حضرت مصلح موعود ؓ

ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے (قسط نمبر 02)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

خدا کیونکر رب العالمین ہے

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کی حمد کرو۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ تمام جہانوں کا رب ہے۔ میں نے ابھی بتایا ہے کہ بہت لوگ نہیں جانتے کہ خدا سب کا رب کس طرح ہے۔ میں بتاتا ہوں کہ وہ اس طرح ہے کہ ہر ایک ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کا خیال رکھتا اور اس کی پرورش کرکے اسے بڑھاتا ہے۔ یہی نہیں کہ وہ انسان کا خیال رکھتا ہے بلکہ انسان کے علاوہ جو بھی چیز ہے اس کا اسے خیال رہتا ہے نہ کہ اسے انسانوں پر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اگر دیگر چیزوں کی ربوبیت انسان کے سپرد کی جاتی تو وہ کبھی اسے سرانجام نہ دے سکتا کیونکہ وہ اپنے ہی نفع اور فائدہ کا خیال رکھتا ہے۔ دیکھئے انسان غلہ بوتا ہے لیکن اگر کھیت میں تمام غلہ ہی غلہ پیدا ہوتا تو بہت کم لوگ ایسے ہوتے جو دوسرے جانوروں کو کھانے کے لیے غلہ دیتے لیکن خداتعالیٰ چونکہ ان کا بھی رب ہے اس لیے اس نے جہاں انسانوں کے لیے ان کی محنت اور کوشش کے مطابق غلہ پیدا کیا ہے۔ وہاں اس نے چارپاؤں کے لیے اسی مقدار سے جس سے انہوں نے محنت کی اور مشقت اٹھائی ہے تُوڑی بھی پیدا کر دی اور وہ صرف چارپاؤں کے کھانے کے لیے مخصوص کر دی ہے لیکن اگر تُوڑی ایسی ہوتی کہ انسان اسے کھا سکتا تو پھر امید نہ تھی کہ چارپاؤں کو دیتا۔ بلکہ خود ہی کھالیتا مگر خدا چونکہ رب العالمین ہے وہ جانتا ہے کہ جس طرح انسان میری مخلوق ہے۔ اسی طرح بیل وغیرہ بھی میری ہی مخلوق ہے۔ اس لیے گیہوں کےسا تھ اس نے توڑی بھی پیدا کر دی۔

اسی طرح اَور چیزوں کو دیکھو۔ قسم قسم کے پھل اورمیوے ہیں ان کا ایک حصہ اگر انسانوں کے کھانے کے لیے بنایا گیا ہے تو دوسرا حصہ باریک اور کمزور کیڑوں اور چیونٹیوں کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسانوں کی ربوبیت کا انتظام کیا ہوا ہے وہاں حیوانوں اور ادنیٰ سے ادنیٰ کیڑوں مکوڑوں کا بھی کیا ہوا ہے۔

جب ہم غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو ساتھ ہی اس طرف بھی توجہ ہوتی ہے کہ جب خداتعالیٰ ایسا رحیم و کریم ہے اور اس کا اپنی مخلوق سے پیار و محبت ماں باپ سے بھی بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے تو جب اس نے اپنی ہر ایک مخلوق کے جسم کے لیے ایسا انتظام کیا ہے تو روح کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہو گا جو جسم کی نسبت زیادہ قیمتی چیز ہے۔

روح کی ربوبیت کے سامان

یہ ایک موٹی بات ہے کہ جو باپ ایک دن کے لیے اپنے لڑکے کو سفر پر بھیجنے کی خاطر جس قدر تیاری کرنے کی محنت اٹھاتا ہے وہ اگر دس دن کے لیے سفر پر بھیجے گا تو اس سے بہت زیادہ سامان کرے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر سوچنا چاہیے کہ وہ خدا جس نے ہمارے ان جسموں کے لیے ایسا انتظام کیا ہوا ہے جو کچھ عرصہ کے بعد فنا ہو جاتے ہیں کہ ان کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو مہیا نہیں کی گئی۔ سننے کے لیے ہوا، روشنی کے لیے سورج، جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑے، بیماریوں کے لیے دوائیاں غرضیکہ ہر ایک ضرورت کے سامان پیدا کیے ہوئے ہیں۔ تو پھر کیونکر خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس نے روحانی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے کچھ نہیں پیدا کیا ہو گا۔ کبھی کوئی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی کہ جس خدا نے جسم کی حفاظت کے لیے اس قدر سامان پیدا کیے ہیں اس نے روح کے لیے کچھ نہیں کیا۔ خداتعالیٰ کا رب العالمین ہونا اس بات کے ماننے پر ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس نے ہماری روحوں کی زندگی کے لیے بھی کوئی سامان کیا ہو ورنہ وہ رب العالمین نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مشاہدہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے دنیا چلی آتی ہے اسی وقت سے ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جنہوں نے خدا سے کلام پا کر دنیا کو خداتعالیٰ تک پہنچنے کی راہ بتائی۔

