کلام حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

’’ہو گیا آخر نمایاں فرق نورو نار کا‘‘

(درعدن صفحہ 52تا54، مطبوعہ جولائی2008ء)

جب دل صافی میں دیکھا عکس روئے یار کا
بن گیا وہ بہرِ عالم آئینہ ابصار کا

جس نے دیکھا اس کو اپنی ہی جھلک آئی نظر
مدتوں جھگڑا چلا دنیا میں ‘‘نور و نار’’ کا

خوب بھڑکی آگ عالَم بن گیا ‘دارالفساد’
ابتداء سے کام ہے ‘‘ہیزم کشی’’ کفار کا

پر خدا سے ڈرنے والے کب ڈرے اغیار سے
بڑھ کے کب آگے قدم پیچھے ہٹا اخیار کا

سب سے افضل تھے مگر اصحابِ ختم المرسلین
خلق میں کامل نمونہ عشق کے کردار کا

نرغۂ اعداء میں گِھر کر بھی نہ ‘‘ڈر’’ جانا کبھی
خواہشِ اعلائے حق تھی، شوق تھا دیدار کا

کر دیے سینے سپر مرتے گئے بڑھتے گئے
منہ پھرایا کفر کے ہر لشکر جرار کا

آسماں شاہد ہے ہاں اب تک زمیں کو یاد ہے
کانپ جانا نعرۂ تکبیر سے کفار کا

عشق میں تحلیل روحیں چُور زخموں سے بدن
سایۂ شمشیر میں پیغام دینا یار کا

ابر رحمت ہو کے جب سارے جہاں پر چھا چکے
کہہ دیا شیطاں نے ہنس کر ‘‘زور تھا تلوار کا’’

پھر نئی صورت میں ظاہر جلوۂ جاناں ہوا
نور پھر اترا جہاں میں ‘مبدءُالانوار’ کا

چن لیا اک عاشق خیر الرُسل شیدائے دیں
جس کی رگ رگ میں بھرا تھا عشق اپنے یار کا

حکم فرمایا ‘‘قلم تھامے ہوئے میداں میں آ’’
صفحۂ قرطاس سے ردّ کر عدو کے وار کا

پھینک کر شمشیر و خنجر آج دنیا کو دکھا
جذبِ صادق، رعبِ ایماں عاشقان زار کا

‘‘گالیاں کھا کر دعا دو، پا کے دکھ آرام دو’’
روز دل پر تیر کھاؤ، حکم ہے دلدار کا

نوکِ خامہ سے سلجھتی گتھیاں دیکھا کیے
خوب تار و پود بگڑا دجل کی سرکار کا

جھوٹ کے منہ سے اترنے جب لگی پھٹ کر نقاب
ہو گیا دشوار سینا اس کے اک اک تار کا

سانپ کی مانند بل کھاتا ہے ابلیسِ لعین
دیکھ کر رنگ جمالی احمدِ مختار کا

حق و باطل میں کرے گی چشمِ بینا امتیاز
ہو گیا آخر نمایاں فرق ‘‘نور و نار’’ کا

(درعدن صفحہ 52تا54، مطبوعہ جولائی2008ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button