متفرق مضامین

مومنین کا شیوہ: وساوس، شکوک اور شبہات سے اجتناب

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

عصرِ حاضر میں معاشرتی اضطراب اوربے چینی کا ایک بڑا سبب وساوس ، شکوک اور شبہات میں پڑے رہنا ہے ۔کبھی یہ وساوس دینی اور مذہبی اقدار پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی یہ شکوک وشبہات افراد اور معاشروں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں ۔جب کہ اس کے مقابل یقین وہ دولت اور نسخۂ کیمیا ہے کہ اگر انسان اس سے استفادہ کرلے تو اس مَرکَب پر سوار ہو کر خدا تک جا پہنچتا اور نفاق اور بے یقینی کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات پا لیتا ہے ۔

اہل فکر و دانش نے یقین کو کامیابی کی کلید قرار دیا ہے۔ یقین کو انگریزی میں faithبھی کہاجاتا ہے گویا یقین اور ایمان لازم وملزوم ہیں اور یقین ہی وہ منزل مقصود ہے جو قرآن کریم میں مومن کا مقصد و منتہاء قرار دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ(الحجر :100)

اور اپنے رب کی عبادت کرتا چلا جا یہاں تک کہ تجھے یقین آجائے۔

یقین ہماری سچی خوشیوں کا منبع ومحور ہے اور یقین ہی وہ تریاق ہے جس سے گناہ کے زہر سے نجات عطا ہوتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘اے خدا کے طالب بندو ! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں ۔ یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے ۔ یقین ہی ہے جو نیکی کی قوت دیتا ہے ۔ یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق ِصادق بنادیتا ہے۔ کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو ۔ کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تجلی کے رُک سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پاسکتے ہو ۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کرسکتے ہو ۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کرسکتے ہو۔’’

(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 66)

ہادی کامل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شکوک اور وساوس سے مجتنب رہنے کے لیے ایک جامع تعلیم عطا فرمائی ہے۔ایک طرف آپ نے اطمینان قلب کو یقین کے مرتبہ کی نشانی قرار دیا ہے تو دوسری طرف شبہات کے ازالہ کی تلقین فرمائی ہے ۔

اضطراب اور وسوسہ گناہ کی علامت ہے

حضرت وَابِصہ بِن مَعبَد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا- آپؐ نے فرمایا- کیا تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! آپؐ نے فرمایا:

اپنے دل سے پوچھ- نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل اور تیرا جی مطمئن ہو- اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تیرے لیے اضطراب کا موجب بنے اگرچہ لوگ تجھے اس کے جواز کا فتویٰ دیں اور اسے درست کہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ227تا228،مطبوعہ بیروت)

حرام سے بچنے کے لیے مشتبہ امورسے اجتناب کی تلقین

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

حرام اور حلال اشیاء واضح ہیں اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو لوگ مشتبہات سے بچتے رہتے ہیں وہ اپنے دین کو اور اپنی آبرو کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اور جو شخص شبہات میں گرفتار رہتا ہے بہت ممکن ہے کہ وہ حرام میں جا پھنسے یا کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے۔ ایسے شخص کی مثال بالکل اس چروا ہے کی سی ہے جو ممنوعہ علاقے کے قریب قریب اپنے جانور چراتا ہے، بالکل ممکن ہے کہ اس کے جانور اس علاقہ میں گھس جائیں۔ دیکھو ہر بادشاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہوتا ہے جس میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ اس کے مَحَارِم ہیں۔ اور سنو! انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب تک وہ تندرست اور ٹھیک رہے تو سارا جسم تندرست اور ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب اور بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار اور لاچار ہو جاتا ہے اور اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے۔

(بخاری کتاب الایمان باب فضل استبرا لدینہ- مسلم کتاب البیوع باب اخذ الحلال)

شک اور شبہ بے چین کیے رکھتا ہے

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو شک سےمبرایقین کو اختیار کرو۔کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا موجب ہوتا ہے۔

(بخاری کتاب البیوع باب تفسیر الشبھات)

لوگوں کو شبہ کا موقع نہیں دینا چاہیے

اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے کہ میں رات کو آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئی۔ میں ان کے ساتھ گفتگو کرتی رہی۔ پھر میں جانے کے لیے اٹھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اٹھے تاکہ مجھے کچھ دور تک واپس چھوڑ آئیں۔ (ان دنوں حضرت صفیہ کا مسکن حضرت اسامہ بن زیدؓ کے مکانوں میں تھا) اس دوران انصار کے دو افراد گزرے ۔ جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو جلدی سے چلنے لگے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ٹھہرئیے یہ صفیہ بنت حُیَیّ ہیں۔ اس پر ان دونوں نے کہا۔ یا رسول اللہؐ ! اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے (کیا آپ کے بارہ میں ہم برا سوچ سکتے ہیں) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں خون کے چلنے کی طرح گردش کرتا ہے۔ اور میں اس بات سے خائف ہوا کہ وہ تمہارے دلوں میں کوئی بری بات نہ ڈال دے یا آنحضوؐر نے فرمایا کہ کوئی چیز نہ ڈال دے۔

(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ )

حلال و حرام کا خیال رکھنے اور مشتبہات سے بچنے کی تلقین

امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا۔ اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دُودھ اور شوربا وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھؤا جاتا۔ دُودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

‘‘چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال دحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سُنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شُبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دُودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو۔ اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دُودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلافِ تقویٰ اور ناجائز ہیں۔ جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دُوسری اشیائے خوردنی جوکہ یہ لوگ تیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حِصہ اس کا نہ ہوتا ہو۔’’

