سیرت خلفائے کراممتفرق مضامین

خلافت۔ تاریخ انبیاء کی روشنی میں

(حافظ مظفر احمد)

حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ۔ وہ پہلے ملہم انسان اور خدا تعالیٰ کے نبی تھے

خلافت کے بنیادی معنی جانشینی کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں نبی کے جانشین کے لیے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کے لیے بھی خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا کیونکہ وہ الٰہی صفات اختیار کرنے کےلحاظ سے روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ جانشین ہوتے ہیں جن کو خلافت، نبوت عطا کی جاتی ہے۔

مذہب اور نبوت و خلافت کا تصور لازم و ملزوم ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں جیسی خلافت مسلمانوں کو بھی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا بشرطیکہ وہ ایمان اور اعمال صالحہ بجالاتے رہیں۔ فرمایا:

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ

(النور :56)

تم مىں سے جو لوگ اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کىا ہے کہ انہىں ضرور زمىن مىں خلىفہ بنائے گا جىسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلىفہ بناىا۔

گذشتہ مذاہب میں خلافت کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریمﷺ نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ

مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتْهَا خِلَافَةٌ وَلَا كَانَتْ خِلَافَةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَهَا مُلْكٌ

(مشیخة ابن طھمان(168ھ) جزء1 صفحہ94، کنزالعمال جزء 11 صفحہ476، تاریخ دمشق ابن عساکر )

یعنی کبھی کوئی نبوت نہیں ہوئی مگر اس کے بعد خلافت قائم ہوئی اورکوئی خلافت نہیں ہوئی مگر اس کے بعد بادشاہت آئی۔

خلافت دراصل نبوت کا تتمہ اور اس کی برکات کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ

‘‘خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو…خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لیے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔’’

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ353)

اس نقطۂ نظر سے جب ہم دنیائے مذہب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں توجملہ معروف مذاہب میں خلافت کا ذکرمل جاتا ہے۔ جس کا مختصر بیان یہاں مقصود ہے۔

زرتشت ازم

ایک مشہورقدیم ایرانی مذہب زرتشت ازم ہے جس میں جانشینی کا نظام بھی موجود تھا۔ چنانچہ قدیم بازنطینی انسائیکلو پیڈیا Sutaکے مطابق اہل بابل نے علم نجوم حضرت زرتشت کے جانشینوں اورشاگردوں سے سیکھا۔

(The Real Magi,The real history behind the bible story of the wise men by Steve Williamson)

کنفیوشس ازم

مشرق بعید کے ملک چین میں حضرت کنفیوشس (BC 479-551)کا ذکر ملتا ہے۔ جوکنفیوشس ازم کے بانی تھے۔ ان کے بعدجانشینی کا سلسلہ شروع ہوااورپہلا جانشین Menciusہوا۔ بعض کے نزدیک Husn Tzu بھی ان کے جانشین تھے۔

(Confusius,Mencius and notion of true succession by John N. Williams)

تاؤازم

مشرق بعید کے ممالک چین، سنگاپور، ملائیشیا، کوریا اور جاپان میں تاؤازم کے بانی (Lao-tze (601 – 531 BCتھے جو چین کے علاقہ میں آئے۔ Zhuangziکو لاؤتزے کا روحانی جانشین سمجھاجاتا ہے۔ جن کے چینی ادب ومعاشرت اور مذہب پر گہرے اثرات ہیں۔ (ویکی پیڈیا)

ہندو ازم

ہندوستان کے ملک میں بھی کئی فرستادے آئے۔ ہندوازم کے مطابق حضرت رام چندر جی کے بعدان کا بیٹا کوسا (Kusa)جانشین ہوا۔

(Raghuvamsa by Kalidasa Canto XVI page xxiii)

بعض لوگ رامائن کے مصنف والمیکی کوان کا جانشین گردانتے ہیں۔ حضرت کرشن کے بعد بیاس جی (vyasa)نےگیتا، ویدوں وغیرہ کو مرتب کیا اور مہابھارت لکھی اور اس لحاظ سے انہیں حضرت کرشن جی کی نیابت ملی۔

