سیرت النبی ﷺ

میدان جنگ میں اسوۂ رسول ﷺ

(حافظ مظفر احمد)

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اورعام حالات میں جنگ و جدال سے منع کرتا ہے، تاہم جب دشمن حملہ آور ہوکر آجائے تواسلام بھی اپنے ماننے والوں کو دفاع کامکمل حق دیتا ہے۔ بانیٔ اسلامﷺ کو بھی ایسی دفاعی جنگوں کا سامناکرناپڑا۔

نبی کریمؐ نے بطورسپاہی بھی دفاعی جنگ میں حصہ لیا اور بطور جرنیل اپنے لشکر کی کمان کر کے بھی ایک کامل نمونہ پیش کیا۔آپؐ نےجنگوں میں فتح پائی۔کبھی ساتھیوں کے پاؤں اکھڑبھی گئے۔مگرہمیشہ اور ہر حال میں آپؐ کے پاکیزہ اخلاق نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔

ہمارے سید و مولا حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم اخلاق کی یہی عظمت ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے نئے حسین جلوے دکھاتے نظر آتے ہیں۔حالت امن ہو یا جنگ، مشکلات کے پہاڑ اور مصائب کے طوفان اس کوہ ِاستقامت کو ہلا نہیں سکتے۔ فتوحات اور کامرانیوں کے نظارے اس کوہ ِوقار میں ذرہ برابر جنبش پیدا نہیں کرسکتے۔تکلف اور تصنع سے پاک ایسے کامل اور سچے اخلاق میں بلا شبہ خدائی شان جلوہ گر نظر آتی ہے اور ہر صاحبِ بصیرت انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ اے آقا تیرے روشن و تاباں چہرے میں ایسی شان اور عظمت ہے جو انسانی شمائل اور اخلاق سے کہیں بڑھ کرہے۔

رسول اللہؐ کے خلق عظیم کا طرّ ۂ امتیاز ہمیشہ یہ رہا کہ آپؐ ہر امکانی حد تک فساد سے بچتے اور ہمیشہ امن کی راہیں اختیار کرتے تھے۔مکہ کا تیرہ سالہ دورِ ابتلا گواہ ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے سخت اذیتیں اور تکالیف اٹھائیں لیکن صبر پر صبر کیا۔ جانی اور مالی نقصان ہوئے پر برداشت کیے اور مقابلہ نہ کیا۔اپنے مظلوم ساتھیوں سے بھی یہی کہا کہ

اِنّیْ اُمِرْتُ بِا لعَفْوِ فَلا تُقَاتِلُوْا

کہ مجھے عفو کا حکم ہو اہے۔اس لیے تم لڑائی سے بچو۔

(نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد)

پھر جب دشمن نے شہر مکہ میں جینا دُوبھر کردیا۔آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے تو آپ ؐ اورآپ ؐکے ساتھیوں نے عزیز و اقارب اور مال و جائیداد کی قربانیاں دے کر دکھی دل کے ساتھ وطن کو بھی خیر باد کہہ دیا اور مدینے میں پناہ لی۔ دشمن نے وہاں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا ۔

اہل مکہ مسلمانانِ مدینہ پر حملہ آور ہونے لگے۔تب ہجرت مدینہ کے ایک سال بعد اِذنِ جہاد کی وہ آیت اُتری جس میں مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع اور مذہبی آزادی کی خاطر تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ(سورۃ الحج:40)

وہ لوگ جن سے(بلاوجہ)جنگ کی جارہی ہے اُن کو بھی(جنگ)کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔

اس آیت اور اس سے اگلی آیات سے اسلامی جنگوں کی غرض و غایت ظاہر و باہر ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ جنگ کی ابتدا کفار کی طرف سے ہوئی۔دوسرے یہ کہ مسلمان دین کی وجہ سے مظلوم ہوکر رہ گئے تھے۔تیسرے کفار کا مقصد دین اسلام کو نابود کرنا تھا۔ چوتھے مسلمانوں کو محض خود حفاظتی اور اپنے دفاع کی خاطر تلوار اُٹھانی پڑی۔

سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ‘’محمد’’ میں جہاد کے اسلامی تصور کا ذکرکرتے ہوئے لکھتی ہیں:

The Jihad is not one of the five pillars of Islam. It is not the central prop of the religion, despite the common Western view. But it was and remains a duty for Muslims to commit themselves to a struggle on all fronts-moral, spiritual and political to create a just and decent society, where the poor and vulnerable are not exploited, in the way that God had intended man to live. Fighting and warfare might sometimes be necessary, but it was only a minor part of the whole jihad or struggle. A well-known traditon (hadith) jihad to the greater jihad, the difficult and crucial effort to conquer the forces of evil in oneself and in one’s own society in all the details of daily life
(Muhammad a Biography of Prophet page:168 by K.Armstrong)

‘‘جہاد اسلام کے پانچ ارکان میں شامل نہیں اور اہل مغرب میں پائے جانے والے عام خیال کے برخلاف یہ مذہب (اسلام)کا مرکزی نقطہ بھی نہیں لیکن مسلمانوں پر یہ فرض تھا اور رہے گا کہ وہ اخلاقی ،روحانی اور سیاسی ہرمحاذ پر ایک مسلسل جدوجہد اور کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف عمل رکھیں۔ تاکہ انسان کے لیے خدا کی منشاء کے مطابق انصاف اور ایک شائستہ معاشرہ کاقیام ہو۔جہاں غریب اور کمزور کا استحصال نہ ہو۔ جنگ اور لڑائی بھی بعض اوقات ناگزیرہوجاتی ہے۔ لیکن یہ اس بڑے جہاد یعنی کوشش کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ سے واپسی پر فرماتے ہیں کہ ہم ایک چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ کرآتے ہیں یعنی اس مشکل اوراہم مجاہدہ یا جہاد زندگانی کی طرف جہاں ایک فردکواپنی ذات اور اپنے معاشرے میں روز مرہ زندگی کی تمام تر تفاصیل میں برائی کی قوتوں پرغالب آنا ہے۔(آرمسٹرانگ)

الغرض رسول کریمؐ کودشمن کے حملے سے مجبور ہوکر اپنا دفاع کرنے کے لیے جب تلوار اُٹھانا پڑی تو جنگ کی حالت میں جہاں دنیا سب کچھ جائز سمجھتی ہے، آپؐ نے پہلی دفعہ دنیا کو جنگ کے آداب سے روشناس کرایا۔اس ضابطۂ اخلاق کے ساتھ جب آپؐ جنگ کے لیے نکلتے توپھر آپ ؐ کا تمام تر توکل اور بھروسہ خدا کی ذات پرہوتا تھا۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں رسول کریمؐ جب کسی غزوہ کے لیے نکلتے تو یہ دعا کرتے

