کفن تورین(Shroud of Turin)۔ تاریخ اور خصوصیات
کفنِ تورین وہ مشہور کپڑا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ مسیح ناصریؑ کو صلیب سے اتارنے کے بعد آپؑ کو ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ اس کپڑے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر ایک انسانی تصویر موجود ہے۔ کفن تورین کے متعلق تین سوالات اہم ہیں۔
اول یہ کہ اس کی تاریخ کیا ہے ؟ یہ دو ہزار سال تک کہاں رہا اور تورین کیسے پہنچا؟
دوئم یہ کہ اس کفن پر بنی تصویر کی خصوصیات کیا ہیں اور یہ تصویر حضرت مسیحؑ کی دیگر تصاویر سے مختلف کیونکر ہو سکتی ہے؟
سوئم یہ کہ اس کفن کی تاریخی یا مذہبی اہمیت کیا ہے؟
متعدد محققین نے یہ ثابت کیا ہے کہ کفن پر موجود تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو جب صلیب سےاتار کر کفن میں لپیٹا گیا اس وقت آپؑ زندہ تھے۔ اس لحاظ سے جماعتی نقطہ نظر سے کفن مسیحؑ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ذیل کے مضمون میں اختصار کے ساتھ ان امور پر بنیادی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مضمون کو سلیس اور عام فہم رکھنے کی خاطر بعض پیچیدہ حصے چھوڑ دیے گئے ہیں۔
کفنِ تورین کی تاریخ
کفن تورین یا کفن مسیحؑ کے متعلق پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا حضرت مسیحؑ کا کوئی کفن تھا؟ اگر تھا تو گذشتہ دو ہزار سال کے عرصے میں یہ کہاں اور کس کے پاس رہا؟ تاریخ میں ایسے اہم متبرک کپڑے کا ذکر کہا ںملتا ہے؟ نیز یہ یروشلم، جہاں حضرت مسیحؑ کو صلیب دی گئی تھی سے تورین کیسے پہنچا؟
اناجیل میں قبر اور کفن کا ذکر
اناجیل میں بتایا گیا ہے کہ جب مسیحؑ کو صلیب سے اتار کر قبر میں رکھا گیا تو اس وقت آپؑ کے جسم کو ایک کپڑے میں لپیٹا گیا تھا ۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اُس وقت یہودی طریق کے مطابق کسی فوت شدہ شخص کی لاش کو ایک کمرہ نما قبر میں رکھا جاتا تھا۔ تابوت میں تدفین کی صورت میں اس کمرہ میں بنی ہوئی ایک چھوٹی سی سرنگ میں یہ تابوت رکھ دیا جاتا۔ بغیر تابوت کے تدفین کی صورت میں لاش کو اس قبر میں بنے ایک چبوترہ پر رکھ دیا جاتا۔ کچھ عرصے بعد جب ہڈیاں باقی رہ جاتیں تو انہیں ایک جگہ جمع کر دیا جاتا۔ یوں ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کی ایک ہی جگہ اجتماعی قبر بن جاتی تھی۔ اس کمرہ نما قبر کے دروازہ پر ایک بڑا سا پتھر ہوتا تھا۔ جب ضرورت پڑتی تو اس پتھر کو ہٹا کر لوگ اندر جاتے اور نئی لاش وہاں رکھ دیتے۔
مرقس کی انجیل میں لکھا ہے:
‘‘یو سف سوت کا موٹا کپڑا لا یا اور صلیب سے لاش اتار کر اس کو اس کپڑے میں لپیٹ دیا۔ پھر اس کے بعد چٹان والی قبر میں اس کو اتارا اور اس قبر میں پڑے پتھر کو لڑھکا کر اس کو بند کر دیا ’’(مرقس، باب ۱۵، آیت ۴۶)
یوحنا کی انجیل میں مزید ذکر ہے:
‘‘لاش کو سوتی کپڑے میں خوشبو کے ساتھ کفنایا جیسا کہ یہودیوں کے یہاں دفن کا طریقہ ہے۔ جس جگہ یسوع کو صلیب پر چڑھایا گیا وہاں ایک باغ تھا اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں اب تک کسی کو نہیں دفن کیا گیا تھا۔ انہوں نے یسوع کو اس قبر میں رکھا کیوں کہ وہ قریب تھی’’(یوحنا باب ۲۰، آیت ۱)
اس جگہ ‘‘نئی قبر ’’اور ‘‘جس میں اب تک کسی کو دفن نہیں کیا گیا تھا ’’ کی وضاحتیں اسی پس منظر میں کی گئی ہیں ورنہ اسلامی طریق تدفین میں ہر قبر ہی نئی ہوتی ہے اور اس میں پہلے کوئی مدفون نہیں ہوتا۔
حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ کی ایسی کئی قبریں یروشلم کے علاقہ میں دریافت ہو چکی ہیں ۔ ان کو دیکھنے سے پتاچلتا ہے کہ نسل در نسل یہ قبریں استعمال ہوتی تھیں اور حسب ضرورت مزید کھدائی کر کے ان کی گنجائش میں اضافہ بھی کیا جاتا تھا۔ یہ قبریں شہر کی فصیل سے باہر واقع ہیں۔ ہر قبر بالعموم ایک خاندان ہی کے زیر استعمال رہی ہے ۔ ان میں مدفون لوگوں کو کفن میں لپیٹا گیا ہے۔ چونکہ چٹان میں پتھر کاٹ کر قبر بنانا مشکل ہوتا ہے اس لیے قرین قیاس ہے کہ مہنگی ہونے کی وجہ سے ایسی قبریں زیادہ تر امیر خاندانوں کی ملکیت ہوں گی جبکہ غریب عوام کی قبریں نرم زمین کھود کر بنائی گئی ہوں گی۔
J Magness، The burial of Jesus in light of archeology and the gospels- page 1-2
تدفین کا یہ طریق ہزاروں سال سے اس علاقہ میں رائج اور یہود میں بھی عام تھا۔ حضرت ابراھیمؑ کے متعلق عہد نامہ قدیم میں بتایا گیا ہے کہ جب ان کی بیوی سارہ فوت ہوئیں تو ان کو دفن کرنے کے لیے ایک غار خریدی گئی(پیدائش باب ۲۳، آیت ۲۰)۔ بعد میں خود حضرت ابراھیمؑ بھی اسی غار میں مدفون ہوئے (پیدائش باب ۲۹، آیت ۹)، اور آپ کے پوتے حضرت یعقوبؑ بھی (پیدائش باب ۴۹، آیت ۳۰)۔
