حاصل مطالعہ

ختم نبوّت اور دیگر متفرق امور

مرزا غلام احمدؑ نے ختم نبوت کا انکار نہيں کيا!

‘‘مرزا غلام احمد قادياني نے ختم نبوت کے عنوان سے انکار نہيں کيا نہ کہيں يہ کہا کہ وہ اور اس کي جماعت حضورؐکو خاتم النبيين نہيں مانتے۔ اس نے ختم نبوة کا يہ معني بيان کيا کہ حضورؐ نبوت کا مرکز ہيں جن سے آگے نبوت پھيلتي ہے اور جو بھي نبوت پائے گا اس پر آپؐ کي نبوت کي مہر ہوگي۔ مرزا غلام احمد اپني تشريح ميں ختم نبوت مرتبي کا عقيدہ رکھتا تھا اور ختم نبوت مرتبي کو ختم نبوت زماني کے متوازي سمجھتے ہوئے ختم نبوت مرتبي کا اقرار اور ختم نبوت زماني کا انکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن کے مطابق يہ دو متقابل نظريات تھے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد کے پيروختم نبوت مرتبي کا اقرار اور ختم نبوت زماني کے منکر ہيں۔’’
(مقدمہ تحذير الناس از علامہ ڈاکٹر خالد محمود۔ صفحہ 16۔ناشر ادارہ العزيز گوجرانوالہ۔ سن اشاعت جنوري۔2001ء)

ختم نبوت مرتبي ميں ختم نبوت زماني سے عقيدت زيادہ ہے

‘‘مسلم عوام حضور اکرم ﷺ کے مرتبہ و شان سے والہانہ عقيدت رکھتے ہيں۔ جب وہ قادياني مبلغين سے سنتے ہيں کہ ختم نبوت کا اصل مفہوم يہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ پر سارے کمالات ختم مانے جائيں اور يہي حضور ؐکي ختم نبوت ہے تو کئي عوام جوشِ عقيدت ميں قاديانيوں کے پنجۂ الحاد ميں آجاتے ہيں۔ ختم نبوت زماني کتنا پختہ عقيدہ کيوں نہ ہو ختم نبوت مرتبي ميں عقيدت بہرحال زيادہ ہے اور وہ ظاہر ميں لوگوں کو زيادہ کھينچتي ہے۔’’

(ايضًا صفحہ17)

حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام کا ختم نبوت زماني کا اقرار

‘‘چونکہ آنحضرت ﷺ کي نبوت کا زمانہ قيامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبياء ہيں اس ليے خدا نے يہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامي آنحضرت ﷺ کي زندگي ميں ہي کمال تک پہنچ جائے کيونکہ يہ صورت آپؐ کے زمانے کے خاتمہ پر دلالت کرتي تھي۔ يعني شبہ گزرتا تھا کہ آپؐ کا زمانہ وہيں تک ختم ہوگيا۔ کيونکہ جو آخري کام تھا وہ اس زمانہ ميں انجام تک پہنچ گيا۔ اس ليے خدا نے تکميل اس فعل کي جو تمام قوميں ايک قوم کي طرح بن جائيں اور ايک ہي مذہب پر ہوجائيں زمانہ محمدي کے آخري حصہ پر ڈال دي جو قرب ِقيامت کا زمانہ ہے۔اور اس کي تکميل کے لیے اسي امت ميں سے ايک نائب مقرر کيا جو مسيح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اس کا نام خاتم الخلفاء ہے۔ پس زمانہ محمدي کے سر پر آنحضرت ﷺ ہيں اور اس کے آخر ميں مسيح موعود ہے۔’’
(چشمۂ معرفت ، روحاني خزائن جلد23صفحہ90تا91)

مولانا قاسم نانوتويؒ صاحب کي ختم نبوت زماني سے مراد

‘‘غرض خاتميت زماني سے يہ ہے کہ دينِ محمديؐ بعد ظہور منسوخ نہ ہو۔علوم نبوت اپني انتہاء کو پہونچ جائيں۔کسي اور نبيؑ کے دين يا علم کي طرف پھر بني آدم کو احتياج باقي نہ رہے۔’’

(مناظرہ عجيبہ صفحہ۔58۔ناشر مکتبہ قاسم العلوم کراچي)

