متفرق مضامین

ریاست مدینہ کےخد و خال (قسط دوم۔ آخر)

(حافظ مظفر احمد)

ہمارے نبی حضرت محمدؐ کو قرآن کریم کی صورت میں ایک کامل دائمی آخری شریعت اورقانون عطا کیا گیا۔پھر اسے عملی طور پر نافذ کرنےکےلیے حکومت بھی بخشی۔اس لحاظ سے مختلف النوع فیصلوں کی اہم ذمہ داری بھی آپؐ پر تھی،چنانچہ قرآنی شریعت میں کامل عدل کی وہ جامع تعلیم آپ ؐکو عطاکی گئی، جس پر آئندہ عالمی امن کی عمارت تعمیرہونے والی تھی۔

اسی پر عمل درآمد کا آغاز تو ہجرتِ مدینہ کے یہودی قبائل سے میثاق مدینہ کے امن چارٹر کے ذریعہ ہوگیا تھا۔پھر چند ہی سالوں میں مکہ بھی فتح ہوگیا تو ہمارے نبی محمد مصطفیٰﷺ منصف اعظم بن کر میدان میں اترےجنہوں نے ظلم و ستم سے بھرے جزیرہ عرب کو عدل و انصاف کاگہوارہ بنادیا اور دنیاکو ایک نمونہ دیا۔آپ نے اعلان فرمایا کہ‘‘میں قیام عدل کی خاطر مامور کیا گیا ہوں۔’’

(سورۃالشوریٰ:16)

اور یہ تعلیم دی کہ

‘‘خدا کا حکم یہ ہے کہ تم عام لوگوںکے ساتھ عدل کرو۔ اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم احسان کرو۔ اور اس سےبڑھ کر یہ ہے کہ تم بنی نوع سے ایسی ہمدردری بجا لاؤ جیسا کہ ایک قریبی کو اپنے قریبی کے ساتھ ہوتی ہے۔’’

(سورۃ النحل:91)

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد12صفحہ369تا370)

اسلامی تعلیم عدل

قرآن شریف نے اسلامی نظام ریاست کے قیام کے لیے مذہبی معاشرتی اور معاشی ہر پہلو سے عدل کے قیام کی جو جامع تعلیم دی ہے۔یہاں اس کے چند اہم نکات کی طرف اشارہ مناسب ہوگا۔

  1. خدائے واحد کے ساتھ شریک ٹھہراناخلاف عدل ہے اور یہ عدل کا مذہبی و دینی پہلو ہے۔
  2. معاشرتی عدل کا تقاضا ہے کہ والدین کے احسانات کے جواب میں کم از کم ان سے احسان کا سلوک کیا جائے۔(سورۃ الانعام:152، سورۃالرحمان:61)
  3. اولاد کے حقوق بھی عدل کے ساتھ ادا کیے جائیں۔بالغ ہونے تک ان کے ذمہ دار والدین ہیں۔
  4. اہلی زندگی میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ میاں بیوی فحشاء سے بچیں۔ (سورۃ الانعام:152)
  5. روئے زمین پر زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کا دیگر بنی نوع انسان کے ساتھ عدل یہ ہے کہ ہرانسان کے کم از کم زندہ رہنے کا حق تسلیم کیا جائے۔اور ناحق کسی کو قتل نہ کیا جائے۔
  6. اسلامی معاشی عدل کا تقاضا کمزور طبقات اور یتامیٰ کے اموال کی حفاظت ہے نیز ماپ تول پورا ہو اور اس میں انصاف سے کام لیا جائے۔(سورۃ الانعام:153)
  7. مسلمانوں کوگفتگو میں بھی عدل کا حکم ہے۔ یعنی اس میں سچائی ہو خواہ وہ سچ قریبی رشتوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔گفتگو میں بے اعتدالی نہ ہو۔برمحل ہو اوراس میں کسی پر زیادتی نہ ہو۔(سورۃالانعام:153,152)اسی طرح تحریری معاہدات میں بھی عدل کاحکم ہے۔(سورۃالبقرۃ:283)
  8. اہل اسلام کودشمنوں کے ساتھ بھی عدل کا حکم دیا گیا۔(سورۃالمائدۃ:9)
  9. حاکموں کورعایا کے ساتھ عدل کا حکم ہے۔ (سورۃالنساء:59)
  10. بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے بھی عدل کو بروئے کار لایا جائے۔اور تمام قومیں ظالم قوم پر دباؤ ڈال کر بین الاقوامی امن کے قیام کی سعی کریں۔(الحجرات:10)

