تازہ ترین

مایہ نازصحافی صابر شاکر اور چودھری غلام حسین سے 74ء کی کارروائی کے متعلق چند اہم سوال

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

مورخہ 18؍ مئی 2020ء کو اے آر وائی نیوز چینل (ARY News) پر ’دی رپورٹر‘ نام کا پروگرام نشر ہوا۔ اس میں حسب سابق مکرم صابر شاکر صاحب بطور میزبان اور چودھری غلام حسین صاحب بطور مہمان شریک ہوئے۔ پہلے بھی اس پروگرام میں دو مرتبہ جماعت احمدیہ کو موضوع بنایا گیا تھا۔ ان پروگراموں کے چند نکات پیش خدمت ہیں:

1۔ 30؍ اپریل کو صابر شاکر صاحب نے یو ٹیوب پر اپنے چینل پر اور اے آر وائی چینل کے اسی پروگرام میں جماعت احمدیہ پر کچھ اعتراضات اُٹھائے تھے۔ ان میں سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ احمدیوں کو آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے لیکن وہ یہ زیادتی کر رہے ہیں کہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کر رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پاکستانی احمدیوں کا ذکر تھا ورنہ جو احمدی پاکستان کے شہری نہیں ہیں ان پر تو پاکستان کے آئین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اور دوسرا اعتراض جو ان دونوں حضرات نے اُٹھایا وہ یہ تھا کہ جب 1974ء کی کارروائی کے دوران حضرت امام جماعت احمدیہ سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ دوسرے فرقوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو انہیں غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ جواب ریکارڈ کا حصہ ہے۔

یہ سن کر خاکسار نے خود اس کارروائی کا جائزہ لیا تو حضرت امام جماعت احمدیہ کا یہ جواب سامنے آیا:

’’جو شخص حضرت مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتا لیکن وہ نبی ِ اکرمﷺ حضرت خاتم الانبیاء کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے اس کو کوئی شخص غیر مسلم کہہ ہی نہیں سکتا۔‘‘

یحییٰ بختیار صاحب نے یہ سوال دہرایا تو امام جماعتِ احمدیہ نے پھر یہ جواب دیا:

’’میں تو یہ کہہ رہا ہوں Categoricallyہر شخص جو محمدﷺ کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے وہ مسلمان ہے……اور کسی دوسرے کو اس کا حق نہیں ہے کہ اس کو غیر مسلم قرار دے۔‘‘

[کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ص 406]

اس کے علاوہ اس کارروائی کے صفحہ 44؍ اور 45؍ اور 240؍ پر حضرت امام جماعت احمدیہ کے ایسے جوابات موجود ہیں جو کہ صابر شاکر صاحب اور چودھری غلام حسین صاحب کے دعووں کی تردید کر رہے تھے۔ یہ حقائق الفضل انٹرنیشنل پر شائع کرنے کے علاوہ ملک کی ایک معروف سائٹ پر بھی شائع کر دیے گئے۔ اور ان دونوں حضرات کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھجوا دیے گئے کہ کیا یہ حوالے درست ہیں یا نہیں ؟ لیکن ان دونوں حضرات کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

2۔ 14؍ مئی کے پروگرام میں مکرم صابر شاکر صاحب نے خود ہی اپنے گذشتہ بیان کی تردید کر دی۔ پہلے تو وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے احمدی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس پروگرام میں انہوں نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کا جو پاکستان کا چیپٹر ہے قادیانیوں کا وہ اب یہ ماننے کے لیے تیار ہے۔ ٹھیک ہے ہم اپنے آپ کو اقلیت مانتے ہیں اور ہم سسٹم کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ہمیں اور تو کوئی تکلیف ہے نہیں پاکستان میں ہمیں تمام حقوق حاصل ہیں۔ مذ ہبی آزادی ہمیں حاصل ہے لیکن ان کو جو لنڈن ہیڈ کوارٹر ہے ان کا وہ ابھی تک یہ ماننے کے لیے تیار نہیں اور انہیں اس کی اجازت نہیں دے رہا۔ لیکن قادیانیوں کا پاکستان کا چیپٹر یہ کہہ رہا ہے کہ آپ تو لندن میں اور یورپ میں مزے لوٹ رہے ہیں اور آپ کو یہاں کے مسائل کا ادراک نہیں۔ اس لیے ہم تو سسٹم کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔

3۔ اگر صابر شاکر صاحب کا بیان درست تھا تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ کم از کم پاکستان کے احمدی ان کے بیان کی تصدیق کرتے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے احمدی انہیں اپنا ’نجات دہندہ‘سمجھتے اور داد و تحسین اور شکریہ کے پیغامات بھجواتےکیونکہ اگر صابر شاکر صاحب کا بیان صحیح ہے تو پھر وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ان کے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ لیکن جب 18؍مئی کا پروگرام شروع ہوا تو صابر شاکر صاحب نے ایک طویل شکوہ کیا کہ میرے اس پروگرام کے بعد کئی احمدیوں نے تو انکسار سے میرے بیان کی تردید کی لیکن کئی احمدیوں کی طرف سے ملنے والے پیغامات میں اور سوشل میڈیا پرایک نہ ختم ہونے والا دشنام طرازیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اور انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مجھے اور چودھری صاحب کو تو دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔

خاکسار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کے مطابق چار روز قبل تو پاکستان کے احمدی اپنے آپ کو اقلیت ماننے کے لیے نہایت بیتاب تھے بلکہ وہ صابر شاکر صاحب کے ہر مشورے کو مان کر لندن چیپٹر سے بغاوت کر چکے تھے۔ لیکن خود صابر شاکر صاحب نے ایک پیغام کا بھی ذکر نہیں کیا جو ان کے بیان کی تصدیق کے لیے انہیں ملا ہو۔ وہ اور چودھری غلام حسین صاحب بار بار اقرار کرتے رہے کہ ان کے بیان کی تردید میں آنے والے پیغامات کا سیلاب آگیا ہے۔ گویا ایک بار پھر عملی طور پر صابر شاکر صاحب اپنے گذشتہ بیان کی تردید خود کر رہے تھے۔

جہاں تک نا مناسب الفاظ کے استعمال کا تعلق ہے تو ہم کوئی ثبوت مانگے بغیر یہ اصولی بات بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس کسی نے بھی کسی کے لیے بھی نا مناسب الفاظ استعمال کیے ہیں، تو یہ فعل قابل مذمت ہے۔ اگر کسی نے صابر شاکر صاحب یا چودھری غلام حسین صاحب کی شان میں نا مناسب الفاظ استعمال کیے ہیں تو غلط کیا ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن اس چیز کو بڑی آسانی سے سوشل میڈیا پر چیک کیا جا سکتا ہے۔ صابر شاکر صاحب یا کوئی اَور صاحب چاہیں تو اسے چیک کر سکتے ہیں۔ اپنے ٹویٹر اکائونٹ کو کھولیں اور سرچ میں لفظ قادیانی ڈال کر سرچ کریں تو وہاں پر جماعت احمدیہ کے خلاف نامناسب الفاظ کا ایک طوفان آیا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ جماعت احمدیہ کی مقدس شخصیات کے کارٹون بنا کر بھی آویزاں کیے گئے ہیں۔ یقینی طور پر صابر شاکر صاحب نے یہ چیزیں چیک کر کے پروگرام کیا ہوگا لیکن انہوں نے اپنے پروگرام میں اس کی کوئی مذمت نہیں کی۔

شاید یہ کہا جائے کہ ٹویٹر پر اور سوشل میڈیا پر تو ہر قسم کا مواد آ رہا ہوتا ہے۔ تو حال ہی میں قومی اخبارات میں شائع ہونے والے چند بیانات ملاحظہ فرمائیں ’’قادیانیت کورونا وائرس سے بھی بڑا وائرس ہے۔‘‘ [ مشرق 2؍ مئی 2020ء] قادیانیوں کی اقلیتی کمیشن میں شمولیت آئین پاکستان سے غداری ہو گی۔ [خبریں 5؍مئی 2020ء] قادیانیت ملک کے لیے سانپ سے زیادہ خطرناک ہیں: اتحاد العلماء پاکستان [ مشرق 3 ؍مئی 2020ء] فتنہ قادیانیت ملک کے لیے کالے ناگ سے بھی خطرناک [اوصاف 5؍مئی 2020ء] قادیانی وائرس کورونا سے زیادہ خطرناک [روزنامہ 92 نیوز فیصل آباد 2؍ مارچ 2020ء]۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نفرت انگیزی نہیں ہے؟ کتنے اخبارات اور میڈیا چینلز نے اس رویہ کو غلط قرار دیا ہے؟ کیا خود صابر شاکر صاحب نے اس قسم کے بیانات کی مذمت کی ہے؟

اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ صابر شاکر صاحب اس بات سے بے خبر تھے تو خود اسی پروگرام میں چودھری غلام حسین صاحب نے احمدیوں کے بارے میں بار بار ناشائستہ زبان استعمال کی لیکن صابر شاکر صاحب نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ پروگرام کے میزبان کی حیثیث سے یہ ان کا فرض تھا۔ چودھری غلام حسین صاحب نے احمدیوں کے متعلق اسی پروگرام میں فرمایا

’’لیکن ایک گل ہے صابر شاکر صاحب اج کل اے ٹُوٹے چھتر دی طرح ودھ رہے ہیں کی وجہ ہے؟‘‘

شاید گلی کے کسی آوارہ لڑکے کے منہ سے یہ بات سن کر تو نظر انداز کر دیا جائے لیکن یہ فیصلہ میں صابر شاکر صاحب پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ایک چینل پر جس کی نشریات پورے ملک میں نشر ہو رہی ہوں، یہ الفاظ استعمال کرنا مناسب ہے؟

لیکن ہمیں خوشی ہے کہ صابر شاکر صاحب نے علمی تبادلہ خیالات کے لیے ایک مناسب طریق کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے قبل پوری بحث ہوئی تھی اور احمدیوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا۔ احمدیوں کو چاہیے کہ وہ خود اس کا مطالعہ کریں۔ یقینی طور پر صابر شاکر صاحب اور چودھری صاحب خود اس کارروائی کو پڑھ چکے ہوں گے۔ بلکہ میں تو اس بات کا اضافہ کروں گا کہ تمام ایسے احباب جو کہ احمدیوں کے عقائد میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں یہ کارروائی پڑھنی چاہیے اور سب سے پہلے اس میں جماعت احمدیہ کا موقف پڑھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ سب سے پہلے پیش ہوا تھا۔ اور اگر یہ موقف کمزور ہوگا تو پڑھنے والوں کو خود بخود اس کا علم ہوجائے گا۔

اس عاجز نے یہ کارروائی پہلے بھی پڑھی تھی اور ان کے اس پروگرام کے بعد دوبارہ اس کو دیکھنا شروع کیا ہے۔ لیکن جب اسے پڑھنا شروع کیا تو فوری طور پر کچھ ایسے سوالات اورالجھنیں ایسی پیدا ہو گئیں جن کو دور کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ بڑے احترام سے صابر شاکر صاحب کی خدمت میں یہ سوالات پیش کیے جاتے ہیں۔

1۔ صابر شاکر صاحب کے ارشاد پر ہم نے قومی اسمبلی کی شائع کردہ کارروائی دوبارہ دیکھنی شروع کی تاکہ یہ جائزہ لے سکیں کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے کیا موقف پیش کیا؟ اور ممبران اسمبلی نے کیا موقف پیش کیا؟ جماعت احمدیہ کا موقف ایک محضرنامہ کی صورت میں 22؍ اور 23؍ جولائی 1974ء کو قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں پڑھا گیا تھا۔ [ملاحظہ کریں نوائے وقت 24 جولائی 1974ء]

یہ کارروائی

Proceedings of the special committee of the whole house held in camera to consider the Qadiani issue-Official Report

یہ کارروائی

Proceedings of the special committee of the whole house held in camera to consider the Qadiani issue-Official Report

