متفرق مضامین

مذہبِ اسلام۔ عورت کی حقیقی آزادی کا علمبردار

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر رَوا

یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا،تامرگ سزائیں پاتی تھی

گویا تُو کنکر پتھر تھی، احساس نہ تھا جذبات نہ تھے

توہین وہ اپنی یاد تو کر!،ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

وہ رحمتِ عالَم آتا ہے، تیرا حامی ہو جاتا ہے

تُو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دِلواتا ہے

ان ظُلموں سے چھڑواتا ہے

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار

پاک محمد مصطفےٰؐ سب نبیوں کا سردار

(دُرِّ عدن صفحہ25)

آٹھ مارچ خواتین کےعالمی دن کے حوالے سےتمام دنیا میں بڑے جوش وجذبے سے منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد خواتین کی اہمیت سے دنیا کو آگاہ کرنا اور لوگوں میں تشددکی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کےلیے ترغیب دینا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک نےتو یہ حقوق چند دہائیوں قبل عورت کو بخشےہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے رہبر کاملؐ ،محسن انسانیتؐ کی بدولت اسلام نے یہ حقوق کئی سو سال قبل عورت کو عطا فرما کے اس کی قدر و منزلت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ تاریخ مذاہب کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو آزادیٔ نسواں یا حقوقِ نسواں کا حقیقی علمبردار ہے ۔ جس نے عورت کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے لیے مجسم رحمت بن کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو عرش کی بلندیوں تک پہنچا دیااور یہ اعلان فرمایا کہ

اَلجَنَّۃُ تَحْتَ اَقدَامِ الْاُمَّھَاتِ

کہ اگر جنت ڈھونڈنا چاہتے ہو توماں کے قدموں تلے تلاش کرو۔ پھر Ladies First کا نعرہ اور عورتوںکو آبگینوں کے خطاب سے نوازا۔ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دورِجاہلیت کے قعر مذلت سے نکال کر تعلیم و تربیت سے سنوار کرمعاشرے کا گراں قدر وجود بنایا ۔ اس مضمون میں خاکسار کی کوشش ہوگی کہ پہلے اس کامل تعلیم کا کچھ خاکہ آپ کے سامنے پیش کرسکوں جو عورت اور مرد کو برابری کے حقوق عطا کرتا ہے ،جبکہ مضمون کے دوسرے حصہ میں ان حقوق کے ساتھ ان فرائض کی جانب بھی آپ کی توجہ مبذول کروائوں جو بحیثیت ایک عورت ،ماں ،بیوی اور بیٹی کے عورت کو ادا کرنے ضروری ہیں کیونکہ جہاں حق کی بات ہو تو وہاں فرض کی بابت بھی سوال ایک لازمی امر ہے۔دیکھا جائےتو آدم اور حوّا کی تخلیق کے وقت مرد اور عورت کی اس حیثیت کا تعیّن کر دیا گیا تھا جو دونوں کی اصل بنیاد ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً…(سورۃ النساء:2)

‘‘اَے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا ایک جوڑا بنایااور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا…’’

قرآن کریم میں موجودسورۃ النساء تکمیلِ انسانیت اور تشکیلِ معاشرہ کے اہم کردار کے سلسلےمیں عورتوں کے حقوق کی رہنمائی کرتی ہے۔اس سے پہلے کہ ہم اسلام کی ان پاکیزہ تعلیمات کا ذکر کریں ان حالات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا بھی ضروری ہے جو اسلام سے قبل تھے ۔

اسلام سے قبل عورت

اسلام سے قبل عورت ایک حقیر اور کمتر وجود کے طور پر سمجھی جاتی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ عورت اپنے خون کے ذریعہ بچوں کو پیدا تو کر سکتی ہے دودھ پلا کر ان کی پرورش تو کرسکتی ہے۔ لیکن کیونکہ معاشرے میں موجود ایسے پیشے جن کے لیے زیادہ قوت اور طاقت درکار ہوا کرتی ہے مثلا ًکھیتوں میں ہل چلانا،اناج اگانا ،جنگوں میں دشمن کا مقابلہ کرنا ،اس طرح کے کام کرنا عورتوں کے لیے بہت مشکل تھا۔اس لیے قوتوں ،طاقتوں اور صلاحیتوں کا یہ فرق عزت اور ذلت کو متعین کرنے کا پیمانہ بن گیا ۔مرد کو اپنی جسمانی طاقت اور قوت کی بنا پر اعلیٰ اور ارفع سمجھاگیا اور اس کے مقابلہ میں کم اہم سمجھے جانے والے نازک کاموں کی انجام دہی کی وجہ سے عورت کو کمتر درجہ دے دیا گیا شاید یہ ظلم ابھی اور بھی جاری رہتا اگر محسن انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف نہ لاتے آپؐ نےآکر خیالات کا دھارا ہی بدل دیا۔ زمانہ جاہلیت میںعورت کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی تھی کجا اس کے حقوق کی پاس داری کی جاتی اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:

‘‘اسلام سے پہلے عورت کی حالت اتنی ناگفتہ تھی کہ عرب میں حیوانات اور دیگر سامان کی طرح وراثت میں منتقل ہوا کرتی تھی۔بیٹے کی سو تیلی ماں ،باپ کے ورثہ میں بیٹے کو دی جاتی تھی اور وہ اس سے بیاہ کرنے کا اوّلین حق دار تھا۔مطلقہ اپنی پسند سے دوسرا نکاح نہیں کر سکتی تھی ۔ بیوہ کو خاوند کی وفات کے بعد ایک سال تک اندھیری کوٹھڑی اور گندے غلیظ کپڑوں میں بند رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا کہ اس کا سوگ اس طرح منائے کہ ایک سال تک انہی غلیظ کپڑوں میں جو وفات کے وقت تھے ان میں ملبوس زندگی گزارے اور گھر سے باہر قدم نہ رکھے۔عورت بحیثیت خود ایک بدنامی کا داغ تھی۔عورت جو خود میراث تھی اسے خود ورثہ ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ عورت بدکاری کا آلہ سمجھی جاتی وہ مشہور قصائد جوسونے کے حروف میں لکھ کر زمانہ جاہلیت میں خانہ کعبہ میں آویزاں کیے جاتے تھے ان میں سے بیشتر کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے عورت سے یہ سلوک کیا،ہم نے عورت سے یہ سلوک کیا ۔اور سب سے بڑھ کر فخر اس بات پر تھا کہ ہم نے جس طرح عورت کو اپنی ہواو ہوس کا نشانہ بنایا ہے کوئی نہیں جو ہمارا اس پہلو سے مقابلہ کر سکے ۔جتنازیادہ کوئی شخص بدکاری میں آگے بڑھا ہوا ہوتا اتنا ہی زیادہ فخر کے ساتھ وہ شاعرانہ کلام میں اس بات کا ذکر کرتا تھااور یہ شاعری تمام عربوں میں ان فاسق شعراء کی عزت اور عظمت قائم کرنے کی موجب بنتی تھی۔’’

(اسلام میں عورت کا مقام ، خطاب بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ فرمودہ 26؍جولائی 1986ء)

‘‘… اکثر مذاہب میں وہ تعلیمات ہی موجود نہیں جو اسلام میں ہیں۔ذکر بھی نہیں بعض مذاہب میں۔اس لیے خلا ملتے ہیں۔ جو بڑے بڑے مذاہب ہیں مثلاً یہودیت،عیسائیت اور ہندو اِزم ۔ان میں چونکہ ذکر ملتا ہے اس لیے مَیں نے ہندو ازم کو بھی آج کے موازنہ کے لیے چُن لیا …عورت کی شادی کے لیے اس کی اجازت کا حصول ضروری نہیں ۔بیوہ عورت کے ساتھ یہ سلوک ہو گا کہ وہ شادی نہیں کرے گی۔اس کو سَر کے بال منڈوانے ہو ں گے اور ہمیشہ سفید کپڑے پہننے ہوں گے۔آئندہ کبھی وہ رنگ دار کپڑے استعمال نہیں کر سکتی۔کسی شادی میں شریک نہیں ہو سکتی اگر ہو بھی تو سہاگن کے قریب بھی نہ جا ئے اپنا کھانا خود بنانا ہو گاکوئی اُس کو کھانا پکا کر نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے بھیانک مظالم ہیں جو عورت پر روا رکھے جاتے ہیں اور نتیجۃً ایک ایسے ظلم کا آ غاز ہو اجو ان مظالم کے نتیجہ میں ہو جانا چاہیے تھا۔ہندو مت نے عورت کو یہ تعلیم دی کہ خاوَند مرجائے تو تم بھی جل مرو۔اتنا دردناک نقشہ ہوتا ہے۔ ساری عمردکھ اُٹھانے کا ایک ہندو بیوہ کا کہ اس کے بعد یہ تعلیم رحمت نظر آتی ہے کہ ساری عمر دکھ جو اُٹھانے ہیںتو بہتر یہ ہے کہ ایک دفعہ ہی جل کر مرجاؤ۔ورنہ ساری زندگی جلتی رہو گی۔ منو سمرتی جو عورت کے متعلق تعلیم دیتی ہے وہ جانوروں سے بدتر ہے۔وارث بھی قرار نہیں پاتی۔’’

