ہو جاتا تو انہی میں سے ایک پتھر اٹھاتا اور اس کے آگے سجدے میں گر پڑتا مگر یہ پتھر ساتھ لے جانے کا قصہ درمیانی زمانہ کا تھا۔ جب بت پرستی ان کی رگ رگ میں سماگئی تو پھر اس کی بھی ضرورت نہ رہی۔ سفر میں جہاں پڑاؤ ڈالتے وہیں سے ایک پتھر اٹھا لیتے اور اسے اپنا خدا بنا لیتے۔ ویسے بھی احتیاطاًہر ایک کی جیب میں ایک پتھر رہتا تھا۔ راه چلتے میں جس وقت دل چاہا نکال کر اس کی پوجا کر لی اور پھر اسے جیب میں ڈال لیا۔

اور مغلوب الغضب ایسے تھے کہ جب انہیں غصہ آتا تو اپنے خداؤں کو برا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ امراءالقیس ایک بہت مشہور شاعر تھا۔ اس کے باپ کو کسی نے قتل کر دیا۔ اس نے اپنے بت کے سامنے جا کر فال نکالی کہ مجھے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہیے یا نہیں؟ بدقسمتی سے فال قصاص کے خلاف نکلی۔ شاعر کو غصہ تو بہت آیا۔ مگر اس نے خیال کیا کہ شاید فال لینے میں غلطی ہوگئی۔ بھلابت ایسی نا انصافی کا حکم کس طرح دے سکتا ہے؟ اس لیے دوبارہ فال لی۔ مگر پھر بھی فال میں یہی نکلا کہ بدلہ نہیں لینا چاہیے۔

اب تو شاعر کے غیظ وغضب کی حد نہ رہی اس نے نہایت طیش میں آ کر اپنے خدا پر تھوک دیا اور کہنے لگا : کم بخت ! اگر تیرا باپ مارا جاتا تو پھر میں دیکھتا کہ تو کس طرح قصاص نہ لیتا؟ تو یہ تھا اتنے بڑے شاعر کی جاہلیت کا عالم ۔

عرب کے لوگ حد درجہ کے بت پرست تو تھے ہی مگر اس کے ساتھ ہی وحشی، ضدی، جاہل اور فسادی بھی ایسے تھے کہ دنیا میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ بہت ہی معمولی باتوں پر ان میں سالہاسال تک خون ریز جنگیں ہوتی رہتی تھیں جن میں قبیلے کے قبیلے کٹ مرتے اور ہزاروں آدمیوں کا صفایا ہوجاتا تھا۔

ایک مرتبہ ایک آدمی کا اونٹ چرتے چرتے ایک شخص کے کھیت میں چلا گیا۔ اس وقت کھیت کی رکھوالی اتفاق سے ایک عورت کر رہی تھی۔ اس نے اونٹ کو مار کر کھیت سے باہر نکال دیا۔ اونٹ کا مالک اتنی سی بات پر غصہ میں بھرا ہوا آیا اور عورت کو بری طرح مارکر سخت زخمی کر دیا۔ عورت نے اپنے لوگوں کو آواز دی۔ اونٹ والے نے اپنے قبیلے کو بلایا۔ دونوں طرف سےتلواریں کھنچ گئیں اور لڑائی ہونے لگی۔ اس جنگ کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا۔ کچھ قبائل اِدھر شامل ہو گئے۔ کچھ خاندان اُدھر شریک ہو گئے۔ لڑائی دو خاندانوں میں شروع ہوئی تھی۔ مگر رفتہ رفتہ تمام عرب کے قبیلے جنگ کی لپیٹ میں آ گئے اور چالیس برس تک لڑائی کے شعلے بھڑکتے رہے۔ اور جنگ کی اس آگ کے سرد ہوتے ستر ہزار انسان اس کا لقمہ بن چکے تھے۔