اناجیل سے مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ دو اشخاص اس کمرہ نما قبر ہی میں رہے ۔ چنانچہ مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ واقعہ صلیب کے اگلے دن :‘‘جب وہ عورتیں قبر پر پہنچیں تو انہوں نے دیکھا کہ وہ چٹان لڑھکی ہوئی ہے جب کہ وہ چٹان بہت بڑی تھی۔ لیکن اس کو قبر کے منہ سے دور لڑھکا یا گیا تھا۔ جب وہ قبر میں اتریں تو کیا دیکھتی ہیں کہ سفید چوغہ پہنا ہوا ایک نوجوان قبر کی داہنی جانب بیٹھا ہوا ہے’’ (مرقس، باب۱۶، آیت ۵) ۔ لوقا کی انجیل نے اس موقع پر دونوں اشخاص کا ذکر کیا ہے: ‘‘تعجب کی بات یہ تھی کہ چمکدار لباس میں ملبوس دو فرشتے انکے پاس کھڑے ہو گئے۔ وہ عورتیں بہت گھبرا ئیں اور اپنے چہروں کو زمین کی طرف جھکا کر کھڑی ہو گئیں۔ ان آدمیوں نے کہا، “تم زندہ آدمی کو یہاں کیوں تلاش کر تے ہو ؟ جب کہ یہ تو مُر دوں کو دفنانے کی جگہ ہے! یسوع یہاں نہیں ہے’’
(لوقا، باب ۲۴، آیت ۴ تا ۶)
غالباً یہ دو فرشتہ سیرت آدمی ‘‘نیکودیموس ’’اور ‘‘یوسف آرمتیہ ’’ہوں گے کیونکہ اناجیل میں انہی کے مسیحؑ کو صلیب دیے جانے اور تدفین کے کاموں میں شامل ہونے کا ذکر ملتا ہے(یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۸ تا ۳۹)۔ ان کے قبر میں رہنے کا مقصد حضرت مسیحؑ کی تیمارداری کرنا معلوم ہوتا ہے جس کے لیے بھاری مقدار میں جڑی بوٹیاں بھی قبر میں لائی گئی تھیں ۔ ان کی مقدار ایک سو رومن پاونڈز یعنی قریباً ۳۳کلوگرام بیان کی گئی ہے(یوحنا ۱۹، آیت ۳۹) ۔ اتنی بڑی مقدار میں جڑی بوٹیوں کے لانے سے ظاہر ہے کہ مقصد کسی لاش کو خوشبو لگانا نہیں تھا بلکہ کسی شدید زخمی شخص کو مرہم لگانا تھا ۔ تازہ اور گہرے زخموں پر لگائی گئی مرہم پٹی کو بار بار بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چونکہ قبر کے منہ پر بھاری پتھر رکھا ہوا تھا نیز رومن سپاہیوں اور یہودی مخالفین کی نظروں سے بچنا بھی ضروری تھا، اس لیے ایک مرتبہ ہی بڑی مقدار میں ادویات منگوا لی گئی تھیں۔
اناجیل میں بتایا گیا ہے کہ مرہم پٹی کے متعدد کپڑے تھے جو اس دوران استعمال ہوئے: ‘‘شاگرد نے قبر میں دیکھا کہ سوتی کپڑے کے ٹکڑے پڑے ہو ئے تھے لیکن وہ اندر نہیں گیا۔ شمعون پطرس ان کے پیچھے ہی پہنچا اس نے قبر میں جا کر دیکھا کہ سوتی کپڑے کے ٹکڑے پڑے تھے اس نے یہ بھی دیکھا کہ جو رومال یسوع کے سر پر لپیٹا تھا وہ لپیٹ کر ان ٹکڑوں سے علیحدہ کچھ دور پڑا تھا’’(یوحنا باب ۲۰، آیت ۵۔۷)۔ اس سے ظاہر ہے کہ کفن کے علاوہ بھی کچھ کپڑے تھے جو آپؑ کی مرہم پٹی کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ان کپڑے کی پٹیوں کی کہانی اپنی جگہ دلچسپ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بھی کچھ آج تک محفوظ ہیں ۔ لیکن اس جگہ ہماری توجہ کا مرکز کفن تورین ہے اس لیے ان کا ذکر کسی دوسرے موقع کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔
کفن مسیحؑ کی تاریخ
حضرت مسیحؑ کا کفن موجود ہونا اور آپؑ کا ایک کمرہ نما قبر میں رکھا جانا تو مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر اور آپؑ کے زمانہ کے آثار قدیمہ سے ثابت شدہ ہے۔ یہ کفن ، اگر محفوظ رہا ہو گا تو مسیحیوں کے لیے مقدس اور متبرک ہو گا اور انہوں نے اس کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہو گی۔ جیسا کہ دیگر انبیاء کے پیروکاروں نے اُن کے تبرکات کو محفوظ رکھنے اور ان سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کیا تورین میں موجود کفن وہی کفن ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے تورین کے کفن کی تاریخ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ کہاں سے آیا؟
۱۳۵۳ء تا حال
اس وقت یہ کفن اٹلی کے شہر تورین میں ساوائی خاندان کی ملکیت میں ہے۔ تاریخ میں اس کے نشانات تلاش کریں تو اس خاندان کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۴۵۳ء میں مارگوریٹ ڈے چارنی (Marguerite de Charny) نامی ایک بیوہ نے یہ کفن اِس خاندان کو فروخت کیا تھا۔ اُس وقت یہ کفن فرانس کے شہر Saint-Hippolyteمیں موجود تھا۔ اس سے سو سال قبل ۱۳۵۳ء میں اس کفن کی فرانس ہی کے ایک اور شہر Lirey میں موجودگی کا ذکر ملتا ہے ۔ دستاویزات کے مطابق وہاں یہ کفن پہلی مرتبہ عوام کو دکھایا گیا تھا۔ کلیساء نے اس پر اعتراض کیا اور اُس علاقہ کے اسقف نے تحقیق کے بعد اس کفن کو جعلی قرار دیا۔ معاملہ آخرکار فرانسیسی پوپ تک پہنچا جس نے کفن دکھانے کی مشروط اجازت دے دی۔ یہ کفن اُس وقت مارگوریٹ کے دادا کی ملکیت تھا۔ ایک جھگڑے میں عدالت کے سامنے مارگوریٹ کا یہ بیان محفوظ ہے کہ یہ کفن اسے اپنے دادا سے وراثت میں ملا ہے اس لیے وہ اس کی بلا شرکت غیرے مالک ہے ۔ نیز یہ کہ اس کے دادا کو یہ کفن جنگی خدمات بجا لانے کے صلے میں دیا گیا تھا۔ مارگوریٹ کے دادا کا نام جیوفروئے ڈے چارنی (Geoffroi de Charny) تھا جو کہ ایک مشہور فرانسیسی جرنیل تھا۔ اس نے مختلف جنگوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے اور بہادری اور جرنیلوں کی خصوصیات پر کئی کتب بھی لکھیں۔ اس کے مرتبہ کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ یہ فرانس کے بادشاہ کا علم بردار بھی تھا۔ عدالتی بیانات کے علاوہ کفن کی پہلی نمائش کی ایک یادگار تختی بھی دریافت ہو چکی ہے جس پر کفن کی تصویر اور ڈے چارنی خاندان کی مخصوص شیلڈ بھی موجود ہے۔
مارگوریٹ سے کفن خریدنے کے بعد ۱۵۷۸ء میں ساوائی خاندان اسے اپنی اٹلی تک پھیلی جاگیر میں شامل شہر تورین لے گیا جہاں یہ آج بھی موجود ہے۔ ساوائی خاندان کی ملکیت میں ایک اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ ۱۵۳۲ء میں اس جگہ آگ لگ گئی جہاں کفن محفوظ رکھا گیا تھا۔ کفن پر کچھ انگارے گرنے کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ جل گیا مگر اس پر موجود تصویر کم و بیش محفوظ رہی۔ اس جلے ہوئے حصہ کو دو سال بعد رفو کیا گیا نیز کفن کے پیچھے ایک نیا کپڑا لگا کر اس کو مضبوط بھی بنایا گیا۔
پس کفن تورین کی گذشتہ قریباً ۶۵۰سال کی تاریخ یقینی طور پر معلوم اور دستاویزات میں محفوظ ہے۔ اسی لیے ساری بحث اس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ ۱۳۵۰ء تک یہ کفن کہاں اور کس کے پاس رہا؟
۹۴۴ء تا ۱۳۵۳ء
کفن مسیحؑ کی ۱۳۵۳ ء سے قبل کی تاریخ کا پہلا اشارہ ایک کتاب ‘prey codex’ میں ملتا ہے جو کہ ۱۱۹۲ء اور ۱۱۹۵ء کے درمیان ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں حضرت مسیحؑ کی تدفین کی منظر کشی کی گئی ہے جس میں آپؑ کا کفن بھی دکھایا گیا ہے ۔ کتاب میں بنی تصویر میں کفن پر ایک خاص ترتیب سے جو کہ لاطینی حرف ‘‘L’’کی طرح ہے چار نشانات دکھائے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی نشانات اسی ترتیب اور ترکیب کے ساتھ کفن تورین پر بھی موجود ہیں۔ درحقیقت یہ نشانات بھی ایک کسی پرانے زمانہ میں لگنے والی آگ کا نتیجہ ہیں جس کے کچھ انگاروں کے کفن پر گرنے کی وجہ سے اس میں سوراخ ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں مسیحی لٹریچر میں موجود حضرت مسیحؑ کی دیگر تمام تصاویر کے مقابل پر اس کتاب والی تصویر میں چند دیگر خصوصیات بھی ہیں جو کہ صرف کفن تورین پر پائی جانے والی تصویر میں موجود ہیں ۔ مثلاً اس میں حضرت عیسیٰؑ کو برہنہ دکھایا گیا ہے ، آپؑ کے ہاتھ کلائی کے پاس ایک دوسرے پر رکھے دکھائے گئے ہیں، آپؑ کے دونوں ہاتھوں کی صرف چار چار انگلیاں دکھائی گئی ہیں ، کفن کے کپڑے کی مخصوص بُنائی دکھائی گئی ہے وغیرہ۔ یہ تمام خصوصیات کفن تورین میں پائی جاتی ہیں۔
کتاب میں موجود تصویر سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ کفن تورین اس وقت کہیں موجود تھا جبھی مصور نے اس کی تصویر اپنی کتاب میں بنائی ، مگر وہ کہاں تھا؟ اس بارے میں مزید روشنی ایک صلیبی جنگجو رابرٹ ڈی کلاری کا بیان ڈالتا ہے۔ رابرٹ نے ۱۲۰۴ء میں چوتھی صلیبی جنگ میں شرکت کی تھی۔ جنگ کے بعد اس نے ایک آپ بیتی لکھی جس میں وہ ذکر کرتا ہے کہ صلیبی لشکر کے قسطنطنیہ (موجودہ استنبول، ترکی) پر حملے کے وقت حضرت مسیحؑ کا کفن جس پر ان کی تصویر بنی ہوئی تھی وہاں ایک کلیسیاء میں موجود تھا ۔تاہم شہر پر قبضہ کے بعد یہ کفن کسی کو نہیں ملا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی نے یہ کفن ہتھیا لیا تھا۔ اسی لیے ایک سال بعد ۱۲۰۵ء میں پوپ کو لکھے گئے ایک خط میں اس بات کا شکوہ کیا گیا ہے کہ قسطنطنیہ سے کفن مسیحؑ، جس پر ان کی تصویر بنی ہے، لوٹ لیا گیا ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ہنگیرین کتاب کے مصنف نے قسطنطنیہ میں یہ کفن دیکھا تھا ۔ رابرٹ کے بیان سے واضح ہے کہ قسطنطنیہ میں کفن کی موجودگی اس زمانہ میں مشہور و معروف تھی۔