قرآن کریم کی صداقت

قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ(فاطر:25)کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے نبی نہیں بھیجا۔ یہ ایک ایسی تعلیم ہے جو کسی قسم کا تعصب پیدا کرنے کی بجائے نہایت وسعت پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ اگر عیسائی کوکہا جائے کہ ایران اور ہندوستان یا اور کسی ملک میں بھی نبی ہوئے ہیں تو اس کے لیے مشکل کا سامنا ہو گا کیونکہ وہ اعتقاد رکھتا ہے کہ نبوت بنی اسرائیل تک ہی محدود ہے اس کے علاوہ اور کسی قوم سے کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جب ہندوؤں کو کہا جائے کہ تمہارے ملک کے علاوہ اَور ممالک میں بھی نبی آئے ہیں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے مذہب کی تردید ہوتی ہے لیکن ایک مسلمان کی خوشی کی اس وقت کوئی انتہا نہیں رہتی جب اسے بتایا جاتا ہے کہ فلاں ملک میں بھی نبی آیا ہے اور فلاں میں بھی۔ یہ سن کر وہ کہتا ہے سبحان اللہ!کیسی اعلیٰ کتاب ہمیں دی گئی جس نے پہلے ہی بتا دیا ہوا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں نبی نہ آیا ہو اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ خدا رب العالمین ہے۔ کسی ایک قوم کا رب نہیں ہے۔ وہ ہر ایک انسان کو خواہ وہ کافر ہو یا مومن،افریقہ میں ہو یا امریکہ میں، ایشیا میں ہو یا یورپ میں خوراک پہنچاتا ہے۔ آنکھیں اور دیگر اعضاء دیتا ہے۔ اس کا سورج سب کو برابر روشنی پہنچاتا ہے۔ اس کا مینہ سب جگہ برستا ہے۔ اس کا پانی سب کی پیاس بجھاتا ہے پھر کیونکر ممکن ہے جو خدا جسمانی طور پر سب کی ربوبیت کرتا ہے وہ روحانی طور پر ایسا بخیل ہو کہ کسی ایک قوم اور ملک میں تو رسول اور نبی اور اوتار بھیجے مگر دوسرے میں نہ بھیجے۔ اگر یہ مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی انسانوں کو خدا نے پیدا ہی کیوں کیا تھا۔ کیوں نہ انہیں گھوڑے گدھے بنا دیا کیونکہ جب انسان پیدا کیا تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس کی روحانی ضروریات کے سامان بھی پیدا کرتا اور جس طرح اس نے آنکھیں دے کر ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے سورج پیدا کیا تھا اسی طرح جب اس نے دماغ دیا تھا تو اس کے لیے مذہب بھی بتاتا۔

ہر قوم میں نبی

قرآن کریم کی تعلیم بتاتی ہے اور واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ تمام دنیا میں نبی آئے ہیں لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ (الرعد: 8)اور اس وقت تک کہ ایک ایسا مذہب نہ آیا جو تمام جہان کو تعلیم دے سکتا تھا۔ مختلف ممالک اور اقوام میں نبی آتے رہے کیوں؟ اس لیے کہ ہر قوم کے نبی صرف اپنی ہی قوم کے لیے آتے تھے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے انبیاء صرف اپنی ہی قوم کے لیے آئے اور ان کے سپرد اپنی ہی قوم کی تربیت کی گئی۔ جیسا کہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت مسیح کے پاس ایک غیر قوم کی عورت نے آکر کہا کہ ‘‘اے خداوند ابن داؤد مجھ پر رحم کر’’تو انہوں نے کہا کہ ‘‘میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کےسوا اَور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔’’پھر اس نے کہا ‘‘اے خداوند میری مدد کر’’تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘‘لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں۔’’(متی باب 15 آیت 22تا26 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ 1922ء)یہاں انہوں نے اقرار کیا ہے کہ میں بنی اسرائیل کے سوا اَور کسی کو ہدایت دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ اسی طرح دیگر اقوام میں بھی ایسی ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں جو نبی بھیجے گئے وہ صرف ان ہی کے لیے تھے۔