اس پر ابوسعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میںیوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کا رخانہ انگریزوں کا تھا۔ وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا۔ جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔ دریافت پرکارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیںہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے۔ اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا۔ لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دُور دراز امصار و بلاد میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دُودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لیے ان کو بھی مدِنظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا۔ نیز اہلِ ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کتّے چاٹ جاتے ہیں۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ

‘‘ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شُبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو۔ ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا، مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا۔ اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیارکردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ہم گھر میں ولائتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔’’

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 65تا66)

دینی معاملات میں شبہات کا ازالہ کرنا چاہیے

‘‘بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں جس سے وہ اندر ہی نشوونما پاتا رہتا ہے اور پھر اپنے شکوک و شبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہے اور روح کو تباہ کر دیتا ہے ایسی کمزوری نفاق تک پہنچا دیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوچھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے۔ میں اس کو داخل ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کر لے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر سوال کرنا مناسب نہیں اس سے منع فرمایا گیا ہے’’

(ملفوظات جلد 2صفحہ 385)

شکوک وشبہات اطمینان قلب کو تباہ کردیتے ہیں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الناس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘ قسم قسم کے وساوس پیدا ہوکر خداتعالیٰ سے تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے وساوس مختلف وجوہات کی بناء پر پیدا ہوسکتے ہیں۔ کبھی مخفی ہستیوں سے، کبھی بدروحوں سے، کبھی ایسی بیماریوں سے جن میں انسان مبتلا ہو کر شبہات اور شکوک کا شکار ہوجاتا ہے۔ کبھی ایسے مکانات اور جگہوں سے جہاں شبہات پیدا ہوتے ہیں اسی طرح انسانوں میں سے بھی ایسے ہوتے ہیں جو شبہات ڈالتے ہیں۔ پس ان سب امور سے محفوظ رہنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی کہ ہر وہ امر جوشبہات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے مَیں اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ میرا خداتعالیٰ کی ربوبیت ، ملکیت اور الوہیت سے تعلق رہے۔ میری ابتداء بھی اچھی ہو انتہاء بھی اچھی ہو اور میری زندگی کی ہر تبدیلی بھی اچھی ہو۔ پس ان آیات میں ایک جامع دعا سکھائی گئی ہے۔

(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 591-592)

دلوں سے شک کو نکالتے رہنا چاہیے

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:

‘‘ ایک اور بات میں بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ اگر ان کے دل میں کسی مسئلہ کے متعلق کوئی شک ہو تو اسے اپنے دل میں ہی دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بہت خراب نکلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ شک ایک بیج کی طرح ہوتا ہے اگر اس کو اپنے دل سے نکال نہ دیاجائے تو پھر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ پھر اس کا اکھیڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پس جس وقت کوئی شک پیدا ہو اسی وقت اس کے اکھیڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

میں آپ سب لوگوں کو ایک نصیحت کرتا ہوں اور اگر آپ لوگ اس کو مانیں گے تو بہت فائدہ میں رہیں گے اور وہ یہ کہ اگر کسی کے دل میں کوئی شک پیدا ہو تو اس کو چھپایا نہ جائے بلکہ پیش کیا جائے۔ کیونکہ چھپانا بہت نقصان پہنچاتا ہے اور بیان کرنا بہت فائدہ مند ہو تا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ شک کو چھپایا کیوں جاتا ہے۔ دنیاوی باتوں کے متعلق تو مجھ سے مشورہ لیا جاتا ہے اور دعا کرائی جاتی ہے۔ لیکن جب ہمارے دشمنوں کی طرف سے ان کے دلوں میں کسی قسم کے شکوک ڈالے جاتے ہیں۔ تو اس وقت مجھے نہیں لکھتے اور ان کا ازالہ نہیں کراتے۔

(انوار العلوم جلد 3صفحہ423-424)

وساوس سے بچنے کی دعائیں

شکوک وشبہات اور وساوس در اصل شیطانی حملے ہیں جو انسان کو ایمان سے دور لے جاکر نفاق کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ا ن وساوس کا علاج قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہ

(سورۃ الاعراف:201)

اور اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی وَسوَسہ پہنچے تو اللہ کی پناہ مانگ ۔ اسی طرح قرآن کریم کے آخری پیام یعنی سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ نے وساوس سے بچنے کی دعا سکھلائی ہے اورآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ قرآن کریم کی آخری تین سورتیں رات کو پڑھ کر سویا کرو۔

شکوک و شبہات کا ازالہ اورمرتبہ یقین کا حصول ہماری منزل و مراد ہونی چاہیے ۔ یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جو دلوں کو اطمنان کی دولت سے مالا مال کرسکتا اور انسان کو اپنے خالق ومالک کا عرفان عطا کرسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘زندگی کا سرچشمہ یقین سے ہی نکلتا ہے اور وہ پر جو آسمان کی طرف اُڑاتے ہیں وہ یقین ہی ہے ۔ کوشش کرو کہ اس خدا کو دیکھ لو جس کی طرف تم نے جانا ہے اور وہ مرکب یقین ہے جو تمہیں خدا تک پہنچائے گا۔’’

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 374)

‘‘ نجات کا سرچشمہ یقین سے شروع ہوتا ہے ۔ سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا یقین دیا جائے کہ اس کا خدا درحقیقت موجود ہے ۔ وہ مجرم اور سرکش کو بے سزا نہیں چھوڑتا اور رجوع کرنے والے کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ یہی یقین تمام گناہوں کا علاج ہے’’

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 373)

‘‘اسی وقت تم گناہ کے مکروہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے ۔شاید تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے سو یاد رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے ۔یقین تمہیں ہرگز حاصل نہیں کیونکہ اُس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اٹھاتے جو اٹھانا چاہیے ۔ تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہیے ۔ خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے او رجس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طو رپر دیکھ رہا ہو کہ اس فلاں بَن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بن کی طرف اٹھ سکتا ہے’’

(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد نمبر 19صفحہ 68)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button