خلافت سے وابستگی میں ہی تمام برکات ہیں
’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئےہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبے کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لیے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لیے ڈھال ہے۔‘‘
(خصوصی پیغام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز،الفضل انٹرنیشنل 23؍مئی 2003ءصفحہ1)
خلیفہ نبی کا جانشین ہوتا ہے اور اس حوالے سے خلیفہ کا مقام بہت بلند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کو مقامِ خلافت سے نوازتا ہے تو وہی انسان جو کل تک لوگوں کی نظروں میں ایک عام انسان تھا، خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسا روشن وجود بن جاتا ہے جس سے ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کا نور پھیلنے لگتا ہے۔ اس بلند مقام کے عطا ہونے کے باعث خلیفہ کو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص قُرب حاصل ہوتا ہے۔اُسے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت عطاہوتی ہے اور قبولیت ِدعا کا اعجاز ملتا ہے۔
خلیفۂ وقت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے نور،علم ومعرفت اور مقام ِقبولیت دعا سے برکت حاصل کرنے کے لیے مومن مرد اور مومن عورتوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے ساتھ محبت و عقیدت کا ایک ذاتی اور قریبی تعلق رکھیں۔ اُس کی محبت میں ایسے فدا ہو جائیں کہ دنیا کا ہر رشتہ،ہر نعمت کم تر نظر آئے۔
اُس کی ہر آواز پر لبیک کہنے والے ہوں اور اُس کی اطاعت کے جذبے میں سرشار ہوکر وہ مثالیں قائم کرنے کی کوشش کریں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آنحضور ﷺکی محبت و عقیدت اور وفا اور اطاعت میں قائم کیں۔ تبھی ہم حقیقی معنوں میں اولین سے ملائے جانے والے ہوںگے۔ رسول کریم ﷺجب بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم کو کسی بات کا حکم دیتے صحابہؓ اسی وقت اس پر عمل کے لیے کھڑے ہوجاتے تھےکیونکہ صحابہ کرامؓ میں ا طاعت کی روح کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔
ہر قسم کی فضیلت اور برکات خلیفہ وقت کی ا طاعت میں ہی ہیں جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے…ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود ؑ پر ایمان لاتا ہوں۔ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر یقین رکھتا ہوں۔خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعے خدا اس زمانے میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا۔اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا۔‘‘
(الفضل 15؍نومبر 1946ءصفحہ6)
تمام برکات خلیفۂ وقت سے تعلق کے نتیجہ میں مل سکتی ہیں۔ہر کام میں برکت اسی بات سے ہے کہ ہم خلیفۂ وقت سے ایک قریبی اور ذاتی تعلق رکھیں ہمیں چاہیے کہ ہم بار بار اپنے لیے دعا کے لیے تحریر کریں۔اپنے کاموں میں مشورہ اور ہدایت کی درخواست کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہم مشورہ طلب کریں تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری اپنی مرضی اور خواہشات خلیفۂ وقت کی مرضی اور خواہشات کے تابع ہونی چاہئیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لیے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اْٹھاتا ہے اْس کے پیچھے اْٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے اپنی آرزوؤں کو اْ س کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کر تا ہے۔اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کے لیے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔‘‘
(الفضل4؍ستمبر1937ءصفحہ3تا4)
آج جب ہم دنیا کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر طرف بے چینی،بد امنی اور بے سکونی نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ امام الزمان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا انکار کر کے خلافت جیسی قیمتی نعمت ِعظمیٰ سے محروم ہیں۔ یہ حبل اللہ جسے تھام کر جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے نظارے دیکھ رہی ہے وہ خلافت کی نعمت ہے۔
ہمارے پاس آج ایک ایسا بابرکت اور پیار کرنے والا وجودہے جو ہماری تکلیف پر بے چین ہونے والا ہے،کوئی ہے جس کے پاس ہم چھوٹی چھوٹی بات لے کر دعا کے لیے بھاگے چلے جاتے ہیں۔کوئی ہماری فکر کرتا ہے،ہمارے درد سے اْسے درد ہوتا ہے اور ہماری خوشی میں وہ خوش ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چونکہ خلیفہ خود خدا تعالیٰ کا مقرب ہوتا ہے اس لیے وہ ہمارے اور خدا تعالیٰ کے بیچ قربت کا ایک واسطہ ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒحضرت مرزاناصر احمد کا ایک ارشاد ہے جو آپ کی قلبی کیفیت کا اظہار بے حد ہی پیارے رنگ میں کرتا ہے آپ فرماتے ہیں:
’’میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لیے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔بعض دفعہ سجدہ میں میں جماعت کے لیے اور جماعت کے افراد کے لیے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی سستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں پوری کردے۔اور اے خدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ اْنہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لیے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے یا اْن کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکلیف کو بھی دور کردے اور حاجتیں بھی پوری کردے۔‘‘
(روزنامہ الفضل ربوہ21؍ دسمبر1966ءصفحہ5)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے زمانہ کا واقعہ ہے چوہدری حاکم دین صاحب بورڈنگ کے ایک ملازم تھے۔ان کی بیوی پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھیں۔رات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے دروازے پر گئے اور دستک دی۔اجازت ملنے پر اندر گئے اور اپنی بیوی کی تکلیف کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔حضورؓ فوراً اُٹھے،اندر جاکر ایک کھجور لیکر آئے اور اْ س پر دعا کر کے اْنہیں دی اور فرمایا:
