دورہ یورپ ستمبر؍ اکتوبر 2019ء

کیا آج مذہبِ اسلام مغربی تہذیبوں سے متصادم ہے!!؟؟

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

جرمنی کے دار الحکومت برلِن میں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا معرکہ آرا خطاب

بحیثیت کامل اور عالمی مذہب اسلام کے انسانی حقوق کا علم بردار ہونے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اس کے کردار پر بصیرت افروز بیان

جرمنی کی پارلیمنٹ کے ممبران سمیت متعدّد مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کی شرکت

(برلِن، 22؍ اکتوبر 2019ء، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس وقت دورۂ یورپ کے دوران جرمنی کے دارالحکومت برلِن میں رونق افروز ہیں۔ حضورِ انور نے آج جرمن پارلیمنٹ، امریکی و برطانوی سفارت خانوں اور دنیا بھر میں جرمنی کی پہچان برانڈن برگ دروازے(Brandenburg Gate) سے چند قدم دورواقع Hotel Adlon Kempinski کےایک ہال میں منعقد ہونے والی پُروقار تقریب سے ‘‘کیا آج مذہبِ اسلام مغربی تہذیب و تمدن سے متصادم ہے!!؟؟’’کے موضوع پربصیرت افروزخطاب فرمایا۔ اس نشست میں جرمن پارلیمنٹ کے ممبران نیز مذہبی، سیاسی اور سماجی اعتبارسے متعدّد ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ اس ہوٹل میں مختلف سربراہانِ مملکت کے ساتھ منعقد کی جانے والی سرکاری تقریبات کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ سو آج اس کی خوش نصیبی کہ عالمِ روحانی کے ‘‘بادشاہ’’ اس میں جلوہ افروز ہوئے۔

ہوٹل کی گیلری میں لگائی گئی نمائش کا منظر

ہال میں داخلے سے پہلے موجود وسیع گیلری کو بڑے بڑے زمین پر لگائے گئے قد آدم پوسٹرز (pull up banners) سے سجایا گیا تھا جن پر1883ء سے1967ء کے دوران جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں ہونے والے بعض اہم واقعات کو باتصویر پیش کیا گیا تھا۔ ان میں جرمن خاتون کا حضرت مسح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام خط اورجرمن قید و بند میں مبتلا احمدیوں کے خطوط کے عکس نیز حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورۂ جرمنی 1955ء اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کےدورہ جرمنی1967ء کی جھلکیاں شامل تھیں۔ مہمانوں نے نمائش کو پوری دل چسپی سے دیکھا۔ شعبہ تبلیغ کی طرف سے ڈیوٹی پر مامورنوجوان کارکنان مہمانوں کو تفاصیل بتانے کے لیے ہر پوسٹر کے پاس موجود تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ہوٹل میں رونق افروز ہو رہے ہیں

اس تقریب میں شرکت کے لیے حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مقامی وقت کے مطابق چھے بجے کے قریب ہوٹل میں رونق افروز ہوئے۔ ہوٹل کے صدر دروازے پر حافظ فرید احمد خالد سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ جرمنی نے حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا اورحضور کوملاقات کے کمرے تک لے گئے جہاں معزز ممبران اسمبلی خاتَم الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کےغلامِ صادق اورخاتم الخلفاء امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پانچویں خلیفہ سے ملاقات کے منتظر تھے۔

کرسچین ڈیموکریٹک یونین(CDU) سے تعلق رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ فرانک ہائن رِش (Frank Heinrich) حضورِ انور کا استقبال کر رہے ہیں

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز Hotel Adlon کی پہلی منزل پر موجود ہال میں سات بج کر 10 منٹ پر رونق افروز ہوئے۔ حضورِ انور کے کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ (سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ جرمنی) نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور تقریب کے آغاز پر تلاوتِ قرآنِ کریم کے لیے مکرم جری اللہ (مبلّغ سلسلہ) کو دعوت دی جنہوں نے سورۃ الحجرات کی آیات 13 اور 14 کی تلاوت اور جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ سیکرٹری امورخارجہ جماعت احمدیہ جرمنی نے بعض خصوصی مہمانوں کی تشریف آوری پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان، اکیڈیمیا سے تعلق رکھنےوالےمعززین نیز مختلف مذاہب کے نمائندگان کاذکر تھا۔

اس کے بعد مکرم امیر صاحب جماعت جرمنی نے جماعت احمدیہ کےبارے میں تعارفی خطاب پیش کیا۔ مکرم امیر صاحب نےذکرکیا کہ موجودہ معاشرتی صورتِ حال کے پیش نظر آج کے پروگرام کو تشکیل دیا گیا ہے۔ آپ نے جماعت احمدیہ کی تعلیمات کے حوالے سے بتایا کہ جماعت احمدیہ جرمنی میں خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لیتی ہے۔ موصوف نے جماعت احمدیہ کےختم بنوت پرایمان لانے، آنحضرت ﷺ کو آخری شرعی نبی ماننےاور حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے حوالے سے ذکر کیاکہ آپؑ کی بعثت کا مقصد مخلوق کو خالق سےملانا ہے۔ مکرم امیر صاحب نےبتایا کہ 1920ء کی دہائی میں برلن میں جماعت احمدیہ کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیااور1957ء میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہمبرگ میں تعمیر کی گئی اور اس کے بعد فرانکفرٹ میں بھی جماعت احمدیہ نے ایک مسجد تعمیر کی۔ آخر پر موصوف نے بتایا کہ جرمنی میں 50 ہزار کے قریب احمدی افراد موجود ہیں جو معاشرے میں مختلف فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ جرمنی میں 2008ء سے جامعہ احمدیہ بھی قائم ہے جہاں مبلغین تیار ہوتے ہیں۔ اسی طرح جماعت احمدیہ جرمنی کے تحت ‘النصرت’ تنظیم قائم ہے جو ملک میں فلاح و بہبود کاکام کرتی ہے۔

امیر صاحب کے تعارفی کلمات کے بعد مختلف معززین کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی ۔

سب سےپہلے مکرمFrank Heinrichنے جو CDU پارٹی کی طرف سے ممبر جرمن پارلیمنٹ ہیں تقریر کی۔ موصوف نے کہا کہ جب میں جماعت احمدیہ کے بارے سوچتا ہوں تو دو قسم کے جذبات میرے دل میں ابھرتے ہیں۔ خوشی کے اور دکھ کے۔ خوشی کے جذبات اس بات کو دیکھ کر پیدا ہوتے ہیں کہ آپ کی بہت سی چیزوں پر‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’لکھاہوتا ہے۔ اسی طرح میں نے آپ کا جلسہ سالانہ دیکھا۔وہاں 34؍ہزارلوگوں کی موجودگی میں ہمیں مذہبی آزادی کےحوالے سے بولنےکاموقع دیا جاتا ہے۔یہ دیکھ کر بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔

لیکن پاکستان میں آپ کی مشکلات کے بارے سوچ کر اوردائیں بازو کے حمایتی افراد کی طرف سے آپ کو ظلم کا نشانہ بنائے جانے کو دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتاہے۔ موصوف نے کہا کہ میں نے آج پڑھا کہ احمدیہ مسلم جماعت واحد جماعت ہے جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہےجو بہت کم لوگوں کومعلوم ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات کی تشہیر کرنی چاہیے۔ آخر پر موصوف نے کہا کہ ہمیں عملی طور پر اس بات کا اظہار کرنا چاہئے کہ ہم یہاں مذہب پر آزادی کےساتھ عمل کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد مسٹر Omid Nouripour ممبر آف پارلیمنٹ نےخطاب کیا۔ موصوف نےدعوتِ کلام ملنے پر شکریہ ادا کیااور کہا کہ گو کہ میں آپ کے ساتھ بہت سی باتوں میں اختلاف رکھتاہوں لیکن یہ ایک اچھے قسم کااختلاف ہے۔ موصوف نے کہا کہ کون مسلمان ہے کون نہیں، کون مومن ہےکون نہیں یہ بہت بڑا سوال ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس کے بارے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہر ایک کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کیا ہے اور کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں آپ کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔ موصوف نے مختلف ممالک میں اقلیتوں پر ہونےوالے مظالم کا ذکر کیا اور کہا کہ ان تمام مظالم پر جماعت احمدیہ کا جواب ‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’ ہوتاہے جو سب سے بہترین جواب ہے۔ آخر پرموصوف نے جماعت کے فلاحی کاموں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا اور حضور انور کی یہاں تشریف آوری پرمسرت کا اظہار کیا۔

اس تقریب میں اظہارِ خیال کرنے والے آخری مہمان Mr Nils Ännen (ڈپٹی فارن منسٹر آف جرمنی) تھےجوکہ وفاقی وزیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ موصوف نے کہا کہ1949ءمیں آج سے70سال قبل ہماری کانسٹیٹیوشن معرض وجود میں آئی جس کی بنا پر ہر کوئی اس ملک میں آزادی کے ساتھ رہنے کا حقدار ہے۔ اس ملک میں مختلف مذاہب کےلوگ موجود ہیں جوایک خوش آئند بات ہے۔ مگر یہ چیز ایک جدّو جہد کا پھل ہےجو ہم کھا رہےہیں۔ موصوف نے بتایا کہ اسی سال یعنی 1949ءمیں ہی ہمبرگ کے ایک ریڈیو چینل سے اسلام کے بارے پہلا لیکچر جماعت احمدیہ کے مبلغ شیخ ناصر صاحب نے دیا۔ موصوف نےبتایا کہ جرمنی میں جماعت احمدیہ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کی ہمبرگ میں تعمیر ہونےوالی پہلی مسجد ‘فضل عمر’کے حوالے سےانہوں نے بتایا کہ یہ مسجد 1957ء میں تعمیر کی گئی اور اس کے ساتھ میرا بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ میں خود اس شہر میں رہتا ہوں اور آپ کی جماعت کے افراد اس شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ موصوف نے کہا کہ میرے خیال سے جماعت احمدیہ جرمنی میں مبلغین تیار کر کے بہت بڑا کام کر رہی ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آخر پر موصوف نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق دنیا میں قائم کرنے کے حوالے سےجرمنی کا بہت بڑا نام ہے۔ اس لیے ہم پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کے بارے ضرور کام کریں گے۔

خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مہمانوں کی تعارفی تقاریر کےبعد امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سات بج کر بیالیس منٹ پر منبر پر تشریف لائے اور تسمیہ اور اس کے انگریزی ترجمے کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز فرمایا۔ حضورِ انور نے تمام مہمانوں کو ‘السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ’ کی خوبصورت دعا دینے کے بعد ان کا اس تقریب میں تشریف لانے پر شکریہ ادا کیا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج دنیا میں بالخصوص مغربی ترقی یافتہ ممالک میں امیگریشن اور اس کے معاشرے پر پیدا ہونے والے اثرات پر بحثیں ہو رہی ہیں اور ان بحثوں کا اکثر نشانہ مسلمان ہوتے ہیں۔ حکومتیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان کے معاشرے کے لیے، ان کے تہذیب اور تمدّن کے لیے خطرہ ہیں اور مغربی معاشرے میں گھل مل نہیں سکتے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تہذیب و تمدّن کی تعریف کیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے الفاظ میں تہذیب کسی قوم یا کسی معاشرے کی مادی ترقی کو کہا جا سکتا ہے۔ اوراس کی متعدّد شاخیں ہو سکتی ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ تہذیب اور ثقافت میں فرق ہے۔ ثقافت یا کلچر لوگوں کے خیالات کے اظہارکرنے کے طریق ، ان کے معاشرتی معاملات کے بارے میں نظریات، ان کی اخلاقیات اور مذہبی روایات وغیرہ کا مجموعہ ہوتا ہے۔ چنانچہ تہذہب یاcivilization مادی یا تکنیکی امور میں ترقی کو کہا جا سکتا ہے جبکہ ثقافت ایک معاشرے کی مذہبی، اخلاقی اور فلسفیانہ ترقی شمار ہو گی۔

حضورِانور نے فرمایا مثلاً عیسائیت کے آغاز کے وقت رومن ایمپائرپوری دنیا پر مسلّط تھی اور آج بھی رومن تہذیب و تمدّن کو دنیا کا عظیم ترین تمدّن گردانا جاتا ہے۔ رومن تمدّن اور تہذیب وہ طریق تھا جس کے مطابق انہوں نے دنیا میں حکومت کی۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کیے۔ لیکن ان کی ثقافت اخلاقیات کے اعلیٰ معیاروں پر پوری نہیں اترتی تھی۔ چنانچہ جب عیسائیت کا ظہور ہوا تو اس نے انسان کو مذہب اور اخلاقی اصولوں پرچلتے ہوئے معاشرے میں رہنا سکھایا۔ جبکہ رومن لوگوں نے حکومت کے اصول بیان کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسیحیت رومن ایمپائر کا مذہب بن گیا اور اس طرح رومنز کی ثقافت پر مسیحی تعلیمات کی چھاپ نظر آنے لگی۔ اور آج کے دَور میں بھی مغربی ثقافت ان ہی اصولوں پر قائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا مذہب سے ہی دورجا رہی ہے۔

امیگریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ ملکوں کے جغرافیائی حالات بدل رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان ہجرت کر کے مغربی ممالک میں آ گئے ہیں۔ یہاں کے رہائشی سمجھتے ہیں کہ ان کی تہؔذیب و تمدّن ،ثقافت اور اخلاقی اقدار کو مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ تہذیب و تمدّن سے مراد ایک معاشرے کی مادی ترقی ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرتے ہیں اس لیے میرے مطابق معاملہ اس کے برعکس ہے جو آپ سمجھتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں پوری دنیا ایک ہو رہی ہے۔ سفروں کی سہولیات پیدا ہو جانے، انٹرنیٹ اور ٹی وی کے ذریعہ معلومات میسّر آنے کی وجہ سے غریب ممالک کے لوگ مغربی ممالک کے طرزِ زندگی کو دیکھتےہیں اور اسی طرح کی زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی سہولیات بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مغربی ممالک میں میسّر ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس لیے مغربی تہذیب کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کو زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر یہ کہا جائے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام سے مغرب کی مذہبی اقدار کو خطرہ ہے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے اور اس پر میں بات کروں گا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں مردم شماری کی جاتی ہے اعداد و شمار کے مطابق لوگ مذہب کو چھوڑ رہے ہیں۔ اس لیے لا مذہبیت اسلام سے بھی زیادہ مذہب کے لیے خطرہ ہے۔ بالخصوص عیسائی اور یہودی مذاہب کو تو لا مذہبیت سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ آج کے دور میں مذہب کو ان لوگوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے جو مذہب کی تمام شکلوں کی نفی کرتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم سب کو لوگوں کو مذہب کی طرف لانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے چاہے وہ عیسائیت ہو، یہودیت ہو یا اسلام۔ ترقی کے نام پر ہمیں صدیوں سے چلے آنے والے مذاہب کو چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ لوگوں کی اسلام سے خطرہ محسوس کرنے کی بنیادی وجہ مذہب سے دوری ہے کیونکہ مسلمان ظاہری طور پر اپنے مذہبی عقائد پرعمل کرتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اسلام سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

مسلمان جو اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام آخری اور کامل مذہب ہے۔ اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ مذہب ایک انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا تعلق اس کے دل سے ہے۔ مسلمان کسی بھی حال میں اپنے مذہب کو زبردستی نہیں پھیلا سکتے۔ آج کل معاشرے میں شدّت پسندی اختیار کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اوروہ لوگ قرآنِ کریم کے اصولوں پر عمل کرنے کی بجائے اس کے سراسر خلاف عمل کر رہے ہیں لہٰذا حکومتی انتظامیہ کو شدّت پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنا چاہیے چاہے وہ مسلمان ہوں یا کوئی اور۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم جب ہر ایک کو مذہبی آزادی دیتا ہے تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ لوگ یہ تحفظات رکھیں کہ مسلمان ان کی تہذیب و تمدّن کو ختم کر دیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ میں اس مختصر وقت میں اسلام کی تمام تعلیمات تو آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکتااس لیے معاشرے میں ایک فردِ واحد کے حقوق کے بارے میں اسلام کی بعض تعلیمات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

انسانی حقوق کے بارے میں بیان کرتے ہوئے قرآنِ کریم کی سورۃ النساء آیت 37 میں آتا ہے کہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

اس آیت میں جہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے وہاں اپنے والدین سے محبت کے ساتھ سلوک کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ یہ آیت اپنے رشتہ داروں کے ساتھ محبت اور شفقت کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے کمزور لوگوں یعنی یتامیٰ کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ غریب کی بہترین مدد اسے زیورِ تعلیم سےآراستہ کرنے میں ہے۔ اسی سے وہ غربت سے نجات پا کر اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اور مایوسی اورنا امیدی کے دلدل میں پھنس کر شدّت پسندوں کے جال میں آنے کی بجائے معاشرے کا صحت مند حصہ بنتے ہیں۔ اسی لیے جماعت احمدیہ افریقہ کے غریب ممالک میں سکولوں کا قیام کرتی ہے اور وظائف وغیرہ کے ذریعہ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ امیر ممالک کو غریب ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔ اس سے ان کی معاشی حالت بہتر ہو گی، انفراسٹرکچر میں بہتری آئے گی اور لوگوں کو اپنے ملکوں میں معاشی بہتری اور ترقی کے مواقع میسّر آنے لگیں گے۔ نتیجۃً انہیں اپنے ملکوں سے ہجرت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ جو آیت میں نے ابھی آپ کے سامنے پڑھی ہے اس میں خاص طور پر ہمسایوں کے حقوق پر زور دیا گیا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ہمسائے کے حقوق پر اس قدر زور دیا کہ مجھے لگا کہ وہ اسے وراثت میں حصہ دار ہی نہ بنا دے۔

پھر ایک اَور حدیث ہے کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکریہ بھی نہیں ادا کر سکتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو خدا کی مخلوق کا حق ادا نہیں کرتا وہ خدا کا حق بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ مسلمان معاشرے کا صحت مند حصہ نہیں بن سکتے معاشرے کے لیے فائدہ مند نہیں۔ کیونکہ مسلمان یہاں آکر اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے تو یہ معاشرے کے لیے بہت اچھی بات ہو گی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر بعض لوگ یہ سمجھتےہیں کہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جہاد میں حصہ لیں اس لیے وہ مغربی ممالک میں جنگ کر کے اسلامی مملکت کے قیام کی کوشش کریں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس بات کے جواب کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام میں جہاد کیا ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام قطعاً ایک خونی مذہب نہیں۔ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے لوگوں کو جہاد کے لیے بلایا۔ ایک صحابی کو جو جہاد کے لیے جانا چاہتے تھے جنگ پر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ ان کے والدین کمزور تھے۔ آپؐ نے انہیں گھر رہنے اور اپنے والدین کا خیال کرنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ یہی ان کا جہاد ہے۔ اگر جہاد سے مراد جنگ ہی ہوتا تو نبی اکرمﷺ اس کو ضرور ساتھ لے جاتے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگرچہ یہ سچی بات ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے ابتدائی دور میں مذہبی جنگیں لڑنی پڑیں لیکن ان جنگوں کا مقصد قطعاً علاقوں کو فتح کرنا یا لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں تھا۔ بلکہ ان کا مقصد مذہب کی حفاظت اوراس کو اختیار کرنے کی آزادی کو قائم کرنا تھا۔ چنانچہ قرآنِ کریم نے جن آیات میں مسلمانوں کو مکہ کی فوج کے خلاف دفاعی جنگ کرنے کی اجازت دی ان میں واضح لکھا ہے کہ جنگ کی اجازت اس لیے دی جارہی ہے کیونکہ مذہب کو خطرہ ہے۔ اگر آج ان لوگوں کے حملے کا دفاع نہ کیا گیا تو کوئی معبد، کوئی کلیسا اور کوئی مسجد محفوظ نہیں رہے گی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت 152 میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس سے مراد ہے کہ اپنے بچوں کی محبت اور شفقت کے ساتھ تربیت کرو تا کہ وہ بڑے ہو کر علم و معرفت میں ترقی حاصل کریں اورمعاشرے کا صحت مند حصہ بن کر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح اسلام کمزوروں کے حقوق کی پاس داری کا بھی حکم دیتا ہے۔ یتامیٰ کی پرورش اور ان کے اموال کی حفاظت کے بارے میں واضح طور پر فرماتا ہے کہ اس وقت تک ان کے مال کی حفاظت کرو جب تک وہ بلوغت کو نہ پہنچ جائیں۔

حضورِ انو رنے فرمایا کہ پھر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جبکہ اسلام نے سب سے پہلے عورت کو وراثت کے حقوق اور طلاق کے حقوق سمیت بہت سے بنیادی حقوق دیے۔ اسلام نے بچیوں کی تعلیم اور ان کی تربیت و ترقی پر بہت زور دیا۔ ایک مشہورحدیث ہے کہ ‘جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے’۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ الفاظ معاشرے میں عورت کے اعلیٰ مقام اور اس کے کردار کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم کی سورۃ النساء کی آیت 20 میں مسلمان مردوں کو حکم دیتا ہے کہ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو’۔ ہم مغربی معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ آئے دن گھریلو ناچاقیوں کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں اور ان ممالک کے ادارے اس بات کو مانتے ہیں کہ ایسے جرائم کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق غصب کرنے والا مذہب ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام تو لوگوں کے مذہبی جذبات کا خاص خیال رکھتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے جب مدینہ میں ریاست کا قیام فرمایا تو تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ان کی مذہبی تعلیمات کی پیروی کی اجازت دی۔ چنانچہ یہود کھُل کر تورات پر عمل کرتے اور ان کے معاملات کے فیصلے ان کی کتاب کے مطابق کیے جاتے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ میں آتا ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ انصاف پر قائم رہنا چاہیے یہاں تک کہ دشمن سے بھی ناانصافی کا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ آج کے دور میں لوگ کہتے ہیں کہ ہم تاریخ کی سب سے زیادہ تہذیب یافتہ قوم ہیں لیکن اپنے مخالفین سے معاملہ کرنے میں بدلے کی آگ میں ان کے حقوق کی حفاظت کرنے کا خیال بھی ان کے ذہنوں میں نہیں آتا۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ جو مرضی ہو جائے انصاف پر بھی قائم رہو اور وقار پر بھی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی ان بے مثال تعلیمات کے ساتھ ہمیں نبی اکرمﷺ کا بہترین اسوہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ فتح مکہ کے وقت جبکہ مکّی دور میں مسلمانوں کو قتل کرنے والے، ان کو تکالیف پہنچانے والے، انہیں شہر بدر کرنے والے لوگ نبی اکرمﷺ کے زیرِ نگیں آ گئے اور آپؐ جب فاتح کی حیثیت سے مکہ پہنچے تو آپ نے کسی سے بدلہ نہ لیا۔ آپؐ نے عام اعلان کیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام لوگوں کو معاف کر دیا جاتا ہے اور کسی سے ناانصافی نہیں کی گئی چاہے وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں۔

ایک اور چیز جو اسلام کا طرّہ امتیاز ہے وہ غلامی کا خاتمہ ہے جو اس وقت معاشرے کا حصہ تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایک غلام آزادی چاہتا ہے تو اسے آزاد کردینا چاہیے۔ اگر اس کے ساتھ اس کے مالک کا کوئی لین دین ہے تو اسے آسان اقساط میں اتارنے کی سہولت دی جانی چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج ظاہری غلامی تو ختم ہو چکی ہے لیکن معاشی اور اقتصادی لحاظ سے ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ کمزور ممالک طاقت ور ممالک کے غلام بن رہے ہیں۔ امداد کے نام پر ان ممالک کو قرض لینے پڑتے ہیں اور پھر ان قرضوں پر سود چڑھتا چلا جاتا ہے۔ نتیجۃً قلیل میعادی قرضے ملکوں کے استیصال کا باعث بن جاتے ہیں اورغریب ممالک کو طاقت وَر کی شرائط پرعمل کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک غلط اورغیر اخلاقی طریق ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو مشرکوں کے بتوں کی برائی بھی نہیں کرنی چاہیے تا کہ جواب میں وہ اللہ کو برا بھلا نہ کہیں۔ ان کو مشرکین کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام انسانیت کے حقوق قائم کرنے کا علم بردار ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب و تمدّن کے لیے ہر گزخطرہ نہیں۔ اگرکوئی مسلمان ایسے خیالات رکھتا ہے جو شدّت پسندانہ ہیں تو وہ یا تو اسلام کی تعلیمات سے بے خبر ہے یا ان کے برعکس کام کر رہا ہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ آج دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور حالات کسی بھی لمحے سنگین صورت حال اختیار کر سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ دنیا پر ایسی تباہی آئے گی جس کے اثرات دور رَس ہوں گے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں تحفّظات پیدا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھیں اور اس حقیقت کو ذہن نشین کریں کہ ہم سب انسان ہیں اور تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ہمیں یہ نزدیکیاں باہمی اتحاد قائم کرنے کا ذریعہ بنانے والی ہونی چاہئیں، ہم سب ایک ہوں گے تو دنیا میں دیر پا امن کا قیام ممکن ہو گا۔

حضورِ انور نے فرمایا آج مسلم ممالک بھی اورغیرمسلم ممالک بھی خود غرضی کے ساتھ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دنیا میں پھر بلاکس تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے کاموں کا نقصان ہی ہوا تھا اور دنیا بڑی تباہی کا شکار ہو گئی تھی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج بہت سارے ممالک کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔ اگر یہ استعمال ہو گئے تو ان کے بُرے نتائج ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی بھگتیں گی اور ہمارے گناہوں کا خمیازہ انہیں بھی بھگتنا پڑے گا۔ ہمارے بچوں کے بچے اور ان کے بچے جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار ہوں گے۔ کیا ہم اپنی اولادوں کے لیے یہ چاہتے ہیں؟ اس لیے نفرت کو ہوا دینے سے گریز کرنا چاہیے چاہے وہ مذہبی بنیادوں پر ہو یا قومی یا سیاسی۔ ہمیں دنیا میں حقیقی اور مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ دیر ہو جائے۔
ہمیں دنیا میں دیر پا اور مضبوط امن کے قیام کے لیےمل کر کوشش کرنی چاہیے۔ ان الفاظ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر میں آپ سب کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

حضورِ انور کا انتہائی بصیرت افروز خطاب 8 بج کر 17 منٹ پراختتام پذیر ہوا۔ جس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی۔ تقریب میں شامل تمام احباب نے اپنے اپنے طریق کے مطابق اس دعا میں شمولیت اختیار کی۔

بعد ازاں مہمانوں کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔

اس تقریب کے بعد مشن ہاؤس واپسی سے قبل جب حضور انور کار میں تشریف فرما ہونے لگے تو امیر صاحب جرمنی نے درخواست کی کہ اس تاریخی موقعے پر تاریخی مقام Brandenburg Gateپر اپنے خدام کے ساتھ تصویر کی اجازت مرحمت فرمائیں ۔ اس پر حضور چند قدم Brandenburg Gate کی طرف بڑھے اور اس کے قریب جا کر وہا ں موجود اپنے تمام خدام کے ساتھ گروپ فوٹو بنوائی ۔

ساڑھے نو بجے کے قریب حضورِ انور مشن ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے۔

(رپورٹ: عرفان احمد خان، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button