(قواریر۔قوامون اصلاح معاشرہ حصّہ دوم صفحہ39تا40)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘آریوں کے اصول کی رُو سے تو مرد کادرجہ عورت سے اس قدر بڑھ کر ہے کہ بغیر لڑکا پیدا ہونے کے نجات ہی نہیں ہو سکتی اِسی بنا ء پر ایک آریہ کی عورت با و جو د مو جو د ہو نے خاوند کے دوسرے مرد سے منہ کالا کراتی ہے تا کسی طرح لڑکا پیدا ہو جائے۔پس ظاہر ہے کہ اگر اُن کے نزدیک مرد اور عورت کا درجہ برابر ہو تا تو اس رسوائی اور فضیحت کی ضرورت ہی کیا تھی؟لیکن یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ اگر ایک آریہ کی چالیس لڑکیاں بھی ہوںیا فرض کروکہ سَولڑکی ہو تب بھی وہ اپنی نجات کے لیے فرزند نرینہ کا خواہشمند ہوتا ہے اور اُس کے مذہب کی رُو سے سَولڑکیاںبھی ایک لڑکے کے برابر نہیں ہو سکتیں۔’’

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ287)

یہ تو اسلام کا احسان عظیم ہے عورت پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارہ میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے۔نفسِ واحدہ سے اس کا زوج بنایاجیسا کہ اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے کہ

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا(سورۃ الاعراف:190)

وُہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کی طرف تسکین کی خاطر مائل ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ان آیات کی تشریح میں فرماتے ہیں :

‘‘اِس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زَوْ جَھَا کی ضمیر نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کی طرف جاتی ہے جو مؤنث ہے ۔اسی طرح مِنْھَا میں بھی ضمیر مؤنث استعمال کی گئی ہے۔اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ سے اس کا زوج بنایااور زوج کے لیے لِیَسْکُنَ میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادّہ سے پیدا ہوا…ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں الگ الگ رہیں تو مکمل نہیں ہو سکتے۔مکمل اسی وقت ہو تے ہیں جب دونوں مل جائیں…’’

(فضائل القرآن3،انوار العلوم جلد11صفحہ 594)

مساوی حقوق

انسانیت کے شرف اور اکرام میں مرد اور عورت کے درمیان کو ئی تخصیص نہیں رکھی گئی۔قرآن کریم کی سورۃ الحجرات آیت14 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ

اَے لوگو !یقیناًہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے…

اسلام سے پہلے بیٹی کا زندہ درگور کیا جانا

اسلام سے قبل دُختر کشی کا طریق اتنا بھیانک اور ظالمانہ تھا کہ اُسے پڑھ کر انسانیت کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے ۔قرآن کریم اس لرزہ خیز داستاں کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

‘‘اور(اُس کے مقابل پر ان کا یہ حال ہے کہ) جب ان میں سے کسی کو لڑکی( کی پیدائش) کی خبر مل جائے تو اُس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ نہایت رنجیدہ ہو تا ہے۔( اور) جس بات کی اُسے خبر دی گئی ہے اُس کی( مزعومہ )شناعت کے باعث وہ لوگوں سے چھُپتا( پھرتا )ہے اور سوچتا ہے (کہ)آیا وہ اُسے( پیش آنے والی) ذلّت کے باوجود( زندہ )رہنے دے یا اُسے( کہیں) مٹی میں گاڑ دے ۔سنو ! جو رائے وہ قائم کرتے ہیں بہت بُری ہے ۔’’

(سورۃ النحل آیت 59-60 ترجمہ ازتفسیر صغیر )

ایک اَور جگہ فرمایا :

‘‘اورجب اُن میں سے کسی کو اس کی خوشخبری دی جاتی ہے جسے وہ رحمان کے تعلق میں ایک اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے تو اُس کا منہ کالا ہو جاتا ہے جبکہ وہ سخت غم کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔’’

( سورۃ الز خرف آیت 18 تر جمہ بیان فرمودہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:

‘‘ اصل بات یہ ہے کہ بیشک لڑکی کی پیدائش کو سارے ملک عرب میں ہی بُرا سمجھا جاتا تھا مگر اُن کو زندہ دفن کرنے کا رواج عملاً صرف بعض بڑے بڑے اور متکبر لوگوں میں تھا ۔لڑکی کی پیدائش کو برا سمجھنا اور بات ہے اور اُسے زندہ درگور کر دینااور۔ آج تک لوگ لڑکی کی پیدائش کو عموماًبرا سمجھتے ہیں الَّا مَا شاء اللّٰہ۔مگر انہیں مارتے چند ہی لوگ ہیں ۔ عرب میں بھی یہ فعل مکہ میں بہت ہی کم ہوتاتھا ۔عام طور پر اُن قبائل میں جو اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے تھے یہ طریق رائج تھا اور وہ بھی بعض بڑے لوگوں میں ۔پس اس جگہ عام رسم کا ذکر نہیں بلکہ قوم کے عمائدین کے ایسے فعل کو بیان کیا گیا ہے …کہ وہ جو بیٹیوں کو بُرا سمجھتے ہیں اُ ن کا یہ فعل نہایت ہی گندہ ہے ۔اگر بیٹیاں نہ ہوتیں تو وہ کس طرح پیدا ہوتے۔ اور اگر آئندہ بیٹیاں نہ ہوں تو ان کے بیٹوں کی نسل کس طرح چلے ۔ قران کریم نے تو شروع سے ہی عورتوں کی عزت کو قائم کیا ہے اور ان کے حق کو تسلیم کیا ہے ۔’’

( تفسیر ِکبیر جلد4 صفحہ 185)

خدا تعالیٰ بطور وعید یہ اعلان فرماتا ہے :

‘‘اور جب زندہ درگور کی جانے والی (اپنے بارہ میں ) پوچھی جائے گی ۔(کہ) آخر کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ہے؟’’

( سورۃ التکویر آیت 9-10)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :

‘‘لڑکیوں کو مارنے کا بعض قبائل عرب میں رواج تھا ۔ اسی طرح اولا د کو فروخت کر دینے کا بھی رواج تھا ۔اسلام نے اس پر پابندی لگا دی اور کہا کہ اگر کوئی آزاد کو بیچے تو وہ واجب القتل ہے ۔اور لڑکیوں کے متعلق سختی سے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تم لڑکی کو ما ر دو گے تو پھر چھوڑے جائو گے۔ بلکہ قیامت کے دن تم سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا اور یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ تمہاری لڑکی تھی اور تمہارے نطفہ سے پیدا ہوئی تھی ۔وہ تمہاری لڑکی بعد میں بنی تھی پہلے ہماری بندی تھی ۔تمہیں کیا حق تھا کہ تم اسے مار ڈالتے ۔فرمایا

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ(التکویر)

تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُن کو مار ڈالو ۔ہم نے اُسے نسلِ انسانی کو جاری رکھنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اگر تم لڑکیوں کو مار ڈالو گے تو قیامت کے دن تم اس کے متعلق سوال کیے جائو گے ۔’’

( تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 305)

آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :

‘‘اگر جاہلیت کے کسی فعل پر سزا دینا جائز ہوتا تو میں زندہ درگور کرنے والے کو سزا دیتا ۔’’

( بحوالہ نبیوںکا سردار از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی صفحہ 73)


حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ تحریرفرماتے ہیں:

‘‘ اکثر لوگ لکھتے ہیں کہ عرب میں دُختر کشی کی رسم عام نہ تھی کہیں کہیں اور بہت کم جاری تھی مگر قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :

ترجمہ :‘‘اور اس طرح مشرکوں میں سے بہتوں کو ان کے شریکوں نے ان کے ہلاک کرنے کے لیے اور اُن کے دین کو اُن پر مشتبہ کرنے کے لیے اپنی اولاد کو قتل کرنا خوبصورت کرکے دکھا یا تھا ’’ یعنی کثرت سے مشرکین رسم دختر کشی میں مبتلا تھے اس طرح حضرت جعفر ؓنے نجاشی کے رُو برو دختر کشی کا اپنی قوم قریش میں ہونے کا اقرار کیا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جاہل بدّو ہی نہیں بلکہ عرب کے چوٹی کے قبیلے بھی اس میں مبتلاء تھے ۔ ’’

( مضامین حضرت میر ڈاکٹر اسماعیل ؓ صفحہ427-428)

دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے

حضرت عبد اللہ بن عَمْروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا ایک دولت ہے اور دنیا کی بہترین دولت نیک عورت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب خیرُ متاع حدیث نمبر2654)

بلا شبہ رسولِ کریم صلی ا للہ علیہ وسلم ہی وہ وجود کامل ہیں جنہوں نے صنف نازک کے حق میں اس وقت نعرہ بلند کیا جب سارا معاشرہ اس کا مخالف تھا۔ مَرد ہوکر عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کی منفرد مثال صرف اور صرف ہمارے نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کی ہے جو ہمیشہ تا ریخ میں سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی۔وہ معاشرہ جس میں عورت کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے گھر کی خادماؤںاورلونڈیوں سے بھی بدتر سلوک ہو تاتھا ۔نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے اُسے گھر کی ملکہ بنا دیا۔

اسلام میں بیٹی کا مقام

جیسا کہ پس منظر میں بیان ہوچکا ہےاسلام سے پہلے اس تاریک دنیا میں عورت کا کوئی مقام و مرتبہ نہ تھا ۔حقیقی روشنی کی پہلی اور ابتدائی کرن صرف اور صرف اسلام نے داخل کی اس کا سہرا بلا خوف و تردد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر بندھتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو جگر کا ٹکڑا کہا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ‘‘ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو! تُم پر سلامتی ہو ۔وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میںلیتے ہیں اوراس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اُ س کی شامل حال رہے گی ۔’’

( طبرانی بحوالہ اسوہ رسول اکرمؐ مولف حضرت عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبد الحئی صفحہ 462ایڈیشن 1980ایجوکیشنل پریس پاکستان چوک کراچی )

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا:

‘‘جس نے دو لڑکیوں کے بالغ ہونے تک پرورش کی تو وہ قیامت کے روز اس طریقہ سے آئے گا کہ وہ اور میں ایسے ملے ہوں گے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا ۔ ’’( صحیح مسلم )

بیٹیاں آگ سے نجات کا ذریعہ

بیٹیوں کی پیدائش پر پیدا ہونے والے بے جا عائلی مسائل کے ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں نصیحت کرتے ہوئےفرمایا:

‘‘اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ایسی ہے جو لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں…حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو صرف بیٹیوں کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور آگ کے درمیان روک ہوں گی۔’’

(سنن ترمذی۔ کتاب البرو الصلۃ۔ باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات)

…کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا۔ یقینا ًہر ایک اس پناہ کی خواہش رکھتا ہے۔ تو بیٹیوں والوں کو یہ خوشخبری ہے کہ مومن بیٹیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے گا۔ بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو حل کرنا اور اس معاشرے میں بھی ہمیں بیٹیوں کی وجہ سے بہت سارے مسائل نظر آتے ہیں ان کو برداشت کرنا اور کسی بھی طرح بیٹیوں پر یہ اظہار نہ ہونے دینا یا ماؤں کو بیٹیوں کی وجہ سے نشانہ نہ بنانا، یہ ایک مو من کی نشانی ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر یہ باتیں جو ہیں اس کے اور آگ کے درمیان روک بن جاتی ہیں ۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍نومبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍دسمبر2010صفحہ5)

عورتوں کی تعلیم

ایک موقع پرنبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے یہ اظہار فرمایا کہ بالعموم عورتیں مرد کے مقابل پر ذہنی صلاحیتوں میں نقص کے باوجود ایسی استعدادیں رکھتی ہیں کہ مَردوں پر غالب آ جاتی ہیں۔نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے عورتوں کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک الگ دن مقرر فرمایا تھاجس میں ان کو وعظ فرماتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔(بخاری)

اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ قرآن کریم ان میں کوئی فرق روا نہیںرکھتا ۔کیا خدمت کے اعتبار سے ذہنی استعداد کے لحاظ سے علم و عمل کے دائروں کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق ہے؟ نہیں! اگر ہم غور کریں تو اللہ تعالیٰ نےبعض کام اگر مردوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں تو بعض ایسے بھی ہیں جو صرف عورتیں کر سکتی ہیں اس لیے ان تمام امور پر غور کیے بغیر برابری یا عدم برابری کا فیصلہ ممکن نہیں ۔

جزا سزا میں برابری

دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے بھی جنس کی کوئی بنیاد نہیں رکھی گئی۔اس کا ذکر ہمیں سورۃ النحل آیت98میں ملتا ہے کہ

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ

‘‘مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجا لائے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اُسے ہم یقینا ًایک حیاتِ طیّبہ کی صورت میں زندہ کردیں گے اور انہیں ضروراُن کا اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔’’

لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ( اٰل عمران:196)

‘‘میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کاعمل ہرگز ضائع نہیں کروں گاخواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ ’’

اور جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت 36 میں فرمایا:

‘‘یقینا ًمسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیے ہیں’’(سورۃ الاحزاب :36)

یعنی اللہ تعالیٰ کی نظر میں جنس کی یہ تقسیم کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی اور وہ ہر ایک سے اس کے اعمال کے مطابق سلوک کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔

بیٹی کو تعلیم دلوانا

آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کی پیدائش اور تربیت کو جنّت کا ضامن قرار دیتے ہوئے فرمایاکہ اگر کسی کے ہاں تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ شخص جنّت کا مستحق ہو جائے گا۔ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ہاں تین لڑکیاں نہ ہوں بلکہ دو ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگر کسی کے دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ بھی جنّت کا مستحق ہو جائے گا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی کے ہاں ایک لڑکی ہو اور وہ اس کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ جنّت کا مستحق ہو جائے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں :

‘‘اب دیکھورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو تعلیم دلانے کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر کام چل نہیں سکتا مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایاہے کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی ۔گویا خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے’’

( خطاب فرمودہ 27؍دسمبر 1944ءبحوالہ الا زھار لِذوات الخِمار جلداوّل صفحہ 391)

مشاہدہ بتاتا ہے کہ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے مرد یا عورت کی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں رکھا بلکہ بسا اوقات تو لڑکیاں تعلیمی میدان میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے والی بھی ہوتی ہیں ۔پھر یہ امر بھی سوچنے کے قابل ہے کیا نسل انسانی کی بقا کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک فریق کی اہمیت سے انکار کیا جاسکتا ہے یا اسے کم یا زیادہ کہاجا سکتا ہے کیا دنیا میں طاقت ہی ہر صورت میںبرتری کا معیار ہے اگر ہر صورت میںفوقیت طاقت کو ہی حاصل ہے تو پھر ہمیں پہلوانی اور کشتی کو دنیا کا سب سے اعلیٰ پیشہ ماننا پڑے گا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کو ایک حدیث میں سمجھا دیا کہ طاقت ور وہ نہیں جو مقابل کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ حقیقی طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت خود پر قابو رکھے۔(متفق علیه)

آدھا دین عائشہ سے سیکھو

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھانے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کاوہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔مسائل کی سمجھ اور احکام کو یاد رکھنے میں تمام ازواج میں سب سے بہتر تھیں اس بنا پر شوہر کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب تھیں۔آ پ ؓکا اصول یہ تھا کہ جب تک وہ واقعہ کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتی تھیںاس کی روایت نہیں کرتی تھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تو آپؐ سے اس کو بار بار پوچھ کر تسکین کرتی تھیں ۔ سولہویں اورسترھویںصدی کی عورت جہاں اپنے حقوق کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی تھی وہاں آنحضرتؐ کی وفات کے بعد ہی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ؓ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے علم و فضل سے اُن کا لوہا مانتے اور فیض یاب ہوتے نظر آتے ہیں حتّٰی کہ حدیث میں آیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحا بہ ؓکو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ مل گیا ہو۔