اسی طرح ایک دفعہ گھڑ دوڑ ہورہی تھی، ایک گھوڑا جس کا نام داحستھا مقابلے میں آگے بڑھا ہی چاہتا تھا کہ جھٹ ایک دلیر اور فسادی آدمی نے اسے بد کا دیا۔ اس بات نے ایک تنازعے کی صورت اختیار کر لی اور پھر اس وجہ سے ایک، دو نہیں پورے 63؍سال تک جنگ ہوتی رہی، جس میں قبیلے کے قبیلے کٹ مرے۔ اس طرح کے اور بے شمار واقعات تاریخ میں ملتے ہیں۔

شرارت اور بیہودگی ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی جس کا مظاہرہ اکثر ہوتا رہتا تھا۔ بڑے بڑے ہولناک فتنے ان کی شرارت سے پیدا ہوتے رہتے تھے۔ مگر وہ اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آتے تھے۔ مثلاً ایک واقعہ یہ ہے کہ

حاطب بن قیس کے پاس بنی ثعلبہ کا ایک آدمی مہمان آیا۔ حاطب اپنے مہمان کو لے کر ایک بازار میں گیا جس کا نام سوق بنی قیقاع تھا۔ وہاں اس وقت ایک یزید بن حارث نامی بڑا شریر اور فسادی شخص پھر رہا تھا۔ یزید اس مہمان کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ کوئی اجنبی آدمی ہے۔ شرارت جو سوجھی تو ایک یہودی سے کہنے لگا کہ اگر تو اس اجنبی مسافر کی کمر میں زور سے ایک لات مار دے تو میں تجھے ابھی اپنی چادر دے دوں گا۔

یہودی تیار ہو گیا مگر اس نے اپنی اجرت پیشگی مانگی۔ اس پر یزید نے اپنے بدن پر سے چادر اتار کر اس کے حوالے کی اور کہا ’’لے اب تماشا دکھا۔‘‘

یہودی تیار ہو کر بہت آہستہ آہستہ اس کے پیچھے گیا اور موقع دیکھ کر اس کے ایک لات اتنے زور سے ماری کہ غریب مہمان اوندھے منہ گرتے گرتے بچا۔ جب لوگوں نے تماشا دیکھا تو ہنسنے اور ٹھٹھے مارنے لگے۔ ان کو تفریح کا اچھا خاصا موقع ہاتھ آ گیا۔ مہمان نے لات کھا کر اپنے میزبان کو مدد کے لیے پکارا۔ وہ آیا تو مہمان کی زبانی واقعہ سن کر نہایت غضبناک ہوا اور مارے غصہ کے آپے سے باہر ہوگیا۔ تلوار اٹھائی اور یہودی کی کھوپڑی اڑ ادی اور اگلے لمحہ ہی اس کی لاش تڑپ رہی تھی۔

اس واقعہ نے ایک ایسی ہولناک اور خون ریز جنگ کو جنم دیا جس میں فریقین کے ہزاروں لوگ لقمٔہ اجل بن گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہوگئیں،سینکڑوں بچے یتیم ہوگئے آخر کئی سالوں بعد یہ ظالمانہ اورسفّاکانہ لڑائی ختم ہوئی جو تاریخ میں جنگ حاطب کے نام سے مشہور ہے۔

ظہور اسلام سے قبل شراب نوشی کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ شراب کا استعمال پانی سے بھی زیادہ تھا۔ بخیل سے بخیل اور کنجوس سے کنجوس شراب پینے میں اپنا مال بے دریغ لٹاتا اور اس پر فخر کرتا۔ شراب کی محفلیں جگہ جگہ بڑے زور شور سے منعقد ہوتیں اور ان میں خم کے خم بڑی آزادی سےلنڈھائے جاتے۔ یہاں تک کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر بھی شراب چھڑک کر محبت کا اظہار کرتے تھے۔ قبروں پر شراب چھڑکنے کے علاوہ ان کو اونٹوں اور گھوڑوں کے خون سے بھی تر رکھتے تھے۔