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَضُدِیْ وَاَنْتَ نَصِیْرِیْ وَبِکَ اُقَاتِلُ (مسند احمد جلد3صفحہ184)

اے اللہ !تو ہی میرا سہارا ،تو ہی میرا مددگار ہے۔اور تیرے بھروسہ پر ہی میں لڑتا ہوں۔

غزوۂ بدر میں خلق عظیم

ایک بہترین جرنیل کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل گرفت اپنے سپاہیوں پر ہوتی تھی۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جب رسول اللہؐ اور آپؐ کے صحابہ نے میدان بدر میں مشرکین سے پہلے پہنچ کر ڈیرے ڈالے تو آپؐ نے فرمایا ‘‘کوئی شخص از خود کسی بات میں پہل نہ کرے جب تک میں اجازت نہ دوں۔’’ پھر جب تک دشمن کی طرف سے حملہ نہیں ہوا، آپؐ نے مقابلہ کے لیے صحابہ کو دعوت نہیں دی۔ جب دشمن سامنے صف آرا ہوئے توصحابہ کو فرمایا ‘‘اب اُس جنت کے حصول کے لیے اُٹھ کھڑے ہو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔’’ پھر صحابہ نے اپنی جانیں خدا کی راہ میں خوب فداکیں۔

(مسنداحمد بن حنبل جلد3صفحہ137)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں اپنے ساتھی سپاہیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔حضرت رفاعہؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ ٔبدر کے سفر میں ہم نے اچانک محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ نہیں ہیں۔اصحاب رسولؐ نے ایک دوسرے کو آواز دے کر پوچھا کہ تمہیں رسول اللہؐ کا کچھ پتہ ہے یا تمہارے ساتھ ہیں؟ جب کچھ پتہ نہ چلا تو سب رُک گئے۔ اتنی دیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم تو آپؐ کو موجود نہ پاکر پریشان ہوگئے تھے۔آپؐ نے فرمایا کہ‘‘علیؓ کے پیٹ میں اچانک تکلیف ہوگئی اور میں اس کی تیمارداری کے لیے رک گیاتھا۔’’

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص69 بیروت بحوالہ طبرانی)

نبی کریمؐ کسی سواری پربیک وقت تین آدمیوں کاسوارہوناپسند نہیں فرماتے تھے کہ یہ بھی جانور پرزیادتی ہے۔بدر میں رسول اللہؐ کے صحابہ کے پاس چنداونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ ایک اونٹ کی سوار ی میں تین تین اصحاب شریک تھے، جو باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔حضرت علیؓ اورحضرت ابولبابہؓ یا ابومرثدؓ غنوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری میں شریک تھے۔جب رسول اللہؐ کی باری ہوتی تو یہ دونوں کہتے ہم آپؐ کی خاطر پیدل چلیں گے آپؐ سوار رہیں۔ رسول کریمؐ فرماتے ‘‘تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ورنہیں ہو اور نہ میں تم دونوں کی نسبت اجر سے بے نیاز ہوں۔’’مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اجر کی ضرورت ہے۔

(مسند احمد جلد1صفحہ411)

خدام سے شفقت

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے مجھے ابوعامرؓ کے ساتھ غزوۂ اوطاس کے لیے بھجوایا۔ ان کے گھٹنے میں تیر لگا۔جس سے ایک کاری جان لیوا زخم ہوا۔میں نے تیر کھینچا تو پانی نکلا۔مجھے ابوعامرؓ کہنے لگے بھتیجے رسول اللہؐ کو میرا سلام عرض کرنا اور درخواست کرنا کہ میرے لیے بخشش کی دعا کریں۔پھر تھوڑی دیر بعد ان کی روح پرواز کرگئی۔ میں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوکر سارا ماجرا عرض کردیا اور ابوعامرؓ کا پیغام سلام و دعا بھی پہنچایا۔رسول کریمؐ نے پانی منگواکر وضو کیا۔ پھر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ! اپنے بندے ابوعامرؓ کو بخش دے، اے اللہ! اسے قیامت کے دن اپنی مخلوق میں سے بہت لوگوں کے اوپر فوقیت عطا کرنا۔ میں نے عرض کیا یاحضرت! میرے لیے بھی کچھ دعاکردیں۔ آپؐ نے دعاکی کہ اے اللہ! ابوموسیٰ ؓ کے گناہ بخش دے اور قیامت کے دن اسے معزز مقام میں داخل کرنا۔(بخاری(67)کتاب المغازی باب 26)

دعاؤں پر بھروسہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام فتوحات دراصل دعاؤں کا نتیجہ تھیں ۔ بدر کی دعامیں غیرمعمولی شغف اور توجہ کا ذکر حضرت علی ؓ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ بدر میں کچھ دیر لڑنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ دیکھوں رسول اللہؐ کا کیا حال ہے آکر دیکھا تو آپؐ سجدے میں پڑے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور مسلسل گریۂ وزاری کررہے تھے ۔‘‘یاحیُّ یا قیوم۔یعنی اے زندہ ہستی خود قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے!’’

آپؐ یہی پڑھتے جاتے تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے تھے۔ میں پھرجا کر لڑائی میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر حضورؐ کا خیال آیا اور آپؐ کا پتہ کرنے لوٹا تو آپؐ اسی حالت میں سجدہ میں پڑے خدا کو اس کی صفت حی ّوقیوم کے واسطے دے رہے تھے۔ میں پھر میدان کارزار میں چلاگیا اور تیسری بارواپس لوٹا تو بھی آپؐ کو اسی حالت میں دعا کرتے پایا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعاؤں کے طفیل ہمیں فتح عطافرمائی۔

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد10صفحہ147)

اپنی کامیابی پر حمدباری

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جنگ میں کامیابی حاصل ہوتی تو بھی کسی بڑائی کے اظہار کی بجائے خدا کی حمد بجالاتے۔اور اسی کی کبریائی اور عظمت کے نعرے بلند کرتے تھے۔

حضرت عبداللہؓ بن مسعودبیان کرتے ہیں کہ ابوجہل کو قتل کرنے اور اس پر آخری وار کرنے کے بعد میں نے نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوکر اطلاع کی کہ ابوجہل ہلاک ہوچکا ہے۔ آپؐ نے اس وقت بھی نعرہ توحید بلند کیا اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں؟میں نے اثبات میں جواب دیا کہ بے شک اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کی نعش کے پاس جاکر کھڑے ہوئے توفرمایا‘‘اس خدا کی سب تعریف ہے جس نے اے اللہ کے دشمن! تجھے ذلیل کیا۔’’پھر فرمایا کہ‘‘یہ اس امت کا فرعون تھا۔’’

(معجم الکبیر للطبرانیجلد9صفحہ81بیروت)

