سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خط و کتابت کا بیان (حصہ دوم)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا محکمہ ڈاک

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ1901ء کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور کی خط و کتابت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :

‘‘خط و کتابت کا سلسلہ بہت بڑا سلسلہ ہے اور اس سے بہت لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔یہ سلسلہ دو مَدّوں میں منقسم ہے ایک تو وہ خطوط ہیں جو براہِ راست حضرت حجۃ اللہ یا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے نام آتے ہیں اور دوسرے وہ خطوط ہیں جو حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوی نورالدین صاحب یا دوسرے لوگوں کے نام آتے ہیں ۔ان خطوط سے ہماری مراد وہ خطوط ہیں جو حضرت اقدس کے متعلق آتے ہیں ۔حضرت اقدس کے خطوط کا جواب خداتعالیٰ کی خاص تائید سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب برابر دیتے ہیں ۔وہ خطوط جو باہر سے حضرت اقدس اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے نام سے آئے ان کی روزانہ اوسط تیس تک ہے اس انداز سے سال تمام میں قریباً بارہ ہزار خطوط آئے۔اور ان خطوط کی اوسط روزانہ جو حضرت مولوی نورالدین صاحب یا دوسرے لوگوں کے نام بغرض استفسار … حضرت اقدس آئے 15 ہے یا سالانہ5475 گویا ساڑھے پانچ ہزار کل تعداد قریباً اٹھارہ ہزار۔اور اس قدر خطوط لکھے گئے ہیں ۔اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کس قدر لوگوں میں بذریعہ خطوط اس پاک سلسلہ کی تبلیغ پہنچی ہے۔’’

(الحکم مؤرخہ 14 فروری1902ء صفحہ13،12)

نیز تحریر فرماتے ہیں :

‘‘آج میں دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے محکمہ ڈاک کی تاریخ سنانی چاہتا ہوں جس سے انہیں معلوم ہوگا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے خدام کے خطوط کے جواب کا کس قدر التزام رہتا تھا۔اوائل میں جب آپ کا کوئی دعویٰ نہ تھا اور براہین احمدیہ کی تالیف میں مصروف تھے۔اُس وقت آپ کا معمول یہ تھا کہ جو خطوط آتے اُن کا جواب آپ خود لکھتے۔لکھنے کے لئے دیسی قلم اور سیاہی استعمال فرماتے اور باریک فرینچ پیپر پر خطوط کا جواب دیتے تھے۔یہ خطوط بعض اوقات بجائے خود ایک مستقل تالیف بن جاتے تھے۔جن میں روحانیات اور تصوف کے نہایت باریک در باریک امور پر بحث ہوتی تھی۔ایک عرصہ تک یہی انتظام رہا پھر منشی عبداللہ سنوری اور صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی حاضر ہونے لگے تو ان سے بعض خطوط کا جواب لکھوا دیا کرتے۔رفتہ رفتہ جب سلسلہ وسیع ہوا اور خداتعالیٰ کے اِذن اور الہام سے آپ نے اپنے دعویٰ کا اعلان کر دیا اور خطوط بھی کثرت سے آنے لگے تب بھی اکثر خطوط کا جواب خصوصاً اپنے مخلص خدام کے خطوط کا جواب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اپنے ہی قلم سے لکھا کرتے تھے بلکہ بعض دوستوں کے ساتھ تو آپ کا یہ تعلق تھا کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک یا ان میں سے بعض کی زندگی کے آخری ایام تک اس التزام کو نبھایا کہ ان کے خطوط کا جواب خواہ ایک ہی سطر پر ہو اپنے ہی ہاتھ سے دیا کرتے۔بعض دوستوں کے متعلق نہ صرف محبت اور اخلاص کی بنا پر بلکہ احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ان کے نام کوئی کتاب یہ رسالہ یا اشتہار بھیجتے تو اپنے ہاتھ سے پیکٹ بناتے اور اپنے ہاتھ سے پتہ لکھتے اور ٹکٹ لگاتے اور رجسٹری کرا کر روانہ کرتے۔یہ ایک مستقل مضمون ہے جو کسی قدر تفصیل سے لکھا جانے والا ہے۔اس وقت میں صرف ایک تمہیدی نوٹ کے طور پر لکھ رہا ہوں ۔

