از مرکز

جمعۃ المبارک کے روز اسلام آباد سے حضورِ انور کا خصوصی پیغام

میں نے آج …یہی فیصلہ کیا ہے کہ دفتر سے ہی خطبہ کے بجائے ایک پیغام کی شکل میں آپ سے بات کرلوں

حکومتی قوانین کی پوری پابندی کریں، سب سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ کریں

(اسلام آباد،ٹلفورڈ، 27؍ مارچ 2020ء) امام جماعت احمدیہ عالم گیر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسط سے جماعتِ احمدیہ عالمگیر کے لیے ایک خصوصی پیغام ارشاد فرمایا۔ حضورِ انورحکومتِ برطانیہ کی طرف سے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری (Covid-19) کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی حفاظتی تدابیر کی وجہ سے مساجد میں نمازِ جمعہ نہ پڑھے جانے کی ہدایت کے بعد اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں اپنے دفترسے جماعتِ احمدیہ عالمگیر سے مخاطب تھے۔

تشہد، تعوذاور تسمیہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل وائرس کی وبا پھیلنے کی وجہ سے دنیا میں بہت ساری حکومتوں نے پابندیاں لگائی ہیں اور یہاں برطانیہ کی حکومت نے بھی پابندی لگائی ہے کہ مسجد میں باجماعت نمازادا نہیں ہو سکتی یا اگر ہو سکتی ہے تو دو یا چند افراد سے زیادہ نہ ہوں اور وہ بھی قریبی لوگ ہوں۔ ابھی قانون واضح نہیں ہو رہا۔ کوئی کچھ تشریح کرتا ہے اور کوئی کچھ کہ یہ صرف قریبی رشتہ دار ہوں تبھی ہو سکتا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ دوست یا ساتھ رہنے والے ہوں تو بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ تو بہرحال ان حالات میں باقاعدہ جب تک واضح نہیں ہو جاتا جمعہ ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جمعہ میں بھی بعض چیزیں وضاحت طلب ہیں۔ اس لیے میں نے آج مشورے کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ دفتر سے ہی خطبہ کے بجائے ایک پیغام کی شکل میں آپ سے بات کر لوں اور مخاطب ہو جاؤں۔ جمعہ باقاعدہ نہ پڑھا جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا:

جمعے کے روز ایم۔ٹی۔اے پر لوگوں کو خلیفۂ وقت کا خطبہ سننے کی عادت پڑ چکی ہے۔ اگر آج اس وقت میں جماعت سے مخاطب نہ ہوا تو لوگوں کو بعض دفعہ مایوسی بھی ہوتی ہے اور پھر اس کے علاوہ مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں اس لیے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ کسی نہ کسی رنگ میں جماعت سے مخاطب ہو جاؤں اور اس کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا گیا کہ دفتر سے بیٹھ کر ایک پیغام کی صورت میں آپ سے مخاطب ہو جاؤں۔

حضورِ انور نے فرمایا: بہرحال جیسا کہ میں نے کہا آج جو جمعہ ہے وہ ہم تو نہیں پڑھیں گے اور آئندہ کے لیے انشاء اللہ کیا طریق اختیار کرنا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ بتا دیا جائے گا۔ لمبا عرصہ ہم جمعہ چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ میرا جماعت سے جیسا کہ میں نے کہا رابطہ بھی ضروری ہے اور آج کل کے حالات میں خاص طور پر اَور بھی زیادہ ضروری ہے اس لیے وکلاء اور متعلقہ لوگوں کے ساتھ مشورے کے بعد انشاء اللہ اس کا ہم حل نکال لیں گے۔

احبابِ جماعت گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں، جمعہ ادا کریں

حضورِ انور نے ان حالات میں افرادِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