نبی کریم ؐفتح کے موقع پر کسی بڑائی کے اظہار کی بجائے شکر بجالاتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور عجزوانکسار سے جھک جاتے۔بدر کی فتح مسلمانوں کے لیے پہلی بہت بڑی فتح تھی۔جس نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان کے ستر آدمی ہلاک ہوئے ،جن میں چوبیس سرداران قریش تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی نعشیں بھی کھلے میدان میں چھوڑنی پسند نہیں فرمائیں بلکہ دفن کے لیے ایک پُرانے گڑھے میں ڈلوادیں۔رسول اللہؐ نے بدرکی فتح پر کوئی جشن نہیں منایا بلکہ اپنے رب کی عظمت اور حقانیت کے نعرے ہی بلند کیے۔ اپنے ساتھیوں کو بھی یاد کروایا کہ فتح سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ بدر کا دن خدا کے وعدے پورے ہونے کا دن ہے۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گڑھے پر تشریف لے گئے جس میں سرداران قریش کی لاشیں تھی توان کایہ عبرتناک انجام دیکھ کر افسوس اور حسرت کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا‘‘کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی یا اپنا یہ انجام پسند ہے۔ ہم نے تو اپنے رب کے وعدوں کو سچا پالیا۔ تم نے بھی خدا کے وعدے کو سچا پایا یانہیں؟’’

(بخاری (67)کتاب المغازی باب 7)

احسان کا پاس

غزوات میں رسول اللہؐ کا احسان اور وفا کاخلق بھی بڑی شان سے ظاہر ہوا۔ایک واقعہ قریش کے مشرک سردار مطعم بن عدی کا ہے، جو بنو نوفل کا سردار اورقریش کی سربرآوردہ شخصیات میں سے تھا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کے قبیلہ بنو ہاشم اور مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے بائیکاٹ کرنے کا جو معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا، اس کو ختم کرانے کی مہم میں مطعم نے نمایاں خدمت انجام دی تھی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ والوں سے مایوس ہوکر تبلیغ اسلام کے لیے طائف تشریف لے گئے تھے تو عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کو مکہ میں واپس آنے سے پیشتر کسی سردار کی پناہ میں آنا ضروری تھا،جسے جوار یعنی پناہ کہتے تھے۔ رسول اللہؐ نے کئی سرداروں کو پناہ لینے کے لیے پیغام بھیجا، سب نے انکار کیا، مطعم بن عدی وہ شریف النفس سردارتھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں دوبارہ داخلہ کے لیے اپنی پناہ دی۔اس کے چاروں بیٹے تلواروں کے سایہ میں رسول اللہؐ کو مکہ لائے اور آپؐ کو امان دینے کا اعلان کیا۔افسوس کہ اس منصف مزاج سردار کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نہ ملی اور بدر سے پہلے ہی سو سال کے لگ بھگ عمر پاکر وفات پاگیا۔

بدرکی فتح کے بعد جب ستر مشرکین مکہ بطور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے تو نبی کریمؐ اُس وقت بھی مطعم بن عدی کا احسان نہیں بھولے اور فرمایا ‘‘اگر آج مطعم زندہ ہوتا اوران قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے مجھے سفارش کرتا تو میں ان تمام قیدیوں کو اُس کی خاطر آزادکردیتا۔’’

(عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی 17صفحہ119)

غزوۂ احدمیں دوراندیشی

غزوات النبیؐ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کھل کر سامنے آئے، وہاں آپؐ کی قائدانہ صلاحیتوں، حکمت عملی اوردور اندیشی کا بھی کھل کر اظہار ہوا۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب آپؐ نے شہر مدینہ سے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کا ارادہ فرمایا تو شہر کو دشمن سے حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا ایک طرف سے احد پہاڑ کی آڑ لیکراُسے ڈھال بنایا۔ اسی دوران حضورؐ کی نظر اس پہاڑی درے پر پڑی جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوسکتاتھا۔ آپؐ نے وہاں پچاس تیر انداز عبداللہؓ بن جُبیر کی سرکردگی میں مقرر فرمائے اور انہیں جو ہدایات دیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوایک بہترین جرنیل ہوتے ہوئے درّے کی نزاکت کا کتنا احساس تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ‘‘ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو اچک رہے ہیں پھر بھی تم نے درّہ نہیں چھوڑنا سوائے اس کے کہ میرا پیغام تمہیں پہنچے۔’’

(بخاری (67)کتاب المغازی باب11)

صحابہ کی تربیت

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جب لوگ پسپا ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(چندساتھیوں کے ساتھ)رہ گئے تو ابو طلحہؓ حضور کے سامنے اپنی ڈھال لے کر کھڑے ہوگئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سراٹھا کر دشمن کی طرف دیکھنا چاہتے تو ابو طلحہؓ عرض کرتے میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ اس طرح سے دشمن کی طرف نہ جھانکیے کہیں دشمن کا کوئی تیر آپؐ کو لگ نہ جائے۔ (آقا!)آج میرا سینہ آپؐ کے سینہ کے آگے سپر ہے۔مجھے تیر لگتا ہے تو لگے آپؐ محفوظ رہیں۔

(بخاری (67)کتاب المغازی باب 11)

ابو طلحہؓ بڑے جی دار اور بہادر تھے،زبردست تیر انداز۔ طاقت ور ایسے کہ کمان کو زور سے کھینچتے تو ٹوٹ کر رہ جاتی۔ احد میں آپ نے دو یاتین کمانیں توڑ ڈالیں۔ ایسی تیزی سے آپ تیر اندازی کررہے تھے کہ تیر بانٹنے والا جب اپنا ترکش لے کر حضورؐ کے پاس سے گذرتا تو آپؐ فرماتے ارے !ابو طلحہ کے لیے تیرپھیلادو۔

(بخاری (67)کتاب المغازی باب11)

اُحد میں استقامت اور راضی برضا

احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستّر صحابہ شہید ہوئے اور خود بھی زخموں سے لہولہان ہوگئے۔آپؐ کا دل صحابہ کی جدائی پر غمگین تھا مگر خدا کے وعدوں پر کامل یقین تھا۔ آپؐ کے ایمان اور استقامت میں ذرّہ برابر بھی کوئی فرق نہیں آیا جس کا اندازہ آپؐ کی اس دعا سے ہوتاہے جو آپؐ نے مشرکین مکہ کے واپس لوٹ جانے کے بعد کی، جو آپؐ کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے۔آپؐ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ صف بستہ ہوجاؤ تاکہ ہم سب اپنے رب کی حمدوثنا کرسکیں۔خوشی اور فتح کے موقع پر تو دنیا کوخوشی مناتے اور شکر کرتے دیکھا ہے لیکن آؤ آج ابتلا اور مصیبت میں بھی خدا کے اس عظیم بندے کو اپنے رب کی حمد و ستائش کرتے دیکھیں جنہوں نے ہر حال میں راضی برضاء الہٰی رہناسیکھا تھا۔ میدانِ اُحد میں رسول اللہؐ نے اپنے صحابہ کی حلقہ بندی کر کے اُن کی صفیں بنوائیں اوراُن کے ساتھ مل کر یوں دعا کی۔