الغرض رسول اللہؐ کی پاکیزہ بے نظیر تعلیم عدل کے ذریعہ تمام دنیا کو عدل و انصاف سے بھردیا گیا۔ مگر اس سے پہلے ہی آپؐ کی فطرت اور سینہ و دل بھی نورِعدل سے لبریز تھے۔اوپر سے الٰہی شریعت کی روشنی نے اسے نور علیٰ نورکردیا۔

میثاق مدینہ اوریہود مدینہ سے سلوک

نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو یہود، مشرکین اور دیگر قبائل مدینہ کے ساتھ معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے۔یہ معاہدہ آزادی مذہب اور حرّیت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ جس کی مذہبی آزادی سے متعلق چندشقوں کا ذکر یہاں مناسب ہوگا۔

اس معاہدہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔

معاہدہ کی دوسری اہم شق یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدہ کی رو سے ‘‘اُمّتِ واحدہ’’ ہونگے۔ظاہر ہے مذہبی آزادی اور اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کے بعد امت واحدہ سے مراد وحدت اور امت کا سیاسی تصور ہی ہے۔

معاہدہ کی تیسری بنیادی شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے۔یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔

معاہدہ کی چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کے مدینہ پر حملہ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی۔مسلمان اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہوںگے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔
پانچویں شق کے مطابق فریقین ایک دوسرے سےخیر خواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد2صفحہ147تا150)

ہر چند کہ مدینہ کے یہودی اس معاہدہ کے بعد بھی مسلسل معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوتے رہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ان کے ساتھ نہ صرف ایفائے عہدبلکہ حسن سلوک کا بھی خیال رکھا۔یہودی نبی کریم ؐ کی مجالس میں حاضر ہوتے تو آپؐ ان سے حسن معاملہ فرماتے تھے۔ چنانچہ کسی یہودی کو حضورؐ کی مجلس میں چھینک آجاتی تو آپؐ اسے یہ دعا دیتے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال اچھا کردے۔

(الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانیصفحہ167مطبوعہ بیروت)

اس کے برعکس یہود کاسلوک اپنے حسداور کینہ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ گستاخانہ رہا۔وہ طرح طرح کے سوالات کے ذریعہ آپؐ کی آزمائش کرتے آپؐ کی مجالس میں آتے تواپنی تحریف کی عادت سے مجبور حضورؐ کی مجلس میں بھی الفاظ بگاڑ کرتمسخر کرتے اوراپنی طرف توجہ پھیرنے کے لیے رَاعِنَایعنی ہماری رعایت کر۔اس کی بجائے رَاعِیْنَا کہتے جس کے معنے ہمارے چرواہے یا نوکر کے ہیں۔ یہودآپؐ کی مجلس میں آکر السلام علیکم کرنے کے بجائے السّام علیکم کہتے جس کے معنے ہیں معاذ اللہ آپؐ پر لعنت اور ہلاکت ہو۔

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ کچھ یہودی آئے۔انہوں نے السام علیک کہہ کر نبی کریمؐ کو طعن کیا۔ میں سمجھ گئی اور بول پڑی کہ اے یہودیو!تم پر لعنت اور ہلاکت ہو ۔نبی کریم ؐنے یہود کو کچھ کہنے کی بجائے مجھے سمجھایا اور فرمایا ٹھہرو اے عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر بات میں نرمی پسندکرتا ہے۔میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ آپ نے سنا نہیں انہوں نے آپؐ کو کیا کہا ہے؟

آپؐ نے فرمایا میں نے بھی تو وعلیکم کہہ دیا تھاکہ تم پربھی۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے برا بھلا کہنے پر نبی کریمؐ نے ان کو روکا ،سمجھایا اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ فحش بات پسند نہیں کرتا۔

(بخاری کتاب الادبباب 25)اسی سلسلہ میں یہ آیت بھی اتری کہ

وَاِذَا جَاءُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَالَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ(المجادلۃ:9)

یعنی اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو وہ اس طریق پر تجھ سے خیرسگالی کا اظہار کرتے ہیں جس طریق پر اللہ نے تجھ پر سلام نہیں بھیجا اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں، ان (سے نپٹنے)کو جہنّم کافی ہوگی۔ وہ اس میں داخل ہوں گے۔ پس کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے(مسنداحمدجلد2صفحہ221مطبوعہ مصر)