(ترمذی باب مناقب عائشہ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مردوں میں تو بہت لوگ کامل گزرے ہیں لیکن عورتوں میں کاملات بہت کم ہو ئی ہیں آپؐ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا نام لیا اور پھر فرمایا عائشہ کوتو عورتوں پروہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوںپر ہوتا ہے۔(بخاری باب فضل عائشہ)

(ماخوذازسیرت خاتم النبیّین ازحضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ ایم۔اے صفحہ431ایڈیشن2001ء)

بیوی سے حسن سلوک اور دل جوئی

بیوی کے وقار اور اس کی منزلت کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ حسنِ سلوک اور دل جوئی کو ایک شوہر کی خوبی اور شرافت کا معیار قرار دیا۔آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا :

‘‘خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِہٖ وَ اَ نَا خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِی۔’’

تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل و عیال سے سلوک اچھا ہے اور مَیں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔(مشکوٰۃ)

آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم کا صرف یہ مبارک ارشاد گھروں کی چار دیواری کو جنت بنا دینے کے لیے کا فی ہے۔جس میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کا معیار آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم کی حسنِ معاشرت رکھی ہے۔

حضرت معاویہؓ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس سوال پر کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کی بیوی کا ہم پر کیا حق ہے ؟رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ تم کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ ،خود لباس پہنتے ہو تو اسے بھی پہناؤیعنی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جو تمہارا اپنا معیار ِزندگی ہے بیوی کے حقوق ادا کرو اور اسے سرزنش کرتے ہوئے چہرے پر کبھی نہ مارو اور کبھی برا بھلا نہ کہو اس سے گالی گلوچ نہ کرو۔اوراس سے کبھی جدائی اختیار نہ کر ہاں ضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

(ابوداؤ دبحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ 786ایڈیشن 2004ء)

جہاں تک مجبوری کی صورت میں عورت کو سزا دینے کا ذکر ہے ۔ یادرکھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے مرد کوجو گھر کا سربراہ اعلیٰ ہوتا ہے صرف بے حیائی سے روکنے کے لیے انتہائی کڑی شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے مگر آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ اس رخصت کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو آپؐ نے اس سے بھی منع کرتے ہوئے فرمایا:

لَا تَضْرِبُوْ ااِمَاءَ اللّٰہِ عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں،ان پر دست درازی نہ کیا کرو ۔ایک اَور موقع پر بعض لوگوں کے بارہ میں جب یہ پتا چلا کہ وہ عورتوں سے سختی کرتے ہیں توآپؐ نے فرمایاکہ

لَیْسَ اُو لٰئِکَ بِخِِیَارِ کُمْ

یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔

(ابو دائود بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ 787ایڈیشن 2004ء)

قوّامون کا حقیقی معنی

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ… (سورۃ النساء:35)

‘‘مَرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے۔اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال(ان پر)خرچ کرتے ہیں۔’’

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م تحریر فرماتے ہیں:

‘‘عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مَرد پر بھی اس کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیںبلکہ عورتوں کو گویا بالکل کرسی پر بٹھا دیاہے اور مَرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کر۔اس کا تمام کپڑا کھا نا اور تمام ضروریات مَرد کے ذمہ ہیں۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ30ایڈیشن2010ء نشرو اشاعت قادیان)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

‘‘خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو… اس لیے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ
عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النساء:20)۔ ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 403)

سورۃ النساء آیت 35کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

‘‘ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ

یعنی مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیاہے۔ اور پھر یہ:

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ (النساء: 35)

مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں۔ لیکن ایک بہت خوبصورت تفسیر جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے کی ہے وہ میں تھوڑی سی بیان کرتاہوں۔ فرمایا: ‘‘کہ سب سے پہلے تو لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں۔ قوّام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو، جودرست کرنے والی ہو، جوٹیڑھے پن اور کجی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو۔ چنانچہ قوّام اصلاح معاشرہ کے لیے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔ پس قوّامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاحِ معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہوجائے، ان میں کج روی پیدا ہوجائے، ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو۔ یعنی گھریلو نظام کو تباہ کرنے والی ہو، میاں بیوی کے تعلقات کوخراب کرنے والی ہو، توعورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈا ل کر دیکھیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتاہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں اور

بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ(النساء: 35)

میں خداتعالیٰ نے جوبیان فرما یاہے وہ یہ ہے کہ خد اتعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ قوّام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ہرگزیہ مرادنہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان۔ یکم اگست 1987ء)

تو، اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء: 35) کہہ کر مردوں کو تو جہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اس لیے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مردکا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتاہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہونا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہوجاتی ہیں، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوّام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لیے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤاور معاملے کوحوصلے سے اس طرح حل کر و کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائےاور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے۔’’

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

عورت سے بیعت

آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے جس طرح مَردوں سے بیعت لی اسی طرح عورتوں سے بھی بیعت لی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

‘‘مَیں عورتوں سے ہاتھ نہیں مِلاتا یا عورتوں کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت نہیں لیتا۔’’(مسند)

(حد یقۃ الصا لحین صفحہ 406 ایڈیشن سوم)

عورت بحیثیت مشیر اعلیٰ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین بھی عورتوں سے مشاورت کیا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجب وحی نازل ہوئی تو اُس وقت بھی بہترین مشیر و مددگارآپ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ ایک عورت ہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ مَرد اَور عورت کا تعاون ہی کامیابی کا راز ہے۔گو یا ایک طرف تو عورت گھر کی منتظمہ ہے اور دوسری طرف با اعتماد مشیر اعلیٰ بھی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل نے ثابت کر دیا ہے کہ عورتوں سے مشورہ اور رائے لینااچھی بات ہے۔

معاملہ فہم اور صائب الرائے

حضرت اُم سلمہ ؓمعاملہ فہم اور کمال کی عقل رکھتی تھیں۔اصابت رائے سے متصف تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے خاوند نہ تھے جو جابر اور حاکم ہوتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی ازواج سے ایسا مشفقانہ سلوک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پریشانی ان سے بیان کر لیا کرتے اور ان سے مشورہ بھی کیا کرتے ۔صلح حدیبیہ کے موقع پر اُم سلمہ ؓحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ تھیں ۔آپؓ نے اس موقع پر حضور اکرمؐ کو جو مشورہ دیا وہ آپؓ کی کمال فراست اور اصابت الرائے رکھنے پر دلیل ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے مشورہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس پر عمل کیا ۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ صلح کی شرائط کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں اور چونکہ یہ شرائط صلح بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں اس لیے عام طور پر شکستہ دلی پھیلی ہوئی تھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بار حکم دینے پر بھی کوئی شخص تعمیل ارشاد پر آمادہ نہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے اور حضرت اُم سلمہؓ سے واقعہ بیان کیا ۔انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مسلمانوں نے آپ کا فرمان اچھی طرح نہیں سمجھا ،آپ خود باہر نکل کر قربانی کریں اور احرام اتار نے کے لیے بال منڈوائیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم سلمہ ؓ کا مشورہ قبول کر لیا اور کسی سے کچھ کہے بغیر خود ہی قربانی کی اور احرام اتارا ۔ جب صحابہ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حتمی ہے تو سب نے دھڑا دھڑ قربانیاں کیں اور احرام کھول دیے۔

( بحوالہ خدیجہ شمارہ نمبر 1صحابیات نمبر 2011 ء صفحہ 33)

عورت کو شادی کا حق

حضرت مصلح موعود ؓ بیان کرتے ہیں :

‘‘…اسلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ والدین جہاں چاہتے عورت کی شادی کر دیتے ۔اُس کی مرضی کااُس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھااور عورت کو ان کی بات ماننی پڑتی تھی … اسلام نے یہاں تک کہاہے کہ ‘‘عورت کی مرضی کے بغیر اگر کوئی شادی ہو تو وہ باطل ہے’’ ۔کتنا بڑا حق ہے جو قرآن کریم نے عورتوں کو دیا ہے ۔ پھر قرآن کریم میں دیکھ لوبچے کا دودھ چھڑانابھی عورت کی مرضی پر رکھا ہے …پھرعورت کو الگ گھر کا حق دیا ہے۔ اُس کا مہر مقرر کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ عورت اپنی جائداد کی آپ وارث ہے۔ ’’