۱۲۰۴ء سے قسطنطنیہ میں موجود یہ کفن۱۳۵۳ء میں فرانس کے شہر لیری کیسے پہنچا، یہ ۱۵۰ سالہ تاریخ کافی پیچیدہ ہے۔ اس لیے اس حصہ کو چھوڑتے ہوئے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ۱۲۰۴ء سے پہلے یہ کفن کہاں تھا اور قسطنطنیہ کیسے پہنچا؟ اس بارے میں مزید رہنمائی اس خطبہ سے ملتی ہے جو کہ اس کفن کی قسطنطنیہ آمد پر منعقدہ ایک تقریب میں دیا گیا تھا۔ اس خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۶؍اگست ۹۴۴ء کو یہ کفن شام کے شہر ‘‘ادیسا’’ سے قسطنطنیہ لایا گیا تھا۔ خطبہ میں کفن پر معجزانہ طور پر مسیحؑ کے پورے جسم کی تصویر موجود ہونے نیز اس پر خون اور پانی کے نشانات پائے جانے کا بھی ذکر ہے۔ یہ بھی کفن تورین کی ایک منفرد خصوصیت ہے جو دیگر تصاویر میں نہیں پائی جاتی۔ پس معلوم ہوا کہ ۹۴۴ء سے ۱۲۰۴ء تک یہ کفن قسطنطنیہ میں رہا ۔ اسی دوران ۱۱۹۲ء کے قریب ہنگیرین زبان میں وہ کتاب لکھی گئی جس کا ذکر ہو چکا ہے اور جس میں کفن کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
۶۳۸ء تا ۹۴۴ء
ظاہر ہے کہ اب اگلا سوال یہ ہو گا کہ ۹۴۴ء میں یہ کفن ادیسا سے قسطنطنیہ کیوں لایا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ۹۴۴ء میں بازنطینی بادشاہ رومانوس اول نے ایک جنگ میں مسلمان قیدیوں کی رہائی کے مقابل پر یہ شرط رکھی تھی کہ ادیسا میں موجود یہ متبرک کپڑا مسیحی بادشاہ کو دے دیا جائے۔ اس مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفن اس وقت ادیسا میں تھا اور کلیساء کے اکابرین کے علم میں بھی تھا تبھی اس کا مطالبہ کیا گیا۔ نیز اس مطالبہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس تبرک کی حقیقت اور اس کی اہمیت بادشاہ اور اکابرین سلطنت کے دلوں میں کس قدر تھی۔اس مطالبہ پر مسلمان خلیفہ متقی للہ نے یہ درست فیصلہ کیا کہ مسلمان قیدیوں کی زندگی اس تبرک سے زیادہ اہم ہے ۔ چنانچہ اُس نے کفن دے کر مسلمان قیدی رہا کروا لیے۔ یوں یہ کفن بڑی عزت و احترام کے ساتھ ادیسا سے بازنطینی سلطنت کے پایہ حکومت قسطنطنیہ لایا گیا اور اس کے اعزاز میں ایک جشن کا اہتمام بھی کیا گیا ۔ اسی موقع پر پادری صاحب نے وہ تاریخی خطبہ دیا جس کا ذکر گزر چکا ہے۔
ادیسا شام کا ایک شہر ہے جو کہ ۶۳۸ء میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا۔ تاہم اس وقت کی تاریخ اس شہر میں کسی خاص کفن کی موجودگی کے متعلق خاموش ہے۔ بلکہ اگلے ۳۰۰ سال بھی کفن کے متعلق کوئی ذکر اسلامی ماخذ میں ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ غالباً مسلمانوں نے اس کفن کو دیگر بے شمار مسیحی تبرکات کی طرح بے حقیقت سمجھ کر اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ایک خیال یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے ہی کفن ادیسا ہی میں کسی جگہ چھپا دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ملتا نہ ہی ۹۴۴ء سے پہلے کسی جنگ میں رومیوں نے اس کا مطالبہ کیا۔ شاید ۹۴۴ء کے قریب یہ کفن دوبارہ دریافت ہوا اور اس کا مطالبہ کیا گیا ۔
۳۳ء تا ۶۳۸ء
جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکو ایک کفن میں لپیٹ کر قبر میں رکھا گیا تھا ۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ۶۳۸ء میں جب مسلمانوں نے شام اور ادیسا کو فتح کیا تو یہ کفن وہیں موجود تھا کیونکہ اس وقت سے ۹۴۴ء تک اس کے کسی اور جگہ میں ہونے کے شواہد ابھی تک نہیں ملے۔ ۹۴۴ء میں کفن کو ادیسا سے قسطنطنیہ لایا گیا۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جو کہ یروشلم میں صلیب دیے گئے، کا ترکی کے شہر ادیسا سے کیا تعلق ہے اور آپؑ کا کفن یروشلم سے ادیسا کیسے پہنچا؟
یہ عجیب بات ہے کہ اسی شہر ‘‘ادیسا ’’، جسے عربی میں ‘‘اریحا ’’ اور ترکی میں ‘‘اُرفا ’’کہا جاتا ہے، کا ایک اور ضمن میں حضرت مسیح ؑ اور آپ کی ایک معجزانہ تصویر کے ساتھ تعلق مسیحی کلیساء کی قدیم روایات میں موجود ہے۔ ان روایات کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ میں ادیسا کے بادشاہ کو ایک لا علاج بیماری تھی۔ جب اس نے یہ سنا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ذریعہ لوگوں کو معجزانہ طور پر شفاء ملتی ہے تو آپؑ کی خدمت میں ایک ملازم بھیجا اور آپؑ کو ادیسا آنے کی دعوت دی تاکہ اسے بھی اس مرض سے نجات ملے۔ بادشاہ کے ملازم نے اپنے آقا کی خواہش آپؑ کے حضور عرض کی تو آپؑ نے خود جانے کی بجائے ایک کپڑے سے اپنا چہرہ مبارک پونچھ کر ملازم کو دے دیا۔روایات کے مطابق اس کپڑے پر حیرت انگیز طور پر آپؑ کی تصویر ابھر آئی اور بادشاہ کو اس کپڑے کی برکت سے شفا مل گئی۔ چنانچہ بادشاہ نے بطور تبرک یہ کپڑا ادیسا میں ہی رکھ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ صلیب کے قریب کی بات ہے یعنی ۳۳ء کی۔ اس روایت کے ساتھ مختلف دیگر قصص بھی منسلک ہیں۔ مثلاً اس بادشاہ کے ساتھ حضرت مسیحؑ کی مبینہ خط و کتابت وغیرہ۔ یہ روایات چوتھی صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہیں یعنی کفن کے قسطنطنیہ جانے سے کم از کم ۵۰۰سال پرانی ہیں۔ان قصص کی موجودگی سے ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ چوتھی صدی میں حضرت مسیحؑ، آپؑ کی ایک معجزانہ تصویر اور ادیسا شہر کا آپس میں تعلق معروف اور تسلیم شدہ تھا۔