بدھ ازم

مشرقی ممالک میں نیپال، برما، تھائی لینڈ، سری لنکا وغیرہ میں بدھ ازم موجود ہے۔ بدھ ازم کے مطابق ایک زمانہ گزرنے کے بعد ایک بدھ آجاتا ہے ان میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ متیایا مسیحا بدھا دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ نیز یہ کہ مہاکیشپ جو حضرت بدھ علیہ السلام کے سب سے بااعتماد اور وفادار حواریوں میں سے تھاحضرت بدھ ؑنے اسے اپنی زندگی میں کہا کہ ‘‘کیشپ!راہبوں کو ترغیب دلاؤ۔ ان سے مذہب کے بارہ میں گفتگو کرو۔ پس مجھے یا تمہیں ہی راہبوں کو مذہب کے بارہ میں تعلیم دینی ہے۔’’

(Sutta. 16:6)

یوں بدھ کی جانشینی میں بدھ ازم کی پہلی کونسل 400ق م میں مہا کیشپ کی صدارت میں ہی ہوئی۔

(Maha Kassapa، Father of the Sangha by Hellmuth Hecker p.20)

خلافت آدم علیہ السلام

حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ مقرر فرمایا وہ پہلے ملہم انسان اور خدا تعالیٰ کے نبی تھے۔

حضرت آدمؑ کے بعد جو سلسلۂ نبوت و رسالت جاری رہا اس کی وضاحت حضرت ابوذرؓ کی ایک روایت سے ملتی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! انبیاء(صاحب الہام) کتنے ہوئے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ میں نے عرض کیا ان میں سے کتنے باقاعدہ رسول تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین سو تیرہ۔ میں نے پوچھا کہ پہلے کون تھے؟ فرمایا: حضرت آدمؑ وہ نبی اور رسول بھی تھے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذرؓ! ان میں سے چار سریانی تھے یعنی حضرت آدمؑ، حضرت شیثؑ، حضرت اخنوخؑ جو حضرت ادریسؑ تھے اور حضرت نوحؑ…مَیں نے عرض کیا کتنی کتابیں(صحیفے) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: 100صحیفے اور چارکتب۔ حضرت شیث ؑپر پچاس صحیفے، حضرت ادریس ؑپر تیس صحیفےاور حضرت ابراہیم ؑ پر دس اور حضرت موسیٰؑ پر تورات سے قبل دس صحیفے نازل ہوئے ۔ اور تورات و انجیل ، زبور اور قرآن کریم نازل کیا گیا۔’’

(صحیح ابن حبان، کتاب البر والاحسان، باب ما جاء فی الطاعات وثوابھا جزء دوم صفحہ76)

چنانچہ حضرت آدمؑ کے بعد ان کے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام ان کے جانشین اور نبی تھے۔ پھرحضرت شیثؑ کی پانچویں پشت میں حضرت ادریسؑ(بائبل کے مطابق حنوک) نبی ہوئے جن کے پڑپوتے حضرت نوح علیہ السلام تھے اور آپ کے بیٹے سام کی نسل سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ نبی ہوئے۔

(پیدائش، باب 5)

ملت ابراہیمیؑ

حضرت ابراہیمؑ بھی حضرت نوحؑ کے جانشینوں میں سے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيْمَ

(الصّٰٓفّٰت:84)

اور یقىناً اُسى کے گروہ مىں سے ابراہىم بھى تھا۔

خود حضرت ابراہیمؑ کے بعد ان کے بیٹے حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیلؑ نےنبوت پاکر اپنے بزرگ باپ کی جانشینی کی۔ حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ اور ان کے بیٹے حضرت یوسفؑ نبی ہوئے اور چار پشتوں تک نبوت کا یہ سلسلہ چلا۔

اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب تھا، جن کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کرتے ہوئے پہلے ایک زمانہ تک بنی اسرائیل کو نبوت و خلافت سے سرفراز کیا تو دوسرے دور میں حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے ذریعہ ایک اور روحانی سلسلہ کی بنیاد رکھ دی۔

یہودیت

بنی اسرائیل میں خلافت و نبوت کا آغازحضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشعؑ کی جانشینی سے ہوا۔ استثناء باب 34آیت 9 میں لکھا ہے کہ

‘‘اور نون کا بیٹا یشوع دانائی کی روح سے معمور تھا کیونکہ موسیٰ نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے تھے اور بنی اسرائیل اس کی بات مانتے رہے اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا انہوں نے ویسا ہی کیا۔’’

گویاحضرت موسیٰؑ نے یشوع پرہاتھ رکھ کر انہیں اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔

پھرخدا تعا لیٰ کی طرف سے حضرت یشوع کو الہام کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نیابت کا حکم ہوا۔ چنانچہ لکھا ہے:

‘‘اور خداوند کے بندہ مو سیٰ کی وفات کے بعد ایسا ہوا کہ خداوند نے اس کے خادم نون کے بیٹےیشوع سے کہا میرا بندہ موسیٰ مر گیا ہے۔ سو اب تو اٹھ اور ان سب لوگوں کوساتھ لےکر اس یر دن کے پار اس ملک میں جا جسے میں ان کو یعنی بنی اسرائیل کو دیتا ہوں’’(یشوع، باب1، آیات 1تا 2 )

قرآن کریم میں بھی بنی اسرائیل میں نعمت نبوت و بادشاہت کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا(المائدة:21)

اور (ىاد کرو)وہ وقت جب موسىٰ نے اپنى قوم سے کہا اے مىرى قوم! اپنے اوپر اللہ کى نعمت کو ىاد کرو جب اس نے تمہارے درمىان انبىاءبنائے اور تمہىں بادشاہ بناىا۔

اسی طرح رسول اللہﷺ نے بنی اسرائیل میں خلافت، نبوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں اصلاح احوال کے لیے انبیاء آتے تھے۔ جب بھی ایک نبی فوت ہوتا تھا تو اس کا جانشین دوسرا نبی ہوتا تھا۔

(صحيح البخاري کتاب احادیث الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)

بنی اسرائیل میں نبوت و خلافت کا یہ سلسلہ 1400سال تک جاری رہا۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے اپنی زندگی میں ہی اپناخلیفہ حضرت یشوع بن نون کومقرر فرمادیا۔ اورپھرحضرت موسیٰؑ کی وفات کے بعد انہیں نبوت بھی عطا ہوئی۔ جن کے بعدقضاۃ کا دور1350 ق م سے1014ق م تک قریباً ساڑھے تین سو سال رہا۔ اس زمانہ میں قریباً15قاضیوں کا ذکر ملتا ہے۔ جو بنی اسرائیل کے مابین احکام توریت کے مطابق فیصلے کرکے شریعت موسوی کو قائم کرنے والے تھے۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰٮۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ

(المائدة :45)

ىقىناً ہم نے تورات اتارى اُس مىں ہداىت بھى تھى اور نور بھى اس سے انبىاءجنہوں نے اپنے آپ کو(کلىةً اللہ کے) فرمانبردار بنا دىا تھا ىہود کے لیے فىصلہ کرتے تھے اور اسى طرح اللہ والے لوگ اور علماءبھى اس وجہ سے کہ ان کو اللہ کى کتاب کى حفاظت کا کام سونپا گىا تھا (فىصلہ کرتے تھے) اور وہ اس پر گواہ تھے۔

توریت سے پتہ چلتا ہے کہ قضاة کے دور میں بعض قاضی ملہم من اللہ یعنی نبی اور دوسرے غیرنبی یعنی ربانی، احبار وغیرہ تھے۔