تمام دنیا کے لیے نبی

اس لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی اپنی قوم کو ہی تعلیم دیتے حتی کہ وہ نبی آجائے جس نے کہا کہ میں تمام دنیا کے لیے بھیجا گیا ہوں اور یہ دعویٰ اگر کسی نبی نے کیا ہے تو وہ ہمارے آنحضرتؐ ہی ہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے دوسرے نبیوں کی نسبت پانچ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ مگر میں تمام جہانوں کے لیے ہوں۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجداً و طہوراً) یہ دعویٰ آنحضرتﷺ سے پہلے کسی نبی نے نہیں کیا کہ میں ساری دنیا کے لیے ہوں اور کسی قوم کا یہ کہنا کہ ہمارا نبی تمام دنیا کے لیے آیا تھا درست نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح تو مدعی سست گواہ چست والی مثل صادق آئے گی۔ اب بے شک عیسائی صاحبان کہتے ہیں کہ حضرت مسیح تمام دنیا کے لیے بھیجے گئے تھے لیکن ان کے اپنے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے بھیجے گئے تھے اور ان کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بعثت سارے جہان کے لیے نہ تھی۔ پس یہ بعد کی بنائی ہوئی بات ہرگز سند نہیں ہو سکتی کہ وہ سارے جہان کی طرف بھیجے گئے تھے۔ اسی طرح کسی نبی کا ایسا دعویٰ کسی اَور مذہبی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن کے سوا اَور کوئی کتاب خدا کی طرف سے نہیں آئی۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جتنے مذہب سچے اور خدا کی طرف سے ہونے کے مدعی ہیں ان کی ابتدا خدا کی طرف سے ہوئی ہے اور ان میں جو کتابیں بھیجی گئیں وہ بھی ابتدا میں سچی تھیں لیکن موجودہ صورت میں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے اور نہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام جہانوں کے لیے ہمیشہ کے واسطے ہیں۔ یہ دعویٰ صرف قرآن کریم کا ہی ہے اور یہ ایسا دعویٰ ہے جو ربّ العالمین خدا کی شان کے شایان ہے اور جو لوگ اس کے خلاف تعلیم پیش کرتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے رب العالمین ہونے کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اگر وہ اس صفت کو مدنظر رکھتے تو کبھی حق سے دور نہ ہوتے۔ خداتعالیٰ کا رب العالمین ہونا ایک اور بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح خداتعالیٰ اپنے بندوں پر پہلے فضل اور انعام کیا کرتا تھا اب بھی کرے۔ جو سامان ان کی ربوبیت کے پہلے پیدا کرتا تھا اب بھی پیدا کرے۔

خداتعالیٰ رب العالمین یعنی سب جہانوں کا رب ہے۔ ان جہانوں میں ہم لوگ بھی جو اس زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں شامل ہیں۔ پس ضروری ہے کہ جس طرح پہلے زمانوں میں انسان کی روحانی ترقی کے لیے خداتعالیٰ سامان کیا کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرے۔