‘‘اے اللہ!سب حمد اور تعریف تجھے حاصل ہے۔جسے تو فراخی عطاکرے اسے کوئی تنگی نہیں دے سکتا اور جسے تو تنگی دے اسے کوئی کشائش عطا نہیں کرسکتا۔جسے تو گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔جسے تو نہ دے اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا اور جسے تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔جسے تو دُور کرے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا اور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دُورکرنے والا نہیں۔اے اللہ!ہم پر اپنی برکات، رحمتوں، فضلوں اور رزق کے دروازے کھول دے۔اے اللہ!میں تجھ سے ایسی دائمی نعمتیں مانگتا ہوں جو کبھی زائل ہوں نہ ختم ہوں۔اے اللہ! میں تجھ سے غربت و افلاس کے زمانہ کے لیے نعمتوں کا تقاضا کرتا ہوں اور خوف کے وقت امن کا طالب ہوں۔اے اللہ!جو کچھ تو نے ہمیں عطا کیا اس کے شرّ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور جو تو نے نہیں دیا اس کے شرّ سے بھی۔ اے اللہ!ایمان ہمیں محبوب کردے، اور اسے ہمارے دلوں میں خوبصورت بنا دے، کفر،بدعملی اور نافرمانی کی کراہت ہمارے دلوں میں پیدا کردے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنا۔ اے اللہ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے، مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ رکھ اور صالحین میں شامل کردے۔ ہمیں رسوانہ کرنا، نہ ہی کسی فتنہ میں ڈالنا۔اے اللہ! ان کافروں کو خود ہلاک کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیری راہ سے روکتے ہیں ان پر سختی اور عذاب نازل کر۔ اے اللہ!ان کافروں کو بھی ہلاک کر جن کو کتاب دی گئی کہ یہ رسول برحق ہے۔

(مسند احمد جلد3صفحہ424)

غزوۂ احزاب میں خلقِ عظیم

جنگ احد کے بعد جنگ احزاب مسلمانانِ مدینہ کا ایک بہت سخت اور کڑا امتحان تھا۔ جس میں مدینہ سے نکالے گئے یہودبنی نَضیر کے اُکسانے پر قبائل عرب بنو غطفان، بنوسُلیم وغیرہ نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر مدینہ پر اجتماعی حملہ کا خوفناک منصوبہ بنایا۔قبائل عرب کی متحدہ فوجوں کےدس ہزار کے لشکرکے مقابل مسلمان صرف تین ہزارتھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی اطلاع پاکر صحابہ سے مشورہ کیا اور سلمان فارسیؓ کی رائے قبول کرتے ہوئے مدینہ کی حفاظت کے لیے اس کے گرد ایک خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ اس مدبرانہ فیصلہ سے مسلمانوں کے جان و مال تمام متحدہ قبائل عرب سے محفوظ رہے، ورنہ وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے مسلمانوں کو اچک لینے کے ارادے لے کر آئے تھے۔

اس نہایت نازک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں،ہر چندکہ یہ موقع مسلمانوں کی زندگی کے سب سے بڑے خطرے کا تھا۔قرآن شریف کے بیان کے مطابق ان کی زندگیوں پر ایک زلزلہ طاری تھا اور جانیں حلق تک پہنچی ہوئی تھیں۔مگر رسولِ خداؐ تھے کہ سب کےلیے ڈھارس، حوصلے اور سہارے کا موجب تھے۔

پہلے توآپؐ صحابہ کے ساتھ مل کر خندق کی کھدائی میں مصروف نظرآتے ہیں۔ کبھی کوئی سخت چٹان حائل ہوجاتی ہے، جو کسی سے نہیں ٹوٹتی تو خود خدا کا رسول وہاں پہنچتا ہے۔ حال یہ ہے کہ فاقہ سے دو پتھر پیٹ پر باندھ رکھے ہیں مگر کدال لے کر تین ضربوں سے پتھر کو ریزہ ریزہ کر چھوڑتے ہیں۔اس نازک موقع پر بھی خدا کے وعدوں پر ایمان و یقین کا یہ عالم ہے کہ وحی الہٰی کی روشنی میں صحابہ کے حوصلے بڑھاتے اور انہیں بتاتے ہیں کہ ہرضرب پر جو اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا گیا تو شام و ایران اور صنعاء و یمن کے محلات مجھے دکھائے گئے اور ان کی چابیاں مجھے عطا کی گئیں۔(مسند احمد جلد4صفحہ303)یہ سن کر ان فاقہ کشوں کے حوصلے کتنے بلند ہوئے ہوں گے ۔جنہیں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔

بعد کے حالات نے یہ بھی ثابت کیا کہ خندق کے ذریعہ محصورہو کر مسلمانوں کے دفاع کا فیصلہ کتنا مدبرانہ اور دانش مندانہ تھا۔ بلاشبہ وہ خندق نہتے مسلمانوں، معصوم بچوں اور عورتوں کےلیے متحدہ قبائل عرب کے خونخوار اوربپھرے ہوئے لشکروں سے پناہ کا ذریعہ بن گئی جو مدینہ کو لوٹنے اور مسلمان مردوں کو غلام اورعورتوں کو لونڈیاں بناکر ساتھ لے جانے کے ارادے سے نکلے تھے۔ مگر ایک طرف طویل محاصرہ نے ان کے حوصلے پست کیے تو دوسری طرف الہٰی نصرت مسلمانوں کے شامل حال ہوئی اورسخت سردی کے اُن ایام میں اچانک طوفانی آندھی سے سب لشکر پسپاہوگئے۔اُس وقت بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی عظمت کا نعرہ ہی بلند کیا اور فرمایا ‘‘لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، نَصَرَعَبْدَہ، وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ’’ کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جس نے اپنے لشکر کی مدد کی اورتنہا تمام لشکروں کو پسپاکردیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست کی عجیب شان بھی اس موقع پر ظاہر ہوئی آپؐ نے فرمایا کہ آئندہ کبھی اس طرح محصور ہوکرہم حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیں گے بلکہ آگے بڑھ کر دفاع کریں گے۔ (بخاری (67)کتاب المغازی باب 27)