غرض جب دعوٰے کی عام اشاعت ہوئی اور خطوط کی کثرت ہو گئی۔آپ کی مصروفیت کی حدود سے ڈاک کا کام نکلنے لگا تو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب، حکیم فضل دین صاحب اور کبھی کبھار میرزا خدابخش صاحب اس کام میں حصہ لیا کرتے تھے۔جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے قادیان آ گئے تو مستقلاً یہ کام ان کے سپرد ہو گیا اور ان کی اعانت کے لئے پیر افتخار احمد صاحب مقرر ہوئے۔بیعت یا درخواست ہائے دعا یا دوسرے عام خطوط کا جواب وہ ایک خاص ہدایت کے ماتحت لکھ دیا کرتے تھے اور دوسرے بعض اہم اور خاص خطوط کا جواب حضرت مخدوم الملۃ مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے زمانے کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی جو ان کے ساتھ ختم ہو گئی کہ وہ ہر ہفتے ہفتے کے تمام واقعات پر مشتمل ایک سرکلر لکھا کرتے تھے جس میں تازہ الہامات اور بعض تقریروں کے اہم اقتباسات اور ایسے امور درج ہوتے تھے جو ایمان اور بصیرت کو بڑھایا کرتے تھے۔یہ خطوط کبھی لاہور حضرت منشی تاج دین صاحب رضی اللہ عنہ کے نام پر ہوتے اور انہیں ہدایت ہوتی کہ پڑھ کر اور دوستوں کو سنا کر سیالکوٹ بھیج دیں یا کبھی حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے نام ہوتے اور اسی طرح انہیں ہدایت دی جاتی۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خطوط نویسی کے اہم راز کو معلوم کر لیا تھا جو ان کی ایمانی بصیرت اور معرفت پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہِ راست تعلقات بڑھانے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔اس لئے انہوں نے جماعت کے قلوب میں یہ حقیقت پیدا کر دی تھی کہ لوگ کثرت سے خطوط لکھیں اور بار بار لکھیں ۔چونکہ دعا کے خطوط اکثر آتے تھے اس لئے حضرت مرحوم (مولوی عبدالکریمؓ) دعا کرانے کے طریقوں پر بھی اپنے خطوط میں بحث کر جاتے تھے۔پھر اس طریق کو اور بھی آپ نے وسیع کر دیا کہ ہفتہ وار ایک چٹھی الحکم کے ذریعہ شائع کرتے تھے۔آپ کی وفات کے بعد یہ کام حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد ہوا۔مفتی صاحب پہلے بھی کبھی کبھار یہ خدمت انجام دیتے تھے۔مگر حضرت مخدوم الملۃ کے بعد کلیۃً ان کے سپرد یہ کام کر دیا گیا اور حضرت کی زندگی کے آخری وقت تک ان کے سپرد رہا۔

خطوط کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ معمول تھا جس پر اب تک جب کہ سلسلہ کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے اور خطوط کی تعداد بھی بے حد بڑھ گئی ہے اور بعض اوقات حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی صحت کا اقتضا بھی یہی ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص پڑھ کر خلاصے پیش کرے۔مگر جو سنت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی اُسی پر عمل ہو رہا ہے اور (وہ) یہ تھی کہ آپ تمام خطوط کو خود پڑھا کرتے تھے۔خطوں کو کھولنے اور پڑھنے سے پیشتر جب ڈاک کا بنڈل آپ کے دست مبارک تک پہنچتا تو اجمالی طور پر تمام خطوط کو سامنے رکھ کر دعا کر لیتے کہ جن مقاصد اور اغراض کے لئے دوستوں نے لکھا ہے اللہ تعالیٰ ان دوستوں کو ان مقاصد میں بامراد کرے۔