جواکھیلنا ان کے نزدیک نہایت مقدس اور بڑا متبرک مشغلہ تھا۔ جو آدمی جوا نہیں کھیلتا تھا اسے ذلیل سمجھتے اور بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جوا نہ کھیلنے والے کی برادری اور قبیلے میں کوئی وقعت نہیں ہوتی تھی اور ایسا آدمی سب جگہ بدنام ہو جاتا تھا۔ جوا کھیلنے میں مال تو الگ رہا بیویاں تک ہار دیتے تھے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ عرب ویسے ہی بدترین رسومات کا گہوارہ تھا۔ مگر سب سے زیادہ ظالمانہ اور وحشیانہ رسم عرب کے اکثر قبیلوں میں لڑکیوں کو مار ڈالنے کی تھی۔ یہ رواج اتنا ہولناک اور دردانگیز تھا کہ اس کا حال پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان لوگوں کی بے رحمی اور سفّاکی پر حیرت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو مارنے کے مختلف طریقے تھے۔ بعض مخصوص قبائل میں جب لڑ کی پانچ، چھ برس کی ہو جاتی تو ایک روز باپ جا کر جنگل میں ایک بڑا سا گڑھا کھودا ٓتا۔ پھر لڑکی کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہناتا، بناتا سنوارتا، بال درست کرتا، خوشبوئیں لگاتا، اور اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتا تھا۔ وہاں اسے گڑھے کے کنارے پر کھڑا کر کے کہتا کہ نیچے دیکھ کیا نظر آتا ہے؟ جب وہ نیچے دیکھتی تو باپ اسے زور سے دھکا دے دیتا اور اوپر سے مٹی ڈال کر گڑھے کو برابر کردیتا۔ بعض لوگ اس طرح لڑکی کو بنا سنوار کر پہاڑ کی چوٹی پر لے جاتے اور وہاں سے ننھی سی جان کو نیچے لڑ ھکا دیتے۔

بعض آدمی لڑکی کی کمر میں پتھر باندھ کر اسے کسی چشمے میں ڈبو دیتے۔ بعض ایسے بھی تھے کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے جنگل میں لے جا کر زندہ گاڑ آتے تھے اور بعض جو جنگل میں لے جا کر لڑکی کو مارنا نہیں چاہتے تھے وہ یہ کام کرتے کہ ماں سے کہتے کہ بچی کا سراور ٹانگیں دونوں ہاتھوں سے پکڑ لے۔ پھر خود چھری لے کر اسےذبح کر ڈالتے اور صحن میں گڑھا کھود کر دبا دیتے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ یہ نہایت ظالمانہ کام خود ماں انجام دیتی تھی۔ اس کے متعلق حالی کہتا ہے:

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر

توخوف شماتت سے بے رحم مادر

پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور

کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی

جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

ایک مرتبہ ایک شخص جو مسلمان ہو گیا تھا۔ آنحضرتﷺ سے کہنے لگا کہ

’’حضور! ہماری نجات اور بخشش کس طرح ہوگی ؟ ہم نے تو مسلمان ہونے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بڑے بڑے گناہ کیے ہیں۔ میری ایک بچی تھی، نہایت پیاری صورت کی اور بڑی بھولی بھالی، مجھ پر اپنی جان فدا کرتی اور ہر وقت میرے آگے پیچھے پھرا کرتی تھی۔ جب میں گھر آتا دوڑ کر مجھ سے لپٹ جاتی تھی میری گود میں لیٹ جاتی تھی میرے کندھوں پر چڑھ جاتی، با تیں ایسی میٹھی میٹھی کرتی کہ غیروں کو بھی اس پر پیار آ تا۔ جب وہ چھ برس کی ہوگئی تو ایک روز میں نے اسے نئے کپڑے پہنائے۔ جن کو پہن کر وہ چین کی ایک بڑی سی گڑیا معلوم ہونے لگی۔ میں نے کہا: ’’چل میرے ساتھ ‘‘ ا س پر وہ ہنستی ہوئی خوشی خوشی میرے ساتھ ہولی، میں اسے ایک کنویں پر لے گیا اور جب اسے اس میں دھکا دینے لگا تو وہ کہنے لگی کہ ’’ہیں ابا جان ! کیا کرتے ہو؟ میں گر پڑوں گی۔ ‘‘ میں نے اس کی پروانہ کی اور زور سے اسے دھکا دے دیا۔ وہ کنویں میں گر پڑی اورفوراً مرگئی۔