قاضیوں کے اس دور کے بعدبنی اسرائیل میں بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا اور1052 ق م میں ساؤل متحدہ سلطنت کا پہلا بادشاہ ہوا۔ پھر1010ق م میں حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ ہوئے۔ جنہیں پندرہ سال کی عمر میں ہی سموئیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر بادشاہ ہونے کے لیے مسح کیا تھا۔ (1 سموئیل باب16)اور30برس کی عمر میں حضرت داؤدؑ کو بادشاہت عطا ہوئی۔

(2 سموئیل باب 5 آیات 1 تا4)

حضرت داؤد ؑاللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ (ص :27)

اے دا ؤد! ىقىناً ہم نے تجھے زمىن مىں خلىفہ بناىا ہے پس لوگوں کے درمىان حق کے ساتھ فىصلہ کر۔

حضرت داؤدؑ کے بیٹے حضرت سلیمانؑ نے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی اپنے باپ سے ورثہ میں پائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُدَ(النمل :17)اور سلىمان دا ؤد کاجانشین ہوا۔

بائبل کے مطابق 970 ق م میں حضرت داؤدؑ کی وفات کے بعد حضرت سلیمانؑ تخت نشین ہوئے۔

حضرت داؤدؑ کے دور میں ان کے ہم عصر انبیاء میں ناتن نبی اور جادبھی تھے۔ ناتن نبی کے ذریعہ حضرت داؤدؑ کو خداوند کا گھر بنانے اور جادنبی کے ذریعہ انہیں تین بلاؤں میں سے ایک چننے کا حکم ہوا۔ (2 سموئیل)

اور 931 ق م میں حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعدان کے بیٹےرحبعام بادشاہ ہوئے۔ مگر یہ تخت سلیمانی کی وسیع حکومت سنبھال نہ سکے۔ نتیجةً یہ سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ شمالی سلطنت (جو دس اسرائیلی قبائل پر مشتمل تھی)حضرت سلیمانؑ کے بیٹے یربعام کےتابع سلطنت اسرائیل کہلائی۔ جبکہ جنوبی سلطنت پر دوسرے بیٹے رحبعام نے حکومت کی جو سلطنت یہودا کہلائی۔ ان کے دور میں سمعیاہ نبی جو بیت ایل کا بڈھا نبی کہلاتے تھے مبعوث ہوئے۔ (1سلاطین باب 12آیت22)

رحبعام کے بعدابیام 914ق م تا911 ق م بادشاہ رہا۔ جس کے بعد آسا نے911تا870 ق م یہودا میں بادشاہت کی۔ اس دور میں شاہ اسرائیل اخی آب تھا۔

ایلیاہ تشبی اورالیشع نبیوں کا زمانہ 10 ویں اور نویں صدی قبل مسیح ہے۔ انہوں نے کئی بادشاہوں کے ادوار دیکھے۔ ایلیاہ کو الیشع کا استاد مانا جاتا ہے۔ ان کے دیگرہم عصر انبیاءعبدیاہ اور میکایاہ تھے۔ میکایاہ نے اخی آب شاہ اسرائیل(911تا870 ق م )کے متعلق جنگ میں شکست کی پیشگوئی کی۔

آٹھویں صدی قبل مسیح میں یہوآس(843 تا797قبل مسیح)کے دورمیں یوناہ اور زکریاہ بن یہویدع نبی ہوئے اورعزیاہ(793 ق م تا740 ق م) کے 52سالہ دور حکومت میں عاموس اور ہوسیع انبیاء ہوئے۔

یسعیاہ (740 ق م تا 681 ق م )بھی بنی اسرائیل کے عظیم الشان نبی ہوئے جنہوں نے عزیاہ، یوتام، آخز، حزقیاہ اور منسی پانچ بادشاہوں کےدور میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کے ہم عصر میکاہ (750ق م تا686 ق م)نبی تھے۔

‘‘حبقوق نبی’’ منسی (709ق م تا 643ق م)کے دور حکومت میں تھے۔ان کے بعد ناحوم (663ق م تا612ق م) اورصفنیاہ 640تا 609قبل مسیح کے درمیان یوسیاہ بادشاہ کےزمانہ میں نبی ہوئے۔