نبی کریم ؐ سے کسی صحابی نے سوال کیا کہ اہل کتاب ہمیں سلام کرتے ہیں ہم انہیں کیسے جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا علیکم کہہ کر جواب دے دیا کرویعنی تم پر بھی۔

(بخاری کتاب الاستیذانباب 56)

ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں مسلمانوں کے علاوہ یہودی اورمشرک بھی تھے۔آپؐ نے جملہ اہل مجلس کو السلام علیکم کہا۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ آل عمران ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم)

فتح خیبر کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں یہود نے شکایت کی کہ مسلمانوں نے ان کے جانور لوٹے اور پھل توڑے ہیں۔ نبی کریمؐ نے اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تم بغیراجازت کسی کے گھر گھس جاؤاور پھل وغیرہ توڑو۔(ابوداؤدکتاب الجہاد)

خیبرکی فتح کے موقع پرایک یہودیہ کی طرف سے دعوتِ طعام میں رسول کریمؐ کی خدمت میں بھنی ہوئی بکر ی پیش کی گئی جس میں زہر ملایا گیا تھا۔حضورؐ نے منہ میں لقمہ ڈالا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اُگل دیا۔پھر آپؐ نے یہود کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں ایک بات پوچھوں گا کیا سچ سچ بتاؤ گے؟انہوں نے کہا ہاں آپؐ نے فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟انہوں نے کہا ہاں۔آپؐ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا، ہم نے سوچا اگر آپؐ جھوٹے ہیں تو آپؐ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپؐ نبی ہیں تو آپؐ کو یہ زہر کچھ نقصان نہ دے گا۔

(بخاری کتاب الجہاد باب 6)

رسول کریمؐ نے قاتلانہ حملہ کی مرتکب اس یہودیہ کو بھی معاف فرمادیا اوریہود کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود مدینہ کے یہود سے احسان کا ہی سلوک فرمایا۔ایک دفعہ مدینہ میں یہودی کا جنازہ آرہا تھا۔ نبی کریمؐ جنازہ کے احترام کے لیے کھڑے ہوگئے۔کسی نے عرض کیا کہ حضورؐ!یہ یہودی کا جنازہ ہے۔آپؐ نے فرمایا کیا اس میں جان نہیں تھی۔کیا وہ انسان نہیں تھا؟(بخاری کتاب الجنائزباب 48)گویاآپؐ نے یہود کے جنازے کا بھی احترام فرماکر شرف انسانی کو قائم کیا۔

یہود مدینہ سےرواداری کی نادر مثالیں

فتح خیبر کے بعد یہود سے مسلمانوں کی مصالحت ہوگئی اور وہاں کی زمین نصف پیداوار کی شرط پر ان کو بٹائی پر دی گئی۔ ایک مسلمان عبداللہؓ بن سہل اپنے ساتھی محیّصہؓکے ہمراہ خیبر گئے۔ عبداللہؓ یہودی علاقہ میں قتل کردیے گئے۔ رسول کریمؐ کی خدمت میں مقدمہ پیش ہوا۔آپؐ نے مقتول کے مسلمان مدعیان سے فرمایا کہ تمہیں اپنے دعویٰ کا ثبوت بصورت شہادت دینا ہوگا یا پھرقاتل کے خلاف قسم تاکہ اس کا قصاص لیاجائے۔ جب مدعیان نے کوئی عینی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ثبوت پیش کرنے سے معذوری ظاہر کی تو نبی کریمؐ نے فرمایا کہ پھر یہود پچاس قسمیں دے کر بری الذمہ ہوسکتے ہیں ۔ مسلمانوں نے عرض کیا کہ کافروں کی قسم کا ہم کیسے اعتبارکرلیں؟ چنانچہ نبی کریمؐ نے ثبوت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کی طرف سے اس مسلمان کی دیت ادا کردی۔ اور یہود پر کوئی گرفت نہ فرمائی۔(بخاری کتاب الجزیہ باب12)
رسول کریم ؐنے ہمیشہ غیر مذاہب کے لوگوں سے خوشگوار تعلقات رکھے۔چنانچہ آپؐ نے مدینہ میں ایک یہودی لڑکے کو اپنی گھریلوخدمت کے لیے ملازم رکھا ہواتھا۔ جب وہ بیمار ہوا تواس کی عیادت کو خود تشریف لے گئے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3صفحہ175)

