متفرق مضامین

والدین کے ساتھ احسان اور حسن سلوک

(ھبۃ الکلیم۔ اوفا، رشیا)

خداتعالیٰ نے اپنی توحید اورعبادت کے قیام کے ساتھ ہی والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے

خداتعالیٰ کی توحیداورعبادت کے قیام کے بعدانسان پرسب سے بڑاحق اس کے والدین کا ہے۔یہی وہ وجودہیں جن کے ذریعہ انسان اس دنیامیں داخل ہوتاہے اور جن کی خدمت اورمعروف اطاعت کے ساتھ انسان خداکی رضاکی جنت میں داخل ہوسکتاہے اس لیے والدین بجاطورپردنیاوجنت میں داخلے کا دروازہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ سورۃ النساء آیت نمبر37میں فرماتاہے۔

وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانا

اوراللہ کی عبادت کرواورکسی چیز کواس کا شریک نہ ٹھہراؤ اوروالدین کے ساتھ احسان کرو۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اقدسﷺ سے دریافت کیا کہ رشتہ داروں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ اس کے جواب میں حضور ؐنے فرمایا:

تمہاری والدہ حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہیں، سائل نے پوچھا:پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا:تمہاری والدہ، اس نے دریافت کیا:پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری والدہ، سوال کرنے والے عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا:تیرا باپ۔پھردرجہ بدرجہ تیرے قریبی رشتہ دار۔

(بخاری کتاب الادب باب من احق بالنا س لحسن الصحبۃ)

حضرت اقدس محمدمصطفیٰﷺفرماتے ہیں:

‘‘میں رؤیاء میں جنت میں داخل ہوااوراس میں قراءت سنی تومیں نے پوچھایہ کون ہے؟تواہل جنت نے کہا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔وہ اپنی ماں کے ساتھ سب سے بڑھ کرحسن سلوک کرنے والے تھے۔

(مشکوۃ کتاب الادب باب البرّوالصلہ)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًاؕاِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا۔وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔(بنی اسرائیل 25-24)

اورتیرے رب نے فیصلہ صادرکردیاہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرواوروالدین سے احسان کا سلوک کرواگران دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں تیرے پاس بڑھاپے کی عمرکوپہنچیں توانہیں اف تک نہ کہہ اورانہیں ڈانٹ مت اورانہیں نرمی اورعزت کے ساتھ مخاطب کر۔اوران کے لیے اپنی رحمت کے پرپھیلادےاورکہہ دےکہ اے میرے رب ! ان دونوں پررحم فرماجس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔

یہ آیت معارف کا بہت بڑاخزانہ ہے۔جہاں تک والدین کے ساتھ احسان کا تعلق ہے اس کے متعلق یہ قطعی امرہے کہ انسان اپنے والدین کے احسانات نہیں اتارسکتا۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

‘‘کوئی بیٹا اپنے والدکے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا سوائے اس کے کہ باپ کسی کا غلام ہواوربیٹااسے خریدکرآزادکردے۔’’(صحیح مسلم حدیث نمبر2779)

حضرت اسماء ؓ کی والدہ مشرکہ تھیں صلح حدیبیہ کے زمانہ میں وہ مکہ سے مدینہ آئیں توحضرت اسماء ؓنے آنحضورﷺ سے پوچھا کہ کیامیں ان سے حسن سلوک کروں ؟توآپﷺ نے فرمایا ۔ہاں ضرورکرو ۔

(بخاری کتاب الادب باب صلۃ الوالدالمشرک)

امرواقعہ یہ ہے کہ انسان نہ خداتعالیٰ کا احسان اتارسکتا ہے اورنہ والدین کاکیونکہ وہ زمین پرخداکی خالقیت اورربوبیت کے بہترین مظہرہیں ۔یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنی توحید اورعبادت کے قیام کے ساتھ ہی والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیاہے۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘ فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا

یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہواورایسی باتیں اُن سے نہ کرو جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو ۔اس کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام اُمت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اوروالدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے اوراس حکم میں ایک رازبھی ہے اوروہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمندسمجھ سکتاہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیاہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اورہرایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ توپھردوسروں کواپنے والدین کی کس قدرتعظیم کرنی چاہئے…’’

(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 213)

نیز ایک اورجگہ فرمایا:

‘‘خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو۔ اور والدین سے احسان کرو۔حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمّات کا کس طرح متکفّل ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبر گیری کے لئے دو محل پیدا کر دئیے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پَرتو محبت کا اُن میں ڈال دیا۔ مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے۔اور جب تک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو تو کوئی فردِ بشرخواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو، یا کوئی حاکم ہو، کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ اور یہ خدا کی کمال ربوبیّتکا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفّل میں ہر قسم کے دُکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لئے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔’’

(ملفوظات جلد 1صفحہ 315،ایڈیشن 1988ء)

