استغفار میں مداومت اختیار کریں
تیسری شرط بیعت(حصہ پنجم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
استغفار میں مداومت اختیار کریں
پھر اس تیسری شرط میں استغفار کے بارہ میں بھی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا۔ وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا۔
(نوح: آیات 11تا 13)
پس میں نے کہا اپنے ربّ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا
(النصر :آیت 4)
پس اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ (اس کی) تسبیح کر اور اُس سے مغفرت مانگ۔ یقینا ًوہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
اس بارہ میں ایک حدیث ہے۔ابو بردہ بن ابی موسیٰ ؓ اپنے والد ابو موسیٰ ؓکے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں۔
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔
(الانفال:آیت34)
یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک تو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا۔
(جامع ترمذی۔ کتاب تفسیر القرآن۔ تفسیر سورۃ الانفال)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے (یعنی استغفار کرتا رہتا ہے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کی کشائش کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔
(سنن ابو داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’… استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کوجو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیو ست ہوکر اس سے مدد چاہنا۔ یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃالعین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا۔ کیونکہ غَفَرَ جس سے اِستغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیت کی چادر میں لیکر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے۔ یا اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے ننگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے۔ سو چونکہ خدا مبدء فیض ہے اور اس کا نور ہر ایک تاریکی کے دور کرنے کے لئے ہروقت تیار ہے اس لئے پاک زندگی حاصل کرنے کے لئے یہی طریق مستقیم ہے کہ ہم اس خوفناک حالت سے ڈر کر اس چشمہ ٔ طہارت کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائیں تا وہ چشمہ زور سے ہماری طرف حرکت کرے اور تمام گند کو یکدفعہ لے جائے۔ خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم درحقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن۔ جلد12۔ صفحہ 346-347)
پھرآپؑ نے فرمایا:’’ …جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے۔ وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں‘‘۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ34)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو ا سے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پائوں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔
رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ
(الاعراف:24)
دعا اول ہی قبول ہوچکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بلا بغیراذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی:
رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ577)