آپؐ بلا امتیاز رنگ و نسل ومذہب وملت دعوت قبول فرماتے تھے ۔ایک دفعہ ایک یہودی کی معمولی دعوت قبول فرمائی جس میں اس نے جوَ اور چربی پیش کیے۔

(طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1صفحہ407-370)

یہود مدینہ سے آخروقت تک نبی کریمؐ کا لین دین اور معاملہ رہا۔ بوقت وفات بھی آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے ہاں تیس صاع غلّے کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔

(بخاری کتاب المغازی باب87)

عیسائی قوم سے حسن سلوک

قرآن شریف میں عیسائیوں کی یہ خوبی بیان ہوئی ہے کہ ‘‘یقیناً تُو مومنوں سے محبت میں قریب تر اُن لوگوں کو پائے گا جنہوں نے کہا کہ ہم نصرانی ہیں۔’’(سورۃ المائدۃ:83)

اہل نجران سے حسن سلوک

نجران کے عیسائیوں کاوفد رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ بحث ومباحثہ کے دوران ان کی عبادت کا وقت آگیا۔نبی کریمؐ نے انہیں مسجد نبوی میں ہی ان کے مذہب کے مطابق مشرق کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت فرمائی۔

(ابن سعد جلد1صفحہ357دارالفکربیروت)

اہلِ نجران کی مذہبی آزادی

اہل نجران سے جو معاہدہ ہوا اس میں انہیں مذہبی آزادی کے مکمل حقوق عطاکیے گئے۔

معاہدہ یہ ہوا کہ وہ دو ہزار چادریں سالانہ مسلمانوں کو بطور جزیہ دیں گے نیز یمن میں خطرے کی صور ت میں تیس گھوڑے، تیس اونٹ، تیس ہتھیار ہر قسم کے یعنی تلوار،تیر،نیزے عاریتاً مسلمانوں کو دیں گے۔جو مسلمان بعد استعمال واپس کردیں گے۔مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ان کے تمام مالکانہ حقوق مسلّم ہوںگے۔ان کا کوئی گرجا گرایا نہیں جائے گا، نہ ہی کسی اسقف یا کسی پادری کو بے دخل کیا جائے گااور نہ ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہوگی، نہ ہی اُن کی حکومت اور ملکیت میں۔ نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا جب تک وہ معاہدہ کے پابند رہیں گے۔ان شرائط کی پابندی کی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوگی۔

(ابوداؤد کتاب الخراج باب 30 والطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1صفحہ266)

علامہ بیہقی نے اس معاہدہ کے حوالہ سے بعض اور شقوں کی صراحت کی ہے۔مثلاً یہ کہ اہل نجران کے تمام پادریوں کا ہنوں، راہبوں ،عبادت گاہوں اور ان کے اندر رہنے والوں اور ان کے مذہب و ملت پر قائم تمام لوگوں کو محمد رسول اللہؐ کی طرف سے اللہ اوررسول کی مکمل امان حاصل ہوگی۔کسی پادری کواس کے عہدہ سے یا کسی راہب کو اس کی عبادت سے ہٹایا نہ جائے گا۔ ان حقوق کے عوض اہل نجران معمولی سالانہ ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔

(دلائل النبوۃ للبیھقیجلدصفحہ388)

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نجران کے عیسائیوں سے مصالحت جزیہ پر نہیں بلکہ عام حکومتی ٹیکس پر تھی جس میں انہیں مکمل مذہبی آزادی عطاکی گئی۔یہی وجہ ہے کہ معاہدہ نجران کے متن میں کہیں بھی ‘‘جزیہ’’کا لفظ موجود نہیں ہے۔

اور جہاں جزیہ لیا بھی گیا اس کی بنا ہی اسلام قبول نہ کرنا اور اپنے مذہب پر قائم رہنا ہے۔ گویا اپنی ذات میں جزیہ اسلام کی مذہبی آزادی کی شاندار علامت ہے۔

