اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب ابن مکرم ملک مظفر احمد صاحب اور مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب ابن مکرم شیخ محبوب عالَم خالد صاحب کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍فروری 2020ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)،سرے،یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے28؍فروری 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج جن صحابی کا ذکر ہوگااُن کا نام حضرت مصعب بن عمیرؓہے۔ اِن کا تعلق قبیلہ بنو عبدالدار سے تھا۔آپؓ کی والدہ مکّے کی مال دار خاتون تھیں جنہوں نےحضرت مصعب کی پرورش بڑی نازو نعمت سے کی تھی۔حضرت مصعبؓ کی زوجہ حمنہ بنت حجش امّ المومنین حضرت زینبؓ بنت حجش کی بہن تھیں۔رسول اللہﷺ مصعبؓ کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے اُن سے زیادہ حسین و جمیل اور ناز و نعمت و آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔
آپؓ آغاز میں اسلام لانے والے جلیل القدر صحابہ میں سے تھے،جنہوں نے دارِ ارقم میں اسلام قبول کیا لیکن والدہ اور اپنی قوم کی مخالفت کے اندیشے سے اسے مخفی رکھا۔ جب آپؓ کے مسلمان ہونے کی خبر اِن کی والدہ کو ملی تو انہوں نے مصعبؓ کو قید کردیا۔ آپؓ قید میں رہے اور جیسے ہی موقع ملا حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ یوں مصعبؓ کو دو ہجرتوں کی توفیق ملی۔ جب مصعبؓ حبشہ سے واپس آئے تو آپؓ کی حالتِ زار دیکھ کراِن کی والدہ نے مخالفت ترک کردی اور بیٹے کواُس کے حال پر چھوڑ دیا۔
حضرت مصعبؓ نے اسلام کی خاطر جو دکھ جھیلے اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ اُن کے جسم سے جِلد اس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی ہے اور نئی جلد آتی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت مصعبؓ صحابہ کی محفل میں آئے تو ان کے کپڑوں کو پیوند لگے ہوئے تھے۔ صحابہ نے ان کی اس حالت کو دیکھ کر سر جھکا لیے کہ وہ بھی مصعبؓ کی کچھ مدد نہ کرسکتے تھے۔ مصعبؓ کے سلام عرض کرنے پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مَیں نے مصعب کو اس حال میں دیکھا ہے کہ جب شہر مکّہ میں ا س سے بڑھ کر صاحبِ ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔ یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی مگر آج خدا اور اس کے رسول کی محبت نے اسے اس حال تک پہنچادیا ہے۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی مجلس میں موجود تھے کہ مصعبؓ آئے، اُن کے کپڑوں پر چمڑے کے پیوند لگے تھے اور ایک چادر تھی۔ آنحضرتﷺ مصعبؓ کے گذشتہ زمانے کو یاد کرکے رونے لگے اور فرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا اور دوسرے میں شام۔ اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا اور ایک اٹھایا جائے گا۔ تم اپنے مکانوں پر ایسے قیمتی پردے ڈالو گے جیسے کعبے پر ڈالے جاتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے حال میں اور عبادت کےلیے فارغ ہوں گے ۔ آپؐ نے فرمایا نہیں؛ بلکہ تم آج کے دن اُن دنوں سے بہتر ہو۔
حضورِ انور نے سیرت خاتم النبیینؐ سے ہجرتِ حبشہ کے بارے میں مختصراً بیا ن کرنے کے بعد بیعتِ عقبہ اولیٰ کے متعلق تفاصیل پیش فرمائیں۔
5 نبوی میں گیارہ مسلمان مرد اور چار عورتیں کفارِ مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،ان میں مصعبؓ بھی شامل تھے۔
بیعتِ عقبہ اولیٰ کے موقعے پر مدینے سے آئے ہوئے 12؍ افراد نے رسول اللہﷺ کےہاتھ پر بیعت کی۔ آپؐ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ہمراہ اسلام سکھانے اور قرآن پڑھانے کے لیے بھجوادیا۔آپؓ نے اسعد بن زرارہ کے گھر قیام کیا اور نمازوں کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ مصعبؓ ہجرت سے قبل یثرب میں پہلے اسلامی مبلغ بناکر بھیجے گئے جن کے ذریعے مدینے میں اسلام پھیلا۔ مصعبؓ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ سے قبل آنحضرتﷺ سے جمعے کی اجازت طلب کی یوں آپؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے جمعے کی نماز پڑھائی۔حضرت مصعبؓ کی تبلیغ سے بہت سے کِبار صحابہ مسلمان ہوئے جن میں حضرت سعد بن معاذؓ،حضرت عباد بن بشؓر،محمد بن مسلمہؓ اور اسید بن حضیرؓ شامل ہیں۔
مسلمان ہونےسے قبل حضرت سعد بن معاذؓ اسلام کے سخت مخالف تھے۔آپؓ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی حکمت اور نرم گفتاری کے سبب مسلمان ہوئے۔
حضرت مصعبؓ کی تبلیغ سے بہت سے افراد مسلمان ہوئے۔ آپؓ 13؍نبوی میں حج کے موقعے پر ستّر انصار کا وفد لےکر مکّہ آئے۔