بشارت کے لیے مفصل اور بالکل واضح ہونا ضروري نہيں

‘‘اکثر لوگوں کے رسالوں ميں حضرت خاتم النبيين عليہ الصلوٰة والسلام کي نسبت يہ اعتراض لکھا ديکھا ہے کہ حضرت کا ذکر اگلے انبياؤں نے نہيں کيا۔ سو پہلے ميں پوچھتا ہوں کہ حضرت موسيٰ کا ذکر کس کتاب ميں ہے جو اُن سے پہلے کي ہو۔ آپ ہي لوگوں کے اظہار سے ثابت ہے کہ موسيٰ سے پہلے کي کوئي کتاب دنيا ميں نہيں ہے۔ پھر يہ کہتا ہوں کہ دوسرے نبي کي نبوت کے ثبوت کے ليے پہلے نبي کا کہہ جانا کس برہان عقلي کي رو سے ضروري سمجھا جاتا ہے۔اگر کوئي اس کي ضرورت کي دليل ہو تو بيان کيجئے۔ بلکہ برہان تطبيق اس امکان کو باطل ٹھہراتي ہے۔اس ليے کہ اس ميں تسلسل لازم آتا ہے۔ بعد اس کے ميں کہتا ہوں کہ پہلے نبي کو دوسرے نبي کي خبر دينا کس طرح سے چاہیے۔ آيا اس طرح کہ تمام خصوصيات دوسرے نبي کي بيان کرے جس طرح قبالجات وغیرہ اور چہرہ نويسي ميں لوگوں کے لکھا جاتا ہے يا اس طرح کہ فہميدہ آدمي اپني اِلف اور عادت سے کنارے ہوکر جب غور کرے تو مطابق پاوے۔پس اگر پہلي طرح کا خبر دينا مراد ہے تو ہمارا سوال يہ ہے کہ حضرت عيسيٰ وغيرہ انبياء کے ليے ايسي خبريں اگر کہيں سے نکلتي ہوں تو ہميں بتاديجیے۔ اور اگر دوسري طرح کي خبر مراد ہے تو ہم سے ليجیے۔’’

(کتاب الاستفسار۔تاليف سيّد آل حسن مُہاني ۔ صفحہ323۔ ناشر دارالمعارف اردو بازار لاہور)

‘‘ اگر کوئي سابقہ پيغمبر آنے والے نبي کے متعلق کوئي خبر اور پيشينگوئي کر بھي دے تو اس ميں آنے والے نبي کے جملہ عادات و شمائل بيان نہيں کرتا ،تاکہ خواص و عوام کو کوئي اشتباہ باقي نہ رہے اور علاميِ مذکورہ کي بناء پر سب لوگ اس کو پہچان ليں۔ بلکہ اگر وہ يہ دعويٰ کرے کہ ميں وہي نبي ہوں جس کي نبي سابق نے خبر دي اور وہ خود بھي اپنے ہم عصر يا بعد ميں آنے والے نبي کي پيشينگوئي کرے تو عوام کا تو کيا ذکر خواص بھي اس کو جلدي سے نہيں پہچانتے۔’’

(ازالة الاوہام جلد دوم صفحہ185۔تاليف مولانا رحمت اللہ کيرانوي، اردو ترجمہ و تقديم شرح و تحقيق مولانا ڈاکٹر محمد اسماعيل عارفي۔ ناشر مکتبہ دارالعلوم کراچي)

1884ء ميں تحرير کردہ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام کي ايک بات جو آج پوری ہوتی ديکھ رہے ہيں

‘‘آج کل ہمارے ديني بھائيوں مسلمانوں نے ديني فرائض کے ادا کرنے اور اخوت اسلامي کے بجا لانے اور ہمدردي قومي کے پورا کرنے ميں اس قدر سستي اور لاپروائي اور غفلت کررکھي ہے کہ کسي قوم ميں اس کي نظير نہيں پائي جاتي۔ بلکہ سچ تو يہ ہے کہ ان ميں ہمدردي قومي اور ديني کا مادہ ہي نہيں رہا۔ اندروني فسادوں اور عنادوں اوراختلافوں نے قريب قريب ہلاکت کے ان کو پہنچاديا ہے اور افراط تفريط کي بے جا حرکات نے اصل مقصود سے ان کو بہت دور ڈال ديا ہے جس نفساني طرز سے ان کي باہمي خصومتيں برپا ہورہي ہيں۔ اس سے نہ صرف يہي انديشہ ہے کہ ان کا بے اصل کينہ دن بدن ترقي کرتا جائے گا اور کيڑوں کي طرح بعض کو بعض کھائيں گے اور اپنے ہاتھ سے اپنے استيصال کے موجب ہوں گے بلکہ يہ بھي يقيناً خيال کيا جاتا ہے کہ اگر کوئي دن ايسا ہي ان کا حال رہا۔تو ان کے ہاتھ سے سخت ضرر اسلام کو پہنچے گا۔اور ان کے ذريعہ سے بيروني مفسد مخالف بہت سا موقعہ نکتہ چيني اور فساد انگيزي کا پائيں گے۔’’