( تفسیر کبیر جلد10صفحہ302)

بطور وراثت تقسیم ہونا

عربوں کے دستور کے مطابق جا ہلیت کے زمانہ میں بیوہ عورت خود شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی۔ مرد کے قریبی رشتہ دار (مثلاًبڑا سوتیلابیٹا) عورت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے اگر وہ چاہتے تو وہ خود اس عورت سے شادی کر لیتے ۔خود نہ کرنا چاہتے تو ان کی مرضی کے مطابق ہی دوسری جگہ شادی ہو سکتی ۔عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا۔(بخاری)

بیوہ کا نکاح

نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے بیوہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میںفیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔(بخاری)

خلع کا اختیار

نکاح کے معاہدہ کو دینی تقدس حاصل ہے۔قرآن کریم اور احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں میاں بیوی کو علیحدگی سے قبل اصلاح کی ہر ممکن کوشش کر نی چاہیے لیکن اگر اصلاح کی کو ئی صورت باقی نہ ہو تو بامر مجبوری مرد کی طرح عورت کو بھی علیحدگی کا اختیار دیا گیا ہے۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ

‘‘ جمیلہ بنت سلول ؓآنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئیںاور عرض کی کہ مجھے اپنے خاوندثابت بنت قیس کی دینداری اور خوش خلقی پرکوئی اعتراض نہیں لیکن میری طبیعت اس سے نہیں ملتی اور اس وجہ سے مجھے اس سے سخت نفرت ہے پس ایسے حالات میں مَیں اس کے حقوق ادا نہیں کر سکوں گی اور ناشکری کی مرتکب ہوں گی۔اس لیے مجھے اس سے علیحدگی دلوائی جائے۔آپؐ نے فرمایاکیا مہر میں لیا ہوا باغ واپس کرنے کو تیار ہو؟ اُس نے عرض کیا ہا ںیارسول اللہؐ! بلکہ اس سے بھی زیادہ۔آپؐ نے فرمایا مہر میں لیا ہوا باغیچہ واپس کر دواس سے زیادہ نہیں۔’’(بخاری کتاب الطلاق)

عورت ایک قیمتی ہیرا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ

‘‘عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اُس کی قیمت کچے شیشے کے بھی برابر نہیں کیونکہ شیشہ پھر بھی کسی نہ کسی کام آ سکتا ہے لیکن اُس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے ۔’’

( الازھا رلذوات الخما رجلد اوّل صفحہ396)

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر قرون اولیٰ کی صحابیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘ اگر علم و معرفت کی باتوں کا ذکر ہو تو یہ نہیں کہ عورت کو جاہل بنا دیا اور صرف مردوں کو ہی علم و معرفت کا سمجھنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی تاریخ نے عورت کی علم و معرفت کی باتوں کو بھی محفوظ کیا ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی نے دین کا علم سیکھنا ہے تو نصف دین عائشہؓ سے سیکھو۔

(مرقاۃ المفاتیح جلد 11 صفحہ 338 حدیث 6194 کتاب المناقب باب مناقب ازواج النبیؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

یعنی میں نے اس کی ایسی تربیت کر دی ہے۔ اس میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہو چکی ہیں کہ دین کے مسائل اور خاص طور پر عورتوں کے مسائل عائشہؓ سے سیکھو۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری روایات عورتوں کے مسائل کے بارے میں بھی حضرت عائشہؓ سے ہمیں ملتی ہیں اور مردوں کی تربیت بھی حضرت عائشہ ؓنے کی ہے۔

قرآن کریم کو دیکھ لیں ہر جگہ مسائل کے بیان احکامات اور انعامات میں عورت اور مرد دونوں کا ذکر ہے۔ اگر مرد کی نیکی کا ذکر ہے تو عورت کو بھی نیک کہا گیا ہے۔ مرد کی عبادت کا ذکر ہے تو عورت کو بھی عبادت کرنے والی کہا گیا ہے۔ جنت میں مرد جائیں گے تو عورتیں بھی جائیں گی۔ جنت میں مرد اعلیٰ مقام حاصل کریں گے تو عورتیں بھی کریں گی۔ اگر کسی نیک مرد کی وجہ سے اس کی بیوی کم نیکی کے باوجود جنت میں جا سکتی ہے تو کسی اعلیٰ قسم کی نیکیاں کرنے والی عورت کی وجہ سے اس سے کم نیکی کرنے والا مرد بھی، خاوند بھی اس کی وجہ سے جنت میں جا سکتا ہے۔ حقیقت میں جنت میں اگر اعلیٰ مقام پر مرد اپنی نیکیوں کی وجہ سے ہوں گے جیسا کہ میں نے کہا تو اسی اعلیٰ مقام پر عورتیںبھی ہوں گی۔

پھر یہ بھی روایت ملتی ہے کہ ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مرد ہم سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں کہ وہ جہاد میں شامل ہوں اور ہم نہ ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے تم بھی شامل ہو جاؤ۔ آپؐ نے اس کو انکار نہیں کیا۔ چنانچہ جب وہ شامل ہوئیں اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح ہوئی تو باوجود مردوں کے یہ کہنے کے، صحابہ کے یہ کہنے کے کہ اس نے تو جنگ میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا ہم نے لیا ہے اور ہم لڑے ہیں اس لیے اس کو مال غنیمت میں حصہ دینے کی ضرورت نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کو بھی مال غنیمت میں حصہ دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد یہ طریق بن گیا کہ مرد جب جہاد پر جائیں تو مرہم پٹی کے لیے عورتیں بھی ساتھ جائیں۔ غرض کہ عورتوں نے باہر نکل کر جہاد بھی کیا اور تمام خطرات کے باوجود مردوں کے ساتھ متفرق ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے جہاد میں جاتی بھی تھیں۔ بلکہ یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ فنون جنگ کی بھی انہوں نے تربیت حاصل کی۔

(ماخوذ از قرونِ اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 617-618)(جلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر مستورات سے خطاب بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 7؍دسمبر 2018ء)

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر ایک خطاب میں عورتوں کے مساوی حقوق کے حوالے سےفرماتے ہیں :

‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسب حال عمل کرے گا مرد ہو کہ عورت ہم اس کو یقینا ًایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دیں گے۔

پس یہ ہے خدا تعالیٰ کا انصاف کہ مردوں عورتوں دونوں کو ان کے عمل کا بدلہ ہے۔ بعض باتیں مردوں کے لیے فرض ہیں یا ان کے حالات کے مطابق ضروری ہیں اور عورت کے لیے اس طرح فرض اور ضروری نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے فرائض اور ڈیوٹیوں کی فہرست بھی بتا دی کہ اسلامی معاشرے میں عورت کے کیا فرائض ہیں اور مرد کے کیا فرائض ہیں۔ ان کی ایک لمبی فہرست ہے وہ تو میں اس وقت بیان نہیں کرسکتا۔ مثال دیتا ہوں مثلاً نماز کو ہی لے لیں۔ مردوں پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ سوائے اشد مجبوری کے نماز باجماعت مسجد میں جا کر ادا کریں جبکہ عورت کے لیے یہ ضروری نہیںہے۔ حتٰی کہ جمعہ بھی عورت کے لیے اس طرح فرض نہیں ہے جس طرح مرد کے لیے فرض ہے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ حدیث 1067)

مرد کو یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم باجماعت نماز پڑھو تو تمہیں اس کا ستائیس گنا ثواب ملے گا۔

(صحیح بخاری کتاب الآذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645)

تو کیا عورت باجماعت نماز نہ پڑھ کے ستائیس گنا ثواب سے محروم رہے گی۔یا اس کو اس لیے نماز باجماعت پڑھنا ضروری قرار نہیں دیا گیا کہ اسے کہیں ستائیس گنا ثواب نہ مل جائے اور اس سے محروم رکھا جائے۔ نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر ایک کے مناسب حال عمل ہیں۔ اگر وہ ان عملوں کو سرانجام دے رہا ہے تو چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے، اسے ثواب ملے گا۔ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا اور اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنا ہی اسے مرد کے برابر ثواب کا مستحق قرار دے دے گا۔تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ایک عورت کو فرمایا تھا کہ تمہارا اپنے گھروں کو سنبھالنا اور بچوں کی تربیت کرنا تمہیں اتنے ہی ثواب کا مستحق قرار دے گا یا بنائے گا جس کا ایک مرد اسلام کے راستے میں جانی و مالی جہاد کر کے مستحق ہوتا ہے۔