دوسری طرف حضرت مسیحؑ کی ἀχειροποίητον یعنی ‘‘انسانی ہاتھ سے نہ بنی ’’ ہوئی تصویر کے قصص کا بھی ایک لمبا سلسلہ موجود ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خیال بھی مسلسل کلیساء کے اکابرین میں موجود تھا کہ حضرت مسیحؑ کی کوئی غیر معمولی اور انسانی دخل کے بغیر بنی ہوئی معجزانہ تصویر موجود ہے۔ ان معجزانہ تصاویر کے متعلق قصص کی تفصیل اور ان کا موازنہ بہت دلچسپ ہے جس کے لیے الگ مضمون کی ضرورت ہے۔
یہ تو ہو گئی کفن تورین یا کفن مسیحؑ کی تاریخ۔ اس میں حسب توقع اختلافی خیالات بھی پائے جاتے ہیں۔ کچھ حصوں خصوصاً قسطنطنیہ سے فرانس تک اور یروشلم سے ادیسا تک کے سفر کے متعلق کچھ اندازے لگانے پڑتے ہیں اور ان اندازوں میں مختلف محققین کے درمیان اختلاف بھی ہے لیکن ایک متفقہ عمومی خاکہ موجود ہے۔ اب دوسرے سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔
کفن پر موجود تصویر کی خصوصیات
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کفن پر یہ تصویر کیسے بنی، اس تصویر کی خصوصیات کیا ہیں، کیا یہ تصویر حضرت مسیحؑ کی ہے؟
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ قدیم مسیحی روایات کے مطابق تصویر معجزانہ طور پر اس وقت ابھر آئی جب حضرت عیسیٰؑ نے کپڑے سے اپنا چہرہ پونچھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات قابل یقین نہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ پھر یہ تصویر کیسے بنی ؟ اس ضمن میں سب سے پہلے اس تصویر کی چند خصوصیات معلوم ہونی ضروری ہیں۔اوریہ خصوصیات دو قسم کی ہیں۔ایک تو تصویر کی بطور انسانی شبیہ خصوصیات، دوسرے تصویر کی کپڑے پر موجودگی کی خصوصیات۔ ان دونوں طرح کی خصوصیات کی اپنی اہمیت ہے اور اس لیے ان کا الگ الگ ذکر ضروری ہے۔
کفن پر شبیہ کی جسمانی خصوصیات
کفن پر موجود تصویر کی پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ پورے انسانی جسم کی تصویر ہے۔ صرف چہرہ یا سر ا پا نہیں بلکہ جسم کے سامنے اور عقب دونوں طرف سے سر تا پا تصویر ہے لیکن جسم کے دونوں اطراف ، دائیں اور بائیں پہلو، کی تصویر غائب ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ کفن میں لپٹے شخص کے جسم پر بے شمار زخموں کے نشانات ہیں جن سے خون بھی رستا رہا ہے۔ اور ان میں مزید خصوصیت یہ ہے کہ بہت سے زخموں کے جوڑے موجود ہیں۔ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز سے اس شخص کو مارا گیا تھا وہ کئی حصوں پر مشتمل تھی جس کی وجہ سے جب کوڑا مارا جاتا تھا تو بیک وقت کئی جگہ سے اُس شخص کی جلد پھٹ جاتی اور زخم ہو جاتے تھے۔ اناجیل میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب دینے سے پہلے کوڑے مارے گئے تھے۔
(مرقس، باب ۱۵، آیت ۱۵، متی، باب ۲۷، آیت ۲۶، یوحنا، باب ۱۹، آیت ۱)
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مسیحی تصاویر اور خیالات کے برخلاف کفن پر موجود تصویر میں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی بجائے کلائیوں میں زخم ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہیےکیونکہ اگر کسی شخص کو ہتھیلیوں میں کیل ٹھوک کر صلیب پر لٹکایا جائے تو ہتھیلیوں کی باریک اور نرم ہڈیاں جسم کا وزن نہیں اُٹھا سکیں گی ۔ ایسا صرف کلائیوں میں کیل ٹھوکنے سے ہی ممکن ہے جہاں مضبوط ہڈیوں کے بیچ ہونے کی وجہ سے جسم کا وزن سہارا جا سکتا ہے۔ پس کفن کی تصویر عام مذہبی خیالات کے تو برخلاف ہے مگر انسانی جسم کی ساخت کے حقائق کے عین مطابق ہے۔
چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس شبیہ میں ہاتھوں کے انگوٹھے غائب ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ اگر کلائی میں کیل ٹھوکا جائے تو ایک نس زخمی ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انگوٹھا ہتھیلی کی طرف مڑ جاتا اور یوں اس کے نیچے چھپ جاتا ہے۔
پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مسیحی مذہبی تصاویر کے برخلاف کفن پر موجود تصویر کے سر پر زخموں کے نشانات سے ظاہر ہے کہ وہ کانٹوں کا دائرہ نما تاج پہننے سے نہیں بلکہ کانٹوں کی پورے سر کو ڈھانپے ہوئے ٹوپی سے بنے ہیں۔ علاوہ ازیں عام مجرموں کو صلیب پر سزائے موت دینے سے پہلے کانٹوں کا تاج پہنانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ تاہم اناجیل کے مطابق رومی سپاہیوں نے بطور تضحیک حضرت عیسیٰؑ کو ایسا کانٹوں کا تاج پہنایا تھا کیونکہ آپؑ پر بادشاہی کے دعویٰ کا الزام بھی تھا۔
(متی باب ۲۷، آیت ۲۹۔ مرقس باب ۱۵، آیت ۱۷۔ یوحنا باب ۱۹، آیت ۲)
چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ کفن پر جسم سے جاری ہونے والے خون کے نشانات مختلف زاویوں پر موجود ہیں۔ یعنی یہ شخص صرف ایک حالت میں نہیں رہا بلکہ مختلف حالتوں میں رہا اور ان کی مناسبت سے کبھی خون ایک رخ پر اور کبھی دوسرے رُخ پر بہتا رہا، مثلاً ایک سیدھا کھڑے ہونے کے دوران اور ایک لیٹا ہونے کے دوران۔ان اور دیگر بہت سی خصوصیات سے ظاہر ہے کہ کفن پر موجود تصویر مسیحی خیالات، مذہبی تصاویر اور مسیحی کتب کے برخلاف ہے لیکن نظام قدرت ، انسانی جسم کی ساخت، اور اناجیل کے بیان کردہ واقعات کے عین مطابق ہے۔ پس یا تو تصویر واقعی حضرت مسیحؑ کی ہے اور یا پھر اسے بنانے والا تمام تر مسیحی ادب کے برخلاف انسانی جسم کی کیفیات اور ساخت سے خوب واقف تھا اور اس نے عین اس کے مطابق تصویر بنائی۔
اس پر اگلا سوال یہ ہو گا کہ ایسا ذہین مصور تھا کون ؟ اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ کام لیونارڈو دا ونچی جیسے عظیم سائنسدان کا ہی ہو سکتا ہے جس نے انسانی جسم کی ساخت پر کافی تحقیق کی تھی ۔ لیکن لیونارڈو ۱۴۵۲ء میں پیدا ہوا جبکہ کفن تورین کی دستاویزات سے مصدقہ تاریخ ۱۳۵۷ء تک ہے ۔ علاوہ ازیں اگر لیونارڈو نے ہی یہ تصویر بنائی تھی تو اس نے اس کی نمائش کیوں نہ کی ؟ اور دنیا کو اپنا یہ عظیم کارنامہ کیوں نہیں بتایا؟
کفن پر شبیہ کی تصویری خصوصیات
بطور تصویر کفن پر موجود شبیہ کی پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ یہ فوٹوگرافی نہیں ہے۔ کسی بھی نیگیٹو تصویر کے مقابل پر کفن پر موجود تصویر میں دائیں بائیں اور اوپر نیچے والے حصے الٹے نہیں ہیں۔ اسے عرف عام میں ‘‘نیگیٹو’’ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر اس کفن کا فوٹو لیا جائے تو نیگیٹو زیادہ واضح نظر آتا ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ عام طور پر جو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تصویر ‘‘نیگیٹو’’ہے، یہ خیال غلط ہے بہرحال کفن خود ہرگز نیگیٹو نہیں ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہاتھ کی بنی عام تصاویر کے برعکس کفن کی تصویر میں مختلف اعضاء کی حدود موجود نہیں بلکہ اعضاء اپنے کناروں پر رفتہ رفتہ مدھم ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ تصویر کا کوئی حصہ گہرے یا ہلکے رنگ کا نہیں ہے بلکہ کفن کے کپڑے پر موجود تصویر والے تمام دھاگوں کا ایک ہی رنگ ہے۔ کفن پر بظاہر کوئی حصہ گہرے یا ہلکے رنگ کا نظر آتا ہے تو اس کی وجہ رنگین دھاگوں کی گی مربع سینٹی میٹر مقدار ہے۔جہاں فی مربع سینٹی میٹر زیادہ رنگین دھاگے ہیں وہاں دیکھنے میں تصویر زیادہ گہرے رنگ کی نظر آتی ہے۔
چوتھی خصوصیت اس تصویر کا 3Dہونا ہے۔ یعنی تصویر کے ہر حصہ میں رنگ بظاہر اتنا ہی ہلکا ہوتا جاتا ہے جتنا کہ جسم کفن کے کپڑے سے دور ہوتا جاتا ہے۔ چنانچہ ناک کی چوٹی، جو کہ لیٹے ہوئے انسان پر پڑے کفن کو چھو رہی ہوتی ہے، سب سے زیادہ گہرے رنگ کی ہے لیکن گردن جو کہ ٹھوڑی اور سینہ کے درمیان گہراؤ کی وجہ سے کفن کے کپڑے سے دور ہوتی ہے، قریباً غائب ہے۔ اسی بناء پر کفن کی تصویر کا 3D ماڈل بھی بنایا گیا ہے۔ عام فوٹو یا مصور کی بنائی ہوئی تصویر سے ایسا 3D ماڈل بنانا ممکن نہیں ہوتا۔
پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ کفن پر کسی رنگ کا کوئی نشان موجود نہیں ۔ تصویر والے دھاگوں کا جو ہلکا پیلا رنگ ہے وہ دھاگے میں کیمیائی تبدیلی کہ وجہ سے ہے نہ کہ دھاگے پر کسی رنگ کے چڑھنے کی وجہ سے۔
چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ تصویر جسم کے اوپر اور نیچے ، دونوں حصوں کی ہے۔ جسم کفن کے نچلے حصہ پر لیٹا ہوا تھا اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا لیکن اس حصہ کی بھی مکمل تصویر موجود ہے۔
ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ تصویر میں کوئی سمت نہیں پائی گئی۔ عام تصاویر بناتے ہوئے مصور کے قلم یا برش کے چلنے کی سمت میں تصویر کے رنگ میں بھی سمت نظر آتی ہے جبکہ اس کفن کی تصویر کے رنگ والے حصوں کا بغور جائزہ لینے پر بھی کسی بھی جگہ ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔
آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ خون کے دھبوں کے نیچے کوئی تصویر والا دھاگہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفن پر خون پہلے لگا اور تصویر بعد میں بنی تاہم تصویر بننے کے عمل کے نتیجہ میں خون پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
نویں خصوصیت یہ ہے کہ خون کے دھبے بعض جگہوں ، خصوصاً چہرہ والے حصہ میں ، تصویر کے جسم سے باہر پائے گئے ہیں۔ اگر کفن جسم پر لپٹا ہوا ہو تو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔
دسویں خصوصیت یہ ہے کہ تصویر کفن کے کپڑے پر ‘‘تیر’’ رہی ہے۔ یعنی اس کا رنگ کپڑے کے آر پار نہیں گیا جیسا کہ عام طور پر کسی کپڑے پر رنگ کرنے سے ہونا چاہیے تھا بلکہ محض دھاگوں کے بالائی حصہ تک محدود ہے اور کپڑے کی دوسری طرف تک سرایت نہیں کر سکا۔
ان کے علاوہ بھی کفن تورین کی تصویر میں بطور انسانی شبیہ اور بطور تصویر کئی درجن ایسی خصوصیات ہیں جو دنیا کی کسی اور تصویر میں نہیں پائی جاتیں۔
ایسی عجیب و غریب خصوصیات والی تصویر بنی کیسے؟ درحقیقت اگر یہ تصویر حضرت عیسیٰؑ ہی کی متصور کی جائے تو اس بارے میں کئی امور واضح ہو جاتے ہیں۔ اول تو یہ کہ اناجیل میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ کو صلیب سے اتار کر رات بھر کمرہ نما قبر میں رکھا گیا تو اس وقت بڑی بھاری مقدار میں بعض ادویات آپؑ کو لگائی گئیں۔(یوحنا باب ۱۹، آیت ۳۹ کے مطابق ۳۰ کلو سے زائد!) انجیل میں تو صرف ‘مر ’اور‘ عود’ کا ذکر ہے مگر اسلامی روایات میں‘ مرہم عیسیٰؑ ’کا بھی ذکر ملتا ہے جس میں بہت سے مختلف اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ قرین ِقیاس ہے کہ ان ادویات سے کفن کے دھاگوں پر کیمیائی اثر ہوا جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ان کا رنگ تبدیل ہوا۔ لیکن ایسا محض ادویات کی وجہ سے نہیں ہوا، ورنہ اتنی بھاری مقدار میں ادویات کے نتیجہ میں سارا کفن ہی پیلا ہو جاتا اور کوئی واضح تصویر نہ بنتی نیز ادویات کے اثر سے تصویر بنتی تو وہ کپڑے میں سرائیت کر جاتی اور اس پر ‘‘تیر’’ نہ رہی ہوتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر بننے کے عمل میں جسم سے اٹھنے والے بخارات اور جسم کی گرمی کا بھی دخل تھا ۔ تبھی کفن کے جسم سے دور یا نزدیک ہونے کے موافق دھاگوں پر کیمیائی اثر میں فرق ہے۔ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ صلیب پر ہاتھوں اور پاؤں میں ٹھونکے گئے لوہے کے کیلوں ، کانٹوں کے تاج اور کوڑوں کے زخموں کی وجہ سے حضرت مسیحؑ کو انفیکشن اور بخار ہو گیا ہو۔ اس کا قدرتی نتیجہ جسم سے معمول سے زائد گرمی ، پسینہ اور اس کے ساتھ مختلف کیمیائی مادوں کا اخراج ہے۔ ان سب امور کا کفن پر تصویر بننے کے عمل میں دخل ممکن ہے۔
بہر کیف روشنی کا اس تصویر کے بننے سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ۔ روشنی کے اثر انداز ہونے سے جو تصاویر بنتی ہیں ان کے لیے دو شرائط لازم ہیں۔ ایک یہ کہ جس چیز کی تصویر بنائی جائے روشنی پہلے اس چیز سے ٹکرائے اور پھر اس سے منعکس ہو کر کیمرےکی فلم یا پردہ وغیرہ سے ٹکرائے ۔ دوسرے یہ کہ اس چیز کے اور کیمرےکی فلم یا پردہ کے درمیان فوکس موجود ہو۔ یہ دونوں امور کفن کے متعلق متصور ہی نہیں ہو سکتے۔ جب کفن جسم پر لپٹا ہوا تھا تو روشنی کے لیے کفن کے کپڑے میں سے گزرے بغیر جسم تک پہنچنا ممکن ہی نہ تھا ۔ اسی طرح کفن اور جسم کے درمیان روشنی کا فوکس ہونا بھی ناممکن ہے ، خصوصاً ان جگہوں پر جہاں کفن جسم سے چپکا ہوا تھا مثلاً جسم کے نیچے بچھے ہوئے کفن کے حصہ میں۔
جو لوگ کفن پر تحقیق کرتے رہے ہیں انہوں نے ابھی تک کفن تورین کی تمام خصوصیات والی تصویر بنا کر نہیں دکھائی۔ اسی لیے بعض مسیحی محققین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد تصویر ہے جو اس وقت بنی جب حضرت عیسیٰؑ ایک مرتبہ فوت ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے ۔چونکہ ایسا انسانی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہے اس لیے ایسی تصویر کی کوئی مثال ناممکن ہے۔ اس لحاظ سے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان تمام خصوصیات والی تصویر بنا کر دکھائیں تاکہ ثابت ہو کہ قدرتی عوامل سے ایسی تصویر بننا ممکن ہے ۔
کیا تصویر میں موجود شخص زندہ تھا یا مردہ؟