کے نام سے شائع ہوئی ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اور یقینی طور پر صابر شاکر صاحب اور چودھری غلام حسین صاحب نے تو پڑھی ہو گی۔ لیکن یہ کیا؟ یہ شائع کردہ کارروائی تو 5 اگست 1974ء سے شروع ہو رہی ہے۔ جب سوال و جواب شروع ہوئے تھے۔ اس میں تو جماعت احمدیہ کا موقف شامل ہی نہیں کیا گیا۔ حالانکہ کارروائی میں بار بار اس محضرنامہ کا ذکر آتا ہے۔ صابر شاکر صاحب کی خدمت میں سوال ہے کہ اگر تو جماعت احمدیہ کا موقف کمزور اور بودا تھا تو مخالفین کو تو اسے اصرار کر کے شائع کرنا چاہیے تھا تاکہ پوری دنیا دیکھے۔ اس بات پر روشنی ڈالیں کہ کیا یہ انصاف کے مطابق ہے کہ تحریف کر کے جماعت احمدیہ کا موقف غائب ہی کر دیا گیا۔ آپ فرما رہے ہیں کہ یہ کارروائی پڑھ کر خود فیصلہ کرو۔

صابر شاکر صاحب سے سوال ہے کہ جب کوئی پڑھنے والا پڑھے گا تو یہ فیصلہ کس طرح کرے گا کہ کس کا موقف درست ہے ؟ جماعت احمدیہ کا موقف تو اس میں شامل ہی نہیں۔

2۔ جیسا کہ کارروائی کے اندر بھی ذکر آ تا ہے کہ جماعت احمدیہ نے محضرنامے کے ساتھ کچھ ضمیمے بھی جمع کرائے تھے۔ لیکن ان کو بھی اس کارروائی میں شامل نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اس میں جماعت احمدیہ کے موقف کے بارے میں بہت سے بنیادی ثبوت شامل تھے۔ لیکن جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عدالتوں کے جو فیصلے بطور ضمیمہ جات جمع کرائےگئے تھے وہ اس میں شائع کیے گئے ہیں۔ یعنی تحریف کر کے جماعت احمدیہ کا موقف غائب کر دیا گیا۔

صابر شاکر صاحب سے سوال ہے کہ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟

3۔ اب اس نا مکمل حصہ کی طرف آتے ہیں جو شائع کیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 1 سے صفحہ نمبر 1508 تک ان دنوں کی کارروائی شائع ہوئی ہے جب اس سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کا وفد موجود تھا اور اس وفدسے سوال وجواب کیے گئے۔ قومی اسمبلی نے اس سپیشل کمیٹی کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ یہ طے کرے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتا، اسلام میں اس کی کیا حیثیث ہے؟ اور عقل کی رو سے اس کارروائی کا موضوع یہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اسمبلی کے قوانین کی رو سے یہ سپیشل کمیٹی اس موضوع پر کارروائی کرنے کی پابند تھی۔ لیکن جب ہم نے ان پندرہ سو صفحات کا جائزہ لیا تھا تو یہ نا قابل یقین حقیقت سامنے آئی کہ جب جماعت احمدیہ نے اس موضوع پر اپنے دلائل پیش کر دیے تو گیارہ روز جماعت احمدیہ کے وفد سے سوالات کیے گئے۔ لیکن جو اصل موضوع تھا اس کے بارے میں سوالات نہیں کیے گئے۔ اس موضوع سے گریز کیا گیا۔ کیوں؟ اتنے روز غیرمتعلقہ کارروائی چلتی رہی۔ مثال کے طور پر فلاں موقع پر قادیان میں چراغاں ہوا کہ نہیں؟ آپ نےمودودی صاحب کو مسٹر کیوں لکھا مولانا کیوں نہیں لکھا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت احمدیوں کا کیا کردار تھا؟ جماعت احمدیہ میں خلیفہ کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟ پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کتنی ہے؟

صابر شاکر صاحب سے ادب سے گذارش ہے کہ ان دنوں کی کارروائی جب جماعت احمدیہ کا وفد وہاں پر موجود تھا پندرہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ رہ نمائی فرمائیں ان میں سے کتنے صفحات کی کارروائی مقرر کردہ موضوع کے بارے میں ہے اور وہ کون سے صفحات ہیں؟

آپ صفحہ نمبر 688؍ پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے کوشش فرمائی کہ یہ کارروائی موضوع کی طرف آئے لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے فوراََ موضوع تبدیل کر دیا۔ اور صابر شاکر صاحب اس کارروائی کے صفحہ 504؍ میں ایک ممبر اسمبلی سردار محمد خان صاحب کا یہ اعتراف تو پڑھ چکے ہوں گے کہ

I want to bring it to the notice of this honorable house that the main question, I should say before the  committee or the assembly is as to what is the status of a person who does not believe in the finality of the prophethood. The question or that point is still untouched.