ابتدائی اسلامی دور میں جزیہ کو دستور کے مطابق صاحبِ استطاعت مردوں سے 48؍درہم سالانہ، اوسط درجہ کے افراد سے24؍درہم اور غریب مزدور طبقہ سے12؍درہم سالانہ وصول کیا جاتا تھا۔(کتاب الخراجصفحہ132ازامام ابویوسف)جبکہ اہل نجران کی کئی لاکھ کی آبادی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہزار پوشاکیں سالانہ اور دو ہزار اوقیہ ٹیکس مقررفرمایا تھا جو جزیہ کے مقابل پر بہت معمولی مالیت ہے۔ کیونکہ نجران کی آبادی میں اندازاً یک لاکھ جنگجو پراوسط درجے کے جزیہ کا ہی فی کس حساب لگایاجائے تو یہ کم درجے کا اندازہ بھی 24لاکھ درہم بن جاتا ہے۔ پھر جزیہ کی صورت میں ضروری تھا کہ دیگر ذمے داریاں بھی اہل نجران پر عائد کی جاتیں۔ مگر اہل نجران کے ساتھ صلح میں یمن کو جنگوں میں حسب ضرورت اسلحہ کی عاریۃً امداد اور اسلامی دستوں کی مہمان نوازی کی شرائط صاف بتارہی ہیں کہ اہل نجران سے مخصوص شرائط اور معمولی سالانہ ٹیکس پر مصالحت طے پائی تھی۔ اور امام ابویوسف کا یہ موقف بجاطور پردرست ہے کہ اہل نجران سے جزیہ وصول نہیں کیا گیا بلکہ عام ٹیکس یا فدیہ مقررکیا گیا۔یوں بھی نجران کا پہلا وفد جب 2ھ میں مدینہ آیا اس وقت ابھی جزیہ کے احکام نہیں اترے تھے اس لیے جو نمائندہ وفدمعاہدہ کی مجوزہ شرائط نجران کے حکومتی ارکان سے مشورہ کی خاطر ساتھ لے کر گیا اس میں جزیہ کا ذکر نہیں ہوسکتا تھا۔

عیسائی مؤرخ یہ معاہدہ انصاف و رواداری نقل کرتے ہوئے ششدر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ مسٹر کرینسٹن اپنی کتاب World Faith میں ان معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Has any conquering race or faith given to its subject nationalities a better guarantee than is to be found in these words of the prophet?………It would be hard to find a more tolerant and tuely and brotherly statement in the teaching of any religion……..Thirteen hundred years before the Atlantic Charter incorporated freedom of religion and freedom from fear,Mohammad made treatico with Jewish and Christian tribes he had conquered and gave them freedom of religions worship and local self government. In many muslim invaded countries there has been conspicuocsly fair and just treatment of non-muslim population

ترجمہ :کیا دنیا میں کسی فاتح قوم یا مذہب نے اپنی مفتوح قوموں کو اس سے بڑھ کر تحفظات کی ضمانت دی ہے جو ہادیٔ اسلام ؐکے ان الفاظ میں موجود ہے؟…دنیا کے کسی مذہب میں اس سے زیادہ روادارانہ اورحقیقی طور پر برادرانہ تعلیم تلاش کرنا مشکل ہے……اٹلانٹک چارٹر میں تو مذہبی آزادی اور دہشت و ہراس سے نجات کو انسانی حقوق میں آج شامل کیا گیا ہے لیکن اٹلانٹک چارٹر سے بھی تیرہ سو سال پیشترمحمدؐ نے یہودی اور عیسائی قبیلوں سے ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد جو معاہدات کیے ان میں مذہبی عبادات کی آزادی اور مقامی لحاظ سے ان کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا تھا۔’’

(World Faith by Ruth Cranston p.157 U.S.A)

معاہدہ سینٹ کیتھرین

صحرا سینا میں واقع کوہ طور پر اس جگہ جہاں حضرت موسیٰؑ پر خدا تعالیٰ نے تجلی کی اس جگہ ایک خانقاہ سینٹ کیتھرائن کے نام سے مشہور ہے ۔اس خانقاہ کےچند متولی مدینہ آئےجن کی نبی اکرمﷺنے میزبانی فرمائی۔ان متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیاکہ ہمیں خطرہ ہے مسلمان جب طاقت و ر ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے۔آپؐ نے جواب دیاکہ آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے۔ متولیوں نے عرض کیا ہم لوگ جب بھی کسی سے معاہدہ کرتے ہیں تو ہم وہ لکھ لیتے ہیں۔ آپؐ بھی ہمیں اپنا عہد تحریر فرما کر عنایت کر دیں تاکہ ہم مستقبل میں آپ ؐکے امتیوں کو آپؐ کی یہ تحریر دکھا کر امان حاصل کر سکیں۔