حضرت یرمیاہ (655 ق م تا570 ق م) یہویقیم کے دور میں نبی تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کی جلاوطنی اور پھر واپسی کی پیشگوئیاں کیں۔ ان کے ہم عصر انبیاء میں حزقیل، حننیاہ نبی، عریاہ بن شمیاہ وغیرہ کا ذکر ملتا ہے جو بنی اسرائیل کی اصلاح احوال پر مامور تھے۔

الغرض سلطنت یہودا میں586 ق م تک بنی اسرائیل کی بادشاہت رہی۔ 586ق م میں نبوکد نضر نے اس پر حملہ کرکے اسے تباہ و برباد کردیا اور بنی اسرائیل کوبابل جلا وطن کردیا۔

حضرت حزقیل بھی بنی اسرائیل کے ساتھ بابل چلے گئے۔ اور اسیری کے پانچویں سال یعنی(581 ق م میں)انہیں نبوت ملی۔ ان کے ہم عصر انبیاء میں میساایل، عبدیاہ اور دانیال نبی تھے۔ حضرت دانیال نبی نے رؤیا دیکھی جس کی یہ تعبیر کی کہ میدو فارس کے بادشاہ خورس کے ذریعہ بنی اسرائیل کو آزادی ملے گی۔

539 ق م میں خورس شاہ فارس نے بنی اسرائیل کوبابل کی اسیری سے نجات دلائی اور انہیں واپس اپنے علاقہ میں جانے کی اجازت دی۔

539 ق م سے 433 ق م کے دوران بنی اسرائیل میں جن انبیاء کا بائبل میں ذکر ملتا ہے۔ ان میں حجی اورزکریاہ(520 ق م)، عزرا(457 ق م)، نحمیاہ(465 ق م تا 400 ق م)، ایوب(465 ق م)، یوایل(پانچویں صدی)، ملاکی (433 ق م) وغیرہ شامل ہیں۔

الغرض اس طرح بنی اسرائیل میں خلافت، نبوت کا سلسلہ جاری رہا اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیے عہد کے مطابق اپنے وعدے پورے فرمائے۔

عیسائیت

حضرت موسیٰؑ کے قریباً تیرہ سو سال بعدبنی اسرائیل میں سلسلہ موسویہ کے آخری جانشین حضرت عیسٰی ؑتھے۔ ان کی وفات کے بعدبھی خلافت کے سلسلہ کاآغاز ہواجس پر عیسائیوں کے فرقہ رومن کیتھولک کا اتفاق ہے۔ تاہم پہلےخلیفہ پطرس تھے یا یعقوب؟اس میں اختلاف پایا جاتاہے۔

کیتھولک عیسائی فرقہ پطرس کو حضرت عیسیٰ کا جانشین تصور کرتاہے۔ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود پطرس کو وہ پتھر قرار دیا جس پر کلیسا بنانی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے :

‘‘اس نے (مسیح نے )ان سے کہا۔ مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟شمعون پطرس نے جواب میں کہاتو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ یسوع نے جواب میں اس سے کہا مبارک ہے تو شمعون بر یو ناہ۔ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے اور اب میں بھی تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پطرس ہے اور میں اس پتھر پر اپنی کلیسا بناؤں گا اور عالمِ ارواح کے دروازے اس پر غالب نہ آئیں گے۔’’

(متی، باب 16، آیت 15 تا18)

اسی طرح یوحنا کی انجیل باب 21آیت 15تا18میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پطر س کو تین مرتبہ یہ ارشاد فرما یاکہ ‘‘تو میرے برّے چرا اور تو میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر۔’’

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان ارشا دا ت کی روشنی میں کیتھولک عیسا ئی پطرس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سفر کشمیر میں 120سال کی عمر میں طبعی موت کے بعد ان کا جانشین سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا گروہ حضرت یعقوب کو مسیح کا پہلا خلیفہ سمجھتا ہے۔

