متفرق مضامین

بچیوں کے رکھ رکھاؤ کا خیال

صا حبزادی فو زیہ شمیم صا حبہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق تحریر کرتی ہیں:

ہماری روحا نی صحت کے ساتھ ہماری جسمانی صحت اور حسن کا بھی بہت خیال ہوتا۔ گھر کے بنائے ہوئے ڈھیروں نسخے آج بھی یاد ہیں۔

ذرا ہم لڑکیاں بڑی ہونے لگتیں تو کہنا شروع کر دیتیں کہ اب ’’منہ متھے‘‘ کا بھی خیال رکھا کرو۔ بچپن میں روڑے (بال سے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے کھیلتے ہیں) کھیلنے کا رواج تھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو روک دیا کہ ہا تھوں میں ’’اٹن‘‘ پڑ جاتے ہیں ننگے پاؤں پھرنے سے پاؤں بھدے اور بڑے ہو جاتے ہیں۔ مثل مشہور ہے ’’سر بڑے سرداروں کے اور پاؤں بڑے گنواروں کے‘‘ بڑی امی کو دیسی نسخے بہت آتے تھے۔ خود بھی ٹوٹکے ایجاد کر لیتی تھیں۔

دھوپ میں نکلنے سے رنگ ماند پڑ جائے، تو کھیرے کا پانی مل لو، دھوپ کا اثر دور کرنا ہو تو ثابت اسپغول بھگو کر اس کا لعاب ملنے سے چہرہ ترو تازہ ہو جاتا ہے۔ گرمی دانے بھی دور ہو جا تے ہیں اور رنگت بھی کھلتی ہے۔ سرد یوں میں منہ ہا تھ پھٹنے لگتے تو گلا ب گلیسرین بنا ئی جا تی۔ گلاب کا عرق، گلیسرین اور نیبو کا عرق ملا کر شیشی بھر لی جا تی اور رات کو یا صبح اٹھ کر کچھ دیر لگائی جاتی۔ چہرہ ملائم اور رنگت کھلتی۔ چھوٹی مکھی کا شہد آنکھوں میں لگانے سے آنکھوں میں چمک پیدا ہو تی۔ پلکوں پر کیسٹر آئل لگانے سے پلکیں لمبی ہو تی ہیں۔ غر ض سینکڑوں چھو ٹے مو ٹے نسخے بیان کرتی رہتیں۔ ہما رے ہاں شادیوں سے پہلے مایوں کے نسخے تو مشہور ہیں۔ ہماری غیر از جما عت سہیلیاں اپنے گھر کی شادی سے پہلے نسخے پوچھنے لگ جاتی ہیں۔

آج کل کے زمانے میں لڑکیوں کو لمبا عرصہ بچہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فطری حیا کا زمانہ نکل جاتا ہے بڑی امی، چھوٹی عمر سے ہی بچوں میں حیا کا مادہ ڈالنا شروع کر دیتی تھیں۔ 11،10 سال کی عمر سے روک ٹوک کا زمانہ آ جاتا۔ پاؤں کھول کر نہیں بیٹھنا۔ بڑوں کے سامنے لیٹنے سے منع فرماتیں۔ بڑوں کی باتیں سننے سے منع کرتیں۔ آپ کہتیں بڑوں کی با تیں سننے سے بچوں کے منہ پکے ہو جا تے ہیں۔ گھر کے لڑکے بھی اگر آ جاتے تو ہمارے لیے یہ حکم تھا کہ اب کمرے سے ا ٹھ کر چلی جاؤ۔ باوجود اس کے کہ آپ کی بہت کم عمری میں شادی ہو ئی تھی۔ آپ میں بڑی گہری سمجھ تھی۔ اور بچیوں کو بھی ازدواجی زندگی کے متعلق سمجھاتی رہتیں۔ آپ کی طبیعت میں بہت نفاست تھی۔ ہمیشہ صا ف ستھرا اور دیدہ ز یب لباس پہنتیں۔ آپ اس با ت پر ہمیشہ زور دیتیں کہ خاوند کے سامنے بیوی کو اچھے حلیےمیں ر ہنا چا ہیے۔ کھتری بیویوں سے میاں کا دل بیزار ہو جا تا ہے آپ ہمیں سمجھایا کرتی تھیں کہ صبح اٹھو تو باسی منہ سے، کبھی میاں سے با ت نہ کرو بلکہ الائچی بٹوے میں رکھو تا کہ منہ میں ر کھی جا سکے۔ غسل خانے میں ہلکے ر نگ کی لپ سٹک رکھو صبح نہا د ھو کر و ہاں سے ہی لپاسٹک لگا آؤ۔ آپ اکثر بتا تیں کہ میاں سے میری عمر کا بہت فرق تھا لیکن میں نے کبھی بھی محسوس نہیں کیا۔ عمروں کے تضاد کو آپ کی فطرتی سمجھ اور عقل نے آپ کے ا زدواجی تعلقات میں حائل نہیں ہونے دیا۔ ابا حضور (دادا جان) بھی آپ کے بہت ناز اٹھاتے لیکن آپ نے بھی ان کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھا۔ جسم کی بدبو سے آپ کو نفرت تھی۔ نوکروں کو بھی اس کے دور کرنے کے نسخے بتا تی ر ہتیں۔ اور بچیوں کو ہر وقت تاکید ہوتی کہ عورت کو ہمیشہ صاف ستھری اور پا کیزہ حالت میں رہنا چا ہیے۔ آپ کی ان باتوں کی حکمت بڑے ہو کر پتہ چلی۔ خود میرے مشاہدے میں ایسے رشتے ہیں جو صرف جسمانی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئے۔

(سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہؓ مصنفہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید، ص249تا250، ایڈیشن 2007ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button