(الجامع لشعب الایمان جلد 11 صفحہ 177-178 حدیث 8369 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2003ء)

پس اگر عورت اپنے ذمہ کام کو سرانجام دے رہی ہے اور مرد اپنے ذمہ کام اور فرائض کو سرانجام دے رہا ہے اور دونوں اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تو ان کی اس دنیا کی زندگی بھی پاکیزہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے اس کی رضا کو حاصل کرنے والی ہو گی اور آخرت میں بھی ان کے عمل کے مطابق انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ پس جہاں اس آیت میں اسلام نے مرداور عورت دونوں کے حقوق کو تسلیم کیا ہے اور عورت مرد کو یہ کہا گیا ہے کہ تمہیں تمہارے عملوں کے مطابق بدلہ دیا جائے گا وہاں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنی حالتوں اور اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے عمل کرو۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔

اس آیت میں ان لوگوں کے اعتراض کی بھی نفی کی گئی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرتا۔ اسلام نہ صرف نیک عمل کرنے والی عورتوں کو چاہے بظاہر اس کے عمل مرد کی نسبت کم محنت والے اور مشقت والے نظر آتے ہوں، اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خبر دے کر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے نوازنے کا اعلان کرتا ہے۔یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے انعامات سے نوازنے کا اعلان کرتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مرنے کے بعد بھی بہترین اجر کا اعلان کرتا ہے۔ پس یہ ان لوگوں کی جہالت ہے جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ مرد اور عورت کے برابری کے حقوق نہیں ہیں اور ان لوگوں کی ان غیر مسلموں سے بڑھ کر جہالت ہے جو اس دنیاوی طور پر ترقی یافتہ معاشرے کی نام نہاد آزادی سے متاثر ہو کر کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اسلام کی سچائی اور اسلام میں اپنے حقوق کے بارے میں سوچ میں پڑ جاتے ہیں یا کہنا چاہیے کہ عورتیں اور پڑھی لکھی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے، خاص طور پر لڑکیوں کی بات کر رہا ہوں، اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں ہمارے حقوق دیے بھی ہیں کہ نہیں۔

پس اپنوں یا غیروں جس کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں۔ اس کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا علم ہی نہیں۔ آج ہر احمدی کا کام ہے کہ دنیا کو بتائے کہ دین کیا ہے؟ ہمارے حقوق کیا ہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انبیاء دنیا میں بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لیے آتے ہیں اور مذہب اس دنیا کی زندگی اور مرنے کے بعد کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کی بات کرتا ہے اور ایک دنیا دار صرف اس دنیا کی زندگی کو ہی اپنا مقصد حیات سمجھتا ہے۔ پس یہ بات ہر احمدی مرد اور عورت اور لڑکے اور لڑکی کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اسلام جو کامل اور مکمل شریعت ہے جس میں مرد اور عورت ہر ایک کے حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کر دی گئی ہے اور ان پر عمل کر کے ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اسے ہم نے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنا ہے اور غیر مذہبی لوگوں یا دنیا دار لوگوں سے متاثر نہیں ہونا اور نہ صرف متاثر نہیں ہونا بلکہ ان کو مذہب کی حقیقت بتانی ہے۔ ان کو خدا تعالیٰ کے قریب لانا ہے۔ ان کو ان کی جاہلانہ سوچوں کی نشاندہی کر کے بتانا ہے کہ ہم جو احمدی مسلمان ہیں ٹھیک ہیں اور ہمارا مذہب کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ ٹھیک ہے۔ ہمارا خدا تعالیٰ کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ ٹھیک ہے اور تم غلط ہو۔ پس اس سوچ کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے احکامات کا پابند کرنا ہے اور دنیا کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا قائل کرنا ہے۔ جب یہ ہو گا تبھی ہم حقیقی احمدی کہلا سکیں گے۔

(جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء کے موقع پر مستورات سےخطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جنوری2020ء)

2004ء میں نائیجیریا میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘ عورتیں یاد رکھیں کہ اُن کا اسلامی معاشرے میں ایک بلند مقام ہے۔ اگر انہوں نے اپنے اس بلند مقام کو نہ پہچانا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان پر قائم رہیں گی۔ خواتین اپنے اس مقام کو پہچانیں جو اُن کا معاشرے میں ہے… پس یہ انتہائی اہم ہے کہ ہر احمدی عورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتی رہے اور ہمیشہ یہ دعا کرتی رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی کرے اور اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق پرورش کرسکے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت جو اپنی پانچ وقت نمازوں کی پابندی کرتی ہے اور جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو اخلاقی برائیوں سے بچایا اور اپنے خاوند کی اخلاص اور وفا سے خدمت کی۔ ایسی عورت کا حق ہے کہ وہ جنت میں کسی بھی دروازے سے داخل ہوجائے۔ میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور اپنے بچوں کے فرائض کا حق ادا کرنے والی ہو۔ اللہ کرے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرے اور ان کی پاک اور بااخلاق ماحول میں پرورش کرے اور اس وجہ سے جنتوں کی وارث بنے۔’’

(خطاب جلسہ سالانہ نائیجیریا2004ءاَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَاریعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد سوم حصہ اول صفحہ222تا223)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے 2006ءکے موقع پر احمدی مسلمان عورتوں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشادفرمایا:

‘‘آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس بر تری کی سوچ پیدا کریں۔ اپنی تعلیم کو کامل اور مکمل سمجھیں۔ قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں اس پر کاربند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی رہنما کا کردار ادا کریں گی… پس اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تاکہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلاجانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ۔’’

(جلسہ سالانہ یوکے2006ء کے موقع پر مستورات سے خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جون 2015ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے31؍ جولائی2004ءکو جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئےفرمایا:

‘‘جو عورتیں اپنے گھروں کی حفاظت کرنے والیاں ہیں، اپنے خاوندوں کی وفادار اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والیاں ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔اسماء ؓبنت یزید انصاریہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں۔ اس وقت آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ وہ کہنے لگیں :آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسلمان عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ میری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرفدا ہو۔ شرق و غرب کی تمام عورتیں میر ی اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے لیے بھیجا ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور اس خدا پر بھی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ ہم عورتیں گھر میں ہی قید اور محصورہوکر رہ گئی ہیں۔ ہم آپ مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں اور آپ کی اولاد سنبھالے پھرتی ہیں اور آپ مردوں کے گروہ کو جمعہ، نماز باجماعت، عیادت مریضان، جنازوں پر جانا اور حج کے باعث ہم پر فضیلت حاصل ہے۔ اس سے بڑھ کر جہاد کرنا بھی ہے۔ آپ میں سے جب کوئی حج کرنے، عمرہ کرنے، یا جہاد کرنے کے لیے چل پڑتا ہے تو ہم آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں۔ لباس کے لیے روئی کاتتی اور آپ کی اولا د کو پالتی ہیں۔ تویا رسول اللہ پھر بھی ہم آپ کے ساتھ اجر میں برابر کی شریک نہیں ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رُخِ مبارک صحابہ کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملہ میں اپنے مسئلہ کو اس عمدگی سے بیان کرنے میں اس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں یہ ہرگز خیال نہ تھاکہ ایک عورت ایسی(گہری) سو چ رکھتی ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ اے عورت!واپس جاؤ اور دوسری سب عورتوں کو بتا دو کہ کسی عورت کے لیے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے۔ وہ عورت واپس گئی اور خوشی سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے الفاظ بلند کرتی گئی۔ (تفسیر الدر المنثور)

تو فرمایا جو اس طرح تعاون کرنے والی اور گھروں کو چلانے والیاں ہیں اور اچھی بیویاں ہیں ان کا اجر بھی ان کے عبادت گزار خاوندوں اور اللہ کی خاطر جہاد کرنے والے خاوندوں کے برابر ہے۔ تو دیکھیں عورتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے کتنے عظیم اجروں کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دے رہا ہے، اللہ کا رسول دے رہا ہے۔’’

(جلسہ سالانہ یوکے 2004ء کے موقع پرمستورات سےخطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

ایک اور موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے قرآن کریم کے حوالے سے عورتوں کو نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا:

‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ۔ (النساء:35)

پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے۔ غیب میں بھی وہی نیکیوں پر قائم رہ سکتی ہے یا رہ سکتا ہے، وہی شخص فرمانبردار ہو سکتا ہے وہی عورت فرمانبردار ہو سکتی ہے، وہی اپنے اور اپنے خاوندوں کے رازوں کی حفاظت کر سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہو، اُس کا خوف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اُس کے دل میں ہو۔

غیب میں جن چیزوں کی حفاظت کا حکم ہے اُن میں اپنے خاوند کے بچوں کی تربیت کی نگرانی اور اُن کی دیکھ بھال بھی ہے۔ یہ نہیں کہ خاوند گھر سے باہر اپنے کام کےلیے نکلا تو عورت نے بھی اپنا بیگ اٹھایا اور بچوں کو گھر میں چھوڑا اور اپنی مجلسیں لگانے کےلیے نکل پڑیں۔ یا بچوں کی تربیت کی طرف صحیح توجہ نہیں دی۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری عورت پر بچوں کی تربیت کی ہے۔ اس کو پورا نہ کرکے وہ نہ صالحات میں شمار ہوسکتی ہیں نہ قانتات میں شمار ہوسکتی ہیں، نہ اُس نسل کی حفاظت کا حق ادا کرسکتی ہیں جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس کےبارے میں پوچھا جائے گا۔

(بخاری کتاب الاستقراض واداالدین 133باب العبدراع فی مال سیدہ133حدیث 2409)
(جلسہ سالانہ جرمنی 2011ءکے موقع پر مستورات سےخطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2012ء)

ستمبر2005ءکو سکینڈے نیوین ممالک کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے اپنےخطاب میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے مختلف امور سے متعلق احمدی خواتین کی رہنمائی فرمائی اور خاوندوں کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:

‘‘ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے۔ خاوند کی جو اولاد ہے اُس کی وہ نگران ہے۔ اس لیے ماؤں کو، عورتوں کو بہرحال بچوں کی خاطر قربانی دینی چاہئے، گھر میں رہنا چاہیے۔ جب بچے سکول سے آئیں تو ان کو ایک پرسکون محبت والاماحول میسر آنا چاہیے…پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہیے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہیے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہرحال اس کے لیے عورتوں کو قربانی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لیے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے’’

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2015ء)

حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےجلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء کے موقع پرعورت کے مقام کے حوالے سے نصائح کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

‘‘یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کے بچوں کو اس دنیا میں بھی جنت کا وارث بنا سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ بچوں کے یہ عمل اور آپ کے بچوں کی یہ اعلیٰ تربیت ہی ہے جو ہر وقت بچو ں کو خدا سے جوڑے رکھے گی اور بچوں کو بھی آپ کے لیے دعائیں کرنے کی عادت پڑے گی۔ تو بچوں کی جو آپ کے لیے دعائیں ہیں وہ آپ کو بھی اگلے جہان میں جنت کے اعلیٰ درجوں تک لے جانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔

پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں۔ آج اگر آپ اپنی ذ مہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی۔ پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ نیکیاں بجا لانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں۔ برائیوں کو ترک کرنے والی بنیں اور پھر اپنے ماحول میں برائیوں کو روکنے والی بنیں۔ معاشرے میں بھی برائیاں پھیلنے نہ دیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں۔ اگر آپ کے دل میں بغض و کینہ پلتے رہے توپھرخدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اترتا۔ ایسے دلوں کی عبادت کے معیاروہ نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔’’

(جلسہ سالانہ آسٹریلیا2006ءکے موقع پر مستورات سے خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)

پردے کا اسلامی حکم عورت کی عصمت کی حفاظت

پردے کے اسلامی حکم کے پس پردہ ایک دلکش حکمت عورت کے وقار کو قائم رکھنا بھی ہے۔ اس حوالے سے حضورانور ایدہ اللہ احمدی عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘ اب مَیں آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم، جو اصل میں عورت کو عورت کا وقار اور مقام بلند کرنے کے لیے دیا گیا ہے اس کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں اور پہلے بھی اس بارے میں توجہ دلا چکاہوں۔ لیکن بعض باتوں اور خطو ط سے اظہارہوتا ہے کہ شاید مَیں زیادہ سختی سے اس طرف توجہ دلاتاہوں یا میر ارجحان سختی کی طرف ہے۔ حالانکہ مَیں اتنی ہی بات کررہاہوں جتنا اللہ اور اس کے رسول اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم فرمایا ہے۔

وراثت میں حق دیا، خلع کا حق دیا اور اس کے دیگر حقوق قائم کیے۔ اس کے ساتھ اسلام تعلیمِ نسواں اور خواتین کو ذاتی ترقی و بہبود کے مواقع مہیا کرنےپربھی زبردست زور دیتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پردے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو قید میں ڈال دیا جائے۔ لیکن ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے جو پردے کی شرائط ہیں۔ تو جس طرح معاشرہ آہستہ آہستہ بہک رہا ہے اور بعض معاملات میں برے بھلے کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ احمدی عورتیں اپنے نمونے قائم کریں۔ اور معاشرے کو بتائیں کہ پردے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقام بلند کرنے کے لیے دیا ہے نہ کہ کسی تنگی میں ڈالنے کے لیے۔ اور پردے کا حکم جہاں عورتوں کو دیا گیا ہے وہاں مَردوں کو بھی ہے۔ ان کوبھی نصیحت کی کہ تم بھی اس بات کا خیال رکھو۔ بے وجہ عورتوں کو دیکھتے نہ رہو۔ ’’

حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے اسی خطاب میں مَردوں اور عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا:

‘‘… مومن کو تو یہ حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور اس طرح عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھو۔ اور ویسے بھی بلا وجہ دیکھنے کا جس سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہو کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن عموماً معاشرے میں عورت کو بھی کوشش کرنی چاہیےکہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اس کی طرف توجہ اس طرح پیدا ہو جو بعد میں دوستیوں تک پہنچ جائے۔ اگر پردہ ہوگا تو وہ اس سلسلے میں کافی مددگار ہو گا۔ ’’

(جلسہ سالانہ یوکے 2004ء کے موقع پر مستورات سے خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

پردہ کس طرح اور کس کس سے کرنا چاہیے، اس بارہ میں قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے تعلیم بیان فرمادی گئی ہے۔ اسی حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:

‘‘پردہ ایک بنیادی اسلامی حکم ہے اور قرآن کریم میں بڑا کھول کر اس کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ لوگ جو قرآن کریم غور سے نہیں پڑھتے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اتنی سختی نہیں کی… قرآن کریم کہتا ہے…

وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ(النور:32)

کہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّالِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَائِھِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ (النور:32)

اور پھر لمبی فہرست ہے کہ باپوں کے سامنے، خاوندوں کے سامنے، بیٹوں کے سامنے جو زینت ظاہر ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ باقی جگہ آپ نے ظاہر نہیں کرنی۔اب اس میں لکھا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لو۔ تو بعض کہتے ہیں کہ گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالنے کا حکم ہے اس لیے گلے میں دوپٹہ ڈال لیا یا سکارف ڈال لیا تو یہ کافی ہو گیا۔ تو ایک تو یہ حکم ہے کہ زینت ظاہر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر نکلوتو اتنا چوڑا کپڑا ہو جو جسم کی زینت کو بھی چھپاتا ہو۔ دوسری جگہ سر پر چادر ڈالنے کا بھی حکم ہے۔ اسی لیے دیکھیں تمام اسلامی دنیا میں جہاں بھی تھوڑا بہت پردہ کا تصور ہے وہاں سر ڈھانکنے کا تصور ضرور ہے۔ ہر جگہ حجاب یا نقاب اس طرح کی چیز لی جاتی ہے یا سکارف باندھا جاتا ہے یا چوڑی چادر لی جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنّ(النور:32)