الفاظ کیا ہوتے تھے وہ میں نہیں کہہ سکتا مگر مفہوم یہ ہی ہوتا تھا۔اس لئے بارہا آپ نے اپنی مجالس میں فرمایا کہ جب خطوط آتے ہیں تو میری عادت ہے کہ میں سب کے لئے دعا کر لیتا ہوں۔ پھر آپ ایک ایک خط کو کھولتے اسے پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ہی راقم الحروف کے مقاصد کے لئے دعا بھی فرماتے جاتے۔تمام خطوط پڑھ چکنے کے بعد کاتب الخطوط کے حوالے اُس وقت فرماتے جب آپ نماز ظہر میں تشریف لاتے اور جن ایام میں ڈاک ظہر کے بعد آتی تھی تو عصر کے بعد دیتے۔چونکہ خطوط کا پلندہ آپ کے رومال سے بندھا ہوا جیب میں ہوتا تھا تو نماز میں بھی دعا فرماتے۔وہ خطوط جب محکمہ ڈاک میں جاتے تو مغرب کی نماز سے پہلے ایک فہرست اسم وار دعا کرانے والوں کی ان خطوط کی بنا پر تیار ہوتی۔یا اگر کسی نے کوئی درخواست دستی دی ہوتی تو اس کا نام بھی اس فہرست میں درج ہوتا۔اس طرح پر وہ فہرست پھر حضرت کی دعا کی محرک ہوتی اور آپ ان کے لئے پھر اپنی مخصوص عبادت کی گھڑیوں میں دعا فرماتے۔ان خطوط کے جواب میں لکھا جاتا کہ دعا کی گئی ہے۔خطوط کے جواب میں جب حضرت خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تو آپ کا معمول تھا کہ عام طور پر اپنے دوستوں کو حبی فی اللہ۔اخویم اور مکرمی فلاں سے خطاب فرمایا کرتے خواہ کوئی شخص عرف عام کے لحاظ سے کتنے ہی چھوٹے درجے کا ہو۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کو بھی ہمیشہ اکرام و احترام کے الفاظ سے یاد فرمایا کرتے تھے۔آپ کی عادت میں تھا ہی نہیں کہ کسی کا صرف نام لکھا کریں بلکہ کوئی تعظیمی لفظ شامل کر لیا کرتے تھے اور جمع کا صیغہ بغرض تعظیم استعمال فرماتے۔یہ تمام امور آپ کے مکتوبات میں نمایاں ہیں جن کی کچھ جلدیں میں شائع کر چکا ہوں اور کچھ الحکم میں شائع ہو رہے ہیں اور یہ تو میں تحدیث بالنعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ مکتوبات کے مخفی خزانے کو شائع کرنے کی سعادت مجھے ہی ملی۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔

میں اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے دوستوں سے التماس کرتا ہوں کہ جو اس مضمون کو پڑھے اگر اس کے پاس یا اس کے کسی دوست کے پاس حضرت مسیح موعود کا کوئی مکتوب ہو تو اس کی اصل یا نقل میرے پاس بھیج دیں تا کہ اُسے میں شائع کر دوں اور اس طرح پر ہم دونوں اجرعظیم کے مستحق ہونگے۔’’

(الحکم مؤرخہ21 فروری 1934ء صفحہ11)

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ فرماتے ہیں ۔

21 فروری 1934ء کے الحکم میں عرفانی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے محکمہ ڈاک کا ذکر کیا ہے چونکہ عاجز راقم بھی اس خدمت پر ایک عرصہ تک مامور رہا اس واسطے ڈاک کے متعلق میں بھی چند باتیں عرض کرنے کا ثواب حاصل کرنے کا آرزو مند ہوں ۔

ڈاک خانہ سے پوسٹ مین ڈاک براہِ راست حضرت صاحب کے پاس لے جایا کرتا تھا۔حضور کا کوئی خادم یا خادمہ پوسٹمین کے آواز دینے سے دروازہ پر آ کرڈاک اندر لے جاتا تھا۔بعض دفعہ حضور خود ہی تشریف لے آتے اور پوسٹمین سے ڈاک لے جاتے۔تمام خطوط کھولتے، پڑھتے بعض پر کچھ نوٹ کر دیتے کہ کیا جواب لکھا جائے۔بعض بغیر نوٹ کے میرے پاس بھیج دیتے اور بعض اپنے پاس رکھ لیتے اور خود دست مبارک سے اُن کے جوابات لکھتے۔ایسے خطوط عموماً سیٹھ عبدالرحمن صاحب مرحوم مدراسیؓ کے ہوتے یا حضرت مولوی عبداللہ صاحب مرحوم سنوریؓ کا خط یا بعض احمدیان کپور تھلہ کے خطوط جو پُرانے مخلصین میں سے تھے۔ایسے خط بھی عموماً لفافہ میں بند کر کے پتہ لکھنے کے واسطے مجھے بھیج دیا کرتے تھے۔