اس پرآپؐ نے تحریر لکھوائی اورتصدیق کے لیے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہدنامہ ان کے حوالے کر دیا۔وہ لوگ واپس آئے اور یہ معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا۔

(مجموعة الوثائق السیاسیة للعھد النبوی صفحہ561تا565)

مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب مصر فتح کیا اور سینا اور کوہ طور تک پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آ گئے۔مسلمان فاتحین نے عہد نامے کو بوسہ دیا،خانقاہ اور مصر کے عیسائیوں کو پناہ دی اور واپس لوٹ گئے۔

مسلمانوں نے 1400؍سال کی تاریخ میں اس عہد نامے کا احترام کیااس طویل عرصہ میں کسی چرچ پر حملہ نہیں کیا،کوئی راہب قتل نہیں کیا اور نہ ہی کسی کلیسا کی زمین پر قبضہ کیا حتیٰ کہ صلیبی جنگوں کے دوران بھی اس معاہدے پر عمل ہوتا رہا۔حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد کلیسا میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں دمشق کے تمام چرچ اور عیسائی محفوظ رہے۔اموی خلفاء نے جامعہ امیہ بنانے کا فیصلہ کیاتو عیسائیوں سے چرچ کی زمین باقاعدہ خریدی اوراس احسان کے طور پر انہیں پورے دمشق میں جہاں چاہیں اور جتنے چاہیں چرچ بنانے کی اجازت بھی دی ۔

سپین کے عیسائی

سپین میں بھی آٹھ سو سال عیسائی اور چرچ محفوظ رہے۔مسجد قرطبہ میں چرچ کی زمین کا تھوڑا سا حصہ آ گیا تھااس وقت کےخلیفہ نے تعمیر رکوا کر پادری سے باقاعدہ اجازت لی اور معاوضہ ادا کیا۔ سعودی عرب،عراق،مصر،ترکی،فلسطین،ایران اور سنٹرل ایشیا میں آج بھی پونے دو ہزار سال پرانے چرچ موجود ہیں۔یہ چرچ ان ادوار میں بھی سلامت رہے جب مسلمانوں کی خانقاہیں منہدم اور مسلمان قتل ہو جاتے تھے۔امیر تیمور نے 58 اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگرایک بھی کلیسا مسمار نہ ہوا۔

دیگر عیسائی قبائل کو پروانۂ مذہبی آزادی

عرب میں نجران کے عیسائیوں کے علاوہ دوسرا بڑا عیسائی کٹر قبیلہ تغلب تھا۔ جن پر ٹیکس کی ادائیگی پر صلح ہوئی۔

رسول کریم ؐنے تغلب کا وفد مدینہ آنے پر ان سے جو معاہدہ صلح کیا اس میں مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت موجود ہے اور یہ ذکر ہے کہ انہیں اپنے دین پر قائم رہنے کا اختیار ہے مگر یہ آزادی ان کی اولادوں کے لیے بھی ہے کہ وہ ان کو جبراً عیسائی نہیں بنائیں گے۔

(ابوداؤد کتاب الخراج باب 43، ابن سعدجلد1صفحہ316)

نبی کریمؐ نے یمن کے عیسائی قبیلہ حارث بن کعب کی طرف عمرو بن حزم کو دعوت اسلام کے لیے بھجوایا اور ان کے نام مکتوب میں تحریری امان لکھ کر بھجوائی جس میں اسلامی احکام کی وضاحت کے بعد تحریر فرمایا کہ یہود و نصاریٰ میں سے جو مسلمان ہوگا اس کے مسلمانوں جیسے حقوق و فرائض ہوںگے اور جو عیسائیت یا یہودیت پر قائم رہے گا تو اسے اس کے مذہب سے لوٹایا نہیں جائے گا۔(یعنی مکمل مذہبی آزادی ہوگی)ہاں ان کے ذمہ جزیہ ہوگا اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہوں گے۔

(ابن ہشام جلد1صفحہ269مطبوعہ مصر)

اہل ایلہ کے عیسائیوں کو امان نامہ عطاکرتے ہوئے رسول کریمؐ نے تحریر فرمایا :

‘‘تم کو مکمل امان ہو جنگ کی بجائے تمہیں یہ تحریر دے رہا ہوں کہ مسلمان ہوجاؤ یا جزیہ ادا کرو اور جو معاہدہ صلح تم میرے نمائندوں سے کروگے مجھے منظور ہے۔ اس صورت میں تم اللہ اور رسول کی پناہ میں ہوگے۔’’