(براہين احمديہ حصہ چہارم،روحاني خزائن جلد1 صفحہ315)

سوادِ اعظم سے مراد بياضِ اعظم

‘‘ايک مولوي صاحب نے عرض کيا کہ مدرسہ ميں ممبران کي کميٹي قائم ہے اور کثرت رائے سے فيصلہ ہوتا ہے اور اس کو سوادِ اعظم سے تعبير کرتے ہيں اس ہي معني کو بنا جمہوريت قرار ديا گيا ہے۔ فرمايا سوادِ اعظم سے مراد تو بياضِ اعظم ہے يعني نور شريعت جس جماعت ميں ہو (اگرچہ وہ قليل ہو)مگر لوگوں کو ايسي ہي باتوں ميں سواد (مزہ)آتا ہے۔’’

(ملفوظات حکيم الامت اشرف علي تھانوي صفحہ70ناشر ادارہ تاليفات اشرفيہ ملتان ۔ سن اشاعت جمادي الاوليٰ1423ھ)

دوچار متبع سنت ہي مقبول ہوں گے ہزاروں بدعتي نہيں

‘‘مؤلف نے الفاظ ہي ياد کرلیے ہيں معني تو کسي سے پڑھے ہي نہيں يہ سمجھ ليا کہ جس کام ميں بہت سے مسلمان جمع ہوگئے تو وہ امر جائز ہوگيا حالاں کہ مبتدعين فسق متبعين سنت سے زائد ہيں اس زمانہ ميں ہزار گنا کي نسبت ہوگئي اور حديث لا يزال طائفةمن امتي جو ابھي لکھي گئي ہے اور حديث بدء الاسلام غريبا و سيعود کما بدء فطوبي للغرباء اور مثل اس کي سب کو پس پشت ڈال ديا ہے کہ ان احاديث ميں طائفہ اور غرباء کي مدح ہورہي ہے۔اب اپنے حسب بدعت ان کو رد کردے تو اس سے عجب نہيں سو سنو کہ ان احاديث سے تو يہ مراد ہے کہ جس وقت ميں تمام دنيا ميں حب دنيا و جاہ و اتباع ہويٰ ہوجاويگا اس وقت ميں وہي دوچار متبع سنت مقبول ہوويں گے ان کو طوبيٰ ہو۔’’

(براہين قاطعہ صفحہ170 از خليل احمد سہارنپوري۔ناشر دارالاشاعت کراچي۔ اشاعت اول مارچ1987)

حضرت عيسيٰ ؑ جہاں فوت ہوں گے وہاں دفن نہيں ہوں گے

‘‘بعض روايات ميں ہے کہ حضرت عيسيٰ ؑاس دنيا ميں اپني عمر کے آخري حصے ميں پہنچيں گے تو حج بيت اللہ کے لیے مکہ معظمہ تشريف لے جائيں گے۔ وہاں سے واپس آرہے ہوں گے کہ مکہ اور مدينہ کے درميان انتقال فرما جائيں گے۔ چنانچہ ان کي نعش مبارک مدينہ منورہ لائي جائے گي اور روضۂ اقدس ميں حضرت عمرؓ کے پہلو ميں دفن کیے جائيں گے۔’’

(مرقاة المفاتيح شرح مشکوٰة المصابيح از علامہ شيخ القاري علي بن سلطان محمد القاري۔ اردو ترجمہ از مولانا راؤ محمد نديم جلد دہم۔ حاشيہ صفحہ 709باب فضائل سيّد المرسلين ﷺ)

لازم نہيں کہ نبي وہيں دفن ہو جہاں فوت ہو

‘‘پھر دفن ميں کلام ہوا تو حضرت ابوبکر ؓنے فرمايا:ميں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعاليٰ انبياء کي روح اسي جگہ قبض کرتے ہيں جہاں انبياء دفن ہونا پسند کرتے ہيں، آپ ﷺ کو اس جگہ دفن کرو جہاں آپ ﷺ کا بستر تھا۔ (ترمذي)۔ اس سے يہ لازم نہيں آتا کہ ہر نبي کا مدفن ان کي وفات کي جگہ ہي ہو بلکہ صرف وفات کي جگہ ميں دفن کي جگہ پسنديدہ ہونا ثابت ہوتا ہے اگر دوسرے لوگ اپنے ارادہ يا کسي عذر کي وجہ سے دوسري جگہ دفن کرديں تو اَور بات ہے۔’’

(نشرالطيب في ذکر النبي الحبيب ﷺ۔ تاليف مولانا اشرف علي تھانوي صفحہ264,263۔ ناشر زمزم پبلشرز کراچي۔ سن اشاعت اکتوبر 2003ء)

(مرسلہ: انصر رضا۔ مبلّغ سلسلہ کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button