بڑی چادروں کو اپنے سروں سے گھسیٹ کر سینوں تک لے آیا کرو۔ بڑی چادر ہو سر بھی ڈھانکا ہو اور جسم بھی ڈھانکا ہو۔ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں وغیرہ کے سامنے تو بغیر چادر کے آسکتی ہو۔ اب جب باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں کے سامنے ایک عورت آتی ہے تو شریفانہ لباس میں ہی آتی ہے۔ چہرہ وغیرہ ننگا ہوتا ہے۔ تو فرمایا کہ یہ چہرہ وغیرہ ننگا جوہوتا ہے یہ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں اور ایسے رشتے جو محرم ہوں، ان کے سامنے تو ہو جاتا ہے لیکن جب باہر جاؤ تو اس طرح ننگا نہیں ہونا چاہیے۔ اب آج کل اس طرح چادریں نہیں اوڑھی جاتیں۔ لیکن نقاب یابرقع یا کوٹ وغیرہ لیے جاتے ہیں۔ تو اس کی بھی اتنی سختی نہیں ہے کہ ایسا ناک بند کرلیں کہ سانس بھی نہ آئے۔ سانس لینے کے لیے ناک کو ننگا رکھا جاسکتا ہے لیکن ہونٹ وغیرہ اور اتنا حصہ، دہانہ اور اتنا ڈھانکنا چاہیے۔ یا تو پھر بڑی چادر لیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سر پر اوڑھیں، خود بخود پردہ ہو جاتا ہے، بڑی چادر سے گھونگھٹ نکل آتا ہے۔ یا اگر اپنی سہولت کے لیے برقع وغیرہ پہنتے ہیں تو ایسا ہو جس سے اس حکم کی پابندی ہوتی ہو۔ تنگ کوٹ پہن کر جو جسم کے ساتھ چمٹا ہو یا ساراچہرہ ننگا کر کے تو پردہ، پردہ نہیں رہتا وہ توفیشن بن جاتا ہے۔ پس میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ اپنے جائزے خود لیں اور دیکھیں کہ کیا قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق ہر ایک پردہ کررہا ہے۔ ’’

(سکینڈے نیوین ممالک کے جلسہ سالانہ 2005ء کے موقع پر مستورات سےخطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی2015ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دورۂ امریکہ 2012ءکے دوران مسجد بیت الرحمٰن، واشنگٹن میں ایک طالبہ کے سوال کے جواب میں تمام لجنہ کو گھروں سے اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں پردے کو ملحوظ رکھنے کے بارے میں توجہ دلائی۔ ان کو احمدی خواتین ہونے کی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ اسی طرح job پر مَردوں سے ہاتھ ملانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

‘‘جو logic حجاب کے متعلق ہے وہی logicمَردوں سے ہاتھ نہ ملانے میں بھی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی غیرمحرم کی آنکھوں سے بچتی ہیں تو اس کے ہاتھوں سے کیوں نہیں !۔’’

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ اگست 2012ء)

برلن میں سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے انگریزی زبان میں بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر 2019ء مقام ہوٹل ADLON KEMPINSKI، جرمنی میں فرمایا:

‘‘مغربی دنیا میں اسلام پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ مسلمان عورتوں اور ان کے حقوق کو وقعت نہیں دیتے۔ پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے اسلام نے ہی عورت کو وراثت میں حق دیا، خلع کا حق دیا اور اس کے دیگر حقوق قائم کیے۔ اس کے ساتھ اسلام تعلیمِ نسواں اور خواتین کو ذاتی ترقی و بہبود کے مواقع مہیا کرنےپربھی زبردست زور دیتا ہے۔کسی ایک بھی لڑکی یا عورت کو تعلیم کی سہولت سے محروم کرنا یا اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا ناروا سلوک کرنا جائز نہیں۔ایک ایسے زمانہ میں جب خواتین کے حقوق کو پامال کرنا معمول کی بات تھی، اور جب انہیں مرد وں سے کم تر خیال کیا جاتا تھا، آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ذریعہ حقوق نسواں کے حوالہ سے ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم دی کہ وہ اپنی بیٹیوں سے محبت کریں اور انہیں کسی بھی طرح لڑکوں سے کم تر نہ سمجھیں۔

پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلمکا ایک مشہور فرمان ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ الفاظ معاشرےمیں عورت کے عظیم المرتبت کردار اور نہایت نمایاں اور بے مثال مقام کا مظہر ہے۔درحقیقت نوعمری میں بچوں کی پرورش کرنا ماؤں ہی کی ذمہ داری ہے اوریوں آئندہ نسل کو معاشرے کے فعال اور کارآمد بنانے میں ماؤں کا کردار نہایت اہم ہے۔

مائیں ہی تو ہیں جن کے پاس یہ طاقت اور قابلیت ہے کہ وہ اپنی قوم کو جنت نظیر بنادیں اور اپنے بچوں کے لیے دائمی جنتوں کے دروازے کھول دیں۔

اسی طرح قرآن کریم کی سورۃ النساء کی بیسویں آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے محبت اور عزت سے پیش آئیں۔ مغربی ممالک میں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گھریلو تشدد کے واقعات میں پولیس اور عدالتوں کی دست اندازی کی خبریں نہ آتی ہوں۔ متعدد تحقیقات اور رپورٹوں سے، مثلاً برطانیہ کے قومی ادارہ ٔشماریات کی2018ء کی رپورٹ، سے ثابت ہے کہ ایسے جرائم کسی مذہب سے مخصوص نہیں ۔ ایک اور حالیہ رپورٹ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جرمنی بھی ایسے واقعات سے مستثنیٰ نہیں۔ لہٰذا اسلام کو عورت مخالف مذہب قرار دینا سخت نا انصافی ہے۔

جیسا کہ میں نےابھی بیان کیا ہے، اسلام تو عورت کوعزت اور توقیرکی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی مرد کسی بھی عورت سے درشتی سے پیش آتا ہے، وہ اسلام کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنےکا مرتکب ہوتاہے۔’’

(اردو ترجمہ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍مارچ2020ء)

پس خلاصہ کلام یہ کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد بحیثیت انسان ایک ہی مقصد کےلیے بنائے گئے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ،تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصہ عورتوں پر مشتمل ہے اور دوسرا مردوں پر جس طرح ایک اچھے معاشرے میں بہت سے شعبے اپنا اپنا کام کرتے ہیں ۔ڈاکٹر ، انجینئر، وکیل معمار،تاجر ،زمیندار سب اپنے اپنے کام کرتے ہیں اور کبھی یہ بحث پیدا نہیں ہوئی کہا کہ فلاں حصہ برتر اور فلاں حصہ کم تر ہے بالکل اسی طرح عورت اور مرد بھی اپنے اپنے کاموں کے دائرے میں اپنی اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کے لیے کام کرسکتےہیں برابری کا مطلب یہ نہیں ہوا کرتا کہ تمام دنیا کےلوگ ایک ہی کام یاپیشہ اپنالیں کیونکہ اس سے تو نظام اور معاشرے میں توازن قائم ہی نہیں رہ سکتا بلکہ حقیقی برابری کا مطلب یہ ہے کہ دونوں پر برابر حقوق اور فرائض عائد کیے گئے ہیں۔ دونوں کے سپرد معین ذمہ داریاں کی گئی ہیں۔ دونوں طبقات کو ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے درکار طاقت اور صلاحیت دی گئی ہیں۔ جن کا غیر ضروری تقابل ہی مسائل پیدا کرتا ہے،معاشرے کو دونوںطبقوںکی ضرورت ہے۔ کسی ایک کے بغیربھی یہ نظام نہیں چل سکتا۔اگر ہمیں ان دونوں طبقات میں کوئی فرق نظر آتا ہے تو وہ ذمہ داریوں کے تعین کے فرق کے سبب سے ہے نہ کہ انسانی حیثیت کے فرق کے بنا پر ۔پس یہ ہیںحقیقی اسلامی تعلیمات عورت کے حقوق کے بارے میں اور کون ہے جو اپنی تجویز کردہ تعلیمات کو ان سے اعلی یا بالا ثابت کر سکے ،کسی مذہب یامعاشرے میں یہ طاقت ہے کہ اسلامی تعلیمات پر اپنی برتری کا گمان بھی کرسکے ۔کس میں ہمت ہے کہ ان تعلیمات کے مقابلے کی جرات بھی پیدا کرسکے اگر کوئی ایسی جرات پیدا بھی کرلے اور بزعم خود ایسے قوانین بھی بنا لے جن میں دونوں طبقات کو غیرضروری برابری کے جھنجھٹ میں ڈال دیا جائے تو ایسے معاشروںکی بنیادں کا کھوکھلا ہونا ظاہرو باہر ہے۔ ایسے معاشرو ںاور گھروں کا ٹوٹنا واجب ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی بیان کردہ تعلیمات سے زیادہ حکمت نہ سوچی جاسکتی ہے نہ تجویز کی جا سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button