بحیثیت سالارِ فوج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احساس ذمہ داری بھی غیر معمولی تھا۔ غزوہ خندق کے مخدوش حالات میں حفاظتی حکمت عملی بہت ضروری تھی۔جس میں اسلامی قیادت کی حفاظت سرِ فہرست تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخفی مقام پر رہائش رکھتے تھے اور صحابہ کے ایک خاص دستہ کے علاوہ عام لوگوںکو اُس جگہ کی خبر نہ ہوتی تھی۔حضورؐ کے ساتھ ڈیوٹی پر مامورصحابہ میں حضرت طلحہؓ ،حضرت زبیرؓ،حضرت علیؓ،حضرت سعدؓ، اور انصار میں سے حضرت ابودجانہؓ اورحضرت حارث ؓبن الصمہ تھے۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔جنگ احزاب کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نازک جگہ کی بڑی فکر رہتی تھی جہاں سے حملے کا خطرہ ہوسکتاتھا۔آپؐ اس پرہمہ وقت نظررکھتے تھے، جب بھی آکر سونے لگتے اور ذرا سی آہٹ پاتے تو اُٹھ کھڑے ہوتے۔ ایک دفعہ جو اسلحہ کی جھنکار سنی تو پوچھا کون ہے؟ یہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا کہ وہ اس نازک مقام پر پہرہ دیں۔اس رات رسول اللہؐ تسلی سے سوئے۔

(مجمع الزوائدلھیثمیجلد6صفحہ135بیروت)

غزوۂ ذیِ قرد

مسلمانوں کے خلاف پہلی جنگی کارروائی کا آغاز یہود کے حلیف قبائل غطفان کے ایک قبیلہ بنو فزارہ نے سنہ 7ھ میں کردیاتھا۔انہوں نے ذی قرد کی چراگاہ پر، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مویشی اونٹ وغیرہ چرایا کرتے تھے حملہ کردیا اور چند اونٹنیاں لُوٹ کرلے گئے۔ ایک بہادر نوجوان صحابی سلمہؓ بن الاکوع نے ان کا تعاقب کیا اور عین اس وقت جب وہ پانی کے ایک چشمہ پر محواستراحت تھے،تیروں کی بوچھاڑ کر کے ان کو بھگادیا اوراونٹنیاں واپس لے آئے۔ نبی کریمؐ کو اس اچانک حملہ کی خبر ہوئی تو آپؐ صحابہ کے ساتھ تشریف لائے۔بہادر سلمہؓ بن الاکوع نے آنحضرتؐ کی خدمت میں دشمن کا مزید تعاقب کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ میں نے انہیں چشمہ کا پانی نہیں پینے دیا تھا وہ سخت پیاسے ہیں اور آگے چشمہ پر ضرور مل جائیں گے۔ہمارے سیدومولا رحمۃ للعالمینؐ نے اس کا کیا خوبصورت جواب دیا۔ایک فقرہ کہہ کر گویا دریا کوزے میں بند کردیا۔نہیں نہیں بلکہ رحمتوں کا سمندرایک فقرے میں سمودیا۔ فرمایااے سلمہؓ اِذَا مَلَکْتَ فَاسْجَحْ کہ جب دشمن پر قدرت حاصل ہوجائے تو پھر عفو سے کام لیا کرتے ہیں۔

(مسلم (33)کتاب الجہاد والسیر باب 45)

اے رحمت مجسم ؐ! تجھ پر سلامتی ہو تجھ پر ہزاروں رحمتیں! ہم نے عفو کی تعلیم کے چرچے تو دنیا میں بہت سنے لیکن عفو و رحمت کے نمونے تیرے وجود باجود ہی سے دیکھے۔ تیرے ہی دم قدم سے عفوو کرم کے ایسے چشمے پھوٹے کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس سے فیضیاب ہوئے۔

فتح خیبر میں خلقِ عظیم

مسلمانانِ مدینہ کو جنوب کی سمت سے اہل مکہ کے حملہ کا خطرہ رہتا تھاتو شمال سے یہودِخیبرکا۔ صلح حدیبیہ اس طرح فتح خیبر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کہ مسلمان اس معاہدہ صلح کے باعث اہل مکہ کے خطرہ سے امن میں آگئے۔اب اُن کے لیے یہودِ خیبر کے شمالی خطرے سے نبٹناآسان تھا۔چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعدتین ماہ کی قلیل مدت میں ہی خیبر 7ھ میں فتح ہوگیا ۔

خیبر میں دس ہزار مسلح قلعہ بند یہودیوں کے مقابل پر اپنے لشکر کو محض حدیبیہ کے چودہ سواصحاب میں محدود کردیناجنگی نقطہ نگاہ سے بظاہر مناسب نظر نہیں آتالیکن آنحضرت ؐ کے پیش نظریہ ضابطۂ اخلاق تھاکہ محض مالِ غنیمت کی نیت سے کوئی شخص ہمارے لشکر میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 38مطبوعہ بیروت)یہ پاکیزہ نمونہ بڑی شان کے ساتھ ہمیشہ اس الزام کی نفی کرتا رہے گا کہ اسلامی جنگوں کا مقصد محض لوٹ مار اور حصول غنیمت تھا۔

صنفِ نازک کی عزت افزائی

قدیم زمانہ میں رواج تھا کہ جنگ میں مردوں کا حوصلہ بڑھانے، رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور دل بہلانے کے لیے عورتیں بھی شریک جنگ ہوتی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کاجو تقدس اور احترام قائم فرمایا اس لحاظ سے آپؐ کو یہ طریق سخت ناپسند تھا۔خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص کچھ خواتین کو زخمیوں کی مرہم پٹی، تیمارداری اور دیکھ بھال کے لیے ساتھ چلنے کی اجازت فرمائی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاکیزہ خیال کو ایک فرانسیسی عیسائی سوانح نگاریوں بیان کرتا ہے کہ

‘‘شاید تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی لشکر کے ساتھ عورتیں نرسنگ کی خدمات اور زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے شامل ہوئیں، ورنہ اس سے پہلے جنگ میں عورت سے تحریضِ جنگ اور حظِّ نفس کے سواکوئی کام نہیں لیا جاتا تھا ۔عورت سے درست اور جائز خدمات لینے کے بارہ میں اب تک کسی نے نہ سوچا تھا کہ میدان جنگ میں تیمارداری اور بیماروں کی دیکھ بھال کی بہترین خدمت عورت انجام دے سکتی ہے۔’’

(حیات محمد تالیف امیل درمنغم صفحہ250-251)