الغرض ماں باپ اس زمین پر خداتعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر ہیں ان کی خدمت اوراطاعت سے جنت کے دروازے کھلتے ہیں ،ان کی دعائیں آسمان پرمقبول ہیں ،وہ زمین پرانسان کے سب سے بڑے محسن ہیں، ان کا شکراداکرنا خدانے واجب قرار دیا ہے ان کی خدمت کر کے اہلِ جنت بنے اورحضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا یہ ارشادبھی ہےکہ

‘‘جوشخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اورامورمعروفہ میں جو خلافِ قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اوران کی تعہد خدمت سے لاپرواہ ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے…’’

(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد19صفحہ 19)

حضرت مصلح موعودؓ آنحضرتﷺ کے ایک فرمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ‘‘اسلام نے والدین کے لیے خاص ہدایات دی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ مَنْ اَدْرَکَ اَحَد وَالِدَیْہِ ثُمَّ لَمْ یُغْفَرلَہٗ فَابْعَدَہٗ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ …(ابن کثیر جلد 6صفحہ 61)یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے اور پھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کیے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے مطلب یہ کہ نیکی کا ایسا اعلیٰ موقعہ ملنے پر بھی اگر وہ خدا کا فضل حا صل نہیں کرسکا تو جنت تک پہنچنے کے لیے ایسے شخص کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔’’

(تفسیر کبیر جلد4صفحہ321)

سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘بعض دفعہ شکایات آ جاتی ہیں، جاہل بچوں کے ماں باپ کی طرف سے نہیں، بلکہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے بچوں کے ماں باپ کی طرف سے کہ بچے ناخلف ہیں۔ نہ صرف یہ کہ حق ادا نہیں کرتے بلکہ ظلم کرتے ہیں۔ بعض بہنیں اپنے بھائیوں کے متعلق لکھتی ہیں کہ ماں باپ پر ہاتھ اُٹھا لینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ خاص طور پر ماں باپ سے بدتمیزی ہوتی ہے جب ایسے معاملات آئیں جہاں جائیداد کا معاملہ ہو۔ والدین کی زندگی میں بچوں کو جب ماں باپ کی جائیداد کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تواُس وقت یہ بدتمیزیاں بھی شروع ہوتی ہیں اور جب والدین اپنے بچوں کو جائیداد دے دیتے ہیں تو پھر اُن سے اور سختیاں شروع ہو جاتی ہیں اور وہی والدین جو جائیداد کے مالک ہوتے ہیں پھر بعض ایسے بچے بھی ہیں کہ اُن کو دینے کے بعد وہ والدین دَر بدر ہو جاتے ہیں اور ایسی مثالیں ہمارے اندر بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی، اس ملک میں بھی آزادی کے نام پر وہ بچے جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں وہ بدتمیزی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بچے ایک عمر کو پہنچ کے آزاد ہیں۔ تو یہ تعلیم جو ماں باپ کا احترام نہیں سکھاتی یا یہ آزادی جو یہاں بچوں کو ہے، جو حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھتی، یا ماں باپ کی عزت قائم نہیں کرتی، یہ تعلیم اور ترقی نہیں ہے بلکہ یہ جہالت ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے جو خوبصورت تعلیم ہے کہ ماں باپ سے احسان کا سلوک کرو، اُن کی عزت کرو، اُن کو اُف تک نہ کہو۔ یہ ماں باپ کا احترام قائم کرتی ہے۔ ماں باپ کے احسانوں کا بدلہ احسان سے اتارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل کرو جو بہترین ہو، ورنہ ماں باپ کے احسان کا بدلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اتار ہی نہیں سکتے۔ اس احسان کے بدلے کے لیے بچوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا خوبصورت تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین کے لیے یہ بھی دعا کرو۔ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل:25)کہ اے میرے رب!ان پر رحم فرما۔ جس طرح یہ لوگ میرے بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے رحم کرتے ہوئے میری پرورش کی تھی۔ پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اسلام ایک مسلمان کو اپنے والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں سکھاتا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو ایک مسلمان کا اپنے والدین کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ دعا صرف زندگی کی دعا نہیں ہے بلکہ والدین کی وفات کے بعد بھی اُن کے درجات کی بلندی کے لیے دعا ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک تو زندگی میں دعا ہے کہ جو ہماری طرف سے کمی رہ گئی ہے اُس کمی کو اس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ پورا فرمائے اور اپنے خاص رحم میں رکھے۔ دوسرے اس رحم کا سلسلہ اگلے جہان تک بھی جاری رہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا رہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍جولائی 2013ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍اگست 2013ءصفحہ7)

مولانا روم کا شعرہے

از مکافات عمل غافل مشو

گندم از گندم بروید جو زجو

کہ اعمال کے اثرات مترتب ہوتے ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔اگرگندم کا بیج بوؤ گے توگندم ہی اگے گی اورجَوبوؤ گے توجَو ہی کاٹوگے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان ارشادت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے والدین کی عزت وتعظیم کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button