(ابن سعد جلد1صفحہ277دارالفکربیروت)

یمن کے یہود و نصاریٰ کو مذہبی آزادی

شاہان حِمیر کو رسول کریمؐ نے تحریری امان نامہ عطا کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ

‘‘جو شخص یہود یا عیسائیوں میں سے اسلامی احکام کی پابندی کرےگا اسے مسلمانوں کے حقوق حاصل ہوں گے اور بطور مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی اور جو شخص اپنی یہودیت یا عیسائیت پر قائم رہےگا اسے اس کے مذہب سے ہٹایا نہیں جائے گاالبتہ ان کے ہربالغ پر جزیہ واجب ہوگا۔ ایسے لوگ اللہ اور رسول کی امان میں ہونگے۔’’

(ابن ہشام جلد4صفحہ258مطبوعہ مصر)

یہود مدینہ

اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔چنانچہ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آئے تویہاں رواج تھا کہ انصار کی جن عورتوں کے بچے کم سنی میں فوت ہوجاتے وہ منّت مانتیں کہ اگلا بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی مذہب پرقائم کریں گی۔ جب یہودی قبیلہ بنونضیرکو اس کی عہد شکنی کی وجہ سے مدینہ بدرکیاگیاتو انصار کے ایسے کئی بچے یہودی مذہب پر تھے۔ انصار میں سے مسلمان ہونے والوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کویہود کے دین پر نہیں چھوڑیں گے۔ دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے کہا کہ یہ منّتیں اس وقت مانی گئی تھیں جب ہم سمجھتے تھے کہ یہود کا دین ہمارے دین سے بہترہے۔ اب اسلام کے آنے کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو زبردستی اسلام پر قائم کرنا ہوگا۔ اس پر یہ آیت اُتری۔ لَااِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔(ابوداؤد کتاب الجہاد باب 5)

ریاست مدینہ کے یہود کے ساتھ عادلانہ فیصلے

یہود کے قبائل بنو نضیراور بنو قریظہ میں سے بنو نضیر زیادہ معزز سمجھے جاتے تھے۔چنانچہ جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی آدمی کو قتل کرتا تو وہ قصاص میں قتل کیا جاتا اور جب بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کوقتل کرتا تو اس کی دیت سو وسق کھجور ادا کردی جاتی۔نبی کریمؐ کی مدینہ تشریف آوری کے بعد ایک نضیری نے قُرظی کو قتل کردیا۔بنو قریظہ نے قصاص کا مطالبہ کیا اور اپنا ثالث رسول کریمؐ کو مقرر کرکے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ نے جاہلیت کے طریق کے برخلاف اس قرآنی ارشادپر عمل فرمایا کہ

وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ(سورۃ المائدۃ:43)

یعنی‘‘اور اگر تُو فیصلہ کرے تو اُن کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر۔’’چنانچہ آپؐ نے جان کے بدلے جان کا منصفانہ فیصلہ صادرفرمایا۔

(ابوداؤد کتاب الدیات باب 1)

ایک دفعہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے قیمتی زیور دیکھ کر اس کا سر پتھر کے ساتھ کچل کر قتل کردیا۔ مقتولہ کو نبی کریم ؐکے پاس لایا گیا ۔اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپؐ نے اس سے ایک شخص کا نام لے کر پوچھا کہ‘‘فلاں نے تمہیں قتل کیا ہے؟’’اس نے سر کے اشارہ سے کہا نہیں، پھر آپؐ نے دوسرے کا نام لیا تو اس نے نفی میں جواب دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے یہودی شخص کا نام لیا ۔اس نے سرہلاکر اثبات میں جواب دیا۔آپؐ نے اس یہودی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قتل کا اعتراف کرلیا۔چنانچہ اس شخص کو قصاص میں قتل کیاگیا۔

(بخاری کتاب الدیات باب 6)