جب پہلے پہل ڈاک میرے سپرد ہوئی تو وہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم و مغفور کے ایک دفعہ سیالکوٹ تشریف لے جانے کے وقت تھی۔جب میں نے خطوط کو دیکھا تو اکثر خطوط درخواست دعا کے لئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کیا جواب دوں ۔اس واسطے میں نے اُن سب کی ایک فہرست بنائی اور ایک نقشہ بنا کر اس میں ہر شخص کا نام اور مقام اور مطلب درخواست دعا درج کیا اور فہرست اندر بھیج دی۔مگر حضور نے وہ فہرست واپس کی … مگر نہ اس کے متعلق کچھ فرمایا۔دوسرے دن میں نے پھر ویسی ہی ایک فہرست بنائی اور اندر بھیج دی۔وہ فہرست بھی اندر ہی رہی اور کچھ جواب نہ آیا۔تیسرے دن میں نے پھر بعد نماز زبانی عرض کیا۔تب حضور نے فرمایا۔

‘‘ایسے اصحاب کو لکھ دیا کریں کہ دعا کی گئی کیونکہ میں خط اپنے ہاتھ سے نہیں رکھتا کہ جب تک کہ دعا نہ کر لوں اور اب آپ فہرست بنا کر بھیجتے ہیں تو فہرست آگے رکھ کر پھر دعا کر دیا کرتا ہوں اس طرح اب دو دفعہ دعا ہو جاتی ہے۔’’

میں یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ میری اس تجویز سے دوستوں کے واسطے دوبارہ دعا ہو جاتی ہے اور میں نے اس سلسلہ کو جب تک ڈاک میرے پاس رہی جاری رکھا۔جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ واپس تشریف لائے تو پھر ڈاک اُن کے پاس جانے لگی لیکن اُن کی وفات کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب کی تحریک پر ڈاک پھر میرے سپرد ہوئی تو پھر میں نے اس فہرست کا سلسلہ جاری کیا اور اخیر تک وہ جاری رہا۔

جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال پر حضرت خلیفہ اوّل مولوی حکیم نور الدین صاحبؓ نے بھی ڈاک کا کام بدستور میرے سپرد ہی رہنے دیا تو میں نے اُن کی خدمت میں بھی ایسی ہی فہرست بنا کر بھیجنی شروع کی حضرت مولانا صاحبؓ اس فہرست کو اپنے سرہانے رکھ لیتے تھے اور تہجد کے وقت اس فہرست کو ہاتھ میں لے کر ایک ایک کا نام دیکھتے اور دعائیں کرتے۔بعض شب تہجد کے وقت میں آپ کے پاس پہنچ جایا کرتا تھا۔

جن خطوط پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے کچھ نوٹ نہیں ہوتا تھا اُن کے متعلق میں دریافت کر لیا کرتا تھا کہ اس کا کچھ جواب دیا جائے جن خطوط میں مسائل دریافت کئے ہوتے تھے اُن کے جواب بعض دفعہ خود لکھا دیا کرتے تھے لیکن اکثر یہ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب سے پوچھ لیں (مولوی صاحب سے مراد حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ہوتی تھی) عموماً اکثر دوست اپنے مولود بچوں کے نام تبرکاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کرتے تھے اور میں حضرت صاحب سے پوچھ کر نام لکھ دیا کرتا تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد حضور نے مجھے فرمایا:۔

‘‘ مفتی صاحب آپ کو اجازت ہے کہ آپ ہماری طرف سے بچوں کے نام رکھ دیا کریں ۔’’

عموماً حضرت صاحب ڈاک کسی خادم کے ہاتھ میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے مگر بعض دفعہ خود ہی اپنے ہاتھ میں ڈاک لئے ہوئے نماز ظہر کے واسطے باہر تشریف لاتے تو جو کھڑکی حضور کے کمروں سے مسجد مبارک میں کھلتی ہے اس سے نکلتے ہی مجھے آواز دیتے کہ یہ ڈاک ہے۔کوٹ قیصرانی کے بزرگ سردار امام بخش صاحب مرحوم جو بہت ہی مخلص احمدی تھے ایک دفعہ فرمانے لگے۔پُرانے صوفیا کے طرز پر ہر ایک بزرگ کا کوئی معشوق ظاہری بھی ہوتا ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معشوق مفتی محمد صادق صاحب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اکثر جب حضرت صاحب آتے ہیں تو سب سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ‘‘ مفتی صاحب کہاں ہیں ۔’’ اس کی وجہ تھی کہ حضور مجھے روزانہ ڈاک دیتے اور اس کے متعلق ہدایات فرماتے۔اس طرح سب سے اوّل مجھے حضور سے باتیں کرنے کا موقع ملتا تھا۔ان ایام میں عموماً اوسط ڈاک بیس خط روزانہ ہوتے تھے لیکن جن ایام میں کوئی پیشگوئی پوری ہوتی یا نشان ظاہر ہوتا تو ان دنوں میں خطوط کی تعداد بہت بڑھ جاتی تھی۔ڈاک کے کام کے واسطے حضور نے میرے ساتھ مکرمی حضرت پیر افتخار احمد صاحب کو بطور مددگار کے مقرر کیا ہوا تھا۔بعض خط میں انہیں جواب لکھنے کے واسطے دے دیتا تھا وہ لکھ کر میرے دستخط کرا لیتے تھے۔بعض دوست جو اس امر کے بہت ہی مشتاق ہوتے تھے کہ حضور کے دستخط مبارک کا خط انہیں ملے انہیں اگر حضرت صاحب بہ سبب کم فرصتی خود خط نہ لکھ سکتے تو میں لکھ کر حضور سے دستخط کرا لیتا تا کہ اُن کے واسطے کچھ تشفی او رخوشی کا موجب ہو۔جن خطوط کا جواب عام معلومات کے واسطے مفید ہوتا وہ میں عموماً اخبارات بدر اور الحکم میں چھپوا دیا کرتا تھا تا کہ عوام کو فائدہ ہو اور مجھے بھی ثواب حاصل ہو۔

ابتداء میں جب کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ہجرت کر کے قادیان میں نہیں آئے ہوئے تھے تو ڈاک کا کام حضرت پیر سراج الحق صاحب کے سپرد بھی کچھ عرصہ رہا۔اس سے قبل حضرت صاحب خود ہی تمام خط و کتابت کا کام کرتے تھے اور بعض دفعہ خطوط حضور کی علالت کے سبب جمع ہو جاتے تو بعض دوستوں کو بُلا کر فرمایا کرتے تھے کہ خط بہت جمع ہو گئے ہیں آپ لوگ اکٹھے بیٹھ کر ان کو کھولو اور پڑھو اور جو ضرورت ہو مجھ سے پوچھ لو۔ان سب کے جواب لکھ دو۔چنانچہ ایک دفعہ ایسا ہی چند احباب مل کر ڈاک دیکھ رہے تھے کہ ایک لفافہ میں سےجو رجسٹری شدہ بھی نہ تھا مبلغ تین سَو روپے کے نوٹ نکلے جو خط کے ساتھ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے۔

(الحکم مؤرخہ7 مئی 1934ء صفحہ11)

(بحوالہ پیش لفظ مکتوبات احمدجلداول صفحہ3 تا11)

خاکسارنے یہ نوٹ اپنے ایک بزرگ اورمحسن ومربی محترم سیدعبدالحی شاہ صاحب مرحوم ناظراشاعت کی تیار کردہ مکتوبات احمدجلداول سے من وعن درج کیا ہے۔اس حسنِ نیت سے کہ اس تصنیف میں اس شفیق اور بے لوث خادم سلسلہ کانام بھی اظہارتشکراور صدقہ جاریہ کے طورپرشامل رہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button