خلاصہ خطبہ جمعہ

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ ’’خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔‘‘

حضورِانور نے بعض دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئےفرمایا خدا کرے کہ ہم اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں

اللہ تعالیٰ سے ایک سچّی صلح پیدا کر لو اور اُس کی اطاعت میں واپس آ جاؤ۔

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍ مئی 2020ء

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 22؍ مئی 0202ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں  خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں  نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں  آئی۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

سب سے پہلے تو اُن سب احمدیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میرے گِرنے اور چوٹ لگنے پر بڑے غیرمعمولی جذبات کا اظہار کیا اور بڑی تڑپ سے دعائیں کیں ۔ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی خاطر آپس کی محبت اور بالخصوص خلیفۂ وقت سے اخلاص و وفا کی یہ مثال صرف اور صرف جماعت احمدیہ میں ہی ملتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں ۔ یہ دوطرفہ محبت خداتعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔ آپ لوگوں کی دعاؤں ہی کی قبولیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زخم غیرمعمولی طور پر جَلد مندمل ہو گئے یہ امر ڈاکٹرز کے لیے بھی حیران کُن ہے۔ اِس چوٹ کی وجہ سے مجھے سُریانی نسخے کے مطابق تیارکردہ ’مرہمِ عیسیٰ‘ اور ہومیو پیتھک کریم ’کینڈولا‘ لگانے کا اتفاق ہوا۔ اصل فضل تو خداتعالیٰ کا ہے وہی شافی ہے، لیکن ان ادویہ کا اس لیے ذکر کر دیا کہ بعض دفعہ ضرورت پڑ جاتی ہے تودوسروں کو بھی فائدہ ہو جائے۔

اب یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ چوٹ کے بد اثرات جلد دُور فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی اصل طاقت ہے جو دعاؤں سے ملتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا میرے کندھے اور بازؤوں میں شدید درد تھا، ہاتھ اٹھانا مشکل تھا۔ تب بھی خداتعالیٰ نے دعاؤں کے طفیل چند دنوں میں آرام عطا فرمایا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں ہر وقت مانگنا چاہیے اور اُس کے آگے جھکنا چاہیے۔

آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو حالات ہیں اس سبب سے احبابِ جماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی خاص توجہ پیدا ہوئی ہے۔ گھروں میں باجماعت نماز، دروس وغیرہ کااہتمام ہو رہا ہے۔ پھراسی دوران رمضان بھی آگیا جس میں لوگوں کو عبادات کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی۔ اب لاک ڈاؤن میں ہونے والی نرمی سے متعلق یاد رکھیں کہ حکومتوں نے اِن پابندیوں میں نرمی کےساتھ جو شرائط لگائی ہیں اس پر ہر احمدی کو کاربند ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی یا رمضان کےختم ہوجانے سے عبادات اور نیکیوں کے سلسلے کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ نماز باجماعت اور چند منٹ کے دُروس کا اہتمام جاری رہنا چاہیے۔ ایم ٹی اے کے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف بھی توجہ رکھیں ۔ عورتیں گھروں میں نمازوں کا خاص اہتمام کریں تاکہ بچّے اپنے سامنے نمونہ دیکھنے والے ہوں ۔ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آ کر پاک تبدیلی پیدا کرنے کےعہد کو اپنے سامنےرکھنا چاہیے۔ مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ اُن لوگوں میں شمار ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مشکلات میں گرفتار ہوں تو اللہ کی طرف جھکتے ہیں اور جب مشکل دُور ہوجائے تو خدا کو بھول جاتے ہیں ۔

آج کل لوگ اس تلاش میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ کورونا وائرس طبعی حادثہ ہے یا عذابِ الہٰی ہے۔ مومن کا یہ کام نہیں کہ اِن باتوں میں الجھے۔ اُس کا کام یہ ہے کہ پہلے سے بڑھ کر لرزاں و ترساں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکےاور اپنے اچھے انجام کےلیے دعا کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے طاعون کو نشان کے طور پر ظاہر ہونے کی واضح خبر دی تھی اس وقت بھی حضرت مسیح موعودؑ بے چین ہو ہو کر دنیا کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ بند دروازوں کے پیچھے آپؑ کی دعاؤں کی کیفیت سننے والے بیان کرتےہیں کہ اس طرح شدّتِ گریہ کی آوازیں آرہی ہوتی تھیں جیسے ہنڈیا ابل رہی ہو۔