ایک یہودی کے حق میں ڈگری

عبداللہ بن ابی حدرد الاسلمی ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا ان کے ذمے چار درہم قرض تھا جس کی میعاد ختم ہوگئی۔ اس یہودی نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس شخص کے ذمے میرے چار درہم ہیں اور یہ مجھے ادا نہیں کرتا۔ رسول اللہؐ نے عبداللہؓ سے کہا کہ اس یہودی کا حق دے دو۔ عبداللہؓ نے عرض کیا اس ذات کی قسم ! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔مجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا ‘‘اس کا حق اسے لوٹا دو۔’’عبداللہؓ نے پھر وہی عذرکرتے ہوئے عرض کیا کہ میں نے اسے بتادیا ہے کہ آپؐ ہمیں خیبر بھجوائیں گے اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دیں گے تو واپس آکر میں اس کا قرض چکا دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا ‘‘ابھی اس کا حق ادا کرو۔’’نبی کریم ؐ جب کوئی بات تین مرتبہ فرمادیتے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھاجاتا تھا۔چنانچہ عبداللہؓ اسی وقت وہاں سے بازار گئے۔انہوں نے ایک چادر بطور تہ بند کے باندھ رکھی تھی۔ سر کا کپڑا اتار کر تہ بند کی جگہ باندھااورچادر چار درہم میں بیچ کر قرض اداکردیا۔ اتنے میں وہاں سے ایک بڑھیا گذری۔وہ کہنے لگی‘‘اے رسول اللہؐ کے صحابی آپ کو کیا ہوا؟’’عبداللہؓ نے سارا قصہ سُنایا تو اس نے اسی وقت اپنی چادر جو اوڑھ رکھی تھی ان کو دے دی اور یوں رسول اللہؐ کے عادلانہ فیصلے پر عمل در آمدکی برکت سے دونوں فریق کابھلا ہوگیا۔

(مسند احمد جلد3صفحہ422)

ریاست مدینہ میں عمومی عدل کی شاندار مثالیں

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضرؓنے ایک لونڈی کا دانت توڑدیا۔ لونڈی کے مالکوں نے اس کامعاوضہ مانگا۔(جودس اونٹ تھا)ربیع ؓکے خاندان نے معافی طلب کی مگر لونڈی کے ورثاء نہ مانے۔ ربیعؓ کے بھائی انسؓ نے رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ؐ کیا ہماری بہن ربیع ؓکے دانت توڑے جائیں گے۔ نہیں!اس خدا کی قسم!جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے دانت ہرگز نہیں توڑے جائیں گے۔ نبی کریمؐ نے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اے انسؓ ! اللہ کا فیصلہ قصاص ہے۔اس طرح آپؐ نے اس مخلص انصاری خاندان سے اپنے گہرے تعلق کے باوجود عدل کا دامن نہیں چھوڑا۔ اگرچہ بعد میں یہ معاملہ باہم فریقین کی صلح کے نتیجہ میں انجام پایا۔

(بخاری کتاب الصلح باب 8)

اسی طرح اپنے اصحاب کے درمیان کمال عدل کے ساتھ آپؐ فیصلے فرماتے تھے،مگر ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرماتے تھے کہ میں بھی انسان ہوں اور ممکن ہے کہ کوئی چرب زبان مجھ سے کوئی غلط فیصلے کروالے مگر وہ یاد رکھے کہ جو چیز وہ ناحق لے گا وہ آگ کا ٹکڑا لے کر جائے گا۔چاہے تو لے لے چاہے تو اسے چھوڑ دے۔ (بخاری کتاب المظالم باب 17)

قیام عدل واحسان کے عجیب نظارے غزوۂ حنین میں بھی ظاہر ہوئے۔

چنانچہ ایک دفعہ کچھ قیدی آئے۔حضرت فاطمہ ؓنے بھی ایک خادم گھریلو ضرورت کے لیے طلب کیاتو رسول کریمؐ نے فرمایا خدا کی قسم! میں تمہیں عطا کر کے اہل صفہ یعنی غریب صحابہ کو محروم نہیں رکھ سکتا۔جو فاقوں سے بے حال ہیں اور جن کے نان و نفقہ کے لیے اخراجات میسر نہیں۔ میں قیدی فروخت کر کے اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔

(مسند احمد جلد1صفحہ107)

چنانچہ اس موقع پر اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ پر بھی غریب صحابہ ؓکو ترجیح دی گئی جو عدل کی بہترین مثال ہے۔الغرض عدل گستری بھی حضرت محمدؐ پر ختم ہے اور اس وقت اس جگہ کے لیے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف اسلامی ریاست مدینہ کا ایک خاکہ ہے۔ ورنہ رحمة للعالمینﷺ کی تعلیم عدل واحسان کے شاندار نمونے لامحدود ہیں۔

دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار

گل چین بہار تو ز دامان گلہ دارد

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button