ترجمہ: میں اس معزز ایوان کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ اصل سوال جو اس کمیٹی یا اسمبلی کے سامنے زیر غور ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص ختم نبوت پر ایمان نہیں لاتا اس کی کیا حیثیت ہے ؟ اس سوال یا اس نکتہ کو ابھی تک ہم نے چھوا بھی نہیں ہے۔

یہ ایک ممبر اسمبلی کا اعتراف ہے کہ یہ کارروائی مقرر کردہ موضوع پر نہیں ہو رہی تھی۔

صابر شاکر صاحب سے یہ سوال ہے کہ ایسی کارروائی جو اصل موضوع پر نہ ہوئی ہو اس کی کیا حیثیث رہ جاتی ہے؟ اور موضوع سے گریز کیوں کیا جا رہا تھا؟

4۔ سوال و جواب کے دوران جماعت احمدیہ پر بہت سے غیر متعلقہ اعتراضات کیے گئے۔ اور ان کی تائید میں کئی حوالے پیش کیے گئے۔ ممبران یہ سوالات پہلے سے تیار کر کے دیتے تھے۔ علماء کی ایک ٹیم اور لائبریرین ان کی اعانت کر رہا ہوتا تھا۔ لیکن مسلسل غلط اور جعلی حوالے پیش کیے گئے۔ حتیٰ کہ جو کتب سامنے موجود تھیں ان کی بھی تحریف شدہ عبارات پڑھ کر اعتراض کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور جماعت احمدیہ کا وفد مسلسل ان غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ ایسی کتب کے حوالے دیے گئے جو کبھی لکھی ہی نہیں گئی تھیں۔ الفضل کے ان دنوں کے شماروں کے حوالے پیش کیے گئے جن دنوں میں الفضل شائع ہی نہیں ہوا تھا۔ اگر عبارت مل گئی تو پڑھنے پر پتہ چلا کہ عبارت میں تحریف کر کے پڑھا جا رہا تھا۔ اگر کسی کتاب کے صرف 16؍ صفحات ہیں تو اس کے صفحہ نمبر 193؍ کا حوالہ پڑھ دیا گیا۔ اگر کسی حوالے کا صفحہ مل گیا تو عبارت وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل صاحب اس خفت سے اتنا تنگ آ گئے کہ انہیں کمیٹی میں کہنا پڑا:

I request the honorable members not to supply me loose balls to score boundaries (page 548)

ترجمہ: میری ممبران سے درخواست ہے کہ مجھے ایسی خراب گیندیں نہ دیں جس پر یہ لوگ چوکے چھکے لگائیں۔

اور جب ایک کے بعد دوسرا حوالہ غلط نکلتا رہا تو سپیکر قومی اسمبلی کو زچ ہو کر یہ کہنا پڑا:

We should not cut a sorry figure before the members of the delegation(page425)

ترجمہ: ہمیں اس وفد کے ممبران کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔

صابر شاکر صاحب کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ غلط ہے کہ اس کارروائی میں غلط حوالے پیش کیے گئے تھے؟ اور جس موقف کی بنیاد جعلی حوالے ہوں، کیا وہ موقف اس قابل بھی ہے کہ اسے زیر غور لایا جائے ؟ اگر نہیں تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ جعلی حوالے بنانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟

5۔ یہ حقیقت پہلے بھی شائع کی جا چکی ہے اور انٹر نیٹ پر اس کی تفصیلات موجود ہیں کہ میں نے خود مکرم ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کا انٹرویو لیا تھا اور اس کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اُس وقت کابینہ کے اہم وزیر تھے اور اس کارروائی میں شامل تھے۔ اس انٹرویومیں جب اس کارروائی کی تفصیلات پر سوالات کیے گئے تو انہوں نے صاف کہا تھا کہ