یہ دردناک قصہ سن کر آنحضرتﷺ اتنا روئے کہ حضور ؐکی ساری ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔

اسی طرح اپنی لڑکی کا واقعہ ایک آدمی نے آنحضرتؐ سے یہ بیان کیا کہ ابھی میری لڑکی دو ہی برس کی تھی کہ میں نے اسے زندہ دفن کرنا چاہا میں اسے جنگل میں لے گیا اور جب گڑھا کھود کر اس میں ا سے دبانا چاہا تو بچی نے میرا دامن اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پکڑ لیا، میں نے جھٹکا دے کر اپنا دامن چھڑ الیا اور جلدی جلدی گڑھے میں مٹی بھر دی جب تک مَیں زمین برابر کرتا رہا اس وقت تک گڑھے میں سے ابی ابیکی آوازیں آتی رہیں۔ ‘‘

خدا کی پناہ! کتنا دلدوز،کس قدر حسرت ناک اور کیسا خوفناک وہ نظارہ ہوتا ہوگا، جب باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھ سے گڑھا کھود کر زندہ دفن کرتا ہوگا؟ یہ تھی ظہور اسلام سے قبل عرب کے ان سنگ دل اور بے رحم لوگوں کی حالت، نہ جانے کتنی بچیاں عرب کی زمین تلے زندہ دفن کردی گئی ہوں گی۔

ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لیے پیکر محبت اور امن کے شہزادے محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰﷺ کو رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَِمِیْن بنا کر مبعوث فرمایا جس نے اپنی خدا داد قوّت قدسی کے طفیل اس وحشی اور خونخوار جنگجو قوم کے دلوں کو محبت اور دلائل کے ذریعہ ایسا گھائل اور قائل کیا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ اور محبت و اخوت کے وہ بے نظیر نمونے دکھلائے کہ قیامت تک دنیا کی ہدایت کےلیے ستاروں کی مانند ٹھہرے اور باخدا بلکہ خدا نما انسان بن گئے۔ اور آپ ؐ نے بچیوں کو رحمت کا خطاب دے کر عورت کے صرف حقوق ہی نہیں قائم کیے بلکہ آپﷺ نے اولاد کے لیے جنت کی کنجی ماں کے قدموں تلے رکھ دی۔

وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے

تو بھی انسان کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے

جو عظیم انقلاب رسول کریمﷺ نے برپا کیا اس کا اعتراف غیر مسلم دانشور بھی کرتے ہیں۔ راجیندر نارائن لال صاحب ایم اےتاریخ بنارس ہندو یونیورسٹی اپنی کتاب ’’ اسلام ایک جانچا پرکھا خدائی نظام حیات ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’اسلام سے قبل کے عرب سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے انہیں اسلام کی تعلیم کے ذریعہ انتہائی قلیل وقت میں مجسم مذہبی اور انسانیت کے لئے قابل نمونہ بنا دیا۔ کسی بھی جنسی خواہشات میں ڈوبے،لالچی،غاصب،زانی، جواری،جھگڑالو،شرابی،چوراور توہم پرست قوم کا اسی نسل میں دل تبدیل کر دینا ایک ایسا معجزہ ہے،جس کی مثال تاریخ میں دوسری نہیں ہے ‘‘

(اسلام ایک سوِیَن سِدھ ایشوریہ جیون ویوَستھا۔ ناشر ساھتیہ سوربھ 1781،حوض سویٹو الانئ دہلی )

سلطان القلم بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدئ معہود علیہ السلام اس معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اشعار میں فرماتے ہیں۔

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں

وحشیوں میں دیں کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار

پر بنانا آدمی،وحشی کو ہے اک معجزہ

معنئ راز نبوت ہے اسی سے آشکار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button