چنانچہ توما کی انجیل میں لکھا ہے کہ

‘‘حضرت عیسیٰؑ سےجب حواریوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیں چھوڑ کر دور چلے جائیں گے۔ آپ کے بعد ہمارا سردار کون ہو گا؟حضرت مسیح ؑ نے ان کو کہا کہ جہاں کہیں سے بھی تم آئے ہو تم یعقوب کی طرف جاؤ گے جو کہ ‘‘ الصادق/انصاف پسند ’’ ہے جس کی خاطر زمین و آسمان بنائے گئے۔’’ (تھوما کی انجیل قول12)

اس اختلاف میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ حضرت مسیح کی ہجرت کشمیر کے دوران ان کی عدم موجودگی میں حضرت یعقوبؑ نے ان کی نیابت کی کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بھائی یعقوب “The Just”یعنی‘‘الصادق /انصاف پسند’’کے نام سے یہود و نصاریٰ میں معروف تھے۔ اور وہی واقعۂ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰؑ کے خلیفہ، کلیسائے یروشلم کے امیر اور عیسائیوں کے صدر تھے۔ ان کے کمال درجہ زہد و اتقاء کے باعث یہود بھی آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ اعمال الرسل سے ثابت ہے کہ سب حواری آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔

چنانچہ جب واقعہ صلیب کے بعد یہ مسئلہ زیربحث آیاکہ نئے عیسائی ہونے والے افراد اور اقوام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور موسوی شریعت کے مطابق ختنہ وغیرہ پر عمل کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟تویروشلم میں بزرگوں کی کا نفرنس میں پطرس نےیہ رائے دی کہ

‘‘پس اب تم شاگردوں کی گردن پر ایسا جوا رکھ کر جس کو نہ ہمارے باپ دادا اُٹھا سکتے تھے نہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو؟حالانکہ ہم کو یقین ہے کہ جس طرح وہ خداوند یسوع کے فضل ہی سے نجات پائیں گے اسی طرح ہم بھی پائیں گے۔’’

(اعمال، باب 15، آیت 10تا11)

لیکن یعقوب نے پطرس کی یہ رائے قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘پس میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو غیر قوموں میں سے خدا کی طرف رجوع ہوتے ہیں ہم ان کو تکلیف نہ دیں، مگر ان کو لکھ بھیجیں کہ بتوں کی مکروہات اور حرام کاری اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور لہو سے پرہیز کریں، کیونکہ قدیم زمانہ سے ہر شہر میں موسیٰ کی توریت کی منادی کرنے والے ہوتے چلے آئے ہیں اور وہ ہر سبت کو عبادت خانوں میں سنائی جاتی ہے۔’’

(اعمال، باب 15، آیت 19تا21)

اور تمام لوگوں نے یعقوب کےاس آخری فیصلہ پر سر تسلیم خم کیا اور اس پر عمل درآمدکروانے کے لیے مختلف علاقوں میں وفود بھجوائے۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ یعقوبؑ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل جانشین تھے اوراسی حیثیت سے ان کے فیصلے ہی مانے جاتے تھے۔

اسلام میں خلافت

یہ ہے مختلف مذاہب میں خلافت کا تذکرہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں اپنےدین کی سربلندی کے سامان کیے۔ مسلمانوں سے بھی یہ وعدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان میں بھی روحانی خلافت کا یہ نظام جاری فرمائے گا، جس سے دین کو تمکنت نصیب ہوگی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جب مسلمان مارے غم کے دیوانوں کی طرح ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کوکھڑاکردیا جس طرح حضرت موسیٰؑ کے بعد حضرت یوشع بن نون کوخلیفہ بنایا تھا۔ اوراللہ کا وعدہ پورا ہوا۔ پھر رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپؐ کے بعد تیس سال تک حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کے ذریعہ یہ خلافت راشدہ قائم رہی۔ اس کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوگیا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں مسلمانوں کو عراق، شام، ایران وغیرہ کی غیرمعمولی فتوحات نصیب ہوئیں تو حضرت علیؓ نے اس موقع پر حضرت عمرؓ کی خدمت میں یہ اظہار کیا کہ