جرنیل…سپاہیوں کے ساتھ

فتح خیبر سے واپسی پرپڑاؤ خیبر سے تین میل اِدھر صہباءمقام پر ہوا۔ یہاں نماز عصر کے بعد حضورؐ نے کھانا طلب فرمایا اور اپنے سپاہیوں سے فرمایا کہ جس کے پاس جو زاد راہ ہے وہ لے آئے۔ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے۔ دسترخوان بچھائے گئے اور کھانا چنا گیا۔ہمارے آقا کا وہ کھانا کیا تھا ؟جو کے ستو اور کچھ کھجوریں جو آپؐ نے اپنے خدام کے ساتھ مل کر تناول فرمائیں۔(بخاری54) یہ نظارہ کتنا دلکش ہے جس میں آقا اپنے غلاموں کے ساتھ کمال سادگی، انکساری اور بے تکلفی سے ستو اور کھجور کا ماحضر تناول کرتا نظر آتاہے۔

فتح مکہ میں ظاہر ہونے والے خلقِ عظیم

قریش مکہ کے لشکر بدر اوراحدمیں مدینے کے گنتی کے چندمجبور اورنہتّے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے ۔پھرجنگ احزاب میں تو سارا عرب مسلمانان مدینہ پر چڑھ آیا اور اہل مدینہ نے شہر کے گرد خندق کھود کر اور اس میں محصور ہوکر جانیں بچائیں۔آپؐ ہمیشہ دفاع ہی کرتے رہے۔ خانہ کعبہ کے حقیقی متولی مسلمانوں کو یہ اجازت بھی نہ تھی کہ وہ خدا کے گھر کا طواف ہی کرسکیں۔ چنانچہ 6ھ میں چودہ سو مسلمانوں کو جو طواف بیت اللہ کی غرض سے مکہ جارہے تھے حدیبیہ سے واپس لوٹادیا گیا۔اسی موقع پر معاہدہ صلح کی شرائط طے ہوئیں۔

صلح کا شہزادہ

فتح مکہ کے موقع پر ایک دفعہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلق عظیم پر فائز ہونے کی بے نظیر شان دنیانے دیکھی۔ہر چند کہ قریش مکہ نے صلح حدیبیہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف بنی خزاعہ پر شب خون مار کر معاہدہ توڑدیا۔پھربھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے صلح کی طرح ڈالتے نظر آتے ہیں۔چنانچہ آپؐ نے معاہدہ شکنی کرنے والوں کی طرف اپنا سفیر تین شرائط میں سے کسی ایک شرط پر صلح کی پیشکش کے ساتھ بھیجا کہ ہمارے حلیف خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہاادا کردو یا بنو بکر کی طرف داری سے الگ ہوجاؤ یا حدیبیہ کی صلح توڑنے کا اعلان کردو۔ مسلمانوں کے اس سفیر کو جواب ملا کہ ہم حدیبیہ کی صلح توڑتے ہیں۔

(المواھب اللدنیۃ للزرقانیجلد 2صفحہ292مطبوعہ بیروت)

سفر مکہ کے افشائے راز کا خطرہ

تب رسول خداﷺ نے نہایت خاموش حکمت عملی کے ساتھ مکہ کوچ کرنے کا قصد فرمایا اور تدابیر کے ساتھ دعائیں بھی کیں کہ قریش کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔اس تمام کاوش کا مقصد قریش کو کشت و خون سے بچانا تھا۔

لیکن لشکر اسلام کی اس خاموش تیاری کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے مکہ پرچڑھائی کا راز کھل جانے کا سخت خطرہ پیداہوگیا۔ہوا یوں کہ ایک صحابی حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے مکّہ جانےوالی ایک عورت کے ذریعے قریش کو خط لکھ کر یہ اطلاع بھجوادی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر تیار ہے۔ یہ معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچاؤ کرلو۔ میرا مقصد اس خط سے تم پر ایک احسان کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مخبری کی اطلاع کردی۔ آپؐ نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت علی ؓ کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں بھیجاجو یہ خط واپس لے آئے۔رسول کریمؐ نے حاطب ؓ کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کیاکیا؟ حاطب ؓ نے سچ سچ کہہ دیا کہ یا رسول اللہؐ میں قریش میں سے نہیں ہوں مگر اس خط کے ذریعے میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ مکے میں میرے گھر بار کی حفاظت کریں۔حضرت عمر ؓ اس مجلس میں موجود تھےوہ کہنے لگے۔ یارسول اللہ ؐ !مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف عمرؓ کی سختی پر تحمل سے کام لیا تو دوسری طرف حاطبؓ کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا عمر ؓ! تم جانتے نہیں یہ شخص جنگ بدر میں شامل ہوا تھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور ان کے حق میں فرماتا ہے اِعْمَلُوْ امَاشِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ کہ جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے دلوں میں گناہ کی ایسی نفرت ڈال دی ہے کہ بالارادہ ان سے کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔

(بخاری (67)کتاب المغازی باب 44)

اس رؤوف و رحیم رسول ؐکی شفقت بے پایاں کا یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ کرحضرت عمرؓ بے اختیار رونے لگے ۔ان کی حیرانی بجاتھی کہ اپنی زندگی کے اہم،نازک ترین اور تاریخ ساز موڑ پر توکوئی بھی فاتح اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی روک کو قطعاً برداشت نہیں کیا کرتا۔ ایسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کی بھی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور آئندہ خطرے سے بچنے کے لیے کم ازکم احتیاط یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے قومی مجرم کو زیر حراست رکھا جائے، لیکن دیکھو اس دربار عفو و کرم کی شان دیکھو جس سے حاطبؓ کے لیے بھی مکمل معافی کا اعلان جاری ہوا۔

حیرت ناک حکمت عملی

مرالظہران کے وسیع میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداداد فراست کو کام میں لاتے ہوئے جنگی حکمت عملی کا ایک حیرت انگیز منصوبہ بنایا۔ آپؐ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ مختلف ٹیلوں پر بکھر جائیں اور ہر شخص آگ کا ایک الاؤ روشن کرے۔اس طرح اس رات دس ہزار آگیں روشن ہوکر مرالظہران کے ٹیلوں پر ایک پر شکوہ اور ہیبت ناک منظر پیش کرنے لگیں۔

(بخاری (67)کتاب المغازی باب 44)

ابو سفیان کو معافی

اُدھر ابو سفیان اور اس کے ساتھی سردار رات کو شہر مکہ کی گشت پر نکلے تو یہ ان گنت روشنیاں دیکھ کر واقعی حیران و ششدر رہ گئے۔ابو سفیان کہنے لگا خدا کی قسم میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر اور آگیں نہیں دیکھیں۔وہ ابھی یہ اندازے ہی لگا رہے تھے کہ اتنا بڑا لشکر کس قبیلے کا ہوسکتا ہے؟ کہ حضرت عمرؓ کی سرکردگی میں مسلمانوں کے گشتی دستے نے ان کو پکڑ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔اس موقع پرحضرت عمرؓ نے دشمن اسلام ابو سفیان کو قتل کرنا چاہا لیکن آنحضرتؐ تو اس کے لیے پہلے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابوسفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے ۔یہ گویا آپؐ کی طرف سے ابو سفیان کی ان مصالحانہ کوششوں کا احترام تھا جو اس نے معاہدہ شکنی کے خوف سے مدینے آکر چالاکی سے کی تھیں اور ان کی کوئی قیمت نہ تھی،لیکن آپؐ کی رحمت بھی تو بہانے ڈھونڈتی تھی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4صفحہ 90مطبوعہ بیروت)

چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابو سفیان کو پناہ دی۔صبح جب ابو سفیان دوبارہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا۔‘‘ابو سفیان!کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم گواہی دو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ’’تب ابو سفیان نے بے ساختہ یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ نہایت حلیم ، شریف اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتاوہ ضرور ہماری مدد کرتا البتہ آپؐ کی رسالت کے قبول کرنے میں ابھی کچھ تامّل ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4صفحہ46 مطبوعۃ مکتبۃ المصطفی البابی الحلبی مصر)

حضرت عباسؓ کوارشاد ِرسولؐ ہوا کہ جب اسلامی لشکرمکّہ کی جانب روانہ ہو تو ابو سفیان کو کسی بلندجگہ سے لشکر کی شان و شوکت کا نظارہ کرایا جائے، شایدیہ دنیا دار شخص اس سے مرعوب ہوکر حق قبول کر لے۔ دس ہزار قدوسیوں کا لشکر چلا، ہر امیرِ فوج جھنڈا بلند کیے دستہ کے آگے تھا۔انصاری سردار سعد بن عبادہؓ اپنادستہ لیکر ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو جوش میں آکرکہہ گئے۔

اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃْ

اَلْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃَ

آج جنگ و جدال کا دن ہے آج کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے۔ (بخاری(67)کتاب المغازی 46)
نبی کریم ؐنے اپنے اس کمانڈر کوجو ایک طاقت ورقبائلی سردارتھا معزول کردیا کہ اس نے حرمت کعبہ کے بارے میں ایک ناحق بات کیوں کہہ دی اور ابو سفیان کا دل بھی دُکھایا۔اس دشمن اسلام ابو سفیان کا جو مفتوح ہو کر بھی ابھی آپؐ کی رسالت قبول کرنے میں متامل تھا۔ اے دنیا والو!دیکھو اس عظیم رسولؐ کے حوصلے تو دیکھو، عین حالت جنگ میں جرنیلوں کی معزولی کے تمام خطروں سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ سعد سے اسلامی جھنڈا واپس لے لیا جائے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4صفحہ 9مطبوعہ بیروت)

مگر ہاں اس محسن اعظم کے احسان پر بھی تو نظر کرو کہ غیرت اسلام کے جوش میں سر شار ایسا نعرہ بلند کرنے والے جرنیل سعدؓ کا بھی آپؐ کس قدر لحاظ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی دوسرا حکم یہ صادر فرماتے ہیں کہ سعدؓ کی بجائے سالارِ فوج ان کے بیٹے قیس بن سعدؓ کو مقرر کیا جاتا ہے۔

(سیرت الحلبیۃ جلد 3صفحہ 95-90)

کیا جنگوں کی ہنگامہ خیزیوں میں بھی کبھی اپنے خدام کے جذبات کا ایسا خیال رکھا گیا ہے؟ نہیں نہیں یہ صرف اس رحمۃللعالمین کا ہی خلقِ عظیم تھا جو سزا میں بھی رحمت و شفقت اور احسان کا پہلو نکال لیتے تھے۔

فتح مکہ۔عظمتِ اخلاق کا بلند ترین مینار

فاتحین عالم کے اس دستور سے کون ناواقف ہوگا کہ شہروں میں داخلے کے وقت آبادیوں کو ویران اور ان کے معزز مکینوں کوبے عزت اور ذلیل کردیا جاتا ہے، لیکن رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی عظیم ترین فتح کو بھی تو دیکھو جہاں آپؐ کی عظمتِ اخلاق کا سب سے بلند اور روشن ترین مینار ایستادہ ہے۔جب دس ہزار قدوسیوں کا لشکر مکہ کے چاروں اطراف سے شہر میں داخل ہوا تو قتل و غارت کا بازار گرم ہوا نہ قتل عام کی گرم بازاری بلکہ امن و سلامتی کے شہنشاہ کی طرف سے یہ فرمان شاہی جاری ہوا کہ ‘‘آج مسجد حرام میں داخل ہونےوالے ہر شخص کو امان دی جاتی ہے ۔امان دی جاتی ہے ہر اس شخص کو جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے یا اپنے ہتھیار پھینک دے اپنا دروازہ بند کر لے اور ہاں جو شخص بلال حبشیؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے اسے بھی امان دی جاتی ہے۔’’(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 97مطبوعہ بیروت،السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4صفحہ 90,91)اس اعلان کے ذریعہ جہاں خانہ کعبہ کی حرمت قائم کی گئی وہاں دشمن اسلام ابو سفیان کی دلداری کا بھی کیسا خیال رکھا گیا یہی وہ اعلیٰ اخلاق تھے جس سے بالآخرابو سفیان کا دل اسلام کے لیے جیت لیا گیا اور اسے اس تالیف قلب کے ذریعہ نبی کریمؐ کی رسالت پر ایمان نصیب ہوا۔

بلالؓ کے جذبات کا خیال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بلال ؓ کے جھنڈے کو امن کا نشان قرار دینا بھی علم النفس کے لحاظ سے آپؐ کے اخلاق فاضلہ کی زبردست مثال ہے، کوئی وقت تھا جب مکے کے لوگ بلالؓ کو سخت اذیتیں دیا کرتے تھے اور مکے کی گلیاں بلالؓ کے لیے ظلم و تشدد کی آما جگاہ تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا آج بلال ؓکا دل انتقام کی طرف مائل ہوتا ہوگا ، اس وفا دار ساتھی کا انتقام لینا بھی ضروری ہے۔لیکن ہمارا انتقام بھی اسلام کی شان کے مطابق ہونا چاہیے پس آپؐ نے گردنیں کاٹ کر بلال ؓ کا انتقام نہیں لیا بلکہ بلال ؓ جو کبھی مکّہ کی گلیوں میں ذلت اور اذیت کا نشان رہ چکا تھا۔آج نبی کریمؐ نے اسے اہل مکہ کے لیے امن کی علامت بنا دیا۔بلال کے دشمنوں کو بھی معاف کردیا اور بلالؓ کے جذبات کا بھی خیال رکھا۔

اس دن قریش کے جو آدمی مارے گئے ان کی تعداد دس سے اٹھائیس تک بیان کی جاتی ہے۔ اگر کفار کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو یہ خون بھی نہ بہتا۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد 4صفحہ 97,98مطبوعہ بیروت)

فتح مکّہ پر عجزو انکسار کا عجیب منظر

ہمارے سیّدو مولا کے شہر میں داخل ہونے کا منظر بھی دیکھنے کے لائق تھا۔شہر کا شہر اس عظیم فاتح کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب اورمنتظرتھا۔ اہل شہر سوچتے ہوں گے کہ فاتح مکہ آج فخر سے سر اونچا کیے شہر میں داخل ہوگا لیکن جب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاہی سواری آئی تو وہاں کچھ اور ہی منظر تھا۔رب جلیل کایہ پہلوان حفاظتی خود کے اوپرسیاہ رنگ کا عمامہ پہنے اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھا اور سرخ رنگ کی یمنی چادر پہلو پر تھی۔سواری پر پیچھے اپنے وفادار غلام زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ کو بٹھایا ہوا تھا۔دائیں جانب ایک وفادار ساتھی حضرت ابو بکر ؓ تھے اور بائیں جانب حضرت بلال ؓ اور اُسید بن حضیرؓ انصاری سردار تھے۔

(بخاری(67)کتاب المغازی باب 47)

فتح مکہ کے دن امن کے اعلان عام کی خاطررسولِؐ خدا نے سفید جھنڈا لہرایا جب کہ بالعموم آپؐ کا جھنڈا سیاہ رنگ کا ہوا کرتا تھا۔مکّہ میں داخلہ کے وقت رسول ؐاللہ سورۃ فتح کی آیات تلاوت فرمارہے تھے اور آپؐ کی سواری شہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔پھروہ موڑ آیا جس سے مکّہ میں داخل ہوتے ہیں وہی موڑ، جہاں آٹھ سال پہلے مکّہ سے نکلتے ہوئے آپ ؐنے وطن عزیز پر آخری نگاہ کرتے ہوئے اسے اس طرح الوداع کہا تھا کہ‘‘اے مکہ! تو میرا پیارا وطن تھا اگر تیری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا’’

سرولیم میور لکھتے ہیں کہ

‘‘خدشہ تھا کہ شاید اس جگہ نبی کریم کو مکہ میں داخلہ سے روکنے کے لیے مزاحمت ہومگر اللہ کی شان کہ خدا کا رسول آج نہایت امن سے اپنے شہر میں داخل ہورہا تھا۔’’

(لائف آف محمد صفحہ 426ازسرولیم میور)

اس موقع پر مفتوح قوم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی فتح کے دن غرور اور تکبر کے کسی اظہار کی بجائے خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر اس عظیم فاتح کا سر عجزوانکسار اور شکر کے ساتھ جھک رہا تھا حتی ٰکہ جھکتے جھکتے وہ اونٹنی کے پالان کو چھونے لگا دراصل آپؐ سجدۂ شکر بجالا رہے تھے اور یہ فقرہ زبان پر تھا ۔اَللّٰھُمَّ لَاعَیْشَ اِلَّاعَیْشَ الْآخِرَۃَ کہ اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔دنیا کی فتوحات کی کیا حقیقت ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4 صفحہ 91 مطبوعہ بیروت)

فتح مکہ میں جانی دشمنوں سے عفو

حضورؐ طواف سے فارغ ہوکرجب باب کعبہ کے پاس تشریف لائے تو آپؐ کے تمام جانی دشمن آپؐ کے سامنے تھے۔آپؐ نے اس جگہ وہ عظیم الشان تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اپنے خونی دشمنوں کے لیے معافی کا اعلان تھا،مساوات انسانی کا اعلان تھا، کسی غرور کی بجائے فخرو مباہات کالعدم کرنے کا اعلان تھا۔ یہ معرکہ آراء خطبہ بھی دراصل آپؐ کے خلق عظیم کا زبردست شاہکار ہے۔آپؐ نے فرمایالاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَاشَرِیْکَ لَہ، نَصَرَ عَبْدَہ، وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ۔اے لوگو !خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔اس نے فتح کے جو وعدے اس عاجز بندے سے کیے تھے وہ آج پورے کر دکھائے ہیں۔اس خدائے وحدہٗ لاشریک نے اپنے اس کمزور بندے کی مدد کر کے اس کے مقابل پر تمام جتھوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔آج تمام گذشتہ ترجیحات اور مفاخر اور تمام انتقام اور خون بہا میرے قدموں کے نیچے ہیں۔میں ان سب کو کالعدم قرار دیتا ہوں۔اے قوم قریش !اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کا غرور اور نام و نسب کی بڑائی ختم کردی ہے۔تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنا تھا۔پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی یٰۤاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍوَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:14)کہ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپؐ اس میں ایک دوسرے کی پہچان کرو۔یقینا ًخدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4صفحہ31)

پھر آپؐ نے فرمایا:

‘‘اے مکّہ والو! اب تم خود ہی بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں’’؟ اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے توان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان سے حسن سلوک کیا۔آپؐ نے فرمایا ‘‘اِذْ ھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ’’کہ جاؤ تم سب آزاد ہو صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے رب سے بھی تمہارے لیے عفو کا طلب گار ہوں۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4صفحہ94مطبوعہ مصر)

یہ وہ سچا عفو تھا جس کے چشمے میرے آقا کے دل سے پھوٹے اور مبارک ہونٹوں سے جاری ہوئے ۔اس رحمت عام اور عفو تام کو دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہے۔

لیا ظلم کا عفو سے انتقام

عَلیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام

فتح مکّہ پرجانی دشمنوں اور جنگی مجرموں پر احسانات

فاتحین عالم کی فتوحات کی یادیں ان کی ہلاکت خیزیوں اور کھوپڑیوں سے تعمیر کیے جانے والے میناروں سے وابستہ ہوتی ہیں مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مکہ کی فتح تو آپؐ کے عفو عام اور رحمت تام کا وہ روشن مینار ہے جس کی کل عالم میں کوئی نظیر نہیں،سوائے چند مجرموں کے جو اپنے جرائم کی بنا پر واجب القتل تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار سے عام معافی کا اعلان ہوا۔ دراصل یہی آپؐ کی وہ اخلاقی فتح تھی۔جس نے آپؐ کے اہل وطن کے دل جیت لیے۔ان دس واجب القتل مجرموں میں سے بھی صرف تین اپنے جرائم پر اصرار کرنے اور معافی نہ مانگنے کی وجہ سے مارے گئے۔ ایسے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا عدل و انصاف کا تقاضا بھی تھا اور معاشرہ پر احسان بھی کیونکہ وہ اپنے جرم پر مُصر تھے ورنہ اس دربار سے تو عفو کا کوئی بھی سوالی خالی ہاتھ لوٹا نہ معافی سے محروم ہوا۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ۔
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button