’’یحیٰ بختیار بیوقوف آدمی تھا۔ بالکل جاہل۔ اس کو تو جو نیچے لکھ کر دے دیا اس نے کہہ دیا……ارے بابا وہ کارروائی ساری Fictitious[جعلی ] تھی۔ فیصلہ پہلے سے ہوا ہوا تھا کہ کیا کرنا ہے؟‘‘

معاف کیجیے گا الفاظ سخت ہیں لیکن یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ اس دور میں حکومت کے ایک اہم ستون کے ہیں۔ صابر شاکر صاحب کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ جس کارروائی کو کارروائی چلانے والے خود ہی جعلی قرار دے رہے ہوں تو اس کارروائی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

اور آپ نے فرمایا ہے کہ آپ اپنے پروگرام میں احمدیوں کا موقف بھی دکھائیں گے۔ اگر ہم آپ کی خدمت میں یہ ویڈیو بھجوا دیں تو کیا آپ اسے اپنے پروگرام پر دکھا سکیں گے۔ تاکہ پاکستان کے لوگ یہ پہلو بھی دیکھ سکیں۔

اس پروگرام میں جماعت احمدیہ پر بہت سے تبصرے کیے گئے تھے۔ اس مضمون میں ہم نے صرف ایک پہلو کے بارے میں گذارشات پیش کی ہیں۔ باقی نکات کے بارے میں حقائق بعد میں پیش کیے جائیں گے۔ ہم صابر شاکر صاحب کی اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ اس کارروائی کا علمی مطالعہ ہونا چاہیے۔ لیکن جیسا کہ یہ حقائق واضح کر رہے ہیں کہ ان نکات کے بارے میں وضاحت ہوگی تو ہی کوئی علمی گفتگو آگے چل سکے گی۔ یہ گذارشات ان دونو ں صحافی حضرات کی خدمت میں بھجوا دی جائیں گی۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ہمیں اس مرتبہ ان نکات کے بارے میں اپنے جواب سے محروم نہیں رکھیں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 13

  1. کیا صابر شاکر صاحب اپنے بیان کے مطابق جماعت احمدیہ پاکستان کا موقف اب آ ن لائن لینے کی اخلاقی و صحافتی جرآت کرینگے؟ وہ ہرگز ایسا نہیں کرینگے تا قیامت۔ ہم انکو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ عدل وانصاف کے اس اس تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرین.لیکن کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہی نہیں جو اسمبلی میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف سے پیش کیے گئے سوالات کے جوابات دے سکے۔
    اللہ تعالیٰ مضمون نگار کو جزائے خیر دے اور انکے علم و فضل میں اصافہ فرمائے۔ آ مین

  2. ماشاءاللہ بہت ہی مدلل تحریری جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ صابر شاکر اور ان جیسے بہت سے لوگوں کو جو ایک رٹی رٹائی گردان کو ہی ایمان سمجھتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں حقائق سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔

  3. الفضل انٹرنیشنل کے اندر روحانی اور جسموں کو۔گرما دینے والی تحریر یں اور مضامین بہت ہی فائدہ مند ہیں ۔بہت محنت اور جانفشانی سے سب کارکنان کام کررہے اور تازہ بتازہ شریں تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ اللہ سب کو بہترین جزا ءعطاء فرمائے ۔

  4. ماشااللہ بہترین مدلل تحریر
    یہ لوگ آپ کی طرف سے اٹھائے گئے ان سوالوں کے جواب کبھی نہیں دے سکیں گے .کیونکہ یہ سوال اور انکے حقیقی جوابات ان کے گلے پڑ جائیں گے.اور ایک منصف مزاج قاری ایک منٹ میں فیصلہ کر لے گا کہ یہ جھوٹ کا کاروبار کرنیوالے جھوٹے لوگ ہیں.

  5. اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو بہترین جزاء سے نوازے۔ زورِ قلم بڑھائے اور پیارے پاکستان کے عوام کو حقائق جاننے کے مواقع میسر آئیں اور جان سکیں کہ کس طرح ایک بھاری اکثریت نے اپنے ایمان ملاں کے ہاتھ گِروی رکھے ہوئے ہیں اور اِسی وجہ سے آسمانی ہدایت اور نور سے محروم ہیں۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button