’’یہ اپنی بیوی کو کھلادیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں۔‘‘
چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں واپس آیا،کھجور بیوی کو کھلادی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی ولادت ہوئی۔رات بہت دیر ہوچکی تھی،میں نے خیا ل کیا کہ اتنی رات گئے دوبارہ حضور ؓ کو اس اطلاع کےلیے جگانا مناسب نہیں۔نماز فجر میں حاضر ہوکر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے بعد جلد بچی پیدا ہوگئی تھی۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے جو فرمایا وہ سننے اور یاد رکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔آپؓ نے فرمایا:
’’میاں حاکم دین ! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلادی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی۔ اور پھر تم اور تمہاری بیوی آرام سے سوگئے۔ مجھے بھی اطلاع کردیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لیے دعا کرتا رہا۔‘‘
چوہدری حاکم دین صاحب نے واقعہ بیان کیا اور بےاختیار رو پڑے اور کہنے لگے۔’’ کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نورالدین عظیم ۔‘‘
(اصحاب احمد جلد 8صفحہ71تا 72)
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا۔ مگر ان کے لیے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لیے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کرسکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔‘‘
(برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2صفحہ156)
آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بابرکت وجود حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صورت میں موجود ہے۔ خلیفۂ وقت کی محبت وشفقت اور دعائیں ہمارے لیے ایک ایسا خزانہ ہیں جس کی مالیت اور اہمیت کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور ہمارا سر ساری عمر بھی خدا تعالیٰ کے حضور اس نعمت کے شکرانے کے لیے جھکا رہے تب بھی ہم شاید شکر ادا نہیں کرسکتے۔مگر اس نعمت پر شکر کا اظہار ضرور کرنا چاہیےااور اس کی کوشش کرتے رہنی چاہیے۔
اس کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کے لیے لازمی طور پر باقائدہ دعائیں کرتے رہیں۔خدا تعالیٰ کے حضور رو رو کر یہ دعائیں مانگیں کہ اے اللہ توہمارے خلیفہ کو اپنی حفظ وامان میں رکھ۔جیسے وہ ہمارے درد میں تڑپتا ہے اور ہمارے لیے دعائیں کرتا ہے ہمیں بھی دعاؤں کے ذریعےاُس کا مددگار بنا۔ہمیں خلافت کے سلطانِ انصیر بنااور خلافت کے ساتھ ہمیشہ جوڑے رکھ آمین۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا ہے کہ
’’… تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کر و جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو…تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔پس اس نعمت کا شکر ادا کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیادِ نعمت ہوتا ہے۔‘‘
(خطبہ عید الفطرفرمودہ جنوری 1903ءمطبوعہ خطبات نو ر صفحہ 131)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
’’شریعت وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہے اور آداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں۔ پس ضرور ی ہے کہ آپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں اور دوسری طرف خلفاء کی ادب واحترام قائم کریں اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍اگست1937ء مطبوعہ الفضل 4؍ستمبر 1937ءصفحہ6)
پھر آپؓ فرماتے ہیں:
’’تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی ادھر اْدھر نہ ہو۔ جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے بیٹھ جاؤ۔اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے اْدھربڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا وہ حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ۔‘‘
(انوار العلوم جلد 14صفحہ515تا516)
ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ…خلافت کے لیے دعائیں کریں تاکہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں…اپنے اند ر خاص تبدیلیاں پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں…اب احمدیت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍جون2005ءصفحہ8)
صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر ہم نے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ عہد ِوفائے خلافت دہرایا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ
’’آج مَیں …صد سالہ جوبلی کے حوالے سے آپ سے بھی یہ عہد لیتا ہوں تاکہ ہمارے عمل زمانے کی دوری کے باوجود ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور اللہ کے حکموں اور اُسوہ سے دور لے جانے والے نہ ہوں بلکہ ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کی قدر کرنے والا بنائے۔‘‘
(خطاب بر موقع خلافت صد سالہ جوبلی 27؍مئی2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍جولائی2008ءصفحہ12)
صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر عہد خلافت کرتے ہوئے ہم نے یہ الفاظ بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ دہرائے۔
’’ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور استحکام کےلیےآخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنےاور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے۔‘‘
اللہ کرے کہ ہر احمدی مرد و عورت اس عہد کو پورا کرنے والا ہو۔ خلافت سے وفا و محبت میں اعلیٰ درجہ کے معیار قائم کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے اور اپنے پیاروں کاپیار عطا فرماتا چلا جائے۔آمین ثمّ آمین۔
٭…٭…٭