‘‘اس کام میں کامیاب یا ناکام ہونے کا دارومدار نہ کثرت پر ہے اور نہ قلت پر ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کا لشکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے معزز کیا اور اس کی تائید کی۔ یہاں تک کہ وہ اس شان کو پہنچ گیا اور ہم سے اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ فرمایا ہے کہ‘‘وَعَدَاللّٰہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ…الخ۔’’اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والاہے۔’’

(تفسیرروح المعانی از علامہ محمود الوسی(متوفی:1270ھ)جزء9صفحہ397۔ ترجمہ از عربی عبارت)

مگر شومیٔ قسمت اسلام کی نشأة اولیٰ کے زمانہ میں خلافت راشدہ کا جو انعام ایمان اور عمل صالح سے مشروط کیاگیا تھا، اس کی حفاظت تیس برس سےزیادہ نہ ہوسکی۔ جس کے بعدملوکیت کا دور جلد شروع ہوگیا۔ بے شک اس دور میں اسلام کی ظاہری شوکت توبڑھتی رہی مگر اس کے ساتھ بادشاہت کی خرابیاں بھی در آئیں۔ اور خلافت راشدہ جیسا عادلانہ نظام نہ رہا۔ اسلام کی نشأة اولیٰ کی یہ تاریخ نشأة ثانیہ کے لیے یقیناًعبرت کا ایک عظیم سبق ہے۔ اس دور میں ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِکی رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی کی خلافت کا جاری ہونا مقدرتھا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے 27؍مئی1908ء سے قائم، جاری و ساری ہے۔ اور جماعت کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب حضرت بانیٔ جماعتِ احمدیہ کے پانچویں خلیفہ ہیں۔

اسی وعدۂ الٰہی کے مطابق خداتعالیٰ نے مسیح محمدی کے ذریعہ دوبارہ یہ نعمت خلافت عطا کرکے ہم احمدیوں کو اس سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ہم اس کا جتنا شکر کریں کم ہے۔ اور اس کا حقیقی شکرانہ یہی ہے کہ ایمان بالخلافت پر قائم رہتے ہوئے ہم نسلاً بعد نسلٍ اپنے اعمال صالحہ کی حفاظت کرتے چلے جائیں تاکہ خلافت کی برکات کا یہ زمانہ لمبا ہوتا چلاجائے اور ہم غلبۂ اسلام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کیونکہ آج اسلام کی نشأة ثانیہ اور تمکنت دین اسی خلافت کے ساتھ وابستہ کردی گئی ہے۔ ہاں!یہ وہی خلافت ہے جس کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ تم اپنے وقت کے خلیفہ کو پاؤ تو اس سے چمٹ جانا اورخواہ تمہیں (جنگل میں) درختوں کی جڑیں کھاکر گزارہ کرنا پڑے یہاں تک کہ موت آجائے۔

(صحیح بخاری کتاب الفتن بَابٌ كَيْفَ الأَمْرُ إِذَا لَمْ تَكُنْ جَمَاعَةٌ)

پس اپنے آقاومولا کی اس بابرکت نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آج ہم نے پھر سے خلافت سے وابستہ رہنے کے عزم تازہ کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(نوٹ:۔اس مضمون کے جملہ حوالہ جات کی تخریج میں عزیزم مکرم باسل احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ نے خصوصی معاونت کی ہے۔فجزاہ اللہ احسن الجزاء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
    خلافت ۔تاریخ انبیاء کی روشنی میں ۔
    یہ مضمون نہایت دلچسپ ہے۔الفضل کے سب شمارےہمیشہ خلیفہ وقت کےقیمتی
    نصائح اور تاریخ ۔علم ۔ادب سے مزین ہوتاہے ۔یہ ایک ایسے سمندرہے جہاں ہر پیاسا سیراب ہوتاہے ۔اورعلم میں اضافہ ہوتا ہے ۔اللہ تعالی سب کو اس سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button