قرآن کے بعد کوئی شریعت نہیں آسکتی

لیکن اب چونکہ اس نے ایک کامل اور مکمل کتاب بھیج دی ہے اس لیے یہ ضروری نہ تھا کہ اس کے بعد کوئی اَور کتاب بھی نازل کرے۔ دیکھیے ایک ڈاکٹرکسی مریض کو نسخہ دے اور پھر اس میں کوئی نقص دیکھے یا مریض کے مناسب حال نہ ہو تو اس کو بدل دے گا اور اس کی بجائے اور تجویز کرے گا لیکن اگر وہ نسخہ کامل ہو اور اس سے بیمار کو صحت بھی حاصل ہو تو پھر اس کو تبدیل نہیں کرے گا بلکہ بڑے زور سے تاکید کرے گا کہ اسے اچھی طرح استعمال کیا جائے۔ قرآن کریم سے پہلے جو کتابیں آئیں وہ چونکہ سارے جہان کے لیے نہ تھیں اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے تھیں بلکہ وقتی اور قومی طور پر آئی تھیں اس لیے ان کے بعد اور کتابیں بھی وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہیں لیکن جب ایک کامل کتاب سارے جہانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نازل ہو گئی تو پھر کسی اَور کتاب کے نازل کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ پس جہاں ربّ العالمین کی صفت سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہر زمانہ میں ایسے انسان آتے رہے ہیں جو لوگوں کی روحانی اصلاح کرتے تھے وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اب بھی دنیا کی اصلاح کےلیے اس قسم کے آدمی آتے رہنے چاہئیں اور جو لوگ روحانی ترقی کے لیے کوشش کریں ان کی ترقی کے لیے دروازے کھلے رہنے چاہئیں گو اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ(المائدہ:4)کہ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا کی خبر کے ماتحت آئندہ کے لیے کسی شریعت جدیدہ کا دروازہ بند مانا جاوے گا۔

خدا کا اپنے بندوں سے کلام کرنا

مگر ضروری ہے کہ ایسے انسان ہوتے رہیں جو خدا تعالیٰ کی روحانی ربوبیت کے سامان پیدا کرنے کا ثبوت ہوں ورنہ جس طرح یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ خداتعالیٰ نے ہندوستان کے لوگوں کی پرورش کے تو سامان پید اکیے تھے مگر ایران کے رہنے والوں کو یونہی چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح یہ بھی قابل قبول نہیں کہ آج سے ہزار دو ہزار سال پہلے تو خداتعالیٰ انسانوں کی روحانیت کے سامان پیدا کرتا تھا مگر آج نہیں کرتا۔ پس خداتعالیٰ کا رب العالمین ہونا بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی زمانہ میں بھی اپنے بندوں سے کلام کرنا بند نہیں کرتالیکن اگر یہ مانا جائے کہ کبھی کلام الٰہی کا سلسلہ بند بھی ہو جاتا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہم سے پہلے لوگوں کا جو خدا تھا وہ ہمارا خدا نہیں ہے مگر نہیں ہمارا بھی وہی خدا ہے اس لیے ضروری ہے کہ جو انعامات اس نے پہلے لوگوں پر کیے وہی ہم پر کرے اور جس طرح ان کو اپنے قرب کا شرف بخشا اسی طرح ہمیں بھی بخشے۔ پس الحمدللّٰہ رب العالمین سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خداتعالیٰ کی طرف سے وہی مذہب ہو سکتا ہے جو یہ تعلیم دے کہ خداتعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں کی روحانی تربیت کرتا ہے اور اسی طرح کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا۔ ہاں اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ کامل ہو چکی ہے البتہ یہ ضرورت ہے کہ اس پر عمل کرانے والے لوگ آتے رہیں اور جو زائد باتیں اس میں مل گئی ہوں ان کو دور کر کے اصل شریعت کو لوگوں کے سامنے رکھ دیں۔ یہی ایک ایسی بات ہے کہ جو تمام مذاہب کا فیصلہ کر دیتی ہے۔ دیگر مذاہب خداتعالیٰ کو رب العالمین کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے سوا باقی سب کو بالکل جھوٹا کہتے ہیں اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی روحانی ربوبیت مکان کے علاوہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ایسی محدود ہے کہ اب وہ بھی اس سے محروم ہیں مگر اسلام کی یہ تعلیم نہیں۔ اسلام خداتعالیٰ کو حقیقی معنوں میں رب العالمین مانتا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ خداتعالیٰ کی ربوبیت ہمیشہ سے تمام اقوام کے لیے رہی ہے اور کسی زمانہ سے مخصوص نہیں۔ ہاں وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اس وقت سوائے اس کے دیگر مذاہب خدا تک نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ اب اپنی اصلی حالت سے بگڑ گئے ہیں اور زمانہ حال کی ضروریات کے بھی مطابق نہیں اور اس بات کا تو خود ان کو بھی اقرار ہے کہ اس وقت ان پر چل کر فی الواقع کوئی شخص خداتعالیٰ سے ملاقی نہیں ہو سکتا۔ پس خداتعالیٰ کی صفت رب العالمین جس کے مخالفینِ اسلام بھی قائل ہیں اسلام کے دعویٰ کی تائید کرتی ہے۔

(…………باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button