افراد جماعت کو بھی میں یہ کہوں گا کہ جہاں حکومت نے اس بیماری کی وجہ سے مسجد میں آنے پر پابندی لگائی ہے یا پابندی تو نہیں لگائی یہاں مثلاً یو۔کے میں یہ ہے کہ انفرادی طور پر مسجد میں آ کر نماز پڑھ سکتے ہیں یا چند فیملی ممبران بھی آکر نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن فاصلہ اتنا ہو کہ آپس میں قریبی رابطہ نہ ہو لیکن اس کے باوجود باجماعت نماز اس طرح نہیں پڑھی جا سکتی کہ سارے اکٹھے ہو کے آئیں۔ تو ایسی صورت میں گھروں میں احباب جماعت کو چاہیے کہ باجماعت نماز کا اہتمام کریں اور جمعہ بھی گھر کے افراد مل کر پڑھیں اور ملفوظات میں سے یا جماعتی کتب میں سے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری کتب میں سے یا الفضل میں سے یا الحکم سے یا کسی اَور رسالے سے کوئی بھی اقتباس پڑھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے اور گھر کے افراد میں سے کوئی بالغ لڑکا یا مرد جمعہ بھی پڑھا سکتا ہے اور نمازیں بھی پڑھا سکتا ہے۔

اس حکومتی پابندی میں دینی، روحانی اور علمی فائدہ اٹھائیں

حضورِ انور نے فرمایا:

جمعوں کو بہرحال لمبا عرصہ ترک نہیں کیا جا سکتا۔ جب گھروں میں لوگ جمعہ پڑھائیں گے اور خطبے کے لیے تیاری کریں گے تو مطالعہ کریں گے۔ اس سے علم بھی بڑھے گا اور یوں حکومتی پابندی کی وجہ سے گھر بیٹھنا بھی دینی اور روحانی فائدہ کا موجب ہو جائے گا، علمی فائدے کا موجب ہو جائے گا۔ بلکہ الحکم نے آج کل جو لوگوں کی رائے کا سلسلہ شروع کیا ہے کہ ہم اس پابندی کی وجہ سے گھر بیٹھ کر کس طرح وقت گزارتے ہیں اس میں اکثر لوگ یہ لکھ رہے ہیں کہ قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور جماعتی لٹریچر پڑھ کر ہم اپنے علم میں اضافہ کر رہے ہیں اور بہت سے تبصرے تو آج کل مختلف دنیاوی سائٹس پر دنیادار بھی کر رہے ہیں کہ اس وجہ سے ہمیں بھی اپنی گھریلو زندگی کو اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق مل رہی ہے اور ہماری گھریلو زندگی واپس آ گئی ہے۔

ایم ٹی اے سے استفادہ کرنا چاہیے

حضورِ انور نے فرمایا:

ہمیں بھی یہ دن اپنی گھریلو زندگی کو، اپنی حالتوں کو سنوارتے ہوئے اور بچوں کی تربیت کرتے ہوئے گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایم۔ٹی۔اے پر بڑے اچھے پروگرام آتے ہیں کچھ وقت ان پروگراموں کو بھی اکٹھے بیٹھ کر دیکھنے کی کوشش کریں۔

حکومتی قوانین کی پوری پابندی کریں، سب سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ کریں

حضورِ انور نے فرمایا:

اس کے علاوہ جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے، آپ کی صحتیں قائم رکھنے کے لیے جو ہدایات دی ہیں، جو قانون بنائے ہیں اس کی بھی پوری پابندی کریں اور سب سے بڑھ کر جیسا کہ میں نے گذشتہ خطبات میں کہا تھا کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ دعاؤں سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر سکتے ہیں ا ور اپنی روحانی اور جسمانی حالت کو صحت مند کر سکتے ہیں اور یہی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بار بار نصیحت فرمائی ہے اور ایسے حالات میں بھی یہی نصیحت فرمائی ہے کہ سب سے زیادہ ضروری بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں۔ دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مصروف ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہمیں دیا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

کیا استثنائی حالات میں جمعے سے رخصت حاصل ہے؟

حضورِ انور نے فرمایا:

جہاں تک جمعہ نہ پڑھنے کا سوال ہے بعض حدیثوں سے وضاحت ہوتی ہے کہ بعض حالات میں باجماعت نماز اور جمعہ چھوڑے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بخاری کی ایک حدیث ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے بارش والے دن میں اپنے مؤذن سے فرمایا کہ تم ‘اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’ اور ‘اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ’کہو تو اس کے بعد ‘حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ’ نہ کہنا بلکہ ‘صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ’ کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کے الفاظ کہنا۔ پس گویا لوگوں کو یہ بات نئی لگی اور انہوں نے اس پر تعجب کیا اس پر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہی فعل انہوں نے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے۔ اگرچہ جمعہ پڑھنا ضروری ہے مگر میں ناپسند کرتا ہوں کہ تم لوگوں کو اس تکلیف میں ڈالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو۔ مسلم میں بھی یہ روایت بعض الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اس طرح آئی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بارش والے دن میں اپنے مؤذن سے فرمایا کہ تم ‘اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’ اور ‘اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ’ کہو تو اس کے بعد ‘حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ’ نہ کہنا بلکہ ‘صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ’ کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کے الفاظ کہنا۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات نئی لگی تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو؟ یہ کام انہوں نے کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے اگرچہ جمعہ پڑھنا ضروری ہے مگر میں اسے پسند کرتا ہوں کہ تمہیں اس حال میں باہر نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو۔

علامہ امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اور اس حدیث میں بارش وغیرہ کی مجبوری کی بنا پر جمعے کو ساکت کرنے کی دلیل موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہی مسلک ہمارا ہے اور دوسرے فقہاء کا ہے جبکہ امام مالک کا مؤقف اس کے خلاف ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

اسی طرح فقہاء نے جمعہ اور باجماعت کوترک کرنے کے عذروں میں ایسی بیماری جس کے ساتھ مسجد میں حاضر ہونا مشکل ہو اس کو شامل کیا ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی تنگی روا نہیں رکھی۔ اسی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپؐ مسجد جانے سے رُک گئے اور ابوبکرؓ سے کہا کہ وہ لوگوں کی امامت کرائیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے اور مسلم میں بھی۔ اسی طرح کسی بیماری کے پیدا ہونے سے خوف زدہ شخص بھی معذور قرار دیا ہے اور اس کی دلیل حضرت ابن عباسؓ کی وہ روایت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کی تفسیر خوف اور بیماری سے فرمائی۔ یہ سنن ابی داؤد کی درج ہے۔

اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں

حضورِ انور نے فرمایا:

بہرحال یہ بیماری جس کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور جس کے لیے حکومت نے بھی بعض قواعد اور قانون بنائے ہیں اور ملکی قوانین کے تحت ان پر چلنا بھی ضروری ہے ان صورتوں میں ایک جگہ جمع ہونا اور نماز باجماعت ادا کرنا یا جمعہ پڑھنا مشکل ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں جہاں بچوں کو یہ علم ہو گا کہ نمازیں پڑھنا ضروری ہیں اور باجماعت پڑھنا ضروری ہے۔ آج کل کے حالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جا سکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں نبھانا ضروری ہے، اس کو پورا کرنا ضروری ہے اس پر خاص طور پر توجہ دیں۔ بعض دفعہ سفروں میں ایسے حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی آئے تھے جب آپؑ نے جمعہ ادا نہیں کیا تو بہرحال بہت ساری روایات ہیں ایسی جس سے اس بارے میں بھی وضاحت ہوتی ہے کہ متعدی بیماریوں میں جمع ہونا یا بیماریوں میں ایک دوسرے سے ملنا ٹھیک نہیں ہے اس کے لیے علیحدہ رہنا چاہیے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہم مستقل تو یہ نہیں چھوڑ رہے اور اس کے لیے متبادل انتظام بھی کر رہے ہیں کہ گھروں میں جمعہ ادا کریں میں بھی کوئی انتظام کرنے کی کوشش کروں گا۔

حضورِ انور نے اپنے خصوصی پیغام کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا:

یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے، اللہ تعالیٰ اس وباء سے دنیا کو جلد پاک کرے اور سب دنیا کو انسانیت کے تقاضے پورے کرنے والا بنائے اورسب خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button