بعض لوگ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ایک مضمون بعنوان ‘‘حوادثِ طبعی یا عذابِ الہٰی’’ کو آج کل کی اِ س وبا سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اُس مضمون میں اصل قابلِ غوربات یہ ہے کہ آپؒ نے واضح لکھا ہے کہ اِس میں جماعت احمدیہ کے لیے تنبیہ اور بشارت کے پہلو ہیں ۔ تنبیہ یہ کہ صرف احمدیت کا عنوان بچانے کے لیے کافی نہیں بلکہ تقویٰ کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے اور بشارت کا پہلو یہ کہ جماعت میں جو عملی کمزوریاں آچکی ہوں گی بڑی تیزی کے ساتھ احمدی اُن کی اصلاح کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ مَیں گذشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے واضح فرمان کے مطابق آپؑ کے زمانے کے بعد آفات اور بلاؤں کی تعداد بڑھی ہے۔ بعض دفعہ ایمان والے بھی اس قانونِ قدرت کی لپیٹ میں آجاتے ہیں لیکن اُن کا مقام شہید کا ہوتا ہے۔ پس اِن ایّام میں خاص طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افرادِ جماعت عبادتوں اور خدمتِ خلق کی طرف توجہ دے رہے ہیں اس بارے میں ہر جگہ سے اچھی خبریں آ رہی ہیں ۔ گذشتہ دنوں کینیڈا میں ایک خاتون کو رات دو بجے اپنے بیمار بیٹے کے لیے دوا کی ضرورت پڑی تو ہر جگہ سے انکار ہو گیا تب خدام کی ہیلپ لائن پر موجود خادم نے پچاس کلومیٹر کا سفر کر کے اُس خاتون کو دوا لا کر دی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اُس خادم کے اِس فعل کی وجہ سے مجھے خدا کے ہونے کا یقین ہو گیا۔ پس رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے مطابق ہمیں خدمتِ خلق کے اس معیار کوقائم رکھنا چاہیے۔ دوسروں کی کمزوریوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ ہمیں کس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں اُس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتےہیں کہ چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرےاور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملادیں ۔ عاداتِ انسانی کو شائستہ کرے اور خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کرے۔ اخلاق کی درستی کےساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔ خدا تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوّت اور محبت پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف چھوڑ دو۔ ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچّی صلح پیدا کر لو اور اُس کی اطاعت میں واپس آ جاؤ۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہےکیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اورہر آن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ فرمایا میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بےجا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو متقی ہے۔ فرمایا مناسب ہے کہ ان ابتلا کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقویٰ اختیار کریں ۔ دانش مندی، حِلْم اور درگزر کے ملکے کو بڑھاؤ۔ نادان سے نادان کی باتوں کا جواب بھی متانت اور سلامت روی سے دو۔

اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہم پر یہ بات واضح فرمائی کہ حقوق اللہ اورحقوق العبادکی ادائیگی آنحضرتﷺ کے اُسوے پر چل کر ہی ہو سکتی ہے اور ہمیں بار بار یہ نصیحت فرمائی کہ آنحضرتﷺ کی راہ کو نہ چھوڑو۔ آنحضورﷺ کی سچّی اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپؐ کی اتباع چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے گوہرِ مقصود اُس کو حاصل نہیں ہوسکتا۔

پس ہم جو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آ کر آنحضرتﷺ کے حقیقی متبعین میں شامل ہیں ہماری بقاء اسی میں ہے کہ آپؐ کے اُسوے کو اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اپنانے کی کوشش کریں ۔

حضورِانور نے اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے ایک احمدی خاتون محترمہ رمضان بی بی صاحبہ کا بالخصوص ذکر فرمایا جنہیں گذشتہ دنوں توہینِ رسالت کی دفعہ لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اِ س خاندان نے 2002ء میں بیعت کی تھی۔ اِن خاتون کے خاوند نے لکھا ہے کہ ہم قربانی سے نہیں ڈرتے اور نہ جیل جانے کا غم ہے۔ ہمیں اگر غم ہے تو اس بات کا کہ جس رسولﷺ کی عزت اور ناموس کی خاطر ہم مر مِٹنے والے ہیں اُس کی توہین کا ہم پر الزام لگایا گیا ہے۔ فرمایا کہ اِن کو بھی اور اُن اسیران کو بھی جنہیں اِس الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے اُن سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی معجزانہ رہائی کا سامان پیدا فرمائے۔ عدلیہ اور حکومت کو بھی توفیق دے کہ وہ انصاف پر قائم ہوں ۔

حضورِانور نے بعض دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئےفرمایا خدا کرے کہ ہم اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں ۔ ہمارے گھر پیار اور محبت کے نمونے ہوں ۔ جو بچے اپنے ماں باپ کے آپس کے جھگڑوں سے پریشان ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی پریشانیاں دُور فرمائے۔ اس کے علاوہ حضورِانور نے تمام واقفینِ زندگی اور خدمت کرنے والے احباب، واقفینِ نَو، شہدائے احمدیت اور اُن کے خاندانوں ، بچیوں کے رشتوں اور دنیا کے موجودہ معاشی حالات کے سبب مسائل میں گِھرے افراد نیز عالَمِ اسلام کے لیے بھی خصوصی دعاؤں کی طرف توجہ دلائی۔

خطبے کے اختتام پر حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض دعائیں دہرائیں اور انہیں پڑھنے کی تلقین کرنے کےبعد فرمایا کہ یہ اِس رمضان کا آخری جمعہ ہے اللہ تعالیٰ کرے کہ رمضان میں ہم سے جو نیک کام ہوئے اور جو نیک تبدیلیاں پیدا ہوئیں ہم اُن کو جاری رکھنے والے ہوں ۔ خطبہ ثانیہ سے پیشتر حضورِانور نے برطانیہ میں عیدالفطر سے متعلق ابہام دُور کرتے ہوئے فرمایا کہ انشاء اللہ عید اتوار چوبیس تاریخ کو ہو گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button