جب اُن کی والدہ کو مصعبؓ کی آمد کی اطلاع ملی تو گو وہ مشرکہ تھی مگر اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرتی تھی سواس نے کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ سے ملنا، پھر کہیں اَور جانا۔حضرت مصعبؓ نے جواب بھجوایا کہ رسول اللہﷺ سے مل کر آپ کے پاس آؤں گا۔ جب مصعبؓ اپنی والدہ کے پاس پہنچے تو وہ جلی بھنی بیٹھی تھی۔ ان کو دیکھ کر بہت روئی اور گلہ شکوہ کیا۔ حضرت مصعبؓ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے شور مچا دیا اور رشتے داروں کو اشارہ کیا کہ مصعبؓ کو قید کرلیں۔اس پرحضرت مصعبؓ نے بڑی مشکل سے بھاگ کر جان بچائی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مصعبؓ کامزیدذکر ابھی جاری ہےباقی مضمون ان شاءاللہ آئندہ خطبے میں بیان ہوگا۔ اس کے بعد امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبے کے دوسرے حصّے میں دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
پہلا ذکرِ خیر مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب ابن مکرم ملک مظفر احمد صاحب کا تھاجو 22؍فروری کو 84؍برس کی عمر میں وفات پاگئےإِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ مرحوم موصی تھے، پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں سوگ وار چھوڑی ہیں۔آپ کے دادا حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحبؓ اور نانا حضرت شیخ عبدالکریم صاحب ؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابی تھے۔ مرحوم نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے 1982ءمیں انصار اللہ کے اجتماع سے خطاب کو سن کر زندگی وقف کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے 18؍ اگست 1983ءکو آپ کا وقف منظور فرمایا۔ وقف سے قبل آپ نے سولہ سال سیکرٹیریٹ حکومتِ پنجاب میں سروس کی اور دس سال ذاتی کاروبار کرتے رہے۔ وقف کے بعد آپ کا ابتدائی تقرر وکالت صنعت و تجارت میں ہوا۔ آپ مینیجر رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھی رہے۔ 1984ء میں معاون ناظر ضیافت مقرر ہوئے ۔ 20؍ اپریل 1987ء سے جولائی 2016ء تک بطور نائب ناظر ضیافت فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ اولین سیکریٹری کمیٹی کفالت یک صد یتامیٰ بھی رہے۔ بطور قائد ضلع و قائدعلاقہ لاہور لمبے عرصے خدمت کی توفیق ملی۔1984ء سے 2014ء تک انصار اللہ میں خدمت کا موقع ملا۔ مرحوم اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ راتوں کو اٹھ کر دارالضیافت کا چکر لگاتے، کارکنوں سے جائزہ لیتے۔ کارکنان دارالضیافت سے ان کا بہت شفقت اورہم دردی کا تعلق تھا۔ کارکنان کے گھریلو حالات سے واقف رہتے اور خاموشی سے ہر ممکن مالی مدد بھی کرتے۔
معاون ناظر ضیافت آصف مجید صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں دارالضیافت میں رش زیادہ ہونے کے باعث مہمانوں کی تلخ باتوں کومرحوم بڑی خندہ پیشانی سےسنتے۔ کہتے ہیں بعض دفعہ تو مَیں نے انہیں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ حضورِا نورنے احبابِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مہمانوں کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ایسی صورتِ حال میں انتظامیہ سے تعاون کرنا چاہیے۔
دوسرا ذکرِ خیر مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب کا تھا جو 16؍فروری 2020ء کو تقریباً اکیاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون۔ مرحوم کے والد مکرم شیخ محبوب عالَم خالد صاحب تعلیم الاسلام کالج،ربوہ میں پروفیسر تھے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے انہیں ناظر بیت المال آمد بنا دیا تھا، لمبا عرصہ وہ اس خدمت پر مأمور رہے۔اس کے بعد حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے انہیں صدر صدر انجمن احمدیہ مقرر فرمادیا تھا۔ شمیم خالد صاحب اُن کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ ثانی اور پہلی اہلیہ جو وفات پاچکی ہیں اُن سے ایک بیٹے خالد انور صاحب ہیں جو کینیڈا میں مقیم ہیں۔ 1964ءمیں شمیم خالد صاحب کے نکاح کا اعلان حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا جب حضورؒ کالج کے پرنسپل اور صدر صدر انجمن احمدیہ تھے۔ حضورؒ نے نکاح کے اعلان کے وقت یہ فقرہ فرمایا تھا کہ شمیم خالد صاحب میرے گہرےدوست پروفیسر محبوب عالَم خالد صاحب کے بیٹے ہیں۔ مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز ہیں۔
مجلس انصار اللہ پاکستان میں مرحوم کو اٹھائیس سال خدمت کی توفیق ملی۔ تعلیم الاسلام کالج میں لمبا عرصہ پروفیسر رہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ کچھ عرصہ مَیں بھی ان کا شاگرد رہا ہوں۔ اس کے بعد جب مَیں ناظرِ اعلیٰ و امیر مقامی تھا تو انتہائی ادب اور احترام کا انہوں نے سلوک رکھا۔
حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے ،اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور لواحقین کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
٭…٭…٭