کفن پر تصویر کے علاوہ خون کے نشانات بھی موجود ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ خون واقعی انسانی خون ہے نہ کہ کوئی رنگ یا کسی جانور کا خون، اس خون کا گروپ ABہے۔ باریکی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خون کے ان نشانات کی متعدد اقسام ہیں۔ ایک تو وہ نشانات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خون اوپر، یعنی سر، کی طرف سے نیچے، یعنی پاؤں کی طرف بہتا رہا۔ ایسا اس وقت ممکن ہے جب کہ جسم ایستادہ ہو مثلاً صلیب پر لٹکنے کی صورت میں۔ دوسرے وہ نشانات ہیں جو سامنے یعنی پیٹ یا ناک کی جانب سے پیچھے ، یعنی کمر، کی جانب بہنے سے بنے ہیں۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب جسم لیٹا ہوا ہو، جیسا کہ قبر میں۔
تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ خون کے بعض دھبے ایسے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ خشک خون سے بنے ہیں۔ یعنی ایسے خون سے جو جسم سے نکل کر جلد پر خشک ہو گیا تھا ۔
جبکہ کچھ دھبے ایسے ہیں جو کہ تازہ بہتے خون سے بنے معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافی دیر تک خون بہتا رہا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کفن میں لپٹا شخص زندہ تھا کیونکہ وفات کے بعد، جب کہ دل کام بند کر دیتا ہے اور فشار خون ختم ہو جاتا ہے، خون از خود جسم کے بالائی حصوں سے اتنی بڑی مقدار میں نہیں نکلتا۔ خصوصاً اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ صلیب پر بظاہر موت واقع ہونے کے بعد یوسف آرمتیہ رومی گورنر کے پاس گئے اور اس سے لاش مانگی۔ پھر وہاں سے واپس صلیب کی جگہ، جو کہ شہر سے باہر تھی، آ کر لاش اتاری گئی۔ پھر اسے قبر نما کمرہ میں لایا گیا۔ اس دوران جسم ٹھنڈا ہو جانا چاہیے تھا اور خون کم و بیش منجمد ہو جانا چاہیے تھا۔ پس خون کے ان تازہ نشانات سے ثابت ہوتا ہے کہ کفن میں لپٹا شخص زندہ تھا۔ تاہم اس امر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ بعض مسیحی محققین ان دھبوں سے اس شخص کا مردہ ہونا ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان دھبوں میں خون اور پانی الگ الگ ہو چکے ہیں۔
نتائج
1۔ تورین میں موجود کفن کی تاریخ اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ کفن درحقیقت حضرت عیسیٰؑ ہی کا کفن ہے۔ ۹۴۴ء تک کم و بیش مسلسل اور اس سے پہلے متفرق روایات کی بنا پراس کفن کا پہلی صدی عیسوی سے ہونا قرین قیاس ہے۔
2۔ اس کفن پر موجود تصویر کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ تصویر کسی مصور کی بنائی ہوئی نہیں۔ عام تصورات کے بالکل خلاف مگر سائنسی حقائق کے عین مطابق ہونے نیز اس کی بہت سی خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصویر ایک حقیقی واقعہ کے نتیجہ میں قدرتی طور پر بنی ہے۔
3۔ کفن پر موجود تصویر اور خصوصاً خون کے دھبوں کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ قبر میں لٹا دیے جانے کے بعد بھی زندہ تھے کیونکہ آپؑ کے جسم سے اس وقت مسلسل خون نکل رہا تھا۔ کسی شخص کے صلیب پر وفات پا جانے کے کئی گھنٹوں کے بعد ایسا قرین قیاس نہیں کیونکہ اس وقت تک خون منجمد ہو جاتا ہے اور یوں بڑی مقدار میں اس کا نکلنا ممکن نہیں رہتا۔
4۔ تاریخ، تصویر بننے کے قدرتی عمل اور خون کے دھبوں کے تجزیہ، تینوں پہلوؤں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک ان تینوں کے تعلق میں کچھ سوالات ابھی حل طلب ہیں ۔
٭…٭…٭
تصاویر:
http://theshroudofturin.blogspot.com/2013/07/the-shroud-of-turin-33-man-on-shroud.html
By Matson Collection – Library of CongressCatalog: https://www.loc.gov/pictures/collection/matpc/item/mpc2010006583/PPOriginal url: https://hdl.loc.gov/loc.pnp/matpc.21098, Public Domain, https://commons.wikimedia.org/w/index.php?curid=67348201
۔ By Arthur Forgeais (1822-1878) – Arthur Forgeais, Collection de plombs historiés trouvés dans la Seine, tome IV : Imagerie religieuse. Paris, 1865, p. 105., Public Domain, https://commons.wikimedia.org/w/index.php?curid=4209130
4۔ http://theshroudofturin.blogspot.com/2013/07/the-shroud-of-turin-33-man-on-shroud.html
https://commons.wikimedia.org/wiki/File:Shroudofturin1.jpg#/media/File:Shroudofturin1.jpg
6۔ http://theshroudofturin.blogspot.com/2015/10/were-crowned-with-thorns-5-bible-and.html
7۔ https://www.pinterest.co.uk/pin/491244271829569121/
https://old.world-mysteries.com/